خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍دسمبر2020ء

کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جو تیرے لیے خادم سے بہتر ہے؟ تم اپنے بستر پر جاتے ہوئے تینتیس دفعہ سبحان اللّٰہ کہو، تینتیس مرتبہ الحمد للّٰہ کہواور چونتیس دفعہ اللّٰہ اکبر کہو

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ اپنی تنگ دستی اور غربت کے باوجود زہد وقناعت کا نمونہ دکھایا کرتے تھے

حضرت علی ؓ کہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال آتا تھا تو میں آپؐ کے سائبان کی طرف بھاگ جاتا تھا لیکن جب بھی میں گیامیں نے آپؐ کو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا۔ اور میں نے سنا کہ آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ۔ اے خدا میرے زندہ خدا، اے میرے خدا زندگی بخش آقا

چار مرحومین مکرم کمانڈر چودھری محمد اسلم صاحب آف کینیڈا، محترمہ شاہینہ قمر صاحبہ اہلیہ قمر احمد شفیق صاحب ڈرائیور نظارت علیا اور ان کے بیٹے عزیزم ثمر احمد، اور مکرمہ سعیدہ افضل کھوکھر صاحبہ اہلیہ محمد افضل کھوکھر صاحب شہید کا ذکر ِخیر اور نماز ِجنازہ غائب

پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر خصوصی دعا کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍دسمبر2020ء بمطابق 04؍فتح1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

گذشتہ خطبے سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا تھا۔ آج بھی اسی سلسلے میں بیان کروں گا۔ حضرت علی ؓکی مؤاخات کے بارے میں روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کو دو مرتبہ اپنا بھائی قرار دیا۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کے درمیان مکے میں مؤاخات قائم فرمائی۔ پھر آپؐ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مدینے میں ہجرت کے بعد مؤاخات قائم فرمائی اور دونوں مرتبہ حضرت علی ؓسے فرمایا۔ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃ تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو۔

(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 4 صفحہ88 ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2016ء)

ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابو طالبؓ اور حضرت سھل بن حُنَیْفؓکے درمیان مؤاخات کا رشتہ قائم کیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 3 صفحہ 16باب ذکر علی ابن ابی طالب مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2017ء)

یہ مؤاخات کب کب ہوئی؟ اس بارے میں تاریخ میں ذکر ملتا ہے کہ مؤاخات دو مرتبہ ہوئی۔ چنانچہ صحیح بخاری کے ایک شارح علامہ قسطلانی بیان کرتے ہیں کہ مؤاخات دو مرتبہ ہوئی۔ پہلی مرتبہ ہجرت سے قبل مکّے میں مہاجرین میں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کے درمیان، حضرت زبیرؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے درمیان اور حضرت علی ؓاور اپنے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو مہاجرین اور انصار کے درمیان حضرت انس بن مالکؓ کے گھر میں مؤاخات قائم فرمائی۔ ابن سعد بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو صحابہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی یعنی پچاس مہاجرین اور پچاس انصار کے درمیان۔

(ارشاد الساری شرح صحیح بخاری جزء8صفحہ410-411حدیث نمبر3937دار الکتب العلمیۃ بیروت1996ء)

حضرت علی ؓغزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے سوائے غزوۂ تبوک کے۔ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اہل و عیال کی نگہداشت کے لیے مقرر فرمایا تھا۔

(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ92 ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر للطباعۃ والنشر التوزیع بیروت 2003ء)

حضرت ثَعْلَبَہبن ابو مالِکؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبادہؓ ہر موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے علمبردار ہوتے تھے مگر جب لڑائی کا وقت آتا تو حضرت علی بن ابوطالبؓ جھنڈا لے لیتے۔

(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ93 ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع بیروت 2003)

غزوہ عُشَیرہ جمادی الاولیٰ دو ہجری میں ہوا تھا۔ تاریخ و سیرت کی کتب میں اس غزوہ کا نام غزوہ عُشَیرہ کے علاوہ غزوہ ذوالعُشیرہ، ذات العُشیرہ اور عُسیرہ بھی بیان ہوا ہے۔عُشَیرہ ایک قلعےکا نام ہے جو کہ حجاز میں یَنْبُعْ اور ذُوالْمَرْوَہْ کے درمیان واقع ہے۔ اس کے متعلق تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں تحریر فرمایا ہے کہ جمادی الاولیٰ سن 2؍ ہجری میں قریش مکہ کی طرف سے کوئی خبر پاکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ مدینے سے نکلے اوراپنے پیچھے اپنے رضاعی بھائی ابوسَلْمَہ بن عَبْدُالْاَسَدکو امیر مقرر فرمایا۔ اس غزوے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی چکرکاٹتے ہوئے بالآخر ساحل سمندر کے قریب یَنْبُعْ کے پاس مقام عُشَیْرَہ تک پہنچے اور گو قریش کامقابلہ نہیں ہوا مگر اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنومُدْلِج کے ساتھ ایک معاہدہ طے فرمایا اور پھر واپس تشریف لے آئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم ۔اےصفحہ 329)

(لغات الحدیث جلد3صفحہ110-111 زیر لفظ عشیرہ)

(السیرة الحلبیة جلد 2صفحہ 175باب ذکر مغازیہؐ ،غزوة العشیرہ، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

(الدلائل النبوۃ للبیہقی جلد 5 صفحہ 460 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1988ء)

حضرت علی ؓاس غزوے میں شامل ہوئے تھے۔ اس حوالے سے مسند احمد بن حنبل کی روایت اس طرح ہے کہ حضرت عمار بن یاسرؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ ذات العُشَیرہمیں حضرت علی ؓاور مَیں رفیقِ سفر تھے۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ تشریف لے گئے اور وہاں قیام فرمایا تو ہم نے بنومُدْلِجْکے لوگوں کو دیکھا کہ وہ کھجور کے باغات میں اپنے ایک چشمے پر کام کر رہے ہیں۔ حضرت علیؓ نے مجھے فرمایا اے اَبُویَقْظَان تمہاری کیا رائے ہے؟ کیا ہم ان لوگوں کے پاس جائیں اور دیکھیں وہ کیا کر رہے ہیں؟ پس ہم ان کے پاس آئے اور ان کے کام کو کچھ دیر دیکھا ۔پھر ہمیں نیند آنے لگی تو مَیں اور حضرت علی ؓوہاں سے چلے اور کھجوروں کے درمیان مٹی پر ہی لیٹ کر سو گئے۔ اللہ کی قَسم! ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی نے نہ جگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے پاؤں کے مس سے جگایا جبکہ ہمارے جسموں پر مٹی لگ چکی تھی۔ اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکے جسم پر مٹی دیکھ کر فرمایا۔ اے ابو تراب! پھر آپؐ نے فرمایا کیا میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں۔ ابوتراب کا ذکر پچھلی دفعہ بھی خطبے میں ہوا تھا کہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے۔ مٹی لگ گئی تھی تو آپؐ نے کہا اے ابوتراب! ابوتراب کے نام سے پکارا۔ اس وقت سے آپؓ کی کنیت یہ بھی ہو گئی تھی یا ہو سکتا ہے اس وقت سے آپ نے یہ نام رکھا ہو، بعد میں بھی ہو یا دونوں جگہ فرمایا ہو۔ جو بھی پہلے کا واقعہ ہے۔ پہلے کا واقعہ تو یہی لگتا ہے۔ بہرحال کیا میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں! ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہؐ! آپ نے فرمایا پہلا شخص قوم ثمود کا اُحَیْمِر تھا جس نے صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علی! تمہارے سر پر وار کرے گا یہاں تک کہ خون سے یہ داڑھی تر ہو جائے گی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد06 صفحہ 261مسند عَمَّارِ بْنِ يَاسِر حدیث: 18511عالم الکتب للطباعۃ والنشر التوزیع بیروت 1998ء)

غزوۂ سَفْوَان، بَدْرُالْاُوْلیٰ جُمَادَی الآخِر میں 2؍ ہجری میں ہوا تھا۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کے بارے میں تفصیل اس طرح لکھی ہے کہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوۂ عُشَیرہ سے واپس مدینہ تشریف لائے ہوئے دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ مکہ کے ایک رئیس کُرْزْبن جَابِر فِہْرِینے قریش کے ایک دستہ کے ساتھ کمال ہوشیاری سے مدینہ کی چراگاہ پر جو شہر سے صرف تین میل پر تھی اچانک حملہ کیا اور مسلمانوں کے اونٹ وغیرہ لوٹ کر جاتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کویہ اطلاع ہوئی تو آپ فوراً زید بن حارِثہؓ کواپنے پیچھے امیر مقرر کر کے مہاجرین کی ایک جماعت کوساتھ لے کر اس کے تعاقب میں نکلے اور سَفْوَان تک جوبدر کے پاس ایک جگہ ہے اس کا پیچھا کیا مگر وہ بچ کر نکل گیا۔ اس غزوہ کو غزوۂ بدرالاولیٰ بھی کہتے ہیں۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 330)

اس غزوے کے موقعے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکو سفید جھنڈا عطا فرمایا تھا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء 2 صفحہ253 ذکر عدد مغازی رسول اللّٰہؐ و سرایاہ مطبوعہ داراحیاء التراث بیروت لبنان 1996ء)

غزوۂ بدر 2؍ ہجری مطابق مارچ 623ء میں ہوا تھا اور اس کا ذکر اور اس میں حضرت علیؓ کے بارے میں یوں تذکرہ ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓ،حضرت زبیر ؓ،حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت بَسْبَسْ بن عَمْرو ؓکو مشرکین کی خبر دریافت کرنے کے لیے بدر کے چشمہ پر بھیجا۔ انہوں نے قریش کو اپنے جانوروں کو پانی پلاتے ہوئے دیکھا اور مشرکین کی اس جماعت کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء2صفحہ256 غزوۃ بدر۔ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 349)

غزوۂ بدر کے موقعے پر جب دونوں لشکر آمنے سامنے تھے تو سب سے پہلے ربیعہ کے دونوں بیٹے شَیْبَہ، عُتْبَہاور ولید بن عُتْبَہنکلے اور مبارزت کی دعوت دی تو قبیلہ بنو حارث کے تین انصاری معاذ اور معوذ اور عوف جو عفراء کے فرزند تھے ان کی طرف سے مقابلے کے لیے نکلے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ناپسند فرمایا کہ مسلمانوں اور مشرکین کے درمیان پہلی مڈھ بھیڑ میں انصار شامل ہوں بلکہ آپ نے یہ پسند فرمایا کہ آپ کے چچا کی اولاد اور آپ کی قوم کے ذریعہ سے یہ شوکت ظاہر ہو۔ پس آپؐ نے انصار کو حکم دیا تو وہ اپنی صفوں میں واپس آ گئے اور آپ نے ان کے لیے کلمہ خیر فرمایا۔ پھر مشرکین نے کہا اے محمدؐ! ہماری طرف مقابلے کے لیے ہماری قوم میں سے ہمارے ہم پلّہ لوگ بھیجو۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے بنو ہاشم ! اٹھو اپنے حق کے لیے لڑو جس کے ساتھ اللہ نے تمہارے نبی کو مبعوث کیا ہے جبکہ وہ لوگ اپنے باطل کے ساتھ آئے کہ وہ اللہ کے نور کو بجھا دیں۔ پس حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ، حضرت علی بن ابوطالبؓ اور حضرت عُبَیْدَہ بن حارِثؓکھڑے ہوئے اور ان کی طرف بڑھے تو عتبہ نے کہا کچھ بولو تا کہ ہم تمہیں پہچان سکیں۔ ان لوگوں نے خَود پہنے ہوئے تھے جن کی وجہ سے چہرے چھپے ہوئے تھے۔ حضرت حمزہؓ نے کہا کہ میں حمزہ بن عبدالمطلب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا شیر ہوں۔ اس پر عتبہ نے کہا اچھا مقابل ہے اور میں حلیفوں کا شیر ہوں۔ تیرے ساتھ یہ دو کون ہیں۔ حضرت حمزہؓ نے کہا علی بن ابو طالبؓ اور عُبَیدہ بن حارِثؓ۔ عتبہ نے کہا دونوں اچھے مقابل ہیں ۔پھر اس نے یعنی عتبہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے ولید! اٹھو۔ پس حضرت علی ؓاس کے مقابل گئے اور ان دونوں میں تلوار چلنے لگی اور حضرت علی ؓنے اسے قتل کر دیا۔ پھر عُتبہ کھڑا ہوا اور اس کے مقابل میں حضرت حمزہ ؓنکلے۔ پھر ان دونوں کے درمیان تلوار چلی ۔ حضرت حمزہ ؓنے اسے قتل کردیا۔ پھر شَیْبہ کھڑا ہوا اور اس کے مقابل پر حضرت عُبَیدہ بن حارِثؓ نکلے جبکہ وہ (حضرت عبیدہؓ) اس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے زیادہ عمررسیدہ تھے۔ شَیبہ نے حضرت عبیدہؓ کی ٹانگ پر تلوار کا کنارا مارا جو آپ کی پنڈلی کے گوشت میں لگا اور اس کو چیر دیا۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے شَیبہ پر حملہ کیا اور اسے قتل کر دیا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعدجزء 2صفحہ257 غزوۃ بدر، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)

یہ روایت دو سال ہوئے پہلے بھی بیان ہوئی تھی۔ کچھ حصہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ ایک اَور روایت ہے جو حضرت علی ؓبیان کرتے ہیں۔ اس کا تذکرہ اس طرح ملتا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ اور اس کے پیچھے اس کا بیٹا اور بھائی بھی نکلے اور پکار کر کہا کہ کون ہمارے مقابلے کے لیے آتا ہے تو انصار کے کئی نوجوانوں نے اس کا جواب دیا۔ عتبہ نے پوچھا کہ تم کون ہوں؟ انہوں نے بتا دیا کہ ہم انصار میں سے ہیں۔ عتبہ نے کہا کہ ہمیں تم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ ہم تو صرف اپنے چچا کے بیٹوں سے جنگ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اے حمزہ! اٹھو۔ اے علی !کھڑے ہو۔ اے عبیدہ بن حارث! آگے بڑھو۔ حمزہؓ تو عتبہ کی طرف بڑھے اور حضرت علی ؓکہتے ہیں کہ میں شیبہ کی طرف بڑھا اور عبیدہؓ اور ولید کے درمیان جھڑپ ہوئی اور دونوں نے ایک دوسرے کو سخت زخمی کیا اور پھر ہم ولید کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو مار ڈالا اور عُبَیدہ کو ہم میدان جنگ سے اٹھا کر لے آئے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی المبارزۃ حدیث 2665)

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ بدر کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس میں کفار کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔ رات بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے حضور عاجزانہ دعاؤں اور تضرعات میں مصروف رہے۔ جب کفار کا لشکر ہمارے قریب ہوا اور ہم ان کے سامنے صف آرا ہوئے تو ناگاہ ایک شخص پر نظر پڑی جو سرخ اونٹ پر سوار تھا اور لوگوں کے درمیان اس کی سواری چل رہی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے علیؓ، حمزہؓ ! جو کفار کے قریب کھڑے ہیں انہیں پکار کر پوچھو کہ سرخ اونٹ والا کون ہے اور کیا کہہ رہا ہے؟ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ان لوگوں میں سے کوئی شخص انہیں خیر بھلائی کی نصیحت کر سکتاہے تو وہ سرخ اونٹ والا شخص ہے۔ اتنی دیر میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آ گئے۔ انہوں نے آ کر بتایا کہ وہ عُتْبہ بن رَبِیعہ ہے جو کفار کو جنگ سے منع کر رہا ہے جس کے جواب میں ابوجہل نے اسے کہا کہ تم بزدل ہو اور لڑائی سے ڈرتے ہو۔ عُتبہ نے جوش میں آ کر کہا کہ آج دیکھتے ہیں کہ بزدل کون ہے۔

(مسند احمد جلد 1صفحہ 338-339 حدیث 948 مسند علی بن ابی طالب مطبوعہ عالم الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

بہرحال پھر وہ جنگ میں شامل ہوا۔

حضرت علی ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر کے موقعے پر میرے اور حضرت ابوبکرؓ کے بارے میں فرمایا تم دونوں میں سے ایک کے دائیں جانب حضرت جبرئیل ہیں اور دوسرے کے دائیں جانب حضرت میکائیل ہیں اور حضرت اسرافیل عظیم فرشتہ ہے جو لڑائی کے وقت حاضر ہوتا ہے اور صف میں ہوتا ہے۔

(المستدرک علی الصحیحین جزء 3 صفحہ 345کتاب معرفۃ الصحابۃ حدیث نمبر4711مطبوعہ دار الفکر لبنان 2002ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓغزوۂ بدر کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں کہ حضرت علی ؓکہتے ہیں کہ مجھے لڑتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاخیال آتا تھا تو میں آپؐ کے سائبان کی طرف بھاگ جاتا تھا لیکن جب بھی میں گیامیں نے آپؐ کو سجدہ میں گڑگڑاتے ہوئے پایا۔ اور میں نے سنا کہ آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ

یَا حَیُّ یَاقَیُّوْمُ۔ یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ۔

اے خدا میرے زندہ خدا، اے میرے خدا زندگی بخش آقا۔ حضرت ابوبکرؓ آپ کی اس حالت کودیکھ کر بے چین ہوئے جاتے تھے اورکبھی کبھی بے ساختہ عرض کرتے تھے یارسول اللہؐ! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ آپ گھبرائیں نہیں۔ اللہ اپنے وعدے ضرور پورے کرے گا۔ مگراس کے باوجود آپؐ کا برابر دعا کیے جانا ، آپؐ دعا میں مصروف تھے اور اس خوف میں تھے کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے بھی بعض دفعہ مشروط ہوتے ہیں۔

( ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ صفحہ 361)

حضرت فاطمہؓ سے شادی 2؍ہجری میں ہوئی۔ حضرت علی ؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حضرت فاطمہؓ سے عقد کی درخواست کی جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بخوشی قبول فرمایا۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمر ؓدونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر حضرت فاطمہؓ سے شادی کی درخواست کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہیں دیا۔ حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپؐ حضرت فاطمہؓ کی شادی مجھ سے کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا کیا تمہارے پاس مہر کے لیے کچھ ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میرا گھوڑا اور میری زرہ ہے۔ آپؐ نے فرمایا: گھوڑا تو تمہارے لیے ضروری ہے البتہ اپنی زرہ کو بیچ دو۔ چنانچہ میں نے اپنی زرہ کو چار سو اسّی درہم میں بیچ کر حق مہر کی رقم کا انتظام کیا۔ لوگ یہ کہتے ہیں کہ حق مہر رکھ لو تو جو ہو گا دیکھی جائے گی، دے دیں گے۔ لیکن ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حق مہر کے لیے پہلے انتظام کرو۔ اس کا مطلب یہ فوری حق ہے۔ یہ نہیں ہے جب کہ بعض لوگ مجھے لکھ دیتے ہیں کہ عورتیں حق مہر کاپہلے مطالبہ کر لیتی ہیں حالانکہ ہم ہنسی خوشی رہ رہے ہیں۔ مطالبہ کر دیتی ہیں تو یہ ان کا حق ہے۔ یہ تو اسی وقت دینا چاہیے اور اس کے نہ دینے سے پھر جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اور پھر طلاق خلع کے وقت تو یہ ادا ہونا چاہیے حالانکہ اس یعنی حق مہر کا طلاق اور خلع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بہرحال ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت علی ؓنے یہ زرہ حضرت عثمانؓ کو بیچی۔ حضرت عثمانؓ نے زرہ کی قیمت بھی ادا کر دی اور زرہ بھی واپس کر دی۔ حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ میں وہ رقم لے کر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں رکھ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے مٹھی بھر بلال کو دیتے ہوئے فرمایا: اس سے کچھ خوشبو خرید لاؤ اور کچھ لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ حضرت فاطمہ ؓکا جہیز تیار کرو۔ چنانچہ حضرت فاطمہؓ کے لیے ایک چارپائی، چمڑے کا ایک تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی یہ سب تیار کیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی ؓسے یہ رشتہ کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: میرے ربّ نے مجھے ایسا کرنے کا حکم فرمایا ہے۔

رخصتی کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓسے فرمایا۔ جب فاطمہ تمہارے پاس آئیں تو جب تک میں نہ آؤں کوئی بات نہ کرنا۔ چنانچہ حضرت فاطمہ ؓ حضرت امّ ایمنؓ کے ساتھ آئیں اور گھر کے ایک حصہ میں بیٹھ گئیں۔ مَیں بھی ایک طرف بیٹھ گیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کیا میرا بھائی یہاں ہے۔ ام ایمن نے کہا کہ آپؐ کا بھائی؟ اور آپؐ نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کی ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ کیونکہ ایسے رشتے میں شادی ہو سکتی ہے۔ بہرحال وہ سگا بھائی نہیںہے۔ آپ اندر تشریف لائے اور حضرت فاطمہؓ سے کہا میرے پاس پانی لاؤ۔ وہ اٹھیں اور گھر میں رکھے ہوئے ایک پیالے میں پانی لائیں۔ آپؐ نے اسے لیا اور اس میں کلی کی پھر حضرت فاطمہؓ سے فرمایا کہ آگے بڑھو وہ آگے ہوئیں۔ آپ نے ان پر اور ان کے سر پر کچھ پانی چھڑکا اور دعا دیتے ہوئے کہا۔

اَللّٰهُمَّ اِنِّي اُعِيْذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ

اے اللہ! اس کو اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا دوسری طرف رخ کرو۔ جب انہوں نے دوسری طرف رخ کیا تو آپ نے ان کے کندھوں کے درمیان پانی چھڑکا۔ پھر ایسا ہی حضرت علیؓ کے ساتھ کیا۔ حضرت علی ؓسے فرمایا اپنے اہل کے پاس جاؤ اللہ کے نام اور برکت کے ساتھ۔

اسی طرح حضرت علی ؓسے ایک روایت یوں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن میں وضو کیا۔ پھر اس پانی کو حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہؓ پر چھڑکا اور فرمایا:

اَللّٰہُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا فِیْ شَمْلِھِمَا۔

اے اللہ! ان دونوں میں برکت رکھ دے اور ان دونوں کے جمع ہونے میں برکت رکھ دے۔

حضرت عائشہؓ اور حضرت ام سَلَمہ ؓنے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ارشاد فرمایا کہ ہم فاطمہ کو تیار کریں۔ یہاں تک کہ ہم اس کو حضرت علی ؓکے پاس لے جائیں۔ چنانچہ ہم گھر کی طرف متوجہ ہوئے۔ ہم نے اس کو بطحا کے نواح کی نرم مٹی سے لیپا۔ پھر کھجور کے ریشوں سے دو تکیے بھرے۔ ہم نے اس کو اپنے ہاتھوں سے دھنا۔ پھر ہم نے کھجور اور منقہ کھانے کے لیے اور میٹھا پانی پینے کے لیے رکھا اور ایک لکڑی لی اور اس کو کمرے میں ایک طرف لگا دیا تا کہ اس پر کپڑے وغیرہ لٹکائے جا سکیں اور اس پر مشکیزہ لٹکایا جائے۔ یعنی کپڑے لٹکانے کے لیے اور مشکیزہ لٹکانے کے لیے وہ لکڑی کھڑی کی۔ ہم نے حضرت فاطمہؓ کی شادی سے اچھی کوئی شادی نہیں دیکھی۔ دعوت ولیمہ کھجور، جَو، پنیر اور حَیْسپر مشتمل تھا۔ حَیْس اس کھانے کو کہتے ہیں جو کھجور اور گھی اور پنیر وغیرہ سے ملا کے بنایا جاتا ہے۔ حضرت اسماء بنت عُمَیس بیان کرتی ہیں کہ اس زمانے میں اس دعوت ولیمہ سے بہتر کوئی ولیمہ نہیں ہوا۔

(شرح العلامہ الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 02 صفحہ 357تا 367ذکر تزویج علی بفاطمۃ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح باب الولیمة حدیث نمبر 1911)

(تاریخ الخمیس جزء2 صفحہ77 فی الوقائع من اول ھجرتہ ﷺ الی وفاتہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2009ء)

(طبقات الکبریٰ جزء8صفحہ19دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(لغات الحدیث جلد1 صفحہ172 کتاب الحاء)

حضرت فاطمہؓ اور حضرت علی ؓکی شادی کا تفصیلی تذکرہ کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اولاد میں سب سے چھوٹی تھیں جو حضرت خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئی اورآپؐ اپنی اولاد میں سب سے زیادہ حضرت فاطمہ ؓکوعزیز رکھتے تھے۔ اوراپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے وہی اس امتیازی محبت کی سب سے زیادہ اہل بھی تھیں۔ اب ان کی عمر کم وبیش پندرہ سال کی تھی اورشادی کے پیغامات آنے شروع ہوگئے تھے۔ سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے لیے حضرت ابوبکرؓ نے درخواست کی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عذر کر دیا۔ پھر حضرت عمرؓنے عرض کیا مگر ان کی درخواست بھی منظور نہ ہوئی۔ اس کے بعد ان دونوں بزرگوں نے یہ سمجھ کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ حضرت علی ؓکے متعلق معلوم ہوتا ہے حضرت علی ؓسے تحریک کی کہ تم فاطمہ کے متعلق درخواست کر دو۔ حضرت علی ؓنے جوغالباً پہلے سے خواہش مند تھے مگر بوجہ حیا خاموش تھے فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر درخواست پیش کر دی۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدائی وحی کے ذریعہ یہ اشارہ ہوچکا تھا کہ حضرت فاطمہؓ کی شادی حضرت علی ؓسے ہونی چاہیے۔ چنانچہ حضرت علی ؓنے درخواست پیش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق پہلے سے خدائی اشارہ ہوچکا ہے۔ پھر آپ نے حضرت فاطمہؓ سے پوچھا تو وہ بوجہ حیا کے خاموش رہیں۔ یہ بھی ایک طرح کا اظہارِ رضا مندی تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اورانصار کی ایک جماعت کوجمع کرکے حضرت علی ؓاورفاطمہ کا نکاح پڑھایا۔ یہ 2ہجری کی ابتدا یاوسط کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد جب جنگ بدر ہو چکی توغالباً ماہ ذوالحجہ 2؍ہجری میں رخصتانہ کی تجویز ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓکوبلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟

یہ باغ والا واقعہ جو پچھلی دفعہ بیان ہوا تھا اس شادی کے واقعہ سے پہلے کا ہے۔ یہ میں نے صحیح کہا تھا۔ حضرت علی ؓکو بلا کر دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس مہر کی ادائیگی کے لیے کچھ ہے یا نہیں؟ حضرت علی ؓنے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میرے پاس توکچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ زرہ کیاہوئی جو میں نے اس دن یعنی بدر کے مغانم میں سے تمہیں دی تھی؟ حضرت علی ؓنے عرض کیا وہ تو ہے۔ آپؐ نے فرمایا بس وہی لے آؤ۔ چنانچہ یہ زرہ چار سواسی درہم میں فروخت کردی گئی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی رقم میں سے شادی کے اخراجات مہیا کیے۔ جو جہیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کودیا وہ ایک بیل دار چادر، ایک چمڑے کا گدیلا جس کے اندرکھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ تھا اورایک روایت میں ہے کہ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کے جہیز میں ایک چکی بھی دی تھی۔ جب یہ سامان ہوچکا تومکان کی فکر ہوئی۔ حضرت علی ؓاب تک غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ؓسے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔ حضرت علی ؓنے عارضی طورپر ایک مکان کا انتظام کیا اوراس میں حضرت فاطمہؓ کارخصتانہ ہو گیا۔ اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگوا کر اس پر دعا کی اور پھر وہ پانی حضرت فاطمہؓ اورحضرت علی ؓ ہر دو پریہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا کہ

اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْھِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکَ لَھُمَا نَسْلَھُمَا

یعنی اے میرے اللہ!تو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اوران کے ان تعلقات میں برکت دے جودوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے اور پھر آپؐ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے۔ اس کے بعد جوایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حَارِثہ بن نُعمان انصاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں آپ ان سے فرماویں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کرچکے ہیں اب مجھے توانہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ حارثہ کوکسی طرح اس کا علم ہواتو وہ بھاگے ہوئے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ!میرا جو کچھ ہے وہ حضورؐ کا ہے اورواللہ جوچیز آپؐ مجھ سے قبول فرمالیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے اورپھر اس مخلص صحابی نے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کردیا اورحضرت علی ؓاور حضرت فاطمہؓ وہاں آ گئے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 455-456)

حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہؓ اپنی تنگدستی اور غربت کے باوجود زہد و قناعت کا نمونہ دکھایا کرتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں ذکر ہے کہ حضرت علی ؓنے بیان فرمایا کہ حضرت فاطمہؓ نے چکی چلانے سے اپنے ہاتھ میں تکلیف کی شکایت کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئیں اور آپؐ کو نہ پایا۔ آپ یعنی حضرت فاطمہؓ ،حضرت عائشہ ؓسے ملیں اور ان کو بتایا کہ کس طرح میں آئی تھی۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے حضرت فاطمہؓ کے اپنے ہاں آنے کا بتایا۔ حضرت علی ؓکہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم کھڑے ہونے لگے تو آپؐ نے فرمایا کہ اپنی جگہوں پر ٹھہرے رہو۔ پھر آپؐ ہمارے درمیان بیٹھ گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے قدموں کی ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں تم دونوں کو اس سے بہتر بات نہ بتاؤں جو تم نے مانگا ہے وہ یہ ہے کہ جب تم دونوں اپنے بستروں پر لیٹو تو چونتیس مرتبہ اللّٰہ اکبر کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللّٰہ کہو اور تینتیس دفعہ الحمدللّٰہ کہو۔ یہ تم دونوں کے لیے خادم سے زیادہ بہتر ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپؐ سے خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں اور کام کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا تم اس خادم کو ہمارے پاس نہیں پاؤ گی یعنی اس طرح تمہیں مجھ سے خادم نہیں ملے گا۔ آپؐ نہیں دینا چاہتے تھے۔ حالانکہ حضرت علی ؓکا بھی مال غنیمت میں سے حق بنتا تھا لیکن آپؐ نے نہیں دیا۔ آپؐ نے فرمایا کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتاؤں جو تیرے لیے خادم سے بہتر ہے؟ تم اپنے بستر پر جاتے ہوئے تینتیس دفعہ سبحان اللّٰہ کہو، تینتیس مرتبہ الحمدللّٰہ کہواور چونتیس دفعہ اللّٰہ اکبر کہو۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الذکر والدعاوالتوبۃ……باب التسبیح اوّل النہار و عند النوم حدیث نمبر6915، 6918)

حضرت مصلح موعود ؓآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان فرماتے ہوئے اس واقعےکو بخاری کے حوالہ سے یوں بیان فرماتے ہیں۔ حدیث یہ ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شکایت کی کہ چکی پیسنے سے انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ اسی عرصے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ غلام آئے۔ آپؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لے گئیں لیکن آپؐ کو گھر پر نہ پایا اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنی آمد کی وجہ سے اطلاع دے کر گھر لَوٹ آئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ ؓنے جناب صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہؓ کی آمد کی اطلاع دی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ میں نے آپؐ کو آتے دیکھ کر چاہا کہ اٹھوں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی جگہ لیٹے رہو۔ پھر ہم دونوں کے درمیان آ کر بیٹھ گئے یہاں تک کہ آپؐ کے قدموں کی خنکی میرے سینے پر محسوس ہونے لگی۔ جب آپؐ بیٹھ گئے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں تمہیں کوئی ایسی بات نہ بتاؤں جو اس چیز سے جس کا تم نے سوال کیا ہے بہتر ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تم اپنے بستروں پر لیٹ جاؤ تو چونتیس دفعہ تکبیر کہو، تینتیس دفعہ سبحان اللّٰہ کہو اور تینتیس دفعہ الحمدللّٰہ کہو۔ پس یہ تمہارے لیے خادم سے اچھا ہو گا۔ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اموال کی تقسیم میں ایسے محتاط تھے کہ باوجود اس کے کہ حضرت فاطمہؓ کو ایک خادم کی ضرورت تھی اور چکی پیسنے سے آپؓ کے ہاتھوں کو تکلیف ہوتی تھی مگر پھر بھی آپؐ نے ان کو خادم نہ دیا بلکہ دعا کی تحریک کی اور اللہ تعالیٰ کی طرف ہی متوجہ کیا۔ آپؐ اگر چاہتے تو حضرت فاطمہؓ کو خادم دے سکتے تھے کیونکہ جو اموال تقسیم کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے وہ بھی صحابہ میںتقسیم کرنے کے لیے آتے تھے اور حضرت علی ؓکا بھی ان میں حق ہو سکتا تھا اور حضرت فاطمہؓ بھی اس کی حقدار تھیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاط سے کام لیا اور نہ چاہا کہ ان اموال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو دے دیں کیونکہ ممکن تھا کہ اس سے آئندہ لوگ کچھ کا کچھ نتیجہ نکالتے اور بادشاہ اپنے لیے اموال الناس کو جائز سمجھ لیتے۔ پس احتیاط کے طور پر آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو ان غلاموں اور لونڈیوں میں سے جو آپؐ کے پاس اس وقت بغرض تقسیم آئیں کوئی نہ دی۔ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان اموال میں آپؐ کا اور آپؐ کے رشتہ داروں کا خدا تعالیٰ نے حصہ مقرر فرمایا ہے ان سے آپؐ خرچ فرما لیتے تھے اور اپنے متعلقین کو بھی دیتے تھے۔ ہاں جب تک کوئی چیز آپؐ کے حصہ میں نہ آئے اسے قطعاً خرچ نہ فرماتے اور اپنے عزیز سے عزیز رشتہ داروں کو بھی نہ دیتے۔ کیا دنیا کسی بادشاہ کی مثال پیش کر سکتی ہے جو بیت المال کا ایسا محافظ ہو۔ اگر کوئی نظیر مل سکتی ہے تو صرف اسی پاک وجود کے خدام میں سے ورنہ دوسرے مذاہب اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتے۔

(ماخوذ از سیرۃ النبی ؐ، انوار العلوم جلد 1صفحہ544-545)

حضرت علی بن ابو طالبؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے تو میں نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ جب وہ چاہے کہ ہمیں اٹھائے تو ہمیں اٹھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا کوئی جواب نہ دیا اور واپس تشریف لے گئے۔ نماز سے مراد تہجد تھی یعنی کہ نماز تہجد اگر نہیں پڑھتے، تہجد کے وقت اگر ہماری آنکھ نہیں کھلتی تو یہ اللہ کی مرضی ہے اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو ہمیں اٹھا دے اورجب اٹھا دیتا ہے تو ہم پڑھ لیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بحث نہیں کی اور واپس تشریف لے گئے۔ پھر میں نے آپؐ کو سنا جبکہ آپؐ واپس جا رہے تھے۔ آپؐ اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرما رہے تھے کہ

وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا

کہ انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے۔

(صحیح البخاری کتاب التہجد باب تحریض النبیﷺ علیٰ قیام اللیل والنوافل …… حدیث نمبر 1127)

حضرت مصلح موعودؓ اس واقعےکو بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’ایک دفعہ آپؐ رات اپنے داماد حضرت علیؓ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو؟ (یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اٹھ کر پڑھی جاتی ہے۔) حضرت علیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی منشاکے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے توپھر تہجد رہ جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے تھے۔

وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا۔

یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خدا تعالیٰ کا منشا ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القران ، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 389-390)

حضرت مصلح موعودؓ اس واقعےکو مزید کھول کے بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓاپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقعے پر جبکہ حضرت علی ؓنے آپ کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلے کا طرز پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے آپؐ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علی ؓغالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزہ اٹھاتے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھایا ہو گا وہ تو انہی کا حق تھا۔ اب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک باریک بین نظر محو حیرت ہو جاتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔ بخاری کی روایت ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے اور فاطمۃ الزہرا کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور فرمایا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ! ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں اور جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے۔ آپؐ اس بات کو سن کر لَوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا۔ پھر میں نے آپؐ سے سنا اور آپؐ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوئے تھے اور آپؐ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے۔ اللہ اللہ، کس لطیف طرز سے حضرت علی ؓکو آپؐ نے سمجھایا کہ آپؐ کو یہ جواب نہیں دینا چاہیے تھا۔ کوئی اَور ہوتا تو اول تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو پھر اپنے جواب کو دیکھو ۔کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو ردّ کر دو۔ یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے۔ چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے۔ اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔لیکن آپؐ نے ان دونوں طریقوں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے، نہ بحث کر کے حضرت علی ؓکو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح حیرت کا اظہار کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے۔ حقیقت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا کہہ دینا ایسے ایسے منافع اپنے اندر رکھتا تھا کہ جس کا عشر عشیر بھی کسی اَور کی سو بحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔

اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اول تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کو دین داری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے۔ بہت لوگ ہوتے ہیں جو خود تو نیک ہوتے ہیں، لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کا حال خراب ہوتا ہے اور ان میں یہ مادہ نہیں ہوتا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لوگوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا۔ یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پاس تمام اشیاء کو روشن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ بھی دوسروں کو تو نصیحت کرتے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لوگ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کرنا چاہتے تھے اور اس کا آپؐ تعہد بھی کرتے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے اور تربیتِ اعزّاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے جو اگر آپؐ میں نہ ہوتا تو آپؐ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جاتی۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ایک منٹ کے لیے بھی آپ اس پر شک نہیں کرتے تھے اور جیسا کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ دنیا کو اُلّو بنانے کے لیے اور اپنی حکومت جمانے کے لیے آپؐ نے یہ سب کارخانہ بنایا تھا ورنہ آپؐ کو کوئی وحی نہیں آتی تھی۔ یہ بات نہ تھی بلکہ آپؐ کو اپنے رسول اور خدا کے مامور ہونے پر ایسا ثلج قلب عطا تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپؐ بناوٹ سے کام لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جائے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجا لاتے ہیں جو اس نے فرض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کرنا مومنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جاتی ہے۔ اس وقت آپ کا جانا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کرتا ہے جو آپؐ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپؐ لوگوں کو چلانا چاہتے تھے۔ ورنہ ایک مفتری انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلنا ایک سا ہے، اپنی اولاد کو ایسے پوشیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی نصیحت نہیں کر سکتا یعنی تعلیم پر چلنا بےشک ایک ہے لیکن وہ نصیحت پوشیدہ وقت میں تو نہیں کر سکتا۔ یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔ یعنی کہ تعلیم پر چلنا یا نہ چلنا یہ ایک جیسا ہے لیکن نصیحت کرنا، رات کے وقت، پوشیدہ وقت میں نصیحت کرنا یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب یقین ہو کہ جو تعلیم ہے اس پر چلے بغیر انسان اس کے دین کے یا اس تعلیم کے جو اعلیٰ کمال ہیں ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کرنے کے لیے میں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک بات کے سمجھانے کے لیے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے۔ چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علی ؓنے آپؐ کے سوال کو اس طرح ردّ کرنا چاہا کہ جب ہم سو جائیں تو ہمارا کیا اختیار ہے کہ ہم جاگیں کیونکہ سویا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا۔ جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آگیا ہے اب میں فلاں فلاں کام کر لوں۔ اللہ تعالیٰ آنکھ کھول دے تو نماز ادا کر لیتے ہیں ورنہ مجبوری ہوتی ہے کیونکہ اس وقت الارم کی گھڑیاں نہ تھیں۔ اس بات کو سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت ہونی ہی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپ کو ایسا غافل نہ ہونے دیتا تھا کہ تہجد کا وقت گزر جائے اور آپ کو خبر نہ ہو۔ اس لیے آپؐ نے دوسری طرف منہ کر کے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے۔ یعنی تم کو آئندہ کے لیے کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہیے تھا۔ چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔ میں نے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا۔

(ماخوذ از سیرۃ النبی ؐ، انوار العلوم جلد 1 صفحہ 588 تا 590)

یہ ذکر ابھی چل رہا ہے۔ آئندہ بھی ہو گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔

آج کل جو پاکستان میں حالات ہیں مزید سخت ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ بعض حکومتی افسران جو ہیں مولوی کے پیچھے چل کے اور ان کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ہمیں جس حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لیے خاص طور پر دعائیں کریں اور ربوہ کے احمدی بھی پاکستان میں رہنے والے، دوسرے شہروں میں بسنے والے احمدی بھی ہر جگہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت میں رکھے اور ان کے شر سے محفوظ رکھے اور ان کے منصوبے جو نہایت بھیانک منصوبے اور خطرناک منصوبے ہیں ان سے بچا کے رکھے اور ان لوگوں کی اب پکڑ کے جلد سامان فرمائے۔

میں جمعہ کے بعد بعض جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ان کے بارے میں کچھ مختصر ذکر کر دیتا ہوں۔ پہلا ذکر مکرم کمانڈر چودھری محمد اسلم صاحب کا ہے جو کینیڈا کے تھے۔ 2؍نومبر 2020ء کو وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

کمانڈر صاحب 1929ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ گوجرانوالہ سے انہوں نے میٹرک کیا اور فرسٹ پوزیشن لی۔ پھر تعلیم الاسلام کالج اور گورنمنٹ ایف سی کالج سے ایف ایس سی کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ایس سی کیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی سرپرستی میں فزکس میں ایم ایس سی کرنے کی توفیق پائی۔ 1948ء میں فرقان فورس میں بھرتی ہو کر آزاد کشمیر میں متعین ہوئے جہاں انہیں مجاہد کشمیر کے سرٹیفکیٹ اورآزادیٔ کشمیر کے تمغے سے نوازا گیا۔ 1955ء میں مرحوم پاکستان نیوی میں بھرتی ہوئے جہاں انہیں پاکستان نیول اکیڈمی میں بطور ڈائریکٹر آف سٹڈیز ،کوہاٹ میں ڈپٹی پریذیڈنٹ آف انٹر سروسز سلیکشن بورڈ، نیول ہیڈ کوارٹر اسلام آباد میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر نیول ایجوکیشنل سروسز وغیرہ کلیدی عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم موصوف کو ایجوکیشنل سیکٹر میں نیوی کے نئے سکول اور کالجز کھولنے کی منصوبہ بندی کرنے کی بھی اور نیز بحریہ یونیورسٹی کے قیام میں بھی بنیادی کردار ادا کرنے کی توفیق ملی۔

پاکستان نیوی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد کینیڈا تشریف لے گئے اور ایک سال مشن ہاؤس ٹورنٹو میں وقف عارضی کیا۔ اس کے بعد 1993ء میں وقف بعد از ریٹائرمنٹ کی درخواست کی جسے حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے قبول فرمایا اور ان کی جو جماعت کی خدمات ہیں یہ بھی اٹھائیس سالوں پر محیط ہیں۔ اس دوران مرحوم کو بطور سیکرٹری جائیداد، سیکرٹری رشتہ ناطہ، ایڈیشنل سیکرٹری مشن ہاؤس اور معاون ہومیو پیتھی کلینک وغیرہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ مرحوم نہایت منکسرالمزاج ،نرم گفتار تھے۔ ہر کسی سے شفقت سے پیش آتے تھے۔ نمازوں کی پابندی کرنے والے۔ خلافت کے ساتھ والہانہ تعلق اور عشق رکھنے والے۔ زندگی وقف کرنے کے بعد اپنا ہر لمحہ جماعت کی خدمت میں گزارنے کی بھرپور کوشش کرتے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے بہت بیمار تھے تاہم جب بھی طبیعت سنبھلتی فوراً مشن ہاؤس آ جاتے اور آخر دم تک خدمت دین میں سرگرم عمل رہے۔ پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور تین بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی اولاد میں جاری فرمائے۔ ان کی بہو نصرت جہاں کہتی ہیں کہ نہایت شفیق، رحم دل اور نیک انسان تھے۔ نہایت ایمانداری سے وقف کو نبھایا۔ ایک آئیڈیل خاوند تھے اور باپ تھے۔ وفات سے پہلے تک اپنے بچوں کو نصیحت کرتے رہے کہ جماعت اور خدا سے تعلق اور نمازوں میں باقاعدگی بہت ضروری ہے اور ساری عمر خود بھی تہجد اور نمازوں کو باقاعدگی سے ادا کیا۔

دوسرا جنازہ محترمہ شاہینہ قمر صاحبہ اہلیہ قمر احمد شفیق صاحب جو نظارت علیا کے ڈرائیور ہیں۔ ان کا ہے۔ یہ شاہینہ قمر صاحبہ اور ان کے بیٹے عزیز ثمر احمد قمر 12؍نومبر2020ء کو دوپہر سوا ایک بجے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے۔اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

وفات کے وقت محترمہ کی عمر اڑتیس سال تھی اور عزیزم ثمر احمد قمر کی عمر17سال تھی۔ شاہینہ قمر صاحبہ نے اپنے خاوند اور دوبیٹیوں اور ایک بیٹے کے علاوہ تین بھائی بھی سوگوار چھوڑے ہیں۔ ان کی بیٹی شاہینہ قمر کہتی ہیں کہ میری ماں بہت نیک خاتون تھیں۔ مجھے ہر وقت نیکیوں کی تلقین کرتی رہتیں۔ خود بھی ہمیشہ نیکیوں میں پہل کرتی تھیں اور ہر بات مجھ سے شیئر کرتی تھیں۔ میری بہت اچھی دوست تھیں اور اپنی ساری باتیں مجھے بتایا کرتی تھیں اور دوسری بات یہ خصوصی بیان کی ہے کہ ماشاء اللہ انہیں جماعت کے کاموں سے بہت لگاؤ تھا اور خدمت کو ہر وقت تیار رہتی تھیں۔ ان کے خاوند نے بھی لکھا ہے کہ باوجود کم تعلیم کے گھر کو بھی بڑی اچھی طرح سنبھالا اور بچوں کی بھی اعلیٰ رنگ میں تربیت کی۔

پھر ان کے بیٹے عزیزم ثمر احمد قمر ابن قمر احمد شفیق صاحب کا ذکر ہے اس کی ان کی والدہ کے ساتھ ہی ایکسیڈنٹ میں وفات ہو گئی تھی۔ تعلیم الاسلام کالج میں فرسٹ ایئر کا طالبعلم تھا اور اللہ کے فضل سے پڑھائی میں ٹھیک تھا۔ خدام کے ساتھ ڈیوٹیاں بھی بڑے جوش اور جذبے سے دیا کرتا تھا۔ جماعتی کاموں میں بہت فعال تھا۔ جب بھی زعیم کی طرف سے بلاوا آنا فوراً ہر کام چھوڑ کے چلے جانا۔ ان کے والد لکھتے ہیں کہ بعض دفعہ تین تین چار چار دن کے لیے میں سفر پہ رہتا تو مجھے کہتا کہ ابو آپ فکر نہ کریں میں گھر کو سنبھال لوں گا، آپ بےشک آرام سے اپنی ڈیوٹی دیا کریں ۔اور واقعۃًایسا ہی تھا۔ بہت ذمہ دار بچہ تھا۔ ثمر احمد قمر کی بڑی بہن ثمرین کہتی ہیں میرے بھائی ماشاء اللہ بہت اچھے تھے۔ غصہ تو انہیں آتا ہی نہیں تھا۔ میں اگر کبھی ڈانٹ بھی دیتی تو بالکل بھی غصہ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ناراض ہوتے تھے بلکہ بچوں سے اور بہن بھائیوں سے بہت پیار کا تعلق تھا۔ باقی چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی یہی لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور اس ساری فیملی کو، چھوٹے بچوں کو بھی اور ان بچوں کے والد کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کا ایک بیٹاوفات پا گیا اور اہلیہ بھی وفات پا گئیں۔

اگلا جنازہ مکرمہ سعیدہ افضل کھوکھر صاحبہ اہلیہ محمد افضل کھوکھر صاحب شہید کا ہے جو اشرف محمود کھوکھر صاحب شہید کی والدہ تھیں۔ ان کے خاوند بھی شہید ہوئے تھے، بیٹے بھی شہید ہوئے۔ 12؍ستمبر 2020ء کو کینیڈا میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

میاں اور بیٹے کی شہادت کے بعد آپ کو بہت کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ نے ہر مشکل کا نہایت صبر اور حوصلے کے ساتھ مقابلہ کیا۔ بہت وقار کے ساتھ زندگی گزاری۔ کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہ ہوتا۔ تین بچیوں کی شادیوں کا فریضہ انجام دیا۔ چند سال قبل انہیں اپنے ایک اَور جواں سال بیٹے آصف محمود کھوکھر کی اچانک وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا۔ اس موقعےپر بھی بڑے صبر سے کام لیا اور بہت صبر کا نمونہ دکھایا۔ اپنے تمام عزیزوں سے پیار کا سلوک کرنے والی تھیں۔ مہمان نواز تھیں۔ غریب پرور تھیں۔ خلافت کے ساتھ عقیدت اور احترام اور پیار کا تعلق تھا۔ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔ ساری زندگی اپنے والدین، شہید خاوند اور اپنے بیٹے اور خاندان کے دیگر بزرگوں کے نام پر صدقہ اور خیرات کرتی رہیں۔ آپ کے والدین مکرم مرزا فضل کریم صاحب اور صغریٰ بیگم صاحبہ اسلام اور احمدیت کے شیدائیوں میں سے تھے۔ آپ محترم مرزا مجیب احمد صاحب اور مرزا فضل الرحمٰن صاحب ایسٹ لنڈن کی سب سے بڑی ہمشیرہ تھیں۔ مبارک کھوکھر صاحب آف لاہور کی بڑی بھاوجہ تھیں۔ مبارک صدیقی صاحب کی بڑی خالہ تھیں۔ مرحومہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ پسماندگان میں ایک بیٹا مکرم بلال احمد کھوکھر صاحب اور تین بیٹیاں طیبہ قریشی، طاہرہ ماجداور ثمینہ کھوکھر چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان بچوں کو بھی اپنی ماں کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

(الفضل انٹرنیشنل 25؍دسمبر2020ءصفحہ5تا10)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button