الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت چودھری نتھے خان صاحبؓ
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 5؍جولائی 2013ء میں مکرم نذیر احمد سانول صاحب کے قلم سے حضرت چودھری نتھے خان صاحبؓ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
چک نمبر98 شمالی ضلع سرگودھا کا قیام1905ء میں عمل میں آیا جب حضرت چودھری غلام حسین بھٹی صاحبؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کا شرف حاصل کیا۔ پھر اُن کے ذریعے حضرت اللہ رکھا صاحبؓ نے احمدیت قبول کی جن کی تبلیغ سے اُن کے والد حضرت چودھری نتھے خان صاحبؓ قادیان جاکر 1906ء میں نورِ احمدیت سے منور ہوئے۔ آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں قادیان پہنچا اور چھ دن قیام کیا۔ اردگرد کے لوگوں سے حضرت مرزا صاحب کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ پاکھنڈ بنایا ہوا ہے۔ لیکن مجھے کوئی پاکھنڈ نظر نہ آتا تھا۔ مَیں نے صحن کے دوسری طرف مولوی نورالدین صاحبؓ کو دیکھا اور محبت کے جوش سے اُن سے ملنے چلا لیکن انہوں نے حضورؑ کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے مستحق وہی ہیں۔ مَیں روز حضرت صاحبؑ کے ساتھ سیر کو جاتا۔ ایک دن آپؑ نے نماز کے بعد اعلان کیا کہ جس جس نے بیعت کرنی ہو وہ کرلے۔ چنانچہ مَیں بھی تیار ہوگیا۔ جس وقت حضرت صاحبؑ سے مصافحہ کرنے لگا تو محبت نے اتنا جوش مارا کہ مَیں نے دل میں حضورؑ کے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹنے کا مصمّم ارادہ کرلیا۔ لیکن حضرت صاحبؑ نے میرے ماتھے کو ہاتھ سے پکڑا اور کہا کہ ایسا نہیں کرتے۔ آخر مَیں نے بیعت کی۔ اُس وقت آپؑ ململ کی پگڑی باندھے ہوئے تھے جسے کلف لگی ہوئی تھی۔ داڑھی مہندی سے سرخ تھی۔ آپؑ کا قد درمیانہ، رنگ گندم گوں تھا۔ سیر کو میل ڈیڑھ میل تک جایا کرتے تھے۔ لوگوں کی توجہ حضورؑ کی طرف ہوتی اس لیے راستے کی جھاڑیوں سے کپڑے پھٹ جاتے۔ آپؑ سجدہ کرتے وقت ہاتھ جائے نماز پر گھسیٹتے ہوئے لے جاتے تھے جس سے دری کے شکن نکل جاتے۔
حضرت چودھری نتھے خان صاحبؓ کے والد مکرم چودھری فضل دین صاحب قوم جٹ راجوبھنڈر مگراؔ ضلع سیالکوٹ کے نمبردار تھے۔ اُن کو اَن پڑھ ہونے کے باوجود ذہانت، ہمدردیٔ خلق، عوام میں مقبولیت اور تعلق داری کی بِنا پر انگریزوں نے نمبرداری عطا کی تھی۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے پھر یہ نمبرداری آپؓ کو منتقل ہوگئی۔ حضرت چودھری نتھے خان صاحبؓ عوام الناس کے خیرخواہ تھے اور سرکاری افسران سے بھی بہت اچھی راہ رسم تھی اس لیے علاقہ بھر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
حضرت چودھری صاحبؓ عبادت گزار، خداترس اور خلافت احمدیہ کے فدائی تھے۔ چندوں میں باقاعدہ تھے۔ مسجد فضل لندن اور احمدیہ ہال سیالکوٹ کی تعمیر کے لیے نیز چندہ خلافت جوبلی فنڈ میں بھی حصہ لیا تھا۔ 1946ء میں 88 سال کی عمر میں وفات پاکر اپنے گاؤں (چک98شمالی) کے مشترکہ قبرستان میں دفن ہوئے۔ آپؓ کی چار بیویاں تھیں۔ دو بیویوں سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔
………٭………٭………٭………
مکرم چودھری محمد شفیع سلیم صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 28؍مئی 2013ء میں مکرم محمد سمیع طاہر صاحب نے اپنے والد محترم چودھری محمد شفیع سلیم صاحب کا ذکرخیر کیا ہے۔
مکرم چودھری محمدشفیع سلیم صاحب 6؍دسمبر1921ء کو کھاریاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ حضرت امام بی بی صاحبہؓ نے 1903ء میں حضرت مسیح موعودؑ کی جہلم میں آمد کے موقع پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ لیکن والد محترم چودھری لعل خاں صاحب نے خلافتِ ثانیہ میں احمدیت قبول کی اور پھر جلد ہی قادیان منتقل ہوگئے۔ اُس وقت محمد شفیع صاحب کی عمر دس گیارہ سال تھی۔ 1938ء میں آپ میٹرک کرکے فوج میں بھرتی ہوگئے۔ لیکن کچھ عرصے بعد حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک (برائے تبلیغ بیرون ملک) پر لبّیک کہا اور ملازمت ترک کردی۔ آپ کو باہر تو نہ بھجوایا جاسکا لیکن قادیان میں ہی دفاتر میں خدمات سپرد ہوئیں۔ 1946ء میں آپ کی شادی مکرمہ رشیدہ بیگم شکیلہ صاحبہ بنت محترم خواجہ غلام نبی بلانوی سے ہوئی۔ تقسیم ہند کے وقت آپؓ نے بطور درویش اپنی خدمات پیش کردیں جبکہ آپ کے والد دیگر افرادِ خاندان کے ساتھ پاکستان آگئے لیکن لاہور میں آنے کے چند دن بعد وہ بیوی، دو نوعمر بیٹے اور ایک بیٹی چھوڑ کر وفات پاگئے۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو پاکستان چلے آنے کی ہدایت فرمائی۔ پاکستان آکر کچھ عرصہ آپ نے ایک فیکٹری میں کام کیا اور پھر پاکستان آرمی میں شامل ہوکر مختلف شہروں میں خدمت بجالاتے رہے اور 1966ء میں ریٹائر ہوئے۔ بعدازاں قریباً چودہ سال تک مختلف پرائیویٹ اداروں میں بطور اکاؤنٹنٹ ملازمت کی اور 1990ء میں وفات پائی۔
مکرم محمد شفیع سلیم صاحب بسلسلہ ملازمت جہاں بھی رہے، خدمت دین بھی جاری رکھی۔ سرگودھا میں قائد علاقہ خدام الاحمدیہ بھی رہے۔ کھاریاں میں سیکرٹری مال رہے، ضلع گجرات کے زعیم انصاراللہ بھی رہے۔ ضلع گجرات کے دفتر اوّل کے مجاہدین کے کھاتوں کو زندہ کرنے کے لیے نمایاں خدمت کی۔ نماز کے لیے مسجد جاتے تو راستے میں ہر احمدی کے دروازے پر دستک دے کر نماز میں آنے کی تلقین کرتے۔ دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور بہت بہادر انسان تھے۔ چک سکندر میں ظلم کے واقعے کے بعد آپ نے جماعتی نظام کے تحت اسیران راہ مولیٰ سے ملاقاتیں کیں اور لواحقین کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ کئی بار مخالفین کے ہاتھوں زخمی بھی ہوئے۔ ایک بار چنیوٹ میں زخمی ہوکر بےہوش ہوگئے تو کسی شناسا نے ہسپتال پہنچایا۔ اگلے روز ربوہ لائے گئے۔
آپ ایک اچھے مقرر اور لکھاری تھے۔ لکھائی بھی بہت خوبصورت تھی۔ نہایت شریف النفس، مخلص اور دین دار انسان تھے۔ دنیاداری سے کوسوں دُور تھے۔
………٭………٭………٭………
مکرم فتح محمد خان صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 30؍مئی 2013ء میں مکرم فتح محمد خان صاحب کا ذکرخیر ان کے عزیز مکرم محمد یوسف بقاپوری صاحب نے کیا ہے۔
مکرم فتح محمد خان صاحب 8؍نومبر 2011ء کو 89 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ آپ حافظ نصیر محمد خان صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپ کے برادر اکبر مکرم عزیز محمد خان صاحب (سابق امیر جماعت ضلع بہاولپور) بچپن میں پولیو کی وجہ سے بیمار ہوگئے تھے اور اُن کا علاج حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحبؓ نے نہایت شفقت اور ہمدردی سے کیا جس پر وہ احمدی ہوگئے تو اُن کے دو چھوٹے بھائیوں نے بھی احمدیت قبول کرلی۔ ایک بھائی نے احمدیت قبول نہ کی۔ مکرم فتح محمد خان صاحب نے نوجوانی میں ہی وصیت بھی کرلی اور حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ہی ادا کردیا۔ آپ پنجوقتہ نمازوں کے پابند، تہجدگزار، دعاگو اور غریب پرور انسان تھے۔ جمعہ کی نماز سے بہت پہلے مسجد چلے جاتے اور نماز کے ایک گھنٹے بعد واپس آتے۔ بہت محنتی بھی تھے۔ جب تک صحت نے اجازت دی ملازمت جاری رکھی۔ اکثر کام سائیکل پر کرتے۔ جب سرگودھا میں ملازم ہوئے تو بارہا سائیکل پر سرگودھا آتے جاتے۔ گھر میں مرغیاں اور بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ امۃالحمید صاحبہ کی وفات 1994ء میں ہوئی۔ انہوں نے بےشمار بچوں کو قرآن کریم پڑھایا اور اپنے تین بیٹوں اور سات بیٹیوں کی اچھی تربیت کی۔ مکرم حافظ برہان محمد خان صاحب استاذالجامعہ ربوہ آپ کے بیٹے ہیں جبکہ مکرم میر عبدالرشید تبسم صاحب مرحوم سابق نائب ناظر اصلاح و ارشاد آپ کے داماد تھے۔
آپ عسرویسر میں خداتعالیٰ کے شکرگزار رہے۔ ربوہ کے پرانے آبادکاروں میں سے تھے۔ سن پچاس کی دہائی میں دارالنصر غربی میں مکان بنایا اور ساری عمر اس میں گزار دی۔ کسی کے آگے کبھی ہاتھ نہ پھیلایا لیکن اللہ تعالیٰ غیب سے مدد کردیتا۔ آپ کی اہلیہ کی بیماری نے طُول پکڑا اور دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں داخل کروانا پڑا تو اخراجات بڑھ گئے۔ ایک بار دس ہزار روپے کی ضرورت تھی۔ شام کے وقت اندھیرے میں کسی اجنبی نے دروازے پر دستک دی۔ ایک لفافہ دیا اور چلاگیا۔ آپ نے کھولا تو مطلوبہ رقم نکلی۔
………٭………٭………٭………
مکرمہ ذیٹا شمیم صاحبہ
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍جون 2013ء میں مکرم آغا طاہر شمیم صاحب کے قلم سے اُن کی اہلیہ محترمہ ذیٹا شمیم صاحبہ کا مختصر ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار کی اہلیہ آسٹریلین نژاد خاتون تھیں جو لمبے عرصے سے کینیڈا میں مقیم تھیں۔ جب 1981ء میں ہماری شادی ہوئی تو وہ احمدی نہیں تھیں لیکن ایک نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ اگرچہ اُس سے ایک سال قبل کینیڈا میں حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ سے ملاقات کرچکی تھیں۔ وہ حضورؒ کے نورانی چہرے کو یاد کرکے کہتی تھیں کہ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص نہایت اعلیٰ روحانی مرتبے کا مالک ہے۔ بعدازاں مَیں نے لندن میں اُن کی ملاقات حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ سے بھی کروائی جنہوں نے اپنی کتاب “My Mother” انہیں تحفۃً عطا فرمائی۔ اس کے بعد مَیں انہیں پاکستان لے گیا جہاں میرے والد محترم نے اُن کو ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا انگریزی ترجمہ دیا اور ایک بھانجے نے قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا۔ وہ بہشتی مقبرہ اور دیگر مقامات بھی دیکھنے گئیں۔ واپسی کے سفر تک انہوں نے دونوں کتابوں کا مطالعہ کرلیا اور واپس آکر قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور ایک مبشر رؤیا دیکھنے کے بعد انہوں نے بیعت کرلی۔ اس کے ساتھ ہی مالی قربانی میں بھی حصہ لینا شروع کیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت آنے لگی اور جب مسجد بیت السلام کی تعمیر کے لیے چندے کی تحریک ہوئی تو انہوں نے اپنی تمام نقدی اور زیورات بخوشی پیش کردیے۔
ریڈیو ہملٹن سے ایک پروگرام میں انہوں نے سامعین کو یہ پیغام دیا کہ ’’بائبل میں جو غلطیاں اور خامیاں ہیں، اُن کا ازالہ صرف اور صرف قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیمات ہی کرسکتی ہیں۔‘‘ یہی پیغام وہ اپنے دوستوں کو بھی دیتیں اور اُن کو قرآن کریم کے مطالعہ کی ترغیب دیتیں۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ساتھ بذریعہ خطوط وہ رابطہ رکھتیں۔ اُن کو کینسر کا عارضہ تھا۔ 7؍اپریل1984ء کو اُن کی وفات پر، اُن کی خواہش کے مطابق خاکسار اُن کا جسد خاکی ربوہ لے گیا۔ حضورؒ نے ازراہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی اور ربوہ میں تدفین کی اجازت عطا فرمائی۔
………٭………٭………٭………