خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍نومبر2020ء
یا رسول اللہ! باوجود اس کے کہ میں ان سب میں کم عمر ہوں میں آپ کا مددگار ہوں گا۔(حضرت علیؓ)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
ایک روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے حضرت خدیجہؓ کے قبولِ اسلام کے اگلے روز آنحضرتﷺ اور حضرت خدیجہؓ کونمازپڑھتے دیکھا۔ حضرت علیؓ نے وہ رات گزاری اور اگلی صبح اسلام قبول کرلیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر13 برس تھی
چار مرحومین مکرم ڈاکٹر طاہر محمود صاحب شہید مڑھ بلوچاں ننکانہ صاحب پاکستان، مکرم جمال الدین محمودصاحب آف سیرالیون،محترمہ امة السلام صاحبہ اہلیہ چودھری صلاح الدین صاحب مرحوم سابق ناظم جائیداد اور مشیرِ قانونی ربوہ اور مکرمہ منصورہ بشریٰ صاحبہ والدہ ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍نومبر2020ء بمطابق 27؍نبوت1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آج خلفائے راشدین کے بارے میں حضرت علی بن ابو طالبؓ کے ذکر سے شروع کروں گا۔ حضرت علی بن ابو طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم۔ ان کے والد کا نام عبد مناف تھا جن کی کنیت ابوطالب تھی۔ آپؓ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھا۔ آپؓ بعثت نبویؐ سے دس سال قبل پیدا ہوئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےحلیہ کے بارے میں بیان ہوتا ہے کہ آپؓ کا قد درمیانہ تھا۔ آنکھیں سیاہ تھیں۔ آپؓ کا جسم فربہ تھا۔ کندھے چوڑے تھے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد 04صفحہ464ذکر علی بن ابی طالب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1995ء)
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ87، 88 ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 03 صفحہ 218 ذکر علی بن ابی طالب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
حضرت علیؓ کی والدہ نے آپؓ کا نام اپنے والد کے نام پر اسد رکھا تھا اور آپؓ کی پیدائش کے وقت ابوطالب گھر پر موجود نہ تھے۔ جب ابوطالب واپس آئے تو انہوں نے آپؓ کا نام اسد کے بجائے علی رکھ دیا۔ حضرت علیؓ کے تین بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ ان کے بھائی طالب، عقیل، جعفر اور بہنیں اُمّ ِہانی اور جُمَانَہ۔ ان میں طالب اور جُمَانہ کے علاوہ باقی سب نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
(تاریخ الخمیس جلد 1صفحہ295تا297 و جلد 2صفحہ421 دار الکتب العلمیۃ بیروت2009ء)
حضرت علیؓ کی کنیت ابوالحسن، ابوسَبْطَین اور ابوتُراب تھی۔
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ88 ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان2003ء)
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب نوم الرجال فی المسجد حدیث 441)
صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت سہل بن سعدؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر آئے تو حضرت علیؓ کو گھر میں نہ پایا۔ آپؐ نے پوچھا: تمہارے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ حضرت فاطمہؓ نے کہا: میرے اور ان کے درمیان کوئی بات ہو گئی تھی تو وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلے گئے اور قیلولہ بھی میرے پاس نہیں کیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی آدمی سے کہا دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور اس نےکہا کہ یا رسول اللہؐ ! وہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، مسجد میں چلے گئے اور حضرت علیؓ وہاں لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے پہلو سے ان کی چادر ہٹی ہوئی تھی اور کچھ مٹی پہلو پر، کمرپر لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی پونچھی اور فرمایا: اٹھو اے ابوتراب! اٹھو اے ابوتراب!
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰۃ باب نوم الرجال فی المسجد حدیث 441)
اس وقت سے وہ ابوتراب کی کنیت سے پکارے جانے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں کس طرح آئے؟ اس بارے میں بیان ہوتا ہے مجاہد بن جَبْر ابوالحَجَّاج بیان کرتے ہیں کہ قریش کو ایک بڑی مصیبت پیش آنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت علیؓ پر انعام اور خیرو برکت کا باعث بنا۔ حضرت ابوطالب کثیرالعیال تھے۔ وہاں قحط پڑا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباسؓ سے جو بنو ہاشم میں زیادہ خوشحال تھے فرمایا کہ اے عباس !آپ کا بھائی ابوطالب کثیر العیال ہے۔ اس قحط سے لوگوں کی جو حالت ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ میرے ساتھ چلیں تا کہ ہم ان کی عیال داری میں کچھ کمی کر دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کے بیٹوں میں سے ایک مَیں لے لیتا ہوں اور حضرت عباسؓ کو کہا کہ ایک آپ لے لیں۔ آپؐ نے فرمایا ہم ان دونوں کے لیے حضرت ابوطالب کی طرف سے کافی ہو جائیں گے۔ حضرت عباس نے کہا ٹھیک ہے۔ دونوں حضرت ابوطالب کے پاس آئے اور کہا ہم چاہتے ہیں کہ آپ کی عیال داری میں کچھ تخفیف کر دیں یہاں تک کہ لوگوں کی وہ حالت جاتی رہے جس میں وہ اس وقت مبتلا ہیں۔ حضرت ابوطالب نے کہا کہ عقیل کو میرے پاس رہنے دو اس کے علاوہ جو مرضی کرو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ کاہاتھ پکڑ کر انہیں اپنے ساتھ ملا لیا اور حضرت عباسؓ نے جعفر کو لیا اور اسے اپنے ساتھ ملا لیا۔ حضرت علیؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور نبی مبعوث فرما دیا۔ پھر حضرت علیؓ نے آپؐ کی پیروی اختیار کی اور آپؐ پر ایمان لے آئے اور آپؐ کی تصدیق کی اور حضرت جعفرؓ حضرت عباسؓ کے پاس رہے یہاں تک کہ انہوں نے یعنی حضرت جعفرؓ نے بھی اسلام قبول کر لیا اور وہ یعنی حضرت عباسؓ پھر حضرت جعفرؓ سے بے نیاز ہو گئے۔
(تاریخ الطبری جلد 2 صفحہ 225۔ ذکر الخبر عما کان من امر نبی اللّٰہﷺ …مطبوعہ دار الفکر لبنان2002ء)
یہ پہلی تو تاریخ طبری کی روایت تھی۔ اسی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’ابو طالب ایک بہت باعزت آدمی تھے مگر غریب تھے اور بڑی تنگی سے ان کا گزارہ چلتا تھا۔ خصوصاً ان ایام میں جب کہ مکہ میں ایک قحط کی صورت تھی ۔ان کے دن بہت ہی تکلیف میں کٹتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے چچا کی اس تکلیف کودیکھا تو اپنے دوسرے چچا عباس سے ایک دن فرمانے لگے کہ چچا! آپ کے بھائی ابو طالب کی معیشت تنگ ہے۔ کیا اچھا ہو کہ ان کے بیٹوں میں سے ایک کو آپ اپنے گھر لے جائیں اور ایک کو میں لے آؤں۔ عباس نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور پھر دونوں مل کر ابوطالب کے پاس گئے اور ان کے سامنے یہ درخواست پیش کی۔ ان کو اپنی اولاد میں عقیل سے بہت محبت تھی۔‘‘ ابوطالب کو عقیل سے بہت محبت تھی۔ ’’کہنے لگے عقیل کو میرے پاس رہنے دو اور باقیوں کو اگر تمہاری خواہش ہے تو لے جاؤ۔ چنانچہ جعفر کو عباس اپنے گھر لے آئے اور علیؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پاس لے آئے۔ حضرت علیؓ کی عمر اس وقت قریباً چھ سات سال کی تھی۔ اس کے بعد علیؓ ہمیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب صفحہ 111)
حضرت علیؓ کے قبول اسلام کے بارے میں ابن اسحاق سے یہ روایت ہے کہ حضرت علی بن ابوطالب حضرت خدیجہؓ کے اسلام لانے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے ایک دن بعد آئے۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو حضرت علیؓ نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کیا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ کا دین ہے جو اس نے اپنے لیے چن لیا ہے اور رسولوں کو اس کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پس میں تمہیں اللہ اور اس کی عبادت کی طرف اور لات اور عزیٰ کے انکار کی طرف بلاتا ہوں۔ اس پر حضرت علیؓ نے آپؐ سے کہا یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں آج سے پہلے مَیں نے کبھی نہیں سنا۔ میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کر سکتا جب تک ابوطالب سے اس کا ذکر نہ کر لوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا کہ آپؐ کے اعلان نبوت سے پہلے یہ راز کھل جائے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا کہ اے علی! اگر تم اسلام نہیں قبول کرتے تو اس بات کو پوشیدہ رکھو۔ پس حضرت علیؓ نے وہ رات گزاری پھر اللہ نے حضرت علیؓ کے دل میں اسلام کو داخل کر دیا اور اگلی صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اے محمدؐ ! رات کو آپ نے میرے سامنے کیا چیز پیش فرمائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور لات اور عزیٰ کا انکار کرو اور اللہ تعالیٰ کے شریکوں سے براءت کا اظہار کرو۔ حضرت علیؓ نے ایسا ہی کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ حضرت علیؓ ابوطالب کے خوف سے پوشیدہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتے تھے اور انہوں نے اپنا اسلام مخفی رکھا۔
(اسد الغابۃ جلد4 صفحہ88-89 علی بن ابی طالب۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حالانکہ رہتے بھی وہیں تھے کیونکہ روایتوں میں تو یہی ہے۔ بہرحال اسد الغابہ کی یہ روایت ہے۔
حضرت خدیجہؓ کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علیؓ تھے۔ اس وقت حضرت علیؓ کی عمر تیرہ برس تھی۔ بعض دوسری روایات میں پندرہ، سولہ اور اٹھارہ سال عمر کا بھی ذکر ملتا ہے۔
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 03 صفحہ 200 ذکر علی بن ابی طالب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002)
سیرت نگاروں نے یہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ مردوں میں سے پہلے کون ایمان لایا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ یا حضرت علیؓ یا حضرت زیدؓ۔ بعض اس کا یہ حل نکالتے ہیں کہ بچوں میں سے حضرت علیؓ اور بڑوں میں سے حضرت ابوبکرؓ اور غلاموں میں سے حضرت زیدؓ۔ اس بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے بھی اپنا ایک نقطہ نظر پیش کیا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ ’’حضرت خدیجہؓ کے بعد مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے کے متعلق مورخین میں اختلاف ہے۔ بعض حضرت ابو بکر عبداللہ بن ابی قحافہ کا نام لیتے ہیں۔ بعض حضرت علی ؓ کاجن کی عمر اس وقت صرف دس سال کی تھی اور بعض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت زیدبن حارثہ کا۔ مگر ہمارے نزدیک یہ جھگڑا فضول ہے۔ حضرت علیؓ اور زیدبن حارثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے آدمی تھے اور آپؐ کے بچوں کی طرح آپؐ کے ساتھ رہتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا اور ان کا ایمان لانا، بلکہ ان کی طرف سے تو شاید کسی قولی اقرار کی بھی ضرورت نہ تھی۔ پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا اور ان کا ایمان لانا ،سے کوئی نہیں فرق پڑتا ایک ہی بات ہے۔ اس کے لیے کسی قولی اقرار کی ضرورت نہیں ’’پس ان کا نام بیچ میں لانے کی ضرورت نہیں اور جو باقی رہے ان سب میں سے حضرت ابو بکرؓ مسلّمہ طور پر مقدم ہیں اور سابق بالایمان تھے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 121)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے مانگنے پر ایک مددگار ملا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھو کہ آپ کو بن مانگے مددگار مل گیا۔‘‘ یہاں حضرت مصلح موعودؓ حضرت خدیجہؓ کا ذکر فرمانا چاہ رہے ہیں اور آپؓ کا بتا رہے ہیں کہ حضرت خدیجہ آپ کی مدد گار تھیں۔ کہتے ہیں دیکھو! محمد رسول اللہ کی شان دیکھو !!کہ آپ کو بن مانگے مددگار مل گیا ’’یعنی آپ کی وہ بیوی جس کے ساتھ آپ کو بےحد محبت تھی سب سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی۔ کیونکہ ہر شخص کا مذہب اور عقیدہ آزاد ہوتا ہے اور کوئی کسی کو جبراً منوا نہیں سکتا، اس لیے ممکن تھا کہ جب آپ نے حضرت خدیجہؓ سے خدا تعالیٰ کی پہلی وحی کا ذکر کیا تو وہ آپ کا ساتھ نہ دیتیں اور کہہ دیتیں کہ میں ابھی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھاؤں گی لیکن نہیں۔ حضرت خدیجہؓ نے بلا تامل، بلا توقف اور بلا پس و پیش آپ کے دعویٰ کی تائید کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فکر کہ ممکن ہے خدیجہؓ مجھ پر ایمان نہ لائے جاتا رہا اور سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہؓ ہی ہوئیں۔ اس وقت خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا کہہ رہا تھا۔ أَلَيْسَ اللّٰهُ بِكَافٍ عَبْدَهٗ۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تجھے خدیجہؓ کے ساتھ پیار تھا اور محبت تھی اور تیرے دل میں یہ خیال تھا کہ کہیں خدیجہؓ تجھے چھوڑ نہ دے اور تُو اس فکر میں تھا کہ خدیجہؓ مجھ پر ایمان لاتی ہے یا نہیں۔ مگر کیا ہم نے تیری ضرورت کو پورا کیا یا نہ کیا؟‘‘ اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’اس کے بعد جب آپ کے گھر میں خدا تعالیٰ کی وحی کے متعلق باتیں ہوئیں تو زید بن حارث غلام جو آپ کے گھر میں رہتا تھا آگے بڑھا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت علیؓ جن کی عمر اس وقت گیارہ سال کی تھی اور وہ ابھی بالکل بچہ ہی تھے اور وہ دروازہ کے ساتھ کھڑے ہو کر اس گفتگو کو سن رہے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کے درمیان ہو رہی تھی۔ جب انہوں نے یہ سنا کہ خدا کا پیغام آیا ہے تو وہ علیؓ جو ایک ہونہار اور ہوشیار بچہ تھا۔ وہ علیؓ جس کے اندر نیکی تھی۔ وہ علیؓ جس کے نیکی کے جذبات جوش مارتے رہتے تھے مگر نشوونما نہ پا سکے تھے۔ وہ علیؓ جس کے احساسات بہت بلند تھے مگر ابھی تک سینے کے اندر دبے ہوئے تھے اور وہ علیؓ جس کے اندر اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا مادہ ودیعت کیا تھا مگر ابھی تک اسے کوئی موقع نہ مل سکا تھا اس نے جب دیکھا کہ اب میرے جذبات کے ابھرنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس نے جب دیکھا کہ اب میرے احساسات کے نشوونما کا موقع آ گیاہے۔ اس نے جب دیکھا کہ اب خدا مجھے اپنی طرف بلا رہا ہے تو وہ بچہ سا علیؓ اپنے درد سے معمور سینے کے ساتھ لجاتا اور شرماتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! جس بات پر میری چچی ایمان لائی ہے اور جس بات پر زید ایمان لایا ہے اس پر میں بھی ایمان لاتا ہوں۔‘‘
(رسول کریمﷺ کی زندگی کے تمام اہم واقعات …، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 127-128)
تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ جب نماز کا وقت ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گھاٹیوں کی طرف چلے جاتے اور حضرت علیؓ بھی آپ کے چچا ابوطالب اور دیگر چچاؤں اور تمام قوم سے چھپ کر آپ کے ساتھ ہو لیتے اور دونوں وہاں نماز ادا کرتے۔ شام کو واپس تشریف لے آتے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا۔ پھر ایک دن ابوطالب نے ان دونوں کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے میرے بھتیجے! یہ کون سا دین ہے جس کی پیروی کرتے ہوئے میں آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا یہ اللہ کا دین ہے اور اس کے فرشتوں کا دین ہے اور اس کے رسولوں کا دین ہے اور ہمارے باپ حضرت ابراہیم کا دین ہے۔ یا اس سے ملتا جلتا کچھ فرمایا۔ نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ مجھے لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے اور اے چچا! تُو اس بات کا سب سے زیادہ حق دار ہے کہ مَیں تجھے اس کی نصیحت کروں اور تجھے اس ہدایت کی طرف بلاؤں اور تُو اس بات کا زیادہ سزاوار ہے کہ مجھے قبول کرے اور میری مدد کرے یا اس طرح کی بات فرمائی۔ اس پر ابوطالب نے کہا اے میرے بھتیجے! میں اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے دین اور جس پر وہ تھے اس کو چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن اللہ کی قسم! مَیں جب تک زندہ ہوں تمہیں کوئی ایسی چیز نہیں پہنچے گی جسے تُو ناپسند کرتا ہو۔
(تاریخ الطبری جزء2صفحہ225باب ذکر الخبر عما کان من امر نبی اللّٰہﷺ عند ابتداء……دارالفکر2002ء)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس واقعےکو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ مکہ کی کسی گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک اس طرف سے ابوطالب کا گذر ہوا۔ ابوطالب کو ابھی تک اسلام کی کوئی خبر نہ تھی۔ اس لیے وہ کھڑا ہو کر نہایت حیرت سے یہ نظارہ دیکھتا رہا۔ جب آپؐ نماز ختم کر چکے تو اس نے پوچھا بھتیجے! یہ کیا دین ہے جو تم نے اختیار کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چچا! یہ دینِ الٰہی اور دینِ ابراہیم ہے اور آپؐ نے ابوطالب کو مختصر طور پر اسلام کی دعوت دی لیکن ابو طالب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ میں اپنے باپ دادا کا مذہب نہیں چھوڑ سکتا مگر ساتھ ہی اپنے بیٹے حضرت علیؓ کی طرف مخاطب ہو کر بولا۔ ہاں بیٹا تم بے شک محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ساتھ دو کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ تم کو سوائے نیکی کے اور کسی طرف نہیں بلائے گا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 127)
اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے اقرباءکو ڈرانے کا ذکر ایک جگہ یوں ملتا ہے۔ حضرت بَراء بن عازِبؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی کہ
وَأَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِيْنَ۔ (الشعراء:215)
اور تُو اپنے اہل خاندان یعنی اقربا کو ڈرا۔ آپؐ نے فرمایا اے علی! ہمارے لیے ایک صاع کھانے کے ساتھ بکری کی ران تیار کرو اور ایک روایت میں صاع کے بجائے مُدّ کا لفظ ملتا ہے۔ ایک صاع چار مُدّ کا تھا یعنی کچھ کم اڑھائی سیر وزن میں یا اڑھائی کلو کہہ سکتے ہیں اور یہاں یہ بھی لکھا ہے کہ اہل کوفہ اور عراق کا صاع آٹھ مُدّ کا ہوتا تھا یعنی چار سیر کا یا ساڑھے چار سیر کا لیکن بہرحال بہت تھوڑی مقدار۔ جتنا بھی ہو اڑھائی سیر ہو یا چار سیرہو خاندان کے افراد کو بلانا تھا، دعوت کرنی تھی اس کے لیے کھانا تیار کرنا تھا۔ اور ہمارے لیے ایک بڑا پیالہ دودھ کا تیار کرو۔ پھر بنو عبدالمطلب کو جمع کرو۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں مَیں نے ایسا ہی کیا ۔وہ سب جمع ہوئے۔ کوئی چالیس افراد تھے۔ایک زیادہ یا ایک کم تھا۔ ان میں آپؐ کے چچا ابوطالب اور حمزہ اور عباس اور ابولہب بھی تھے۔ میں نے ان کے سامنے کھانے کا وہ بڑا برتن پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا اپنے دانتوں سے اسے کاٹا۔ پھر اس پیالے کے اطراف میں اسے برکت دینے کی خاطر بکھیر دیا اور فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ کھاؤ۔ لوگوں نے کھایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گئے۔ اللہ کی قسم! مَیں نے ان سب کے لیے جو پیش کیا تھا وہ صرف ایک آدمی کھا سکتا تھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا لوگوں کو پلاؤ ۔چنانچہ میں دودھ کا وہ پیالہ لایا ۔انہوں نے پیا یہاں تک کہ سب کے سب سیر ہو گئے۔ اللہ کی قسم ! ان میں سے صرف ایک شخص سارا پی سکتا تھا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ حاضرین سے بات کریں تو ابولہب نے جلدی سے بولنا شروع کر دیا اور کہا دیکھو! تمہارے ساتھی نے تم پر کیسا جادو کیا ہے! پھر وہ لوگ منتشر ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بات نہ کر سکے۔ اگلے روز آپؐ نے فرمایا۔ اے علی! جو کھانا اور مشروب تم نے کل تیار کیا تھا ویسا ہی تیارکرو۔ مَیں نے ایسا ہی کیا۔ پھر میں نے ان لوگوں کو جمع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا جیسا کہ کل کیا تھا یعنی کھانے کو برکت بخشی تھی۔ پھر ان لوگوں نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ خوب سیر ہو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنو عبدالمطلب! مَیں عرب کے کسی نوجوان کو نہیں جانتا جو اپنی قوم کے لیے اس سے بہتر بات لے کر آیا ہو جو میں تمہارے لیے لایا ہوں۔ میں تمہارے لیے دنیا اور آخرت کا معاملہ لے کر آیا ہوں۔ پھر فرمایا اس پر کون میری مدد کرے گا؟ حضرت علیؓ کہتے ہیں اس پر سب لوگ خاموش رہے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! باوجود اس کے کہ میں ان سب میں کم عمر ہوں میں آپ کا مددگار ہوں گا۔
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد 2 صفحہ 324فی امر اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ۔ ۔ ۔ ۔ دارالکتب العلمیة بیروت 1993ء)
(لغات الحدیث جلد 2صفحہ 648 زیر لفظ ’صاع‘)
سیرت خاتم النبیینؐ میں اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس طرح لکھا ہے کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ ایک دعوت کا انتظام کرو اور اس میں بنو عبدالمطلب کو بلاؤ تاکہ اس ذریعہ سے ان تک پیغامِ حق پہنچایا جاوے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے دعوت کا انتظام کیا اور آپؐ نے اپنے سب قریبی رشتہ داروں کو جو اس وقت کم و بیش چالیس نفوس تھے اس دعوت میں بلایا۔ جب وہ کھانا کھا چکے تو آپؐ نے کچھ تقریر شروع کرنی چاہی مگر بد بخت ابولہب نے کچھ ایسی بات کہہ دی جس سے سب لوگ منتشر ہو گئے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ یہ موقع تو جاتا رہا۔ اب پھر دعوت کا انتظام کرو۔ چنانچہ آپؐ کے رشتہ دار پھر جمع ہوئے اور آپؐ نے انہیں یوں مخاطب کیا کہ اے بنو عبدالمطلب! دیکھو میں تمہاری طرف وہ بات لے کر آیا ہوں کہ اس سے بڑھ کر اچھی بات کوئی شخص اپنے قبیلہ کی طرف نہیں لایا۔ میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تم میری بات مانو تو تم دین و دنیا کی بہترین نعمتوں کے وارث بنو گے۔ اب بتاؤ اس کام میں میرا کون مدد گار ہو گا؟ سب خاموش تھے اور ہر طرف مجلس میں ایک سناٹا تھا کہ یکلخت ایک طرف سے ایک تیرہ سال کا دبلا پتلا بچہ ،جس کی آنکھوں سے پانی بہ رہا تھا اٹھا اور یوں گویا ہوا۔ گو میں سب میں کمزور ہوں اور سب میں چھوٹا ہوں مگر میں آپؐ کا ساتھ دوں گا۔ یہ حضرت علیؓ کی آواز تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے یہ الفاظ سنے تو اپنے رشتہ داروں کی طرف دیکھ کر فرمایا اگر تم جانو تو اس بچے کی بات سنو اور اسے مانو۔ حاضرین نے یہ نظارہ دیکھا تو بجائے عبرت حاصل کرنے کے سب کھل کھلا کر ہنس پڑے اور ابو لہب اپنے بڑے بھائی ابو طالب سے کہنے لگا۔ لو اب محمد تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی پیروی اختیار کرو۔ اور پھر یہ لوگ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزوری پر ہنسی اڑاتے ہوئے رخصت ہو گئے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینﷺ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 128-129)
حضرت مصلح موعودؓ اس واقعے کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی ؓ کاواقعہ ہے وہ بھی گیارہ سال کے تھے۔‘‘ بچوں کو بھی اس کوغور سے سننا چاہیے ’’جب وہ دین کی تائید کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی ہوئی تو آپ نے ایک دعوت کی جس میں مکہ کے تمام بڑے بڑے امراء کو بلایا اور انہیں کھانا کھلایا۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں کچھ اپنے دعویٰ کی باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر سارے اٹھ کر بھاگ گئے۔ یہ دیکھ کر حضرت علیؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے اے بھائی! آپ نے یہ کیا کیا؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ بڑے دنیادار لوگ ہیں ان کو پہلے سنانا تھا اور پھر کھانا کھلانا تھا۔ یہ بے ایمان تو کھانا کھا کر بھاگ گئے کیونکہ یہ کھانے کے بھوکے ہیں۔ اگر آپ پہلے باتیں سناتے تو چاہے دو گھنٹہ سناتے وہ ضرور بیٹھے رہتے۔ پھر ان کو کھانا کھلاتے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس طرح کیا۔ پھر دوبارہ ان کو بلایا اور ان کی دعوت کی لیکن پہلے کچھ باتیں سنا لیں اور پھر کھانا کھلایا۔ اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور آپؐ نے فرمایا اے لوگو! میں نے تمہیں خدا کی باتیں سنائی ہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ہے جو میری مدد کرے اور اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے؟ مکہ کے سارے بڑے بڑے آدمی بیٹھے رہے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے! میں ہوں۔ آپ کی مدد کروں گا۔ آپ نے سمجھا کہ یہ تو بچہ ہے۔ چنانچہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! کیا تم میں سے کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ پھر سارے بڈھے بڈھے بیٹھے رہے اور وہ گیارہ سال کا بچہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا کے بیٹے! میں جو ہوں میں تیری مدد کروں گا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ خدا کے نزدیک جوان یہی گیارہ سالہ بچہ ہے باقی بڈھے سب بچے ہیں۔‘‘ ان میں کوئی طاقت نہیں ہے یہی بچہ ہے جو عقل مند ہے ’’چنانچہ آپ نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا اور پھر وہی علیؓ آخر تک آپؐ کے ساتھ رہے اور پھر آپؐ کے بعد خلیفہ بھی ہوئے اور انہوں نے دین کی بنیاد ڈالی۔ اسی طرح آپ کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا اور بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پیدا ہوئے۔‘‘
(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 187-188)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جگہ حضرت علی ؓ کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’حضرت علیؓ جب ایمان لائے تو ابھی بچے ہی تھے اور وہ بھی یہ سمجھ کر ایمان لائے تھے کہ مجھے اسلام کے لیے ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے پڑیں گے۔‘‘ بچے تھے لیکن یہ سمجھ کر ایمان لائے تھے کہ قربانی مجھے دینی پڑے گی ’’یہاں تک کہ اگر جان قربان کرنے کا وقت آیا تو مجھے اپنی جان بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرنی پڑے گی۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت کے ابتدائی ایام میں ایک دعوت کی جس میں بنو عبدالمطلب کو بلایا تا کہ ان تک پیغام حق پہنچایا جائے۔ چنانچہ آپؐ کے بہت سے رشتہ دار اس دعوت میں شریک ہوئے۔ جب سب لوگ کھانا کھا چکے تو آپؐ نے کھڑے ہو کر تقریر کرنا چاہی مگر ابولہب نے ان سب لوگوں کو منتشر کر دیا اور وہ آپؐ کی بات سنے بغیر اپنے گھروں کو چلے گئے۔ آپؐ بہت حیران ہوئے کہ یہ اچھے لوگ ہیں جو دعوت کھا کر بھی بات نہیں سنتے مگر آپؐ مایوس نہیں ہوئے بلکہ آپؐ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ دوبارہ ان کی دعوت کی جائے۔ چنانچہ دوبارہ ان سب کو کھانے پر مدعو کیا گیا۔ جب وہ سیر ہو کر کھا چکے تو آپؐ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ تم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنا نبی تمہارے اندر بھیجا ہے۔ میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں۔ اگر تم میری بات مانو گے تو تم دینی اور دنیوی نعماء کے وارث قرار پاؤگے۔ کیا تم میں سے کوئی ہے جو اس کام میں میرا مددگار بنے؟ یہ سن کر ساری مجلس پر سناٹے کی سی حالت طاری ہو گئی۔ مگر یکلخت ایک کونے سے ایک نوعمر بچہ اٹھا اور اس نے کہا کہ گو مَیں ایک کمزور ترین فرد ہوں اور عمر میں سب سے چھوٹا ہوں مگر مَیں آپ کا ساتھ دوں گا۔ یہ بچے حضرت علیؓ تھے جنہوں نے اس وقت اسلام کی تائید کا اعلان کیا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 24-25)
حضرت علیؓ کی قربانی کا واقعہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت حضرت علیؓ نے دی۔ اس کا بھی ذکر اس طرح ملتا ہے کہ اہل مکہ نے باہم مشورہ کر کے جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر حملہ آور ہو کر آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تو وحی الٰہی سے آپ کو دشمنوں کے اس ارادے کی اطلاع ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت مدینہ کی اجازت مرحمت فرمائی تو آپؐ نے ہجرت کی تیاری کی اور حضرت علیؓ کو ارشاد فرمایا کہ وہ آج کی رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹیں۔ حضرت علیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہی سرخ حَضْرَمِی چادر اوڑھ کر رات گزاری جس میں آپؐ سویا کرتے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 01 صفحہ 176ذکر خروج رسول اللّٰہﷺ …دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
مشرکین کا وہ گروہ جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھات لگائے ہوئے بیٹھا تھا وہ صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہوا اور حضرت علیؓ بستر سے اٹھے۔ جب وہ حضرت علیؓ کے قریب ہوئے تو ان لوگوں نے آپ کو پہچان لیا اور پوچھا تمہارا ساتھی کہاں ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نگران تھا؟ تم نے انہیں مکے سے نکل جانے کا کہا اور وہ چلے گئے۔ مشرکوں نے آپ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور زدوکوب کیا۔ پکڑ کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور کچھ دیر محبوس رکھا۔ پھر آپ کو چھوڑ دیا۔
(تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 256 ذکر الخبر عما کان من امر نبی اللّٰہﷺ …دار الفکر بیروت 2002ء)
پھر ایک اَور سیرت کی کتاب میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق حضرت علیؓ تین دن کے بعد اہل مکہ کی امانتیں لوٹا کر ہجرت کر کے نبی کریمؐ کے پاس پہنچے اور آپ کے ساتھ قبا میں کُلْثُوم بن ہِدْم کے ہاں قیام پذیر تھے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 348، باب ھجرۃ الرسولﷺ، دار الکتب العلمیۃ 2001ء)
سیرت خاتم النبیینؐ میں اس واقعہ کا جو ہجرت کے دوران ہوا اس کا ذکر یوں آیا ہے کہ ’’رات کا تاریک وقت تھا اور ظالم قریش جو مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اپنے خونی ارادے کے ساتھ آپؐ کے مکان کے ارد گرد جمع ہو کر آپؐ کے مکان کا محاصرہ کر چکے تھے اور انتظار تھا کہ صبح ہو یا آپؐ اپنے گھر سے نکلیں تو آپؐ پر ایک دم حملہ کر کے قتل کر دیا جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض کفار کی امانتیں پڑی تھیں کیونکہ باوجود شدید مخالفت کے اکثر لوگ اپنی امانتیں آپؐ کے صِدق و امانت کی وجہ سے آپؐ کے پاس رکھوا دیا کرتے تھے۔ لہٰذا آپؐ نے حضرت علیؓ کو ان امانتوں کا حساب کتاب سمجھا دیا اور تاکید کی کہ بغیر امانتیں واپس کیے مکہ سے نہ نکلنا۔ اس کے بعد آپؐ نے ان سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ اور تسلی دی کہ انہیں خدا کے فضل سے کوئی گزند نہیں پہنچے گا۔ وہ لیٹ گئے اور آپؐ نے اپنی چادر جو سرخ رنگ کی تھی ان کے اوپر اوڑھا دی۔ اس کے بعد آپؐ اللہ کا نام لے کر اپنے گھر سے نکلے۔ اس وقت محاصرین آپؐ کے دروازے کے سامنے موجود تھے مگر چونکہ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر اول شب میں ہی گھر سے نِکل آئیں گے وہ اس وقت اس قدر غفلت میں تھے کہ آپؐ ان کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مخالفین کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ’’ان کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر تک نہ ہوئی۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی کے ساتھ مگر جلد جلد مکہ کی گلیوں میں سے گزررہے تھے اور تھوڑی ہی دیرمیں آبادی سے باہر نکل گئے اور غارِ ثور کی راہ لی۔ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ پہلے ہی تمام بات طے ہو چکی تھی۔ وہ بھی راستہ میں مل گئے۔ غارِ ثور جو اسی واقعہ کی وجہ سے اسلام میں ایک مقدس یادگار سمجھی جاتی ہے مکہ سے جانب جنوب یعنی مدینہ سے مختلف جانب تین میل کے فاصلہ پر ایک بنجر اور ویران پہاڑی کے اوپر خاصی بلندی پر واقع ہے اور اس کا راستہ بھی بہت دشوار گذار ہے۔‘‘ مدینےکی طرف نہیں ہے بلکہ مخالف سمت میں ہے۔ ’’وہاں پہنچ کر پہلے حضرت ابوبکرؓ نے اندر گھس کر جگہ صاف کی اور پھر آپؐ بھی اندر تشریف لے گئے۔ دوسری طرف وہ قریش جو آپؐ کے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھے وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد آپؐ کے گھر کے اندر جھانک کر دیکھتے تھے تو حضرت علیؓ کو آپؐ کی جگہ پر لیٹا دیکھ کر مطمئن ہو جاتے تھے لیکن صبح ہوئی تو انہیں علم ہوا کہ ان کا شکار ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس پر وہ اِدھر اُدھر بھاگے، مکہ کی گلیوں میں صحابہ کے مکانات پر تلاش کیا مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ اس غصہ میں انہوں نے حضرت علیؓ کو پکڑا اور کچھ مارا پیٹا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 236-237)
حضرت علیؓ کی اس قربانی کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے یوں فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے نکلتے وقت حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا تھا۔ (چارپائی کا رواج ان دنوں نہیں تھا بلکہ اب تک بھی مکہ میں چارپائی کا عام رواج نہیں۔ بعض روایات میں غلطی سے یوں بیان ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے آپ کو اپنی چارپائی پر لٹا دیا۔)‘‘ بستر بنایا جاتا تھا باقاعدہ چارپائی نہیں ہوتی تھی ’’جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ان لوگوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے آپ کو دیکھا بھی مگر انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ کوئی اَور شخص ہے جو شاید آپ سے ملنے کے لیے آیا ہو گا اور اب واپس جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نہایت دلیری کے ساتھ باہر نکلے تھے اور آپ کی طبیعت پر ذرا بھی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ اتنی دلیری سے آپ اس وقت باہر نکلنے کی جرأت کہاں کر سکتے ہیں۔ یہ ضرور کوئی اور آدمی ہے جو آپ سے ملنے کے لیے آیا ہو گا۔ اس کے بعد انہوں نے دروازہ کی دراڑ‘‘ دروازے کی درز ’’میں سے اندر جھانکا یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ کہیں آپ باہر تو نہیں نکل گئے تو انہوں نے ایک آدمی کو سویا ہوا دیکھا اور خیال کیا کہ یہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ غرض ساری رات وہ آپؐ کے مکان کا پہرہ دیتے رہے پھر جب مناسب وقت سمجھا تو اندر داخل ہوئے اور شاید انہیں جسم سے شک پڑ گیا کہ یہ جسم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں۔ انہوں نے منہ پر سے کپڑا اٹھا کر دیکھا یا شاید منہ ننگا تھا بہرحال انہیں معلوم ہوا کہ سونے والے شخص حضرت علیؓ ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں۔ تب انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سلامتی کے ساتھ جا چکے ہیں اور ان کے لیے اب سوائے ناکامی کے کچھ باقی نہیں رہا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد 8 صفحہ 510)
ایک اَور جگہ حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ کو یہ عظیم الشان قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لیے رات کے وقت اپنے گھر سے نکلنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا تم میرے بستر پر لیٹ جاؤ تا کہ کفار اگر جھانک کر دیکھیں تو انہیں یہ دکھائی دیتا رہے کہ کوئی شخص بستر پر سو رہا ہے اور وہ تعاقب کے لیے اِدھر اُدھر نہ نکلیں۔ اس وقت حضرت علیؓ نے یہ نہیں کہا کہ یا رسول اللہؐ ! مکان کے ارد گرد تو قریش کے چنیدہ نوجوان ہاتھ میں تلوار لیے کھڑے ہیں۔ اگر صبح کو انہیں معلوم ہوا کہ آپؐ کہیں باہر تشریف لے جا چکے ہیں تو وہ مجھ پر حملہ کر کے مجھے قتل کر دیں گے بلکہ وہ بڑے اطمینان کے ساتھ یعنی حضرت علیؓ بڑے اطمینان کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر لیٹ گئے اور آپؐ نے اپنی چادر ان پر ڈال دی۔ جب صبح ہوئی اور قریش نے دیکھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے حضرت علیؓ آپ کے بستر سے اٹھے ہیں تو وہ اپنی ناکامی پر دانت پیس کر رہ گئے اور انہوں نے حضرت علیؓ کو پکڑ کر مارا پیٹا مگر اس سے کیا بن سکتا تھا۔ خدائی نوشتے پورے ہو چکے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلامتی کے ساتھ مکہ سے باہرجا چکے تھے۔ اس وقت حضرت علیؓ کو کیا معلوم تھا کہ مجھے اس ایمان کے بدلے میں کیا ملنے والا ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ اس قربانی کے بدلے میں صرف حضرت علیؓ ہی عزت نہیں پائیں گے بلکہ حضرت علیؓ کی اولاد بھی عزت پائے گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ پر پہلا فضل تو یہ کیا کہ ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا شرف بخشا۔ دوسرا فضل اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ان کے لیے اتنی محبت پیدا کی کہ آپؐ نے بارہا ان کی تعریف فرمائی۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 25)
بہرحال یہ ایک ہی واقعہ کے مختلف ذریعوں سے حوالے میں نے پیش کیے ہیں جو اصل واقعہ کے لحاظ سے تو ایک ہی چیز ہوتی ہے لیکن مختلف رنگوں میں جب مَیں بیان کرتا ہوں تو اس لیے کہ اس کی تفصیل اور تشریح جو ہے اس میں اس صحابی کی بعض نئی باتیں پتہ لگ جاتی ہیں یا نئے انداز میں پیش کی جاتی ہیں جس سے کئی پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ اور یہاں حضرت علیؓ کے معاملے میں حضرت علی ؓکی شخصیت کے مختلف پہلو بھی سامنے آ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر صحابی سے جو تعلق تھا اس کا بھی پتہ لگ جاتا ہے تو اس طرح بعض دفعہ لگتا یہی ہے کہ ایک ہی حوالہ مختلف جگہ پیش کیا جا رہا ہے لیکن ہر حوالے کا انداز مختلف ہوتا ہے اس لیے پیش کرتا ہوں اور یہاں حضرت علیؓ کے حوالے سے بھی یہی باتیں ہمیں پتہ چلی ہیں۔ بہرحال حضرت علی ؓ کاذکر چل رہا ہے۔ باقی ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ پیش کروں گا۔
اس وقت میں چند مرحومین کا ذکر کروں گا جن کا جنازہ پڑھاؤں گا۔ جن میں سے سب سے پہلے مڑھ بلوچاں ضلع ننکانہ کے ڈاکٹر طاہر محمود صاحب شہید ابن طارق محمود صاحب ہیں۔ ان کو مخالفین احمدیت نے 20 نومبر 2020ء کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد گذشتہ جمعہ فائرنگ کر کے شہید کیا تھا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
تفصیلات کے مطابق شہید مرحوم اپنے والد طارق محمود صاحب اور دیگر فیملی ممبران کے ہمراہ 20؍ نومبر کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے اپنے تایا مکرم محمد حفیظ صاحب کے گھر جمع ہوئے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد تقریباً اڑھائی بجے اپنے گھر جانے کے لیے باہر نکلے تو گلی میں موجود مہد نامی ایک سولہ سالہ نوجوان جوپستول سے مسلح تھا اس نے فائرنگ کی اور فائرنگ کے نتیجے میں ڈاکٹر طاہر محمود صاحب موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ شہید مرحوم کی عمر 31 سال تھی۔ اس حملہ میں شہید مرحوم کے والد طارق محمود صاحب عمر 55 سال جو سیکرٹری مال اور سابق صدر ہیں سر میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوئے اور اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں جبکہ شہید مرحوم کے تایا مکرم سعید احمد مقصود صاحب عمر 60 سال جو صدر جماعت ہیں اور مکرم طیب محمود صاحب زعیم خدام الاحمدیہ عمر 26 سال فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہوئے اور کچھ دیر ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ وہ تو خیر ٹھیک ہو گئے ہیں لیکن شہید کے والد صاحب جو ہیں وہ زیادہ زخمی ہیں۔ حملہ آور دو میگزین فائر کر کے تیسرے میگزین کو لوڈ کر رہا تھا کہ پکڑا گیا لیکن بہرحال دشمنی کا ایک نیا رنگ اب وہاں اس لحاظ سے ان لوگوں نے شروع کیا ہے کہ چھوٹی عمر کے لڑکوں کو انگیخت کرتے ہیں اور ان سے حملے کرواتے ہیں تا کہ بعد میں عدالتوں میں کہہ سکیں کہ یہ تو بالغ نہیں ہے اور اس کو سزا میں کمی ہو جائے اور یا ویسے سزا معاف ہو جائے تو مختلف طریقے اب انہوں نے آزمائے ہیں۔ اوپر سے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی شکوہ نہیں اور ہم بالکل کوئی سختی نہیں کر رہے۔ احمدیوں پر کوئی ناجائز ظلم نہیں کر رہے اور دوسری طرف شہادتیں بھی ہو رہی ہیں اور حکومت کے بعض افسران زبردستی مقدمات بھی قائم کر رہے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کرے کہ ان لوگوں کو عقل آئے اور اگر نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ خود ان کی پکڑ کرے۔
مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب کے ذریعہ ہوا تھا جنہوں نے اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ تیرہ سال کی عمر میں خلافت ثانیہ کے دور میں بیعت کی تھی۔ مرحوم شہید جو تھے اسلامیہ کالج لاہور سے انہوں نے ایف ایس سی کیا۔ اس کے بعد 2013ء میں ماسکو روس سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اور آج کل پی ایم سی کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے۔ فضل عمر ہسپتال میں بھی کام کرتے رہے ہیں۔ شہید مرحوم بےشمار خصوصیات کے حامل تھے۔ خلافت سے بے انتہا محبت تھی۔ جماعتی عہدیداران اور مرکزی مہمانان کا بے حد احترام کرتے تھے۔ جب بھی ان کو جماعت کی طرف سے کسی کام کے لیے کہا جاتا تو فوری طور پر حاضر ہو جاتے۔ بحیثیت قائد خدام الاحمدیہ خدمت کی توفیق پائی۔ متعدد مرتبہ مریضوں کو خود اپنی گاڑی میں ہسپتالوں میں پہنچایا۔ ہمیشہ خدمت میں پیش پیش رہتے تھے اور غیر از جماعت کے ساتھ بھی ان کا یہی تعلق تھا۔ کئی شریف النفس غیراز جماعت احباب تشریف لا کر اس سانحہ پر افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ اس خاندان کو عرصہ دراز سے شدید مخالفانہ حالات کا سامنا تھا۔ 1974ء میں بھی مخالفین نے شہید مرحوم کے دادا جان کی دکان کو جلا دیا تھا۔ ان کے والد طارق محمود صاحب کو 2006ء میں مخالفین نے ظالمانہ طریق سے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ چند دن پہلے ایک معاند احمدیت نے شہید مرحوم کے والد صاحب پر بازار سے گزرتے ہوئے تھوک پھینک دیا تھا، تھوکا۔ اس قسم کی حرکتیں تو یہ لوگ ان کے ساتھ مستقل کر رہے تھے لیکن بہرحال یہ وہاں ڈٹے ہوئے تھے۔
صداقت احمد صاحب مبلغ سینٹ پیٹرس برگ رشیا لکھتے ہیں کہ تعلیمی زندگی کا ایک بڑا حصہ انہوں نے قازان تاتارستان (رشیا) میں گزارا اور کامیاب ڈاکٹر بن کر پاکستان گئے۔ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر طاہر محمود صاحب نے دوران تعلیم جماعت کے ساتھ نہایت اخلاص کا تعلق قائم رکھا۔ نماز جمعہ اور چندوں کی ادائیگی میں بھی ہمیشہ باقاعدہ رہے اور دیگر جماعتی پروگرام میں باوجود اس کے کہ ان کا ہوسٹل مشن ہاؤس سے کافی فاصلے پر تھا باقاعدہ شامل ہوتے اور شوق سے حصہ لیتے اور کہتے ہیں ان کا شمار اپنے گروپ کے میڈیکل کے طلبہ میں ذہین ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ تدریسی زبان اگرچہ انگریزی تھی لیکن ذاتی محنت اور شوق سے رشین زبان میں بھی کافی رواں ہو گئے تھے۔ قازان میں جس ہوسٹل میں رہتے تھے وہاں سب کو بتایا ہوا تھا کہ وہ احمدی ہیں اور اس وجہ سے مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہاں پاکستانی طلبہ بھی تھے جو جماعت کی شدید مخالفت کرتے تھے لیکن ان کو جب بھی موقع ملتا تبلیغ کرتے تھے۔ یہ کہتے ہیں اب مَیں پاکستان آیا ہوا تھا، یہاں بھی مجھے ملے اور انہوں نے بتایا کہ مڑھ بلوچاں میں ان کی مخالفت بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ربوہ منتقل ہونا چاہتے تھے۔ انہوں نے یہاں ربوہ میں گھر بھی بنایا ہوا ہے۔
فرید ابراگیموف قازان تاتارستان کے رشین احمدی ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے رشین زبان بہت جلد سیکھ لی۔ بہت خوش مزاج اور نیک طبیعت کے مالک تھے۔ ان کی مسکراہٹ سے نور چھلکتا تھا۔
مرحوم کے پسماندگان میں والد مکرم طارق محمود صاحب کے علاوہ والدہ محترمہ شمیم اختر صاحبہ اور بھائی قاسم محمود صاحب جرمنی میں ہیں اور ہمشیرہ فائزہ محمود صاحبہ اہلیہ نصیر احمد صاحب جرمنی میں ہیں۔ یہ لوگ ان کے پسماندگان میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ زخمیوں کو صحت عطا فرمائے اور شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے اور ان سب زخمیوں کو ہر قسم کی پیچیدگیوں سے بچائے۔ ان کے باقی سب عزیزوں اور رشتے داروں کو اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نوازتا رہے۔
اگلا جنازہ مکرم جمال الدین محمود صاحب کا ہے جو سیرالیون میں نیشنل جنرل سیکرٹری تھے۔ 3نومبر کو اچانک دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
مرحوم گذشتہ سولہ سال سے بطور جنرل سیکرٹری خدمات بجا لا رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ سعید الرحمٰن صاحب مشنری انچارج لکھتے ہیں کہ ان کی باقی کئی خوبیوں کے علاوہ ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ ساری دنیا کے احمدیوں کو قوم پرستی سے بچا کر ایک خاندان بنانے کے عملی مصداق تھے۔ بہت حکمت اور اخلاص سے کام کرتے تھے۔ قریباً دو ہزار افراد نے آپ کی نماز جنازہ اور تجہیز و تکفین میں شرکت کی۔ اس موقعے پر دو وزرائے حکومت، چیف آف آرمی سٹاف سیرالیون، متعدد ممبرانِ پارلیمنٹ، پیراماؤنٹ چیفس سمیت بیسیوں اعلیٰ افسرانِ حکومت موجود تھے۔
مبارک طاہر صاحب سیکرٹری نصرت جہاں لکھتے ہیں کہ مرحوم بہت مخلص فدائی اور دل و جان سے جماعت کی خدمت کرنے والے تھے۔ ایک عرصے سے بطور جنرل سیکرٹری خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ نیز احمدیہ پرنٹنگ پریس سیرالیون کے نائب مینیجر بھی تھے۔ مرحوم کا تعلق گھانا سے تھا۔ ان کے والد مکرم ابراہیم کوجو محمود صاحب کو حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب نے تعلیم کے میدان میں خدمت کے لیے سیرالیون بھجوایا تھا۔ مبارک طاہر صاحب یہ لکھتے ہیں کہ تیرہ سال تک جمال صاحب میرے پاس روکوپور میں رہے۔ ان کے والد نے ان کو تعلیم کے لیے ان کے پاس چھوڑا ہوا تھا۔ موصوف آغاز سے ہی دیندار تھے۔ نماز باجماعت اور دیگر جماعتی خدمات میں پیش پیش رہتے تھے۔ روکوپور کے خدام کے ساتھ مل کر تبلیغ اور اشاعت دین کا کام کرتے رہے۔
عثمان طالع صاحب انچارج رقیم پریس سیرالیون کہتے ہیں کہ جمال الدین محمود صاحب خاکسار سے پہلے وہاں انچارج تھے، لمبے عرصے سے خدمت کر رہے تھے۔ خاکسار نے ان کے ساتھ بارہ سال کا وقت گزارا ہے۔ اس دوران کبھی بھی انہوں نے یہ اظہار نہیں کیا کہ خاکسار ان سے چھوٹا ہے اور ناتجربہ کار ہے بلکہ ہمیشہ احترام سے پیش آتے اور کہتے کہ آپ مبلغ ہیں اور آپ کا تقرر خلیفة المسیح نے کیا ہے۔ اور کبھی بھی کسی معاملے میں ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے خاکسار کی اطاعت نہ کی ہو۔ اطاعت اور عاجزی اتنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کہ کبھی ان کو کوئی کام کہہ دیا جاتا تو فوراً اس کو شروع کر دیتے اور ہرممکنہ طریق پر کوشش کر کے اسےمکمل کرتے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار نے اس عرصہ میں ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ روزانہ بلاناغہ نماز تہجد ادا کرتے تھے۔ نماز باجماعت کی بہت پابندی کرتے تھے۔ نماز بھی ایسی ہوتی کہ اس کی خوبصورتی قابل رشک تھی۔ ہمیشہ نہایت خشوع و خضوع اور تسلی سے نماز ادا کرتے تھے۔ خلافت سے بہت عشق تھا اور ہر خطبہ جمعہ نہایت ادب کے ساتھ بیٹھ کر سنتے تھے۔
پھر یہ لکھتے ہیں کہ سیرالیون کے کلچر کے مطابق جمال صاحب نے کئی بچوں کو اپنے گھر میں رکھا۔ اپنے خرچ پر تعلیم دلوائی اور ان میں سے کئی اس وقت اچھی ملازمت کر رہے ہیں اور نہایت ادب اور پیار سے ان کو یاد کرتے ہیں۔
نوید قمر صاحب مربی لکھتے ہیں کہ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اپنے والدین اور خاندان کے دیگر بزرگوں کے نام سے تحریک جدید اور وقف جدید کی مدات میں اضافی قربانی کرتے۔ جب کبھی اپنے آبائی گاؤں روکوپور آتے تو باوجود مصروفیت کے بروقت مسجد پہنچتے۔ عموماً مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں لوگوں کو جماعتی تعلیمات کا بتاتے اور خصوصاً خلافت احمدیہ کی اہمیت اور برکات اور اس سے وابستگی کا مضمون بڑے احسن انداز میں سمجھاتے تھے۔ پھر لکھتے ہیں کہ تمام لوگوں سے ان کا پیار و محبت کا تعلق تھا۔ ان کی وفات کی خبر پہ کیا احمدی اور کیا غیر احمدی ہر آنکھ اشکبار تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے جنازے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوئی اور گردونواح کے علاوہ طویل سفر کر کے بھی لوگ شامل ہوئے۔
مرحوم کی دو بیویاں تھیں ۔ پہلی بیوی سے علیحدگی ہو گئی لیکن اولاد انہی سے تھی جس سے دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے اور ایک بیٹی کی تو شادی ہو گئی ہے۔ آسٹریلیا میں ہیں۔ باقی دو بچے گھانا میں اور ایک سیرالیون میں پڑھ رہے ہیں۔ دوسری بیوی سے ان کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اگلا جنازہ امة السلام صاحبہ اہلیہ مکرم چودھری صلاح الدین صاحب مرحوم سابق ناظم جائیداد اور مشیر قانونی ربوہ کا ہے جو 19؍ اکتوبر کو وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ان کے میاں چودھری صلاح الدین صاحب جو تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چودھری عبداللہ خان صاحبؓ اور حضرت حمنہ بی بی صاحبہؓ کے پوتے تھے۔ ان کے دادا اور دادی دونوں صحابی تھے۔ صحابہ میں سے تھے۔ ان کے بیٹے نعیم الدین صاحب اپنی والدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ جن باتوں نے میری زندگی پر انمٹ نقوش چھوڑے ان میں سے ایک والدہ صاحبہ کا ہماری نمازوں کا دھیان رکھنا تھا۔ یہ ان کا سب سے قوی طرز عمل تھا۔ اور بڑی سختی سے پابندی کرواتی تھیں۔ یہ طرز عمل بڑا مضبوط تھا۔ ہمارا گھر عملاً ہوسٹل کا رنگ رکھتا تھا۔ کثرت سے ہمارے عزیز تعلیم کی غرض سے ہمارے گھرمقیم ہوا کرتے تھے اور ان کا قیام کئی کئی سال تک محیط رہا۔ والدہ مرحومہ ہر فرد سے متعلق اس امر کی خاص توجہ رکھتیں کہ تمام عزیزان نماز کی ہر صورت میں پابندی کریں۔ تمام بچوں کو خود قرآن پڑھاتیں۔ بڑے بچوں کے لیے استاد کا تقرر بھی کرتی رہیں۔ دوسرا وصف جس نے میری ذات پر گہرا نقش چھوڑا وہ آپ کا گھر میں مقیم افراد کے لیے ہر ممکن آرام اور سکھ کا سامان بہم پہنچانے کے لیے کوشاں رہنا تھا۔ اگر کسی روز ملازمہ چھٹی کر لیتی تو آپ سب بچوں کے، اپنے بچوں کے بھی دوسروں کے بھی، کپڑے دھونے میں کبھی کوئی عار محسوس نہ کرتیں۔ ہمارے ننھیال اور ددھیال کے افراد کا کثرت سے ربوہ آنا جانا لگا رہتا۔ والد صاحب مرحوم اکثر جماعتی ذمہ داریوں کے سبب ربوہ میں موجود نہ ہوتے۔ والدہ صاحبہ سب مہمانوں کی خاطر تواضع کرتیں۔ کوئی دقیقہ نہ چھوڑتیں اور مَیں بڑا بیٹا تھا اس لیے میری نگرانی کرتیں کہ مہمانوں کی صحیح طرح مہمان داری کروں اور کوئی کوتاہی نہ ہو۔ پھر کہتے ہیں کہ ہماری پڑدادی، دادی اور نانی اکثر و بیشتر لمبا عرصہ ہمارے ہاں مقیم ہوا کرتی تھیں اور ہم خدا کے فضل سے چھ بہن بھائی تھے اور کثیر تعداد میں خاندان کے بچے بھی ہمارے ہاں تعلیم کی غرض سے مقیم ہوا کرتے تھے مگر ان تمام حالات کے باوجود آپ ان ہر سہ بزرگوں کی خدمت سالہا سال تک نہایت احسن رنگ میں بجا لاتی رہیں۔ جلسہ سالانہ کے موقعے پر بلا مبالغہ اسّی نوّے مہمان ہو جاتے تھے۔ ان کے قیام و طعام کے لیے گھرپر ٹینٹ لگا کرتے تھے۔ بستروں کے لیے گاؤں سے انتظام ہوا کرتا تھا۔ سب انتظامات والد صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں مل کر نہایت محبت اور خوش دلی سے کھلے دل سے کیا کرتے تھے اور ہر عزیز نے بلا استثنا آپ کی محبت اور مہمان نوازی کا اظہار کیا ہے۔
ان کے ایک بھانجے نے لکھا کہ میں ان کے گھر میں تعلیم حاصل کرتا رہا اور یہ کبھی نہیں ہوا کہ صبح کی روٹی ہمیں شام کو دی ہو یا شام کی صبح کھلائی ہو بلکہ ناشتہ کے وقت تازہ پراٹھے اور تازہ دہی ہمیشہ دیا کرتی تھیں۔ غیروں کے بچوں کا، مطلب اپنے رشتےدار بچے جو تعلیم حاصل کر رہے تھے ان کا بھی اتنا خیال رکھتی تھیں حالانکہ اپنی اولاد بھی کافی تھی۔ خلفائے سلسلہ سے محبت اور اطاعت کا مثالی تعلق تھا اور پھر کہتے ہیں ان محترم ومعظم ہستیوں نے ہماری رگ رگ میں بھی ایسے ہی جذبات، احساساتِ محبت داخل کیے۔
ان کی بہو نبیلہ نعیم صاحبہ ہیں کہتی ہیں مرحومہ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں۔ نمازوں کی پابند تھیں۔ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والی۔ نماز تہجد ادا کرنے والی۔ بڑی صابرہ اور شاکرہ وجود تھیں۔ مشکل وقت میں بھی کبھی کوئی شکوہ نہیں کرتی تھیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا پر ہمیشہ خوش رہنے والی تھیں۔ غریب پرور تھیں۔ کسی کو دکھ تکلیف میں نہ دیکھ سکتی تھیں۔ ہمیشہ ان کی مدد کے لیے تیار رہتی تھیں۔ مرحومہ خلافت کی اطاعت میں اور وفا میں پیش پیش رہتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو اور ان کی نسل کو بھی ان خوبیوں کا حامل بنائے۔ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔
اگلا جنازہ ہے مکرمہ منصورہ بشریٰ صاحبہ والدہ ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب کاجو 6؍نومبر کو 97 سال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی بلکہ صحابہ کی اولاد تھیں۔ حضرت منشی فیاض علی کپورتھلوی صاحب کی نواسی تھیں اور حضرت شیخ عبدالرشید صاحب کی پوتی تھیں۔ دونوں صحابی تھے۔ بچپن میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ قریبی تعلق تھا۔ مرحومہ یادداشت کی کمی کے باوجود آخری وقت تک نماز پڑھنا کبھی نہیں بھولیں۔ خطبہ جمعہ بھی ایم ٹی اے پر باقاعدگی سے سنتی تھیں۔ ایک نیک باوفا بزرگ خاتون تھیں۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ ڈاکٹر لطیف قریشی صاحب کی جیسا کہ میں نے کہا ان کی والدہ تھیں۔ اور گزشتہ دنوں قریشی صاحب کا بھی اور ان کی اہلیہ شوکت گوہر صاحبہ کا بھی انتقال ہوا ،ان دونوں نے بھی جب تک یہ زندہ رہے ڈاکٹر صاحب بھی اور ان کی اہلیہ بھی ،ان کی بڑی خدمت کی ہے۔ بہرحال ان کی زندگی میں ہی وہ دونوں فوت ہو گئے۔
ان کی پوتی عصمت مرزا لکھتی ہیں میری دادی حقیقی مومنہ، احمدیت اور خلافت کی شیدائی خاتون تھیں۔ میں نے ان سے زیادہ عبادت گزار اور قرآن سے عقیدت اور محبت رکھنے والا نہیں دیکھا۔ خاموش طبع اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔
جمعے کے بعد ان سب کی نماز جنازہ ادا کروں گا۔ ان شاء اللہ
(الفضل انٹرنیشنل 18؍دسمبر 2020ء صفحہ 5تا10)