موجود ہ دور میں تربیت اولاد کے تقاضے (حصہ دوم۔ آخری)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’اس لیے بچپن میں بچوں کو اخلاق فاضلہ کی مشق کروانی چاہیے اس سے آئندہ نسلوں کے اخلاق کی حفاظت ہو جائے گی۔ بچپن کا زمانہ نہ صرف یہ کہ اخلاق فاضلہ سیکھنے کا بہت بڑا میدان ہے بلکہ دوسروں کے اخلاق بگاڑنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ غرض بچپن میں جن کے اخلاق خراب ہو جاتے ہیں وہ نہ صرف اپنے آپ کو تباہ کر لیتے ہیں بلکہ اوروں کی بھی تباہی کا باعث بنتے ہیں اور بچپن کی عادات کا اس قدر اثر ہوتا ہے کہ بڑے ہو کر ان کی اصلاح مشکل ہو جاتی ہے‘‘۔
حضورؓ مزید فرماتے ہیں :
’’بچوں کے اخلاق کی درستی میں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے نہ تو اتنی تنگی کرنی چاہیے کہ وہ کسی سے مل ہی نہ سکیں اور نہ ہی اتنی آزادی دینی چاہیے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں اور ان کی کوئی نگہداشت نہ کی جائے‘‘۔
’’سب سے پہلی اور نہایت ضروری بات یہ ہے کہ ماں باپ بچوں سے ناجائز محبت نہ کریں اگر کوئی ان کے بچے کے متعلق شکایت کرے تو اس کی اصلاح کی تجویز کریں ‘‘۔
(خطبہ جمعہ، فرمودہ 1925ء بحوالہ الازھار لذوات الخمار)
تربیت اولاد کے لیے بچوں کی جن لوگوں سے دوستیاں ہیں ان پر نظر رکھنا بھی بہت ضروری امر ہے۔ کیونکہ اس سے ہمیں یہ پتہ چلے گا کہ ہمارے بچے کس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :
’’اگر تم اپنے بچوں کو عیسائیوں، آریوں اور دوسروں کی صحبت سے نہیں بچاتے یا کم از کم نہیں بچانا چاہتے تو یاد رکھو کہ نہ صرف اپنے اوپر بلکہ قوم پر اور اسلام پر ظلم کرتے ہو۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ گویا تمہیں اسلام کے لیے کچھ غیرت نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت تمہارے دل میں نہیں ‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ 45 ایڈیشن 2010)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’بچے کو اپنے دوست خود نہ چننے دیئے جائیں بلکہ ماں باپ چنیں اور دیکھیں کہ کن بچوں کے اخلاق اعلیٰ ہیں۔ جب خود ماں باپ بچے سے کہیں گے کہ فلاں بچوں کے ساتھ کھیلا کرو تو اس طرح ان بچوں کے اخلاق کی نگرانی بھی کریں گے‘‘۔
(انوارالعلوم جلد9، منہاج الطالبین صفحہ 204)
ہر بچے کی نظر میں ان کے ماں باپ ان کے رول ماڈل ہوتے ہیں اگر ان دونوں کے ہی تعلقات آپس میں بہتر نہیں ہوں گے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ان کی چھاؤں تلے جو اولاد پروان چڑھ رہی ہے وہ ذہنی دباؤ اور نفرتوں سے پاک ہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اگر ماں اور باپ گھر میں لڑ رہے ہوں تو آپ سمجھیں بچوں کے اخلاق خراب ہو گئے۔ بچوں کے اخلاق تبھی درست رہ سکتے ہیں کہ گھر کی فضا بڑی محبت اور پیار کی فضاہو۔ ہر دو میاں بیوی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے والے اور ان کے ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں ‘‘۔
(خطبات ناصر صفحہ 364۔ 365)
بچوں کی تربیت کوئی معمولی امر نہیں ہے اس سلسلے میں مختلف ادوار شامل ہیں۔ ہر عمر کے بچے کو اس کی عمر کے لحاظ سے بات سمجھانا پڑتی ہے۔ سب سے ضروری بات جو ہر ماں باپ کو اپنے بچوں کے دلوں میں ڈالنی چاہیے وہ خدا تعالیٰ کی محبت ہے۔ جن بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت اور خوف ہوگا وہ کوئی بھی غلط کام کرتے ہوئے سو بار سوچیں گے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مستورات سے خطاب کرتے ہوئے مختلف باتوں کی طرف توجہ دلائی۔
’’اپنے بچوں کے دل میں شروع سے ہی خدا کی محبت پیدا کر دیں پھر دیکھیں کہ دنیا کا کوئی فساد ان پر غلبہ نہیں پا سکے گا۔ ‘‘
’’دوسری نصیحت جو بچوں کو سنبھالنے کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں اور سر بلندی پیدا کریں بچپن سے ہی ان کو یہ سمجھانا ضروری ہے کہ جس معاشرے میں تم رہ رہے ہو یہ معاشرہ تمہارا محتاج ہے تم پر اس معاشرے کی نگاہیں ہیں اگر تم نے اس کو بچا لیا تو بچے گا ورنہ کوئی اور چیز اس کو بچا نہیں سکتی۔ یہ معاشرہ ہر پہلو سے کھوکھلا اور داغدار ہے اور دن بدن اور زیادہ خطرناک ہوتا چلا جارہا ہے جن گھروں میں بے چینی ہو وہاں گھر میں سکون نہیں ہوتا بلکہ بیرونی دنیاتسکین بن جاتی ہے‘‘۔
(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول جلد دوم صفحہ312۔ 313)
پس یہ وہ طریق ہے جس سے آپ کو بچوں کی تربیت کرنی ہوگی۔ پہلے دعا کے ذریعے پھر عبادت کے قیام کے ذریعہ پھر خدا تعالیٰ کی محبت دلوں میں جاگزیں اور پھر سمجھا کر برابر آمنے سامنے بیٹھ کر ان کو بتائیں اور سمجھائیں کہ دیکھو یہ چیزیں بالآخر نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں۔ ایسے گھر جہاں محبت کے بندھن مضبوط ہوں وہاں بچوں کے نقصان کا احتمال بہت کم ہوتا ہے۔‘‘
آجکل مختلف قسم کی ایجادات جن میں ٹیلی ویژن موبائل اور انٹرنیٹ شامل ہیں ان سب سے تیزی سے برائیاں پھیل رہی ہیں۔ شیطانی حملے اور طاقتور ہو رہے ہیں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو ان ایجادات کے استعمال سے دور ہے۔ جہاں ان ایجادات کے فوائد ہیں ان سے کہیں زیادہ ان کے نقصانات ہیں جو ہماری نسلوں کو خراب کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر ان ایجادات کا غلط استعمال کیا جائے گا تو یہ لغویات میں شمار ہوگا۔ اسی بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
’’والدین کو گاڑی کے پہیوں کی طرح اپنے آپ کو بیلنس رکھنا ہوگا دونوں کو ایک ساتھ چلنا ہوگا تبھی آپ کے بچے اپنی زندگی کا سفر بغیر کسی حادثے کے گزارنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو معاشرے کا مفید وجود بنانے کے قابل ہو سکیں گے۔ گھروں کے ماحول کو جب آپ پاک کرلیں گے تو پھر آپ اس کوشش میں بھی رہیں گی کہ زمانے کی لغویات فضولیات اور بدعات گھروں پر اثرانداز نہ ہوں ۔کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ان پاک تبدیلیوں کو گھن کی طرح کھا جاتی ہیں جس طرح لکڑی کوگھُنکھا جاتا ہے۔ آزاد ی ٔضمیر کے نام پر سڑکوں گلیوں بازاروں میں بیہودہ حرکتیں ہو رہی ہیں۔ فیشن سے منع نہیں کیا جاتا لیکن فیشن کی بھی کوئی حد ہوتی ہیں۔ ان کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
( اوڑھنی والیوں کے لئے پھول، جلد سوم، حصہ دوم صفحہ 22۔ 25)
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے سیدھے راستے پر چلنے والے ہوں، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے والے بنیں تو سب سے پہلے ہمیں اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حکموں کا پابند بننا پڑے گا اور خلیفہ وقت کے ساتھ مضبوط تعلق پیدا کرنا ہوگا۔ حضور کے خطبات اور پروگرام باقاعدگی سے دیکھنے ہوں گے۔ خود بھی بہت دعائیں کرنی ہوںگی اور حضور کو بھی دعائیہ خطوط لکھنے ہوں گے۔ تب ہی ہمارے بچے زمانے کی لغویات سے محفوظ رہیں گے۔ ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو مسیح پاک علیہ السلام کی جماعت سے منسلک ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیکی کے راستے پر چلائے اور ہماری اولادوں اور ان کی اولادوں کو دین اسلام پر عمل کرنے والا بنائے اور خلافت احمدیہ کے استحکام کے لیے ایک مضبوط وجود بنائے آمین۔
٭…٭…٭