پہلا مسیح یعنی حضرت عیسیٰؑ حضرت موسیٰؑ سے چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا اور ایسا ہی آخری مسیح آنحضرتﷺ سے چودھویں صدی پر ظاہر ہوا
احادیث صحیحہ میں بھی ذکر تھا کہ آخری زمانہ میں اکثر حصہ مسلمانوں کا یہودیوں سے مشابہت پیدا کرلے گا اور سورۂ فاتحہ میں بھی اسی کی طرف اشارہ تھا۔ کیونکہ اس میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ اے خدا ہمیں ایسے یہودی بننے سے محفوظ رکھ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں تھے اور ان کے مخالف تھے جن پر خدا تعالیٰ کا غضب اسی دنیا میں نازل ہوا تھا۔ اور یہ عادت اللہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کسی قوم کو کوئی حکم دیتا ہے یا ان کو کوئی دعا سکھلاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ بعض لوگ ان میں سے اس گناہ کے مرتکب ہوں گے جس سے ان کو منع کیا گیا ہے۔ پس چونکہ آیت
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ(الفاتحہ:7)
سے مراد وہ یہودی ہیں جو ملّت موسوی کے آخری زمانہ میں یعنی حضرت مسیح کے وقت میں بباعث نہ قبول کرنے حضرت مسیح کے موردِ غضبِ الٰہی ہوئے تھے اس لئے اس آیت میں سنّت مذکورہ کے لحاظ سے یہ پیشگوئی ہے کہ امت محمدیہ کے آخری زمانہ میں بھی اسی امت میں سے مسیح موعود ظاہر ہوگا۔ اور بعض مسلمان اس کی مخالفت کرکے ان یہودیوں سے مشابہت پیدا کرلیں گے جو حضرت مسیح کے وقت میں تھے۔ یہ بات جائے اعتراض نہیں کہ آنے والا مسیح اگر اسی امت میں سے تھا تو اس کا نام احادیث میں عیسیٰ کیوں رکھا گیا۔ کیونکہ عادت اللہ اسی طرح واقعہ ہے کہ بعض کو بعض کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ احادیث میں ابوجہل کا نام فرعون اور حضرت نوحؑ کا نام آدم ثانی رکھا گیا۔ اور یوحنا کا نام ایلیا رکھا گیا۔ یہ وہ عادت الٰہی ہے جس سے کسی کو بھی انکار نہیں اور خدا تعالیٰ نے آنے والے مسیح کو پہلے مسیح سے یہ بھی ایک مشابہت دی ہے کہ پہلا مسیح یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰؑ سے چودھویں صدی پر ظاہر ہوا تھا اور ایسا ہی آخری مسیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چودھویں صدی پر ظاہر ہوا ایسے وقت میں جبکہ ہندوستان سے سلطنت اسلامی جاتی رہی تھی اور انگریزی سلطنت کا دور تھا۔ جیسا کہ حضرت مسیح بھی ایسے ہی وقت میں ظاہر ہوئے تھے جبکہ اسرائیلی سلطنت زوال پذیر ہوکر یہودی لوگ رومی سلطنت کے تحت ہوچکے تھے۔ اور اس امت کے مسیح موعود کیلئے ایک اور مشابہت حضرت عیسیٰؑ سے ہے اور وہ یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پورے طور پر بنی اسرائیل میں سے نہ تھے بلکہ صرف ماں کی وجہ سے اسرائیلی کہلاتے تھے۔ ایسا ہی اس عاجز کی بعض دادیاں سادات میں سے ہیں گو باپ سادات میں سے نہیں۔ اور حضرت عیسیٰؑ کے لئے خدا نے جو یہ پسند کیا کہ کوئی اسرائیلی حضرت مسیحؑ کا باپ نہ تھا اس میں یہ بھید تھا کہ خدا تعالیٰ بنی اسرائیل کی کثرت گناہوں کی وجہ سے ان پر سخت ناراض تھا۔ پس اس لئے تنبیہ کے طور پر ان کو یہ نشان دکھلایا کہ ان میں سے ایک بچہ صرف ماں سے بغیر شراکت باپ کے پیدا کیا۔ گویا اسرائیلی وجود کے دو حصوں میں سے صرف ایک حصہ حضرت مسیح کے پاس رہ گیا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آنے والے نبی میں یہ بھی نہیں ہوگا۔ پس چونکہ دنیا ختم ہونے پر ہے اس لئے میری اس پیدائش میں بھی ایک اشارہ ہے اور وہ یہ کہ قیامت قریب ہے۔ اور وہ ہی قریش کی خلافت کے وعدوں کو ختم کردے گی۔ غرض موسوی اور محمدی مماثلت کو پورا کرنے کیلئے ایسے مسیح موعود کی ضرورت تھی جو ان تمام لوازم کے ساتھ ظاہر ہوتا۔ جیسا کہ سلسلہ اسلامیہ مثیل موسیٰ سے شروع ہوا ایسا ہی وہ سلسلہ مثیل عیسٰے پر ختم ہو جائے تا آخر کو اوّل سے مشابہت ہو۔ پس یہ بھی میری سچائی کیلئے ایک ثبوت ہے لیکن ان لوگوں کیلئے جو خدا ترسی سے غور کرتے ہیں۔
(لیکچرسیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ214۔216)