رُوئداد جلسۂ دعا
خدا تعالیٰ گواہ اور آگاہ ہے کہ میں وہی صادق اور امین اور موعود ہوں جس کا وعدہ ہمارے سید و مولیٰ صادق و مصدوق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبان مبارک سے دیا گیا تھا اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جنہوں نے مجھ سے تعلق پیدا نہیں کیا وہ اس نعمت سے محروم ہیں(حضرت مسیح موعودؑ)
تعارف
2؍فروری 1900ءکو عید الفطر کے روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر سرکار برطانیہ کی کامیابی کے لیے دعا کے واسطے ایک عام جلسہ منعقد ہوا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب ؓنے عید الفطر پڑھائی۔ نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک نہایت لطیف اور مؤثر خطبہ پڑھا جس میں سورۃ الناس کی لطیف اور پُر از نکات تفسیر بیان کرتے ہوئے حکام مجازی کے حقوق کا ذکر فرمایا اور گورنمنٹ برطانیہ کے احسانات کی وجہ سے اس کی وفاداری کے لیے تلقین فرمائی اور خطبہ عید کے بعد ٹرانسوال(جنوبی افریقہ) کی جنگ میں انگریزوں کی فتح کے لیے دعا کی تحریک فرما کر مجمع سمیت جوش وخلوص سے دعا کی۔ اسی مناسبت سے یہ تقریر ’’جلسہ دعا‘‘کے نام سے موسوم کی گئی نیز مجروحین افواج برطانیہ کے لیے چندہ کی پرزور تحریک فرمائی اور پانچ سو روپے جمع ہونے پر گورنمنٹ کے متعلقہ محکمہ کو بھجوا دیے گئے۔
مضامین کا خلاصہ
اس کتاب کے ٹائٹل پیج پر یہ آیت درج ہے کہ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَاُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ(النساء:60)پھر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے فرمایا کہ اگر انسان غور اور فکر سے دیکھے تو اس کو معلوم ہوگا کہ واقعی طور پر تمام محامد اور صفات کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ کوئی شخص جو مستحق حمد قرار پاتا ہے وہ اس لیے مستحق ہوسکتا ہے کہ کسی ایسے زمانے میں جب کہ کوئی وجود نہ تھا اور نہ کسی وجود کی خبر تھی وہ اس کا پیدا کرنے والا ہے یا اس لیے کہ جب کوئی وجود نہ تھا تو اس نے وجود اور بقائے وجود اور حفظ صحت اور قیام زندگی کے اسباب مہیا کیےہوں۔ اب غور سے دیکھ لو کہ حقیقی طور پر ان سب محامد کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ اوّل دیکھو صفت خلق اور پرورش، ماں باپ اور دیگر محسنوں کے کچھ نہ کچھ اغراض و مقاصد ہوتے ہیں جن کی بنا پر وہ احسان کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی اس قدر بے شمار مخلوق کی خلق اور پرورش سے کوئی غرض نہیں ہے اور اس نے مخلوق کو محض ربوبیت کے تقاضاسے پیدا کیا ہے۔
دوسرا پہلو کہ قبل از پیدائش ایسے سامان ہوں کہ تمدنی زندگی اور قویٰ کے کام کے لیے پورا سامان موجود ہو۔ دیکھو ہم ابھی پیدا ہی نہ ہوئے تھے کہ سامان پہلے ہی کر دیا۔ منورسورج جو اب چڑھا ہوا ہے جس کی وجہ سے عام روشنی پھیلی ہوئی ہے، اگر نہ ہوتا تو ہم کیسے دیکھتے یا روشنی کے ذریعہ جو فوائد اور منافع ہمیں پہنچ سکتے ہیں ہم کیونکر حاصل کر سکتے۔ پھر اشیاء میں قسم قسم کے خواص رکھے اور ان کا علم بھی دے دیا۔ یہ کس قدر خدا کا فضل ہے۔ طبیب کیسا ہی حاذق اور عالم ہو لیکن اگر ادویہ نہ ہوں تو وہ کیا کر سکتا ہے۔ یوں مختلف نباتات، جمادات اور حیوانات میں مختلف خواص رکھ دیے جو ہر زمانے میں ضروریات کے پیش آنے پر کام آ سکتے ہیں۔
پس تیسری رحمت یہ ہے کہ ایسے قویٰ دیے ہیں کہ ان سامان سے فائدہ اٹھا سکیں۔
چوتھی بات پادا شِ محنت ہے اس کے لیے بھی خدا کا فضل درکار ہے۔ مثلاً انسان کس قدر محنت اور مشقت سے زراعت کرتا ہےمگر خدا تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ نہ ہو تو کیونکر اپنے گھر میں غلہ لا سکتے ہیں۔
پھر فرمایا: یہ بھی خدا تعالیٰ کا رحم ہے کہ باوجودیکہ وحدہٗ لا شریک ہے مگر اس نے تو طفیلی طور پر بعض کو اپنے محامد میں شریک کر لیا ہے جیسا کہ وہ اس سورہ شریفہ میں بیان فرماتا ہے قُلۡ اَعُوۡذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔مَلِکِ النَّاسِ۔اِلٰہِ النَّاسِ۔مِنۡ شَرِّ الۡوَسۡوَاسِ ۬ۙ الۡخَنَّاسِ۔الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ۔ مِنَ الۡجِنَّۃِ وَالنَّاسِ۔ فرمایا: اس (سورت) میں اللہ تعالیٰ نے حقیقی مستحق حمد کے ساتھ عارضی مستحق حمد کا بھی اشارۃً ذکر فرمایا ہے تا اخلاق فاضلہ کی تکمیل ہو۔ اس سورت میں تین طرح کے حق بیان فرمائے ہیں۔ اول تم پناہ مانگو اللہ کے پاس جو جامع جمیع صفات کاملہ ہے اور جو رب ہے لوگوں کا اور مالک بھی ہے اور معبود اور مطلوب حقیقی بھی ہے۔ اس صورت میں اصل توحید کو قائم رکھا ہے مگر معاً یہ اشارہ کیا ہے کہ دوسرے لوگوں کے حقوق بھی ضائع نہ کریں۔ جو ان اسماء کے مظہر ظلی طور پر ہیں۔ رب کے لفظ میں اشارہ ہے کہ گو حقیقی طور پر خدا ہی پرورش کرنے والا ہے لیکن عارضی اور ظلی طور پر دو اور وجود بھی ہیں جو ربوبیت کے مظہر ہیں۔ ایک جسمانی طور پر والدین ہیں اور روحانی طور پر مرشد اور ہادی ہے۔ دوسرے مقام پر تفصیل کے ساتھ فرمایا کہ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا۔(بنی اسرائیل:24)یعنی خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو اور والدین سے احسان کرو۔ حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور ماں ایسی حالت میں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور اس حالت میں والد ماں کی مہمات کا کیسا متکفل ہوتا ہے۔
پس خدا تعالیٰ نے تکمیل اخلاق فاضلہ کے لیے رب الناس کے لفظ میں والدین اور مرشد کی طرف ایما فرمایا ہے۔ پھر دوسرا ٹکڑا اس میں ملک الناس ہے۔حقیقی طور پر تو اللہ تعالیٰ ہی بادشاہ ہے مگر اس میں اشارہ ہے کہ ظلی طور پر بادشاہ ہوتے ہیں۔ اس میں اشارہ ملکِ وقت کے حقوق کی نگہداشت کی طرف بھی ایماء ہے۔ یہاں کافر اور مشرک اور موحد بادشاہ یعنی کسی قسم کی قید نہیں۔ قرآن میں جہاں جہاں خدا نے محسن کا ذکر فرمایا ہے وہاں کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ مسلمان ہو اور خدا تعالیٰ اپنے کلام میں محسن کے ساتھ احسان کرنے کی سخت تاکید فرماتا ہے جیساکہ فرمایا۔ہَلۡ جَزَآءُ الۡاِحۡسَانِ اِلَّا الۡاِحۡسَانُ۔(الرحمٰن:61)کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی ہو سکتا ہے؟
پھر فرمایا: اب ہم اپنی جماعت کو اور تمام سننے والوں کو بڑی صفائی اور وضاحت سے سناتے ہیں کہ سلطنت انگریزی ہماری محسن ہے اور اس نے ہم پر بڑے بڑے احسان کیے ہیں۔ ہم پر سکھوں کا ایک زمانہ گزرا ہے جب مسلمانوں کو عبادات اور فرائض مذہبی کی بجا آوری سے روکا گیا تھا۔ بانگ نماز کو بآواز بلند پکارنے سے منع کیا گیا تھا۔ مؤذن کو بآواز بلند اللہ اکبر کہنے پر مار ڈالا جاتا۔ ایک گائے کے مقدمہ میں ایک دفعہ پانچ ہزار غریب مسلمان قتل کیے گئے۔ اب دیکھو ہر قوم و مذہب کے لوگوں کو کیسی آزادی ہے۔گورنمنٹ خود معابد مذہبی کی حرمت کرتی ہے اور ان کی مرمت وغیرہ پر ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتی ہے۔ پھر غذا بہم پہنچانے کی ایک ضمنی امداد ہے جو ان لوگوں (گورنمنٹ) سے ہمارے شعائر اسلام کو پہنچی ہے۔
اب اگر کوئی خود روزہ نہ رکھے تو اور بات ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلمان خود شریعت کی توہین کرتے ہیں اور روزہ نہیں رکھتے۔ بہتوں نے شعائر اللہ کی عظمت نہیں کی اور خداتعالیٰ کے اس واجب التکریم مہمان ماہ رمضان کو بڑی حقارت سے دیکھا۔ اس قدر آسانی کے مہینوں میں رمضان کا آنا ایک قسم کا معیار تھا اور متبع و عاصی میں فرق کرنے کے لیے یہ روزے میزان کا حکم رکھتے تھے۔
غرض سکھوں کا زمانہ ایک آتشی تنور کا زمانہ تھا اور انگریزوں کا قدم رحمت و برکت کا قدم ہے۔ جب انگریز اول ہی اول آئے تو ہوشیار پور میں کسی موذن نے اونچی اذان دی تو ایک بھاری ہجوم ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا کہ ہمارے آٹے بھرشٹ ہو گئے اور برتن ناپاک ہو گئے۔ اس انگریز افسر نے جرأت سے کہا کہ جب تک تجربہ نہ کر لیں اس مقدمہ کو نہ کرنا چاہیے اور بانگ اپنے سامنے دلوائی اور صاحب بہادر نے کہا کہ ہم کو تو اس سے کوئی ضرر نہیں پہنچا اور کہا کہ جاؤ جس طرح چاہو بانگ دو۔ اللہ اکبر۔ یہ کس قدر آزادی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ قادیان کی مسجد کا بھی تحریر فرمایا ہے۔
مطبع خانوں کی سہولت
ایک بزرگ بڑی تضرع سے دعا کرتے تھے کہ صحیح بخاری کی زیارت ہو جائے اور اب وہی بخاری دو چار روپے میں امرتسر سے لاہور سے ملتی ہے۔ ایک مولوی شیر محمد صاحب تھے جنہیں کہیں سے دو چار ورق احیاء العلوم کے مل گئے، وہ تڑپتے تھے کہ پوری کتاب کہیں سے مل جائے اور اب جابجا احیاء العلوم مطبوعہ موجود ہے۔غرض انگریزی قدم کی برکت سے لوگوں کی دینی آنکھ بھی کھل گئی ہے۔ پریس کی برکت سے ہر قسم کی کتابیں تھوڑی تھوڑی قیمت پر میسر آجاتی ہیں۔ ڈاک خانہ کے طفیل کہیں سے کہیں گھر بیٹھے بٹھائے پہنچ جاتی ہیں۔ پھر منجملہ اور برکات کے جو تائید دین کے لیے اس گورنمنٹ کے عہد میں ملی ہیں ایک یہ بھی ہے کہ عقل، قویٰ اور ذہنی طاقتوں میں بڑی ترقی ہوئی ہے چونکہ گورنمنٹ نے ہر ایک قوم کو اپنے مذہب کی اشاعت کی آزادی دے رکھی ہے۔ یوں ہر طرح سے لوگوں کو ہر ایک مذہب کے اصول اور دلائل پرکھنے اور ان پر غور کرنے کا موقع مل گیا ہے یوں علمِ کلام نے بھی خوب ترقی کی ہے۔
غرض جیسے جسمانی طور پر گورنمنٹ انگلشیہ سے ملک میں امن ہوا ایسے ہی روحانی امن بھی پوری طرح پھیلا۔ چونکہ ہمارا تعلق دینی اور روحانی باتوں سے ہے۔ اس لیےہم ان امور کا ذکر کریں گے جو فرائض مذہب ادا کرنے میں گورنمنٹ کی طرف سے ہم کو بطور احسان ملے ہیں۔ پس جاننا چاہیے کہ انسان پوری آزادی اور اطمینان کے ساتھ عبادت کو چار شرائط کے ساتھ ہی بجا لا سکتا ہے اور وہ یہ ہیں۔ اول صحت۔ اب دیکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ کے طفیل سے ہم کو صحت جسمانی کے بحال رکھنے کے لیے کس قدر سامان ملے ہیں۔ ہر بڑے شہر اور قصبہ میں کوئی نہ کوئی ہسپتال ضرور ہے۔ بڑے بڑے میڈیکل کالج جاری کر کے طبی تعلیم کو کثرت سے پھیلایا گیا ہے۔ بعض خطرناک امراض مثلاً چیچک، ہیضہ اور طاعون وغیرہ کے متعلق جو کارروائی گورنمنٹ سے عمل میں آئی ہے وہ بہت کچھ شکرگزاری کے قابل ہے۔
دوسری شرط ایمان ہے۔فرمایا:افسوس ہے کہ دو آدمیوں کی شہادت پر ایک مجرم کو پھانسی مل سکتی ہے مگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور بے انتہا ولیوں کی شہادت کے باوجود لوگوں کے دلوں سے الحاد نہیں گیا۔ جبکہ ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ اپنے مقتدر نشانوں اور معجزات سے انا الموجود کہتا ہے۔غرض ایمان اور اعتقاد پختہ کرنے کے لیے عام تعلیم مذہبی کی ضرورت تھی اور مذہبی تعلیم کا انحصار مذہبی کتابوں کی اشاعت سے وابستہ تھا۔ پریس اور ڈاک خانہ کی برکت سے ہر قسم کی مذہبی کتابیں مل سکتی ہیں۔ سو خدا تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے اس زمانہ میں ایسے شخص کو پھر ایمان زندہ کرنے کے لیے مامور کیا اور بھیجا تا لوگ قوت یقین میں ترقی کریں۔ وہ اسی مبارک گورنمنٹ کے عہد میں آیا۔ وہ کون ہے؟ وہی جو تم میں کھڑا ہوا بول رہا ہے۔
تیسری شرط انسان کے لیے طاقت مالی ہے۔ مساجد کی تعمیر اور امور متعلقہ اسلام کی بجا آوری مالی طاقت پر منحصر ہے۔ گورنمنٹ نے ہر قسم کی تجارت کو ترقی دی۔ سفر کے وسائل بہم پہنچا کر دوسرے ملکوں میں جا کر پیسہ کمانے میں مدد دی۔
چوتھی شرط امن ہے۔جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس کا انحصار علی الخصوص سلطنت پر رکھا گیاہے۔ اب اس زمانے میں امن کی شرط اعلیٰ درجہ پر پوری ہو رہی ہے۔ سفر کے وسائل آسان کر دیے گئے ہیں۔ مال و جان کی حفاظت کے لیے پولیس کا وسیع صیغہ موجود ہے۔ حقوق کی حفاظت کے لیے عدالتیں کھلی ہیں۔
تعجب ہے کہ جو مخلوق کا شکر نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار اپنی تصنیفات میں اور اپنی تقریروں میں گورنمنٹ انگلشیہ کے احسانوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا دل واقعی اس کے احسانات کی لذت سے بھرا ہوا ہے۔
پھر اس سورت میں فرمایا ہے کہ من شر الوسواس الخناس یعنی وسوسہ ڈالنے والے خناس کے شر سے پناہ مانگو۔ خناس عربی میں سانپ کو کہتےہیں۔ شیطان نے انسان کے ابوین کو دھوکا دیا تھا۔ یہ ترتیب اس لیے اختیار فرمائی تاکہ انسان کو پہلے واقعات پر آگاہ کرے۔ جس طرح شیطان نے خدا کی اطاعت سے انسان کو فریب دے کر رو گرداں کیا ویسے ہی وہ کسی وقت ملکِ وقت کی اطاعت سے بھی عاصی اور روگرداں نہ کردے۔ اب اس سورت میں جو اطاعت کا حکم ہے وہ خدا تعالی ہی کی اطاعت کا حکم ہے کیونکہ اصلی اطاعت اسی کی ہے مگر والدین، مرشد و ہادی اور بادشاہ وقت کی اطاعت کا حکم بھی خدا ہی نے دیا ہے۔
فرمایا:پس شکر گزاری کا بڑا عمدہ نمونہ بننا چاہیے۔
اپنے دعویٰ کی بابت خدا تعالیٰ کو گواہ بنانا
فرمایا:خدا تعالیٰ گواہ اور آگاہ ہے کہ میں وہی صادق اور امین اور موعود ہوں جس کا وعدہ ہمارے سید و مولیٰ صادق و مصدوق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے دیا گیا تھا اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جنہوں نے مجھ سے تعلق پیدا نہیں کیا وہ اس نعمت سے محروم ہیں۔
ایک ضروری بات
فرمایا: ایک ضروری بات کہنی چاہتا ہوں کہ سلاطین کو اکثر مہمیں پیش آتی ہیں اور وہ بھی رعایا ہی کے بچاؤ اور حفاظت کے لیے ہوتی ہیں۔ ایسا ہی آج کل ہماری گورنمنٹ کو ٹرانسوال (جنوبی افریقہ) کی ایک چھوٹی سی جمہوری سلطنت کے ساتھ مقابلہ ہے۔ ہر ایک مسلمان کا حق ہے کہ انگریزوں کی کامیابی کے لیے دعا کرے۔ ہم کو ٹرانسوال سے کیا غرض۔ جس کے ہزاروں ہم پر احسان ہیں ہمارا فرض ہے کہ اس کی خیر خواہی کریں۔میں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ پوری ہمدردی اور سچی خیر خواہی کے ساتھ برٹش گورنمنٹ کی کامیابی کے لیے دعا کریں اور عملی طور پر بھی وفاداری کے نمونے دکھائیں۔ اب میں چاہتا ہوں کہ ٹرانسوال کی جنگ کے لیے ہم دعا کریں۔ بعد ازاں حضرت اقدس ؑنے نہایت جوش اور خلوص کے ساتھ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ جس کے بعد حضرت اقدسؑ نے تجویز فرمائی کہ زخمیان سرکار برطانیہ کے لیے چندہ بھی بھیجنا ضروری ہے۔
اس کتاب کے آخر پر حضورؑ نے اپنی جماعت کے احباب کو جنگ ٹرانسوال کے مجروحین کے لیے چندہ دینے کا اشتہار شائع فرمایا۔ یہ جمع شدہ رقم جو پانچ سو روپے کی تھی جناب چیف سیکرٹری گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں ارسال کر دی گئی۔ اس کتاب کے آخر میں ارسال شدہ رقم کی رسیدگی کی رسیدیں بھی شامل کی گئیں۔
٭…٭…٭