مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا
ایک بچہ جب بھوک سے بیتاب ہو کر دودھ کے لئے چلاّتا اور چیختا ہے تو ماں کے پستان میں دودھ جوش مار کر آجاتا ہے۔ بچہ دعا کا نام بھی نہیں جانتا۔ لیکن اس کی چیخیں دودھ کو کیونکر کھینچ لاتی ہیں؟ اس کا ہر ایک کو تجربہ ہے۔ بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ مائیں دودھ کو محسوس بھی نہیں کرتیں۔ مگر بچہ کی چلاّہٹ ہے کہ دودھ کو کھینچے لاتی ہے۔ تو کیا ہماری چیخیں جب اللہ تعالیٰ کے حضور ہوں تو وہ کچھ بھی نہیں کھینچ کر لا سکتیں؟ آتا ہے اور سب کچھ آتا ہے ۔مگر آنکھوں کے اندھے جو فاضل اور فلاسفر بنے بیٹھے ہیں وہ دیکھ نہیں سکتے۔ بچہ کو جو مناسبت ماں سے ہے اس تعلق اور رشتہ کو انسان اپنے ذہن میں رکھ کر اگر دعا کی فلاسفی پر غور کرے تو وہ بہت آسان اور سہل معلوم ہوتی ہے دوسری قسم کا رحم یہ تعلیم دیتا ہے کہ ایک رحم مانگنے کے بعدپیدا ہوتا ہے مانگتے جاؤ گے ملتا جاوے گا۔ اُدْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ(المومن:۶۱)کوئی لفاظی نہیں بلکہ یہ انسانی سرشت کا ایک لازمہ ہے۔ مانگنا انسان کا خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا۔ …وہ دعا کی فلاسفی خوب حل کرکے دکھاتی ہے۔ رحمانیت اور رحیمیت دو نہیں ہیں۔ پس جو ایک کو چھوڑ کر دوسری کو چاہتا ہے اسے مل نہیں سکتا۔ رحمانیت کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہم میں رحیمیت سے فیض اٹھانے کی سکت پیدا کرے۔ جو ایسا نہیں کرتا وہ کافر نعمت ہے۔(ملفوظات جلد اول صفحہ۱۲۹-۱۳۰،ایڈیشن۱۹۸۴ء)