خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم جنوری2021ء
تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور آپس میں تفرقہ نہ کرنا کیونکہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ باہمی تعلقات کی اصلاح کرنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے (حضرت علیؓ)
آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفۂ راشد اور داماد ابو تراب، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے حالات و واقعات کا بیان
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ہمیشہ کاربند رہو۔ اس کو کبھی نہ چھوڑنا ورنہ تم میں سے بُرے تمہارے حاکم بن جائیں گے۔ پھر تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی، جو آج کل مسلمان ملکوں کا حال ہے
دعا کریں کہ یہ سال جماعت کے لیے، دنیا کے لیے، انسانیت کے لیے بابرکت ہو
یہ آفات خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے حقوق و فرائض بھولنے اور ادا نہ کرنے بلکہ ظلم میں بڑھنے کی وجہ سے آتی ہیں
کوئی بعید نہیں کہ اصل ہتھیاروں کی جنگ بھی ہو جائے جو نہایت خوفناک جنگ ہو گی
یہ سال مبارکبادوں کا سال اُس وقت بنے گا جب ہم اپنے فرائض کو ادا کرنے والے ہوں گے
ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے سپرد ایک بہت بڑا کام کیا گیا ہے
دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لائیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند کیا تھا
ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بچہ، بوڑھا اس بات کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کرے کہ اس سال میں نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہے
آج دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے کے لیے اگر کوئی کام کررہا ہے تو وہ صرف احمدی ہیں
ہمارا کام ہے کہ دعاؤں سے اپنی عبادتوں کو مزید سجائیں اور اگر ہم یہ کر لیں گے تو پھر ہی ہم کامیاب ہیں
ہماری خوشیاں چاہے وہ سال کے شروع کی ہوں یا عید کی اصل تو اس وقت ہوں گی جب ہم دنیا میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا لہرانے والے بنیں گے جسے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے
اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہر احمدی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور یہ سال ہر احمدی کے لیے، ہر انسان کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا سال بن کر آئے
سالِ نَو کے آغاز پر سربراہانِ مملکت اور جماعت احمدیہ کے لیے زرّیں نصائح
الجزائر اور پاکستان میں احمدیوں کی شدید مخالفت کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم جنوری2021ء بمطابق یکم صلح 1400 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر چل رہا ہے۔ حضرت مصلح موعوؓد حضرت علیؓ کی شہادت کے پس منظر میں بیان فرماتے ہیں کہ ’’ابھی معاملات پوری طرح سلجھے نہ تھے کہ خوارج کے گروہ نے یہ مشورہ کیا کہ اس فتنہ کو اس طرح دور کرو کہ جس قدر بڑے آدمی ہیں ان کو قتل کر دو۔ چنانچہ ان کے دلیر‘‘ یعنی بہادر لوگ جو تھے، بعض جرأت والے لوگ جو تھے ’’یہ اقرار کر کے نکلے کہ ان میں سے ایک حضرت علیؓ کو، ایک حضرت معاویہؓ کو اور ایک عمرو بن العاصؓ کو ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں قتل کر دے گا۔ جو حضرت معاویہؓ کی طرف گیا تھا اس نے تو حضرت معاویہؓ پر حملہ کیا لیکن اس کی تلوار ٹھیک نہیں لگی اور حضرت معاویہ صرف معمولی زخمی ہوئے۔ وہ شخص پکڑا گیا اور بعد ازاں قتل کیا گیا۔ جو عمرو بن العاصؓ کو مارنے گیا تھا وہ بھی ناکام رہا کیونکہ وہ بوجہ بیماری نماز کے لیے نہ آئے تھے اور جو شخص ان کو نماز پڑھانے کے لیے آیا تھا‘‘ یعنی اس وقت حضرت عمرو بن عاصؓ کی جگہ ’’اس نے اس کو مار دیا۔‘‘ جو عمرو بن عاصؓ پہ حملہ کرنے گیا تھا ‘خود پکڑا گیا اور بعد ازاں مارا گیا۔ جو شخص حضرت علیؓ کو مارنے کے لیے نکلا تھا اس نے جبکہ آپؓ صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہونے لگے آپؓ پر حملہ کیا اور آپ خطرناک طور پر زخمی ہوئے۔ آپؓ پر حملہ کرتے وقت اس شخص نے یہ الفاظ کہے کہ اے علیؓ! تیرا حق نہیں کہ تیری ہر بات مانی جایا کرے بلکہ یہ حق صرف اللہ کو ہے۔‘‘
(انوار خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 202)
حضرت علیؓ کی شہادت کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ حضرت عبیداللہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا اے علی!کیا تم جانتے ہو کہ اوّلین اور آخرین میں سے سب سے بدبخت شخص کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسولؐ سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ اس پر آپؐ نے فرمایا کہ پہلوں میں سب سے بدبخت شخص حضرت صالحؑ کی اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا تھا اور اے علی! آخرین میں سب سے بدبخت وہ شخص ہو گا جو تمہیں نیزہ مارے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کی طرف اشارہ فرمایا جہاں آپؓ کو نیزہ مارا جائے گا۔
حضرت علیؓ کی لونڈی اُمّ جعفر کی روایت ہے کہ میں حضرت علیؓ کے ہاتھوں پر پانی ڈال رہی تھی کہ آپؓ نے اپنا سر اٹھایا اور اپنی داڑھی کو پکڑ کر اسے ناک تک بلند کیا اور داڑھی کو مخاطب کر کے فرمایا واہ واہ! تیرے کیا کہنے۔ تم ضرور خون میں رنگی جاؤ گی۔ پھر جمعہ کے دن آپ شہید کر دیے گئے۔
حضرت علیؓ کا واقعہ شہادت ایک جگہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ ابن حَنَفِیَّہروایت کرتے ہیں کہ میں اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ حمام میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے پاس ابن مُلْجَمآیا۔ جب وہ داخل ہوا تو گویا حسنین نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اور کہا کہ تیری یہ جرأت کہ اس طرح یہاں ہمارے پاس آئے۔ میں نے ان دونوں سے کہا کہ تم اسے منہ نہ لگاؤ۔ قسم سے کہ یہ تمہارے خلاف جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ حضرت علیؓ پر حملہ کے وقت ابنِ مُلْجَمکو قیدی بنا کر لایا گیا تو ابنِ حَنَفِیَّہنے کہا میں تو اسے اس دن ہی اچھی طرح جان گیا تھا جس دن یہ حمام میں ہمارے پاس آیا تھا۔ اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ یہ قیدی ہے۔ لہٰذا اس کی اچھی طرح مہمان نوازی کرو اور اسے عزت کے ساتھ ٹھہراؤ۔ اگر میں زندہ رہا تو یا تو اسے قتل کروں گا یا اسے معاف کروں گا اور اگر میں مر گیا تو اسے میرے قصاص میں قتل کر دینا اور حد سے نہ بڑھنا ۔ یقیناً اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
حضرت ابن عباسؓ کے آزاد کردہ غلام قُثَمسے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے میرے بڑے بیٹے کو اپنی وصیت میں لکھا کہ اس یعنی ابنِ مُلْجَمکے پیٹ اور شرم گاہ میں نیزہ نہ مارا جائے۔ لوگوں نے بیان کیا کہ خوارج میں سے تین آدمیوں کو نامزد کیا گیا تھا عَبدُالرحمٰن بن مُلْجَم مُرَادِی جوقبیلہ حِمْیَرسے تھا اور اس کا شمار قبیلہ مُرَاد میں ہوتا تھا جو کِنْدَہ کے خاندان بَنُو جَبَلَہ کا حلیف تھا اور بُرَک بن عبداللہ تَمِیْمِی اور عَمْرو بن بُکَیر تَمِیْمِی۔ یہ تینوں مکّہ میں جمع ہوئے اور انہوں نے پختہ عہد و پیمان کیے کہ وہ تین آدمیوں یعنی حضرت علی بن ابوطالبؓ، حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ اور حضرت عمرو بن عاص ؓکو ضرور قتل کریں گے، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ یہ نام ان تین قتل کرنے والوں کے تھے جس کا واقعہ حضرت مصلح موعودؓ نے شروع میں بیان کیا تھا، اور لوگوں کو ان سے نجات دلائیں گے۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم نے کہا مَیں علی بن ابوطالب کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں۔ بُرَکْنے کہا مَیں معاویہ کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں اور عمرو بن بُکَیرنے کہا مَیں تمہیں عمرو بن عاص سے نجات دلاؤں گا۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات پر باہم پختہ عہد و پیمان کیا اور ایک دوسرے کو یقین دلایا کہ وہ اپنے نامزد کردہ شخص کو قتل کرنے کے عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور وہ اس تک پہنچے گا یہاں تک کہ اسے قتل کر دے یا اس راہ میں اپنی جان دے دے یعنی اس حد تک وہ جائیں گے یا تو ان تینوں کو قتل کر دیں گے یا اپنی جان دے دیں گے، واپس نہیں آئیں گے۔ انہوں نے آپس میں رمضان کی سترھویں رات اس غرض کے لیے مقرر کی۔ پھر ان میں سے ہر شخص اس شہر کی طرف روانہ ہو گیا جس میں اس کا مطلوبہ شخص رہتا تھا یعنی جسے اس نے قتل کرنا تھا۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَمکوفہ آیا اور اپنے خارجی دوستوں سے ملا مگر ان سے اپنے قصد کو پوشیدہ رکھا۔ وہ انہیں ملنے جاتا اور وہ اسے ملنے آتے رہے۔ اس نے ایک روز تَیْمُ الرِّبَابقبیلہ کی ایک جماعت دیکھی جس میں ایک عورت قَطَام بنتِ شِجْنَہ بن عَدِیتھی۔ حضرت علیؓ نے جنگ نَہْرَوَان میں اس کے باپ اور بھائی کو قتل کیا تھا۔ وہ عورت ابن مُلْجَمکو پسند آئی تو اس نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا۔ اس نے کہا میں اس وقت تک تجھ سے نکاح نہ کروں گی جب تک تُو مجھ سے ایک وعدہ نہ کرے۔ ابن مُلْجَمنے کہا کہ تُو جو مانگے گی میں وہ تجھے دوں گا۔ اس نے کہا کہ تین ہزار اور علی بن ابی طالب کا قتل۔ درہم تین ہزار ہوں گے اور علی بن ابوطالب کا قتل۔ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اس شہر میں علی بن ابوطالب کو قتل کرنے کے واسطے ہی آیا ہوں اور میں تجھے وہ ضرور دوں گا جو تُو نے مانگا۔ پھر ابنِ مُلْجَم، شَبِیْب بن بَجَرَة اَشْجَعِی سے ملا اور اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا اور اپنے ساتھ رہنے کا کہا۔ شَبِیْبنے اس کی یہ بات مان لی۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَم نے وہ رات جس کی صبح کو اس نے حضرت علیؓ کو شہید کرنے کا ارادہ کیا تھا اَشْعَثْ بن قَیْس کِنْدِی کی مسجد میں اس سے سرگوشی کرتے ہوئے گزاری۔ طلوع فجر کے قریب اَشْعَثْ نے اسے کہا، اٹھو صبح ہو گئی ہے۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَماور شَبِیْب بن بَجَرَة کھڑے ہو گئے اور اپنی تلواریں لے کر اس تھڑے کے بالمقابل آ کر بیٹھ گئے جہاں سے حضرت علیؓ نکلتے تھے۔ حضرت حسن بن علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں صبح سویرے حضرت علیؓ کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اس وقت حضرت علیؓ نے فرمایا: میں رات بھر اپنے گھر والوں کو جگاتا رہا پھر بیٹھے بیٹھے میری آنکھوں پر نیند غالب آ گئی تو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یعنی حضرت علیؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے آپ کی اُمّت کی طرف سے ٹیڑھے پن اور شدید جھگڑے کا سامنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے خلاف اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ میں نے کہا: اے اللہ! مجھے ان کے بدلے میں وہ دے جو ان سے بہتر ہو اور ان کو میرے بدلے وہ دے جو مجھ سے بدتر ہو۔ اتنے میں ابنِ نَبَّاحْ مؤذن آئے اور کہا کہ نماز کا وقت ہو گیاہے۔ حضرت حسنؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کا ہاتھ پکڑا تو وہ کھڑے ہو کر چلنے لگے۔ ابنِ نَبَّاحْآپؓ کے آگے تھے اور مَیں پیچھے۔ جب آپؓ دروازے سے باہر نکلے تو آپؓ نے آواز دی کہ اے لوگو! نماز، نماز۔ صلوٰة، صلوٰة کی آواز دیتے تھے۔ آپؓ ہرروز اسی طرح کیا کرتے تھے۔ جب آپ نکلتے تو آپ کے ہاتھ میں کوڑا ہوتا تھا اور آپؓ اُسے دروازوں پہ مار کےلوگوں کو جگایا کرتے تھے۔ عین اس وقت وہ دونوں حملہ آور آپؓ کے سامنے نکل آئے۔ عینی شاہدوں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ میں نے تلوار کی چمک دیکھی اور ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اے علی !حکم اللہ کے لیے ہے نہ کہ تمہارے لیے۔ پھر مَیں نے دوسری تلوار دیکھی۔ پھر دونوں نے مل کر وار کیا۔ عبدالرحمٰن بن مُلْجَمکی تلوار حضرت علیؓ کی پیشانی سے سر کی چوٹی تک پڑی اور دماغ تک پہنچ گئی جبکہ شَبِیب کی تلوار دروازے کی لکڑی پر جا لگی۔ میں نے حضرت علیؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ آدمی تم سے بھاگنے نہ پائے۔ لوگ ہر طرف سے ان پر ٹوٹ پڑے مگر شَبِیْببچ کر نکل گیا جبکہ عبدالرحمٰن بن مُلْجَمگرفتار کر لیا گیا اور اسے حضرت علیؓ کے پاس پہنچا دیا گیا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اسے اچھا کھانا کھلاؤ اور نرم بستر دو۔ اگر میں زندہ رہا تو میں اس کا خون معاف کرنے یا قصاص لینے کا زیادہ حق دار ہوں گا اور اگر مَیں فوت ہو گیا تو اسے بھی قتل کر کے میرے ساتھ ملا دینا۔ میں رب العالمین کے پاس اس سے جھگڑوں گا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد ۔جلد3صفحہ25تا27 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
یعنی پھر آپؓ یہ معاملہ اللہ کے حضور میں پیش کریں گے۔
جب حضرت علیؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے وصیت کی۔ آپ کی وصیت یہ تھی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ یہ وہ وصیت ہے جو علی بن ابی طالب نے کی ہے۔ علی نے یہ وصیت کی ہے کہ وہ گواہی دیتاہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ یکتا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت اوردین حق دے کر مبعوث فرمایا تھا تا کہ وہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دیں خواہ یہ بات مشرکین کو بُری ہی لگے۔ یقیناً میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ اس کے بعد اے حسن، اپنے بیٹے کو مخاطب فرمایا کہ مَیں تجھے اور اپنی تمام اولاد اور اپنے تمام گھر والوں کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں جو تمہارا پروردگار ہے اور یہ کہ تم حالتِ اسلام میں ہی دنیا سے رخصت ہونا۔ تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا اور آپس میں تفرقہ نہ کرنا کیونکہ میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ باہمی تعلقات کی اصلاح کرنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ (یہ بڑی اہم بات ہے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ باہمی تعلقات کی اصلاح کرنا نفل نمازوں اور روزوں سے بہتر ہے۔ آپس میں صلح صفائی سے رہنا اصلاح کرنا اور کروانا یہ بہت بڑی نیکی ہے۔) تم اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس سے اللہ تعالیٰ تم پر حساب آسان فرما دے گا۔ یتیموں کے معاملات میں اللہ سے ڈرنا۔ نہ تو انہیں اس بات پر مجبور کرنا کہ وہ اپنی زبان سے تم سے مدد طلب کریں اور نہ اس بات پر کہ وہ تمہارے سامنے ضائع ہو جائیں۔ پڑوسیوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے۔ آپ ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کی وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں گمان ہوا کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑوسیوں کو وارث ہی نہ بنا دیں۔ قرآن کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔ قرآن پر عمل کرنے میں کہیں دوسرے تم پر سبقت نہ لے جائیں۔ نماز کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو کیونکہ یہ تمہارے دین کا ستون ہے۔ اپنے رب کے گھر کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور زندگی بھر اسے خالی نہ ہونے دو کیونکہ اگر وہ خالی چھوڑ دیا گیا تو اس جیسا کوئی گھر تمہیں نہ ملے گا ۔ اور جہاد فی سبیل اللہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو اور اپنی جانوں اور مالوں سے جہاد کرو۔ اور زکوٰة کے بارے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ یہ رب کے غصہ کو بجھاتی ہے۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ تمہارے درمیان کسی پر ظلم نہ کیا جائے۔ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں وصیت فرمائی ہے۔ اور فقراء اور مساکین کے بارہ میں بھی اللہ سے ڈرو اور انہیں اپنے سامان معیشت میں شریک کرو۔ اور ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو جن کے مالک تمہارے داہنے ہاتھ ہوئے ہیں یعنی جن کی ذمہ واری تمہارے سپرد کی گئی ہے ان کے معاملات کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرو۔ نماز کی حفاظت کرو۔ نماز کی حفاظت کرو۔ فرمایا اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی ملامت کرنے والے کا خوف مت کرو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے ہونی چاہیے۔( بہت اہم چیز ہے۔) وہ خدا تمہارے لیے کافی ہو گا اس شخص کے خلاف جو تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے اور تمہارے خلاف بغاوت کرے۔ اور لوگوں سے نیک بات کہو جیساکہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کو نہ چھوڑو ورنہ تم میں سے بُرے تمہارے حاکم بن جائیں گے۔( بڑی اہم بات ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نیک کاموں کا کہنا اور بُرے کاموں سے روکنا اس پر ہمیشہ کاربند رہو۔ اس کو کبھی نہ چھوڑنا ورنہ تم میں سے بُرے تمہارے حاکم بن جائیں گے۔) پھر تم دعا کرو گے مگر تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی۔ (جو آج کل مسلمان ملکوں کا حال ہے۔ )ایک دوسرے سے رابطہ اور تعلق رکھو اور تکلفات کے بغیر ایک دوسرے کے کام آؤ۔ خبردار! ایک دوسرے سے دشمنیاں نہ بڑھاؤ، نہ قطع تعلق کرو اور نہ تفرقہ کرو اور نیکی اور تقویٰ میں باہم تعاون کرو اور گناہ اور سرکشی میں تعاون نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ اے اہل بیت کے معزز افراد! اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمہارے ذریعہ حفاظت کرے یعنی تمہارے نیک نمونے کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گویا ہمیشہ زندہ رہیں۔ میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور تم پر سلام اور اللہ کی رحمت بھیجتا ہوں۔
(تاریخ الطبری جلد3 صفحہ158 سنۃ40۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
ابوسِنَانکا بیان ہے کہ جب حضرت علیؓ زخمی تھے تو وہ ان کی عیادت کے لیے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ اے امیر المومنین! آپ کی اس زخمی حالت پر ہمیں بہت تشویش ہو رہی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا لیکن خدا کی قسم! مجھے اپنے اوپر کوئی تشویش نہیں ہے کیونکہ صادق و مصدوق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بتا دیا تھا کہ تمہیں اس اس جگہ پر زخم آئیں گے اور آپؓ نے اپنی کنپٹیوں کی طرف اشارہ کیا پھر وہاں سے خون بہے گا حتی کہ تیری داڑھی رنگین ہو جائے گی اور ایسا کرنے والا اس امّت کا سب سے بڑا بدبخت شخص ہو گا جیسا کہ اونٹنی کی کونچیں کاٹنے والا قوم ثمود کا سب سے بڑا بدبخت تھا۔
(المستدرک علی الصحیحین۔ جزء 3 صفحہ 327 کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر اسلام امیر المومنین علی حدیث نمبر4648مطبوعہ دار الفکر 2002ء)
ایک روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے قاتل اِبنِ مُلْجَمکے بارے میں فرمایا اس کو بٹھاؤ۔ اگر میں مر گیا تو اسے قتل کر دینا مگر اس کا مُثْلَہ نہ کرنا اور اگر مَیں زندہ رہا تو مَیں خود اس کی معافی یا قصاص کا فیصلہ کروں گا۔
(الاستیعاب جلد 3صفحہ 219، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002)
حضرت مصلح موعودؓ اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ ’’تاریخوں میں لکھا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ایک شخص نے خنجر کے ساتھ حملہ کیا اور آپ کا پیٹ چاک کر دیا وہ پکڑا گیا۔‘‘ بہرحال آپ نے یہ لکھا ہےکہ پیٹ چاک کیا۔ سرکا زخم بھی تھا۔ شایدپیٹ پہ بھی زخم ہوا ہو یا ویسے ہی آپ کا خیال تھا یا محاورةً بولا۔ کیونکہ اکثر روایتیں بہرحال سر کے زخم کی آتی ہیں۔ وہ پکڑا گیا ’’تو صحابہ نے آپ سے پوچھا کہ ہم اس کے ساتھ کیا سلوک کریں۔ آپ نے حضرت امام حسنؓ کو بلوایا اور وصیت کی کہ اگر میں مر جاؤں تو میری جان کے بدلے اس کی جان لے لی جائے لیکن اگر میں بچ جاؤں تو پھر اسے قتل نہ کیا جائے۔‘‘
(خطبات محمود جلد 16صفحہ428)
عَمْرو ذِی مُرْ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علیؓ کو تلوار کے زخم آئے تو میں آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؓ نے اپنا سر لپیٹا ہوا تھا۔ میں نے عرض کیا اے امیرالمومنین! مجھے اپنا زخم دکھائیں۔ آپؓ نے زخم سے کپڑا کھولا تو مَیں نے عرض کیا ہلکا سا زخم ہے اور کچھ نہیں ہے۔ آپؓ نے فرمایا: میں تم لوگوں سے جدا ہونے والا ہوں۔ اس پر آپ کی صاحبزادی اُمّ کلثوم پردے کے پیچھے سے رو پڑیں۔ آپؓ نے اسے فرمایا چپ ہو جاؤ۔ اگر تم وہ دیکھ لو جو مَیں دیکھ رہا ہوں تو نہ روؤ۔ میں نے عرض کی کہ اے امیر المومنین !آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟ فرمایا یہ فرشتوں اور نبیوں کے وفد ہیں اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو فرما رہے ہیں (یعنی ایک نظارہ میں دیکھ رہا ہوں کہ فرشتوں اور نبیوں کے وفد ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں ہیں ۔ آپؐ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں)کہ اے علی! خوش ہو جاؤ کیونکہ جس طرف تم جا رہے ہو وہ اس سے بہتر ہے جس میں تم موجود ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت علیؓ اپنی وصیت سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں آپ سب کو السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کہتا ہوں۔ اس کے بعد کوئی بات نہیں کی سوائے لا الہ الا اللّٰہ کے کلمہ کے، یہاں تک کہ آپ کی روح قبض ہو گئی۔
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ114-115 ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
جب حضرت علی بن ابوطالب ؓکی وفات ہوئی تو حضرت حسن بن علی ؓمنبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو !آج کی رات ایک ایسے شخص کی وفات ہوئی ہے کہ نہ اس سے پہلے لوگ اس سے سبقت لے جا سکے اور نہ بعد میں آنے والے اس کا مقام پا سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے کسی مہم پر بھیجتے تو جبرئیل اس کے دائیں طرف اور میکائیل اس کے بائیں طرف ہوتے تھے اور وہ واپس نہ لَوٹتا تھا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح نہ عطا کر دیتا تھا۔ اس نے صرف سات سو درہم ترکہ چھوڑا ہے۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ اس رقم سے غلام خریدے اور اس کی روح اسی رات کو قبض کی گئی جس رات کو حضرت عیسیٰ ؑکی روح کا رفع ہوا تھا یعنی ستائیس رمضان المبارک کی رات۔ ایک اَور روایت میں ہے حضرت علیؓ کی شہادت کی تاریخ سترھویں رمضان کی رات سن چالیس ہجری بیان ہوئی ہے۔ یہ چالیس ہجری کا سال تھا اور آپ کا دور خلافت چار سال ساڑھے آٹھ ماہ رہا۔
(الطبقات الکبری لابن سعد جلد 3 صفحہ 28 ذکر علی ابن ابی طالب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ لابن حجر عسقلانی جلد 04صفحہ468ذکر علی بن ابی طالب ، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2005 ء)
حضرت مصلح موعودؓ اس واقعہ کو بیان فرماتے ہیں۔ طبقات ابن سعد کی جلد ثالث میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسنؓ سے روایت کی گئی ہے کہ آپؓ نے فرمایا کہ اے لوگو !آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اس کی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے اور نہ بعد کو آنے والے پہنچیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو جبرئیل اس کے دائیںطرف ہوتے تھے اور میکائیل بائیں طرف۔ پس وہ بِلا فتح حاصل کیے واپس نہیں ہوتا تھا۔ بغیر فتح حاصل کیے واپس نہیں ہوتا تھا اور اس نے صرف سات سو درہم اپنا ترکہ چھوڑا ہے جس سے اس کا ارادہ تھا کہ ایک غلام خریدے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات عیسیٰ بن مریم ؑکی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی تھی یعنی رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو۔
(ماخوذ از دعوۃ الامیر، انوار العلوم جلد 7صفحہ 348)
حضرت علیؓ کو ان کے دونوں بیٹوں اور حضرت عبداللہ بن جعفر ؓنے غسل دیا اور آپؓ کے بیٹے حضرت حسنؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اور نماز جنازہ میں چار تکبیرات کہیں۔ آپ کو تین کپڑوں کا کفن دیا گیا جس میں قمیص نہیں تھی۔ آپ کی تدفین سحری کے وقت ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ کے پاس کچھ متبرک مُشک تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو لگائے گئے مُشک سے بچا تھا اور حضرت علیؓ کی وصیت تھی کہ وہ مُشک آپ کی میت کو لگایا جائے۔
آپؓ کی عمر میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے کہا آپ کی عمر ستاون سال تھی، بعض کے نزدیک اٹھاون سال تھی، بعض کے نزدیک پینسٹھ سال تھی، بعض کے نزدیک تریسٹھ سال تھی۔ تا ہم اکثریت کے نزدیک تریسٹھ سال والی روایت زیادہ درست تھی۔
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ115 ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
حضرت علیؓ کا مزار کہاں واقع ہے؟ اس بارے میں بھی سوال اٹھتا ہے۔ اس کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں متفرق روایات ملتی ہیں جو یوں ہیں۔ حضرت علیؓ کو رات کے وقت کوفہ میں دفن کیا گیا اور ان کی تدفین کو مخفی رکھا گیا۔ حضرت علیؓ کوکوفہ کی جامع مسجد میں دفن کیا گیا۔ حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما نے حضرت علیؓ کی لاش کو مدینہ منتقل کیا اور حضرت فاطمہؓ کی قبر کے پاس بقیع میں دفن کیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ جب ان دونوں نےحضرت علیؓ کی لاش کو ایک صندوق میں ڈال کر اونٹ پر رکھا تو اونٹ گم ہو گیا۔ اس اونٹ کو طَے قبیلہ نے پکڑا۔ وہ اس صندوق کو مال سمجھ رہے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ صندوق میں لاش ہے تو وہ اس کو پہچان نہیں سکے اور انہوں نے اس لاش کو صندوق سمیت دفن کر دیا اور کوئی نہیں جانتا کہ حضرت علیؓ کی قبر کہاں ہے۔ پھر ایک روایت ہے کہ حضرت حسن نے حضرت علیؓ کو کوفہ میں جَعْدَہ بِن ھُبَیْرَہ کی آل کے کسی حجرے میں دفن کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جَعْدَہ حضرت علیؓ کا بھانجا تھا۔
امام جعفر صادق کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا رات کے وقت جنازہ پڑھا گیا اور کوفہ میں ان کی تدفین ہوئی اور ان کی قبر کے مقام کو مخفی رکھا گیا تاہم وہ قصر امارت کے پاس تھا۔ ایک دوسری روایت یہ ہے کہ حضرت علیؓ کی وفات کے بعد حضرت امام حسنؓ نے حضرت علیؓ کا جنازہ پڑھایا اور کوفہ کے باہر حضرت علیؓ کی تدفین کی گئی اور ان کی قبر کو اس خوف سے مخفی رکھا گیا کہ خوارج وغیرہ ان کی اور قبر کی بے حرمتی نہ کریں۔ بعض شیعہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا مزار نجف میں ہے، اس مقام پر جس کو آج کل مَشْہَدُالنَّجَفْ کہتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق کوفہ میں حضرت علیؓ کو شہید کیا گیا تاہم آپ کی قبر کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ حضرت علیؓ کی وفات کے بعد حضرت امام حسنؓ نے حضرت علیؓ کا جنازہ پڑھایا اور کوفہ کے دارالاِمارةمیںحضرت علیؓ کی تدفین کی گئی اس خوف سے کہ خوارج ان کی لاش کی بے حرمتی نہ کریں۔
علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ یہ روایت مشہور ہے اور جس نے یہ کہا کہ انہیں جانور پر رکھا گیا اور وہ اسے لے گیا اور کوئی نہ جان سکا کہ وہ جانور کہاں چلا گیا تو یہ درست نہیں ہے اور اس نے اس بارے میں تکلف سے کام لیا ہے جس کا اس کو کوئی علم نہیں اور نہ ہی عقل اور نہ ہی شریعت اس کا جواز پیش کرتی ہے اور جو اکثر جاہل رَوَافِضْیہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا مزار مَشْہَدُالنَّجَفْمیں ہے تو اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی حقیقت ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہاں تو حضرت مُغِیْرَہ بن شُعْبَہ کی قبر ہے۔
(البدایۃ والنہایۃ جلد 4، جزء 7 صفحہ 316-317، صفۃ مقتلہ رضی اللّٰہ عنہ، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)
(تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 477 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1987ء)
امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ نَجَفْ میں مشہد کے نام سے جو مقام ہے اہل علم اس پر متفق ہیں کہ وہ حضرت علیؓ کی قبر کا مقام نہیں بلکہ وہ حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی قبر ہے۔ اہل بیت، شیعہ اور دیگر مسلمانوں نے کوفہ میں ان کی حکومت اور تین سو سال سے زیادہ بیت جانے کے باوجود کبھی اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ یہ حضرت علیؓ کی قبر ہے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے تین سو سال بعد اس جگہ کو مشہد علی کا نام دیا گیا ہے اس لیے یہ روایت بالکل غلط ہے کہ یہ حضرت علیؓ کی قبر ہے۔
(ماخوذ از انسائیکلوپیڈیا سیرت صحابہ کرامؓ جلد1 صفحہ436 سیدنا علی بن ابی طالبؓ ۔ دار السلام ریاض 1438ھ)
نیز علامہ ابن جَوزِی نے اپنی تاریخ کی کتاب میں حضرت علی ؓکے مزار کے متعلق متفرق روایات جنہیں اوپر بیان کر دیا گیا ہے کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے کہ
وَاللّٰہُ اَعْلَمُ اَیُّ الْاَقْوَالِ اَصَحُّ ۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون سا قول زیادہ درست اور صحیح ہے۔
(المنتظم جلد 5 صفحہ 178، سنۃ 40، فصل، دارالکتب العلمیۃ بیروت 2012ء)
حضرت علیؓ کی جو شادیاں اور اولاد ہیں ان کا ذکر اس طرح ملتا ہے کہ حضرت علیؓ نے مختلف وقتوں میں آٹھ شادیاں کیں جن کے نام یہ ہیں۔ فاطمہ بنتِ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، خولہ بنتِ جعفر بن قَیس، لیلیٰ بنت مسعود بن خالد، اُمّ البَنِیْن بنت حِزَام بن خالد، اَسْمَاء بنت عُمَیْس، صَہْبَاءام حبیب بنت رَبِیعہ، اُمَامَہ بنت ابوالعاص بن ربیع۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کی بیٹی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی تھیں۔ اُمّ سعید بنت عُرْوَة بن مسعود ثَقَفِی۔ ان سے اللہ تعالیٰ نے ان کو کثیر اولاد عطا کی جن کی تعداد تیس سے زائد بنتی ہے۔ چودہ لڑکے اور انیس لڑکیاں۔ آپ کی نسل حضرت حسن، حضرت حسین، محمد بن حَنَفِیَّہ، عباس بن کِلَابِیَہاور عمرو بن تَغْلَبِیَّہسے چلی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ14دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(سیدنا علی بن ابی طالب از ڈاکٹر علی محمد صلابی مترجم صفحہ82-83 الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان)
حضرت علیؓ کے فضائل و خصائل اور مناقب کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا، فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِينَةَ، فَلْيَأْتِ الْبَابَ
کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے جو اس شہر کا قصد کرے اس کو چاہیے کہ وہ اس کے دروازے پر آئے۔
(المستدرک علی الصحیحین جزء 3 صفحہ 339 کتاب معارفۃ الصحابۃ ذکر اسلام امیر المومنین علی حدیث 4695، دار الفکر 2002ء)
حضرت مصلح موعودؓ اس بات کو بیان فرماتے ہیںکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہ میں سے زیادہ بہادر اور دلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے اور پھر انہوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک علیحدہ چبوترہ بنایا گیا تو اس وقت سوال پیدا ہوا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیا جائے؟ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اس انتہائی خطرے کے موقع پر نہایت دلیری سے آپؐ کی حفاظت کا فرض سرانجام دیا۔ اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا
أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَعَلِيٌّ بَابُهَا۔
یعنی کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ پس حضرت علیؓ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء میں سے قرار دیا ہے مگر خیبر کی جنگ میں سب سے نازک وقت میں اسلام کا جھنڈا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ ہی کے ہاتھ میں دیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت علماء بزدل نہیں تھے بلکہ سب سے زیادہ بہادر تھے۔
(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 364-365)
یہ ذکر آپ علماء کی بہادری کا فرما رہے ہیں۔ اس ضمن میں یہ واقعہ بیان فرمایا۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک وقت تھا کہ میں اپنے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر باندھتا تھا اور آج میرا صدقہ یعنی زکوٰة چار ہزار دینار تک پہنچ چکا ہے۔ ایک روایت میں چالیس ہزار دینار کا ذکر ہے۔ ابوبحر اپنے ایک استاد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت علیؓ کو موٹی تہ بند پہنے دیکھا۔ آپ نے فرمایا: مَیں نے یہ پانچ درہم میں خریدی ہے جو مجھے اس پر ایک درہم کا نفع دے گا میں اسے یہ فروخت کر دوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علیؓ کے پاس چند درہم کی تھیلی دیکھی تو آپ نے کہا یہ یَنْبُعْ کی جائیداد میں سے ہمارا بچنے والا نفقہ ہے۔ یَنْبُع ایک بستی ہے جو مدینہ سے سات منزل دور تھی، ساحل سمندر کی طرف واقع ہے۔ آپ کی انگوٹھی پر، حضرت علیؓ کی انگوٹھی پر اَللّٰہُ الْمَلِکُکندہ تھا کہ اللہ ہی بادشاہ ہے۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد04 صفحہ97ذکر علی بن ابی طالب، دارالکتب العلمیۃ لبنان 2003ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد 03 صفحہ22 ذکر علی ابن ابی طالب،دارالکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(لغات الحدیث جلد4 صفحہ 613 نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
جُمَیع بن عُمَیر بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت عائشہؓ کے پاس اپنی پھوپھی کے ساتھ آیا تو انہوں نے سوال کیا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکون عزیز تھا؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا فاطمہؓ۔ پھر سوال کیا گیا کہ مَردوں میں سے؟ تو آپ نے فرمایا ان کے خاوند حضرت علیؓ۔
(سنن الترمذی کتاب المناقب بَابُ مَا جَاءَ فِي فَضْلِ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حدیث 3874)
حضرت ثَعْلَبَہ بن ابومالکؓبیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن عُبَادہ ؓہر میدان جنگ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے علمبردار ہوتے تھے مگر جب لڑائی کا وقت آتا تھا تو حضرت علی بن ابوطالبؓ جھنڈا تھام لیتے تھے۔
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ93 ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر للطباعۃ والنشر التوزیع بیروت 2003ء)
قبیلہ ثَقِیف کے ایک شخص نے بیان کیا کہ حضرت علیؓ نے مجھے سَابُور علاقے کا عامل مقرر کیا۔ سابور فارس میں ایک علاقہ ہے جو شیراز سے کوئی تقریباً 75 میل کے فاصلہ پر ہے اور فرمایا کسی شخص کو بھی ایک درہم ٹیکس کی وجہ سے کوڑا نہ مارنا اور لوگوں کے رزق کے پیچھے نہ پڑنا اور نہ سردیوں یا گرمیوں میں ان کے کپڑوں کے پیچھے پڑنا۔ اس طرح ٹیکس نہیں لینا کہ کپڑے اتر جائیں اور نہ ان سے کسی ایسے جانور کا مطالبہ کرنا جسے وہ کام میں استعمال کرتے ہوں۔ کسی کو ایک درہم کی طلب میں کھڑے نہ رکھنا۔ یعنی جو بھی ٹیکس وصول کرنا ہے جزیہ وصول کرنا ہے اس کے لیے کسی کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دینی، بوجھ نہیں ڈالنا۔ میں نے کہا یا امیرالمومنین! پھر تو میں آپ کی طرف ایسے ہی لَوٹوں گا جیسے میں آپ کے پاس سے جا رہا ہوں ۔کچھ نہیں ملے گا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا تمہارا بھلا ہو۔ ہاں خواہ تم خالی ہاتھ ہی لوٹو ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں کے اس مال میں سے لیں جو اُن کی ضرورت سے زائد ہو۔
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ98ذکر علی بن ابی طالب، دارالفکر للطباعۃ والنشر التوزیع بیروت 2003ء)
(معجم البلدان جلد 3 صفحہ 188)
حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا تم میرے بھائی اور میرے ساتھی ہو۔
(کنز العمال جلد13 صفحہ109 حدیث 36356فضائل علی۔ مؤسسۃ الرسالۃ 1981ء)
علی بن رَبِیْعَہ سے روایت ہے کہ میں حضرت علیؓ کے پاس حاضر تھا جب ان کے لیے ایک جانور لایا گیا تا کہ اس پر سوار ہوں۔ جب آپؓ نے رکاب میں پاؤں رکھا تو تین مرتبہ بسم اللہ کہا۔ جب اس کی پشت پر سیدھا بیٹھ گئے تو الحمد للہ کہا۔ پھر کہا
سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهٗ مُقْرِنِيْنَ وَاِنَّا اِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ (الزخرف:14-15)
یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع کر دیا جبکہ ہم اس کی قدرت نہیں رکھتے تھے اور بیشک ہم اپنے رب کی طرف لَوٹ کر جانے والے ہیں۔ پھر آپؓ نے تین مرتبہ الحمد للہ اور تین مرتبہ اللہ اکبر کہا۔ پھر آپ نے یہ دعا پڑھی کہ
سُبْحَانَكَ اِنِّيْ قَدْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْ لِيْ فَاِنَّهٗ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔
یعنی تُو پاک ہے یقیناً مَیں نے ہی اپنی جان پر ظلم کیا۔پس مجھے بخش دے کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ پھر آپؓ مسکرائے۔ راوی کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین! آپؓ کس وجہ سے مسکرائے؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا تھا جس طرح میں نے کیا ہے۔ پھر آپؐ مسکرائے تھے اور حضرت علیؓ کہتے ہیں کہ پھر میں نے عرض کیا: یا رسول اللہؐ! آپؐ کس وجہ سے مسکرائے ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا :یقیناً تیرا رب اپنے بندے سے بہت خوش ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اے میرے رب! میرے گناہ بخش دے۔ یقیناً تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا۔ اس بات پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے تھے۔
(جامع الترمذی ابواب الدعوات بَاب مَا يَقُولُ إِذَا رَكِبَ دَابَّةً حدیث 3446)
یَحییٰ بن یَعْمُرسے مروی ہے کہ ایک بار حضرت علی بن ابوطالبؓ نے خطاب کیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد آپؓ نے فرمایا: اے لوگو! تم سے پہلے لوگ صرف گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ ان کے نیک لوگ اور علماء انہیں اس بات سے منع نہ کرتے تھے۔ پھر جب وہ گناہوں میں حد سے بڑھ گئے تو انہیں قسما قسم کی سزاؤں نے پکڑ لیا۔ پس تم لوگ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو قبل اس کے کہ تم پر بھی ان جیسا عذاب آ جائے۔ یاد رکھو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا نہ تو تمہاری روزی گھٹائے گا اور نہ تمہاری موت کو قریب کرے گا۔
(تفسیر القرآن العظیم لابن کثیر۔جلد 3 صفحہ 132 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ لبنان 1998ء)
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری عورت کے گھر میں تھے جس نے آپؐ کے لیے کھانا تیار کیا ہوا تھا، دعوت کی ہوئی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارک باد دی۔ پھر آپؐ نے دوبارہ فرمایا ابھی تمہارے پاس، ایک جنتی آدمی آئے گا۔ اس پر حضرت عمر ؓ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارکباد دی۔ پھر تیسری دفعہ آپؐ نے فرمایا کہ ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کھجور کے ایک چھوٹے سے پودے کے نیچے چھپائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! اگر تُو چاہے تو یہ آنے والا علی ہو۔ پھر حضرت علیؓ داخل ہوئے تو ہم نے انہیں مبارکباد دی۔
(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ 107مسند جابر بن عبد اللّٰہ حدیث: 14604عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جنت تین آدمیو ں کی مشتاق ہے اور وہ ہیں علیؓ، عمارؓ اور سلمانؓ۔
(المستدرک علی الصحیحین۔ جزء 3 صفحہ348 کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر اسلام امیر المومنین علی حدیث نمبر4724 مطبوعہ دار الفکر 2002ء)
ابوعثمان نَھْدِیسے روایت ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور ہم مدینہ کی ایک گلی سے گزر کر ایک باغ کے پاس پہنچے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہؐ! یہ باغ کس قدر خوبصورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے لیے جنت میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت باغ ہے۔
(المستدرک علی الصحیحین۔ جزء 3 صفحہ 349-350کتاب معرفۃ الصحابۃ ذکر اسلام امیر المومنین علی حدیث نمبر4730مطبوعہ دار الفکر 2002ء)
حضرت عَمَّار بن یَاسِرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت علیؓ سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے علی! اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ایسی خوبی عنایت کی ہے کہ اس سے بہتر خوبی اس نے اپنے بندوں کو عطا نہیں کی اور وہ ہے دنیا سے بے رغبتی۔ تمہیں اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ نہ تم دنیا میں سے کچھ لیتے ہو نہ دنیا تم میں سے کچھ لیتی ہے یعنی تمہیں دنیا کی ،دنیا کی چیزوں کی کوئی خواہش نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کی خواہش رکھنے والے لوگ تم سے کوئی تعلق رکھنا چاہتے ہیں۔ نیز تجھے اللہ تعالیٰ نے مساکین کی محبت عطا کی ہے وہ تم کو اپنا امام بنا کر خوش ہیں اور تم ان کو اپنا پیروکار بنا کر خوش ہو۔ پس خوشخبری ہو اس شخص کو جو تم سے محبت کرے اور تمہارے بارے میں سچ بولے اور ہلاکت ہے اس شخص کے لیے جو تم سے بغض رکھے اور تمہارے خلاف جھوٹ بولے۔ وہ لوگ جو تم سے محبت رکھتے ہیں اور تمہارے بارے میں سچ بولتے ہیں وہ جنت میں تمہارے گھر کے پڑوسی اور تمہارے محل میں تمہارے ساتھی ہوں گے اور جو لوگ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم پر جھوٹ باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ بات اپنے ذمہ لے رکھی ہے کہ قیامت کے دن وہ انہیں سخت جھوٹوں کے کھڑے ہونے کی جگہ پر کھڑا کرے گا۔
(اسد الغابہ لمعرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد 04 صفحہ96،97 ذکر علی بن ابی طالب، دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت میں جس درجہ میں مَیں ہوں گا اس میں علیؓ اور فاطمہؓ ہوں گے۔‘‘
(برکات خلافت ، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 254)
حضرت علیؓ کے عشرہ مبشرہ میں ہونے کے بارے میں ذکر ہے کہ حضرت علیؓ عشرہ مبشرہ یعنی ان دس خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی دنیا میں جنت کی خوشخبری ملی۔ حضرت سعید بن زیدؓ بیان کرتے ہیں کہ میں 9؍لوگوں کے بارے میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں کے بارے میں بھی یہی کہوں یعنی گواہی دوں تو گناہگار نہیں ہوں گا۔ کہا گیا کہ وہ کیسے تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حرا پہاڑ پر تھے تو وہ ہلنے لگا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر اے حرا ! یقیناً تجھ پر ایک نبی یا صدیق یا شہید ہے۔ کسی نے پوچھا وہ دس جنتی لوگ کون ہیں۔ حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود، ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحہؓ، زبیرؓ، سعدؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ ہیں اور کہا گیا کہ دسواں کون ہے؟ تو حضرت سعید بن زیدؓ نے کہا: وہ مَیں (ہوں)۔
(سنن الترمذی ابواب المناقب باب مناقب ابی الاعور وا سمہ سعید بن زَید حدیث 3757)
یہ واقعہ جو بیان کرنے لگا ہوں یہ پہلے بھی بیان ہو چکا ہے لیکن نفس پر قابو رکھنے اور انانیت کو دور کرنے کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے اس لیے مَیں یہاں دوبارہ یہ بیان کر رہا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’کہتے ہیںحضرت علی کرم اللہ وجہہ ایک دشمن سے لڑتے تھے اور محض خدا کے لیے لڑتے تھے۔ آخر حضرت علیؓ نے اس کو اپنے نیچے گرا لیا اور اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے۔اس نے جھٹ حضرت علیؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپؓ فوراً اس کی چھاتی پر سے اتر آئے اور اسے چھوڑ دیا۔ اس لئے کہ اب تک تو مَیں محض خدا تعالیٰ کے لئے تیرے ساتھ لڑتا تھا لیکن اب جبکہ تُو نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے تو میرے اپنے نفس کا بھی کچھ حصہ اس میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس مَیں نہیں چاہتا کہ اپنے نفس کے لئے تمہیں قتل کروں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ نے اپنے نفس کے دشمن کو دشمن نہیں سمجھا۔ ایسی فطرت اور عادت اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے۔‘‘ آپؑ جماعت کو نصیحت فرماتے ہیں۔ ’’اگر نفسانی لالچ اور اغراض کے لئے کسی کو دکھ دیتے اور عداوت کے سلسلوں کو وسیع کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کو ناراض کرنے والی کیا بات ہو گی؟‘‘
(ملفوظات جلد 8 صفحہ 105)
پھر آپؑ نے ایک اَور موقع پہ تفصیل سے بیان فرمایا اور اس پر مزید روشنی ڈالی۔ فرماتے ہیں کہ ’’جوش نفسانی اور للّٰہی جوش میں فرق کے واسطے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ سے سبق حاصل کرو۔ لکھا ہے کہ حضرت علیؓ کا ایک کافر پہلوان کے ساتھ جنگ شروع ہوا۔ بار بار آپؓ اس کو قابو کرتے تھے وہ قابو سے نکل جاتا تھا۔ آخر اس کو پکڑ کر اچھی طرح سے جب قابو کیا اور اس کی چھاتی پر سوار ہو گئے اور قریب تھا کہ خنجر کے ساتھ اس کا کام تمام کر دیتے کہ اس نے نیچے سے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ جب اس نے ایسا فعل کیا تو حضرت علیؓ اس کی چھاتی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کو چھوڑ دیا اور الگ ہو گئے۔ اس پر اس نے تعجب کیا اور حضرت علیؓ سے پوچھا کہ آپؓ نے اس قدر تکلیف کے ساتھ پکڑا اور میں آپؓ کا جانی دشمن ہوں اور خون کا پیاسا ہوں۔ پھر باوجود ایسا قابو پا چکنے کے آپ نے مجھے اب چھوڑ دیا۔یہ کیا بات ہے؟ حضرت علیؓ نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ ہماری تمہارے ساتھ کوئی ذاتی عداوت نہیں۔ چونکہ تم دین کی مخالفت کے سبب مسلمانوں کو دکھ دیتے ہو اس واسطے تم واجب القتل ہو اور میں محض دینی ضرورت کے سبب تم کو پکڑتا تھا۔ لیکن جب تم نے میرے منہ پر تھوک دیا اور اس میں مجھے غصہ آیا تو میں نے خیال کیا کہ یہ اب نفسانی بات درمیان میں آ گئی ہے۔ اب اس کو کچھ کہنا جائز نہیں تا کہ ہمارا کوئی کام نفس کے واسطے نہ ہو۔ جو ہو سب اللہ تعالیٰ کے واسطے ہو۔ جب میری اس حالت میں تغیر آئے گا اور یہ غصہ دور ہو جائے گا تو پھر وہی سلوک تمہارے ساتھ کیا جائے گا۔ اس بات کو سن کر کافر کے دل پر ایسا اثر ہوا کہ تمام کفر اس کے دل سے خارج ہو گیا اور اس نے سوچا کہ اس سے بڑھ کر اور کون سا دین دنیامیں اچھا ہو سکتا ہے جس کی تعلیم کے اثر سے انسان ایسا پاک نفس بن جاتا ہے۔ پس اس نے اسی وقت توبہ کی اور مسلمان ہو گیا۔‘‘
(ملفوظات جلد 9صفحہ 219)
پس یہ ہے اصل تقویٰ جو نتیجہ بھی دکھاتا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بھی کم و بیش اس یہودی کی حضرت علیؓ سے لڑائی کے واقعہ کو اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک لڑائی میں شامل تھے۔ ایک بہت بڑا دشمن جس کا مقابلہ بہت کم لوگ کر سکتے تھے آپؑ کے مقابلہ پر آیا اور کئی گھنٹے تک آپؓ کی اور اس یہودی پہلوان کی لڑائی ہوتی رہی۔ آخر کئی گھنٹے کی لڑائی کے بعد آپؓ نے اس یہودی کو گرا لیا اور اس کے سینہ پر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ خنجر سے اس کی گردن کاٹ دیں کہ اچانک اس یہودی نے آپؓ کے منہ پر تھوک دیا۔ آپ فوراً اسے چھوڑ کر سیدھے کھڑے ہو گئے اور وہ یہودی سخت حیران ہوا اور کہنے لگا یہ عجیب بات ہے کہ کئی گھنٹے کی کشتی کے بعد آپ نے مجھے گرایا ہے اور اب یکدم مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے ہیں۔ یہ آپ نے کیسی بیوقوفی کی ہے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: میں نے بیوقوفی نہیں کی بلکہ جب میں نے تمہیں گرایا اور تم نے میرے منہ پر تھوک دیا تو یکدم میرے دل میں غصہ پید اہوا کہ اس نے میرے منہ پر کیوں تھوکا ہے مگرساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ اب تک تو میں جو کچھ کر رہا تھا خدا کے لئے کر رہا تھا اگر اس کے بعد مَیں نے لڑائی جاری رکھی تو تیرا خاتمہ میرے نفس کے غصہ کی وجہ سے ہو گا۔‘‘ یعنی حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اس یہودی کو ختم کرنا میرے ذاتی غصہ کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ’’خدا کی رضا کے لئے نہیں ہوگا ۔ اس لئے مَیں نے مناسب سمجھا کہ اس وقت میں تجھے چھوڑ دوں۔ جب غصہ جاتا رہے گا تو پھر خدا کے لئے مَیں تجھے گرا لوں گا۔‘‘
(احمدیت دنیا میں اسلامی تعلیم و تمدن …..،انوار العلوم جلد 16صفحہ132)
باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہو گا۔
اس وقت میں ایک اَور بات بھی کہنا چاہتا ہوں۔ آج نئے سال کا پہلا دن ہے اور پہلا جمعہ ہے۔ دعا کریں کہ یہ سال جماعت کے لیے، دنیا کے لیے، انسانیت کے لیے بابرکت ہو۔ ہم بھی اپنا فرض ادا کرتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے اور اپنی عبادتوں کے معیار بڑھانے والے ہوں اور دنیا والے بھی اپنی پیدائش کے مقصد کو سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے بن جائیں اور ایک دوسرے کے حقوق کو پامال کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حکموںپر چلتے ہوئے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے والے بن جائیں ورنہ پھر اللہ تعالیٰ اپنے رنگ میں دنیا والوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ کاش کہ ہم اور دنیا کے تمام لوگ اس اہم نکتے کو سمجھ جائیں اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں۔
گذشتہ ایک سال سے ہم ایک نہایت خطرناک وبائی مرض کا سامنا کر رہے ہیں اور دنیا کا کوئی ملک بھی اس وبا سے باہر نہیں ہے، کہیں کم اور کہیں زیادہ، لیکن لگتا ہے کہ اکثریت دنیا کی اس بات کی طرف توجہ نہیں دینا چاہتی کہ کہیں یہ وبا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں اپنے حقوق و فرائض کی طرف توجہ دلانے کے لیے نہ ہو۔ یہ نہیں سوچنا چاہتے۔ یہ تو نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہلانا چاہتا ہے، بتانا چاہتا ،توجہ دلانا چاہتا ہے۔ اس طرف کسی کی سوچ نہیں ہے۔
چند ماہ پہلے میں نے بہت سے سربراہان حکومت کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے خطوط لکھے تھے اور کووڈ کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے حوالے سے اس طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ آفات خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے حقوق و فرائض بھولنے اور ادا نہ کرنے بلکہ ظلم میں بڑھنے کی وجہ سے آتی ہیں اس لیے توجہ کریں۔ بعض سربراہان نے جواب بھی دیے لیکن ان کے دنیاداری والے جواب تھے کہ ہم بھی یہی چاہتے ہیں( دنیا کی نظر سے اُبالی باتیں کیں، دین والی بات نہیں کی۔ خدا کا بہت بڑا خانہ جو بیچ میں تھا اورمیں نے بیان کیا تھا اس کا ذکر ہی نہیں کیا) اور ضرور ایسا ہونا چاہیے لیکن نہ اپنی حالتوں کو بدلنے کی طرف عملی قدم اٹھانا چاہتے ہیں یہ لوگ، نہ قوم کے ہمدرد بن کر قوم کو اصل مقصد کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ یہ جاننے کے باوجود کہ اس وبا کے بعد کے اثرات بہت خطرناک ہوں گے، یہ دنیا کے ہر لیڈر کو پتہ ہے، ہر عقل مند انسان کو پتہ ہے، ہر تجزیہ نگار کو یہ پتہ ہے لیکن اس کے باوجود اصل حل کی طرف توجہ نہیں ہے صرف دنیا کی جو کوششیں ہیں اسی کی طرف توجہ ہے۔
اس بیماری سے نہ صرف انفرادی طور پر ہر فرد معاشی لحاظ سے کمزور ہو رہا ہے ، صحت کے لحاظ سے جو ہو رہے ہیں وہ تو ہو رہے ہیں جو متاثرین ہیں۔ لیکن عمومی طور پر ہر ایک معاشی لحاظ سے بھی متاثر ہو رہا ہے بلکہ بڑی بڑی امیر حکومتوں کی معیشتوںکی بھی کمریں ٹوٹ رہی ہیں۔ دنیا داروں کے پاس اس کا صرف ایک حل ہے کہ پھر جب ایسی صورتحال ہو جائے گی، جب معیشت تباہ ہو جائے گی تو دوسرے چھوٹے ملکوں کی معیشتوں پر قبضہ کیا جائے، ان کو کسی طرح اپنے جال میں پھنسایا جائے، اپنے دام میں لایا جائے اور پھر بہانے بہانے سے ان کی دولتوں پر قبضہ کیا جائے۔ اس کے لیے بلاک بنیں گے اور بن رہے ہیں۔ سرد جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی اور اب کہا جانے لگا ہے کہ شروع ہو گئی ہے ایک طرح سے اور کوئی بعید نہیں کہ اصل ہتھیاروں کی جنگ بھی ہو جائے جو نہایت خوفناک جنگ ہو گی۔ پھر یہ لوگ ایک اَور گہرے کنویں میں گر جائیں گے۔ غریب ملک تو پہلے ہی پسے ہوئے ہیں امیر ملکوں کے عوام بھی پسیں گے اور بڑی خوفناک حد تک پسیں گے۔
پس اس سے پہلے کہ دنیا اس حالت کو پہنچے ہمیں اپنا فرض اداکرتے ہوئے دنیا کو ہوشیار کرنا چاہیے۔ پس یہ سال مبارکبادوں کا سال اُس وقت بنے گا جب ہم اپنے فرائض کو اس نہج پر ادا کرنے والے ہوں گے کہ لوگوں کو سمجھائیں، دنیا کو سمجھائیں اور ظاہر ہے کہ یہ سب کرنے کے لیے ہمیں اپنی حالتوں کے بھی جائزے لینے ہوں گے۔ ہم جو زمانے کے امام مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے والے ہیں کیا ہماری اپنی حالتیں ایسی ہو چکی ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ خالصۃًللہ اس کے بندوں کے حقوق بھی ادا کرنے والے ہیں یا ابھی ہمیں اپنی اصلاح کرنے اور ایک دوسرے سے پیارو محبت کے جذبات کو غیر معمولی معیاروں تک لانے کی ضرورت ہے۔ پس ہر احمدی کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے سپرد ایک بہت بڑا کام کیا گیا ہے اور اس کے سرانجام دینے کے لیے پہلے اپنے اندر پیار اور محبت اور بھائی چارے کی فضا کو پیدا کریں، اپنے معاشرے میں، احمدی معاشرے میں اور پھر دنیا کو اس جھنڈے کے نیچے لائیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند کیا تھا اور جو اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا ہے۔ تبھی ہم اپنی بیعت کے مقصدمیں کامیاب ہو سکتے ہیں، تبھی ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے بن سکتے ہیں، تبھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہو سکتے ہیں اور تبھی ہم نئے سال کی مبارکباد دینے کے اور لینے کے مستحق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بچہ، بوڑھا اس بات کو سمجھتے ہوئے یہ عہد کرے کہ اس سال میں نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک احمدی کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کل پاکستان کے احمدیوں کے لیےاور الجزائر کے احمدیوں کے لیے دعاکی طرف بھی میں توجہ دلا رہا ہوں۔ ان کو اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھیں۔ پاکستان میں بعض جگہ بعض مولوی اور سرکاری اہلکار ظلموں پر اترے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے ناقابل اصلاح لوگوں کی جلد پکڑ کے سامان کرے۔ اللہ تعالیٰ کے تو علم میں ہے کن کی اصلاح ہونی ہے اور کن کی نہیں ہونی۔ جن کی نہیں ہونی تو پھر ان کی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔ توہین رسالت کے جس قانون کے تحت یہ لوگ احمدیوں پر ظلم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور احمدیوں کی اپنی تربیت کے لیے جو بھی ہمارے بعض ذرائع ہیں ہر ذریعہ پر پابندی لگانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس کو اللہ تعالیٰ جلد ان سے دُور فرمائے اور ہمیں ان سے نجات دلائے۔ اصل میں تو رحمۃ للعالمین کے نام کو یہ بدنام کرنے والے لوگ ہیں۔ احمدی تو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے والے ہیں ۔ آج دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لانے والے سب سے زیادہ کام بلکہ حقیقی کام احمدی کر رہے ہیں بلکہ کہنا چاہیے کہ اگر کوئی یہ کام کررہا ہے تو وہ صرف احمدی ہیں۔
پس یہ دنیا دار دنیاوی حکومت اور دولت کے بل بوتے پر ہم پر ظلم تو کر سکتے ہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ ہم اس خدا کو ماننے والے ہیں جو نِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ ہے۔ وہ خدا ہے جو نِعْمَ الْمَوْلٰی ہے اور نِعْمَ النَّصِیْرُہے۔ یقیناً اس کی مدد آتی ہے اور ضرور آتی ہے اور اس وقت پھر ان دنیاداروں اور اپنے زعم میں طاقت اور ثروت رکھنے والے جو لوگ ہیں ان کی پھر خاک بھی نظر نہیں آتی جب اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت آتی ہے۔ پس ہمارا کام ہے کہ دعاؤں سے اپنی عبادتوں کو مزید سجائیں اور اگر ہم یہ کر لیں گے تو پھر ہی ہم کامیاب ہیں۔
الجزائر کے بارے میں مَیں نے کہا تھا کہ سب کو بری کر دیا گیا ہے۔ وہاں ایک کورٹ نے، ایک عدالت نے سب کو بری کیا تھا۔ دوسرے نے بھی معمولی جرمانہ کر کے تقریباً ساروں کو فارغ کر دیا لیکن اس کے باوجود بھی وہاں ابھی کچھ لوگ ہیں جو جیل میں اسیر ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کریں کہ ان کی جلد رہائی کے سامان ہوں۔ پاکستان کے اسیروں کی رہائی کے لیے بھی دعا کریں۔ ہماری خوشیاں چاہے وہ سال کے شروع کی ہوں یا عید کی، اصل تو اس وقت ہوں گی جب ہم دنیا میں ہر طرف اللہ تعالیٰ کی توحید کا جھنڈا لہرانے والے بنیں گے جسے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تھے۔ خوشیاں اس وقت ہوں گی جب انسانیت انسانی قدروں کو پہچاننے والی بنے گی۔ جب آپس کی نفرتیں محبتوں میں بدل جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اس خوشی کے سامان بھی ہمیں جلد پہنچائے۔ مسلم امہ کو بھی عقل دے کہ وہ آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو مان لیں۔ دنیا کو بھی عقل دے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر ملک میں ہر احمدی کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور یہ سال ہر احمدی کے لیے، ہر انسان کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا سال بن کر آئے اور جو کوتاہیاں اور کمیاں گذشتہ سالوں میں ہم سے ہو گئیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنیں یا ہمیں بعض انعاموں سے محروم رکھنے کا باعث بنیں ان سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچائے اور اپنے انعاموں کا اور فضلوں کا وارث بنائے اور ہم حقیقی مومن بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 22؍جنوری2021ءصفحہ5تا11)