استخارہ کیا ہے؟
(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرموده ۱۸؍جنوری ۱۹۱۸ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے اس خطبہ جمعہ میں استخارہ اور سورۃ فاتحہ میں مماثلت بیان فرماتے ہوئےاستخارے کی اہمیت کو بیان فرمایاہے۔ قارئین کے استفادہ کےلیے یہ خطبہ شائع کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
تشہدو تعوّذ کے بعد حضور نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر فرمایاکہ مجھے یہ بات معلوم کر کے بہت تعجب ہوا کہ کئی لوگ ایسے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ استخارہ کیا ہوتا ہے؟ حالانکہ
استخارہ اسلام کے اعلیٰ رُکنوں میں سے ایک رُکن ہے اور اتنا بڑا رُکن ہے کہ ہر ایک مسلمان کے لئے فرض کیا گیا ہے
اور بغیر اس کے اس کی عبادت مکمل ہی نہیں ہوسکتی، کہ ایک دن رات میں پانچ وقت اور ہر ایک رکعت میں ایک بار استخارہ نہ کرے۔ تو یہ ایک ایسا ضروری اور لازمی رُکن ہے کہ اسلام نے اس کے لئے ایک دن رات میں پانچ اوقات مقرر کئے ہیں۔ اور ہر وقت میں جتنی رکعت پڑھی جاتی ہیں اتنی ہی بار استخارہ کیا جاتا ہے۔ پھر سُنن اور نوافل میں بھی استخارہ ہوتا ہے۔ پس جب یہ ایسا ضروری اور اہم ہے تو اس سے ناواقفیت نہایت تعجب اور افسوس کا مقام ہے۔ استخارہ کے کیا معنی ہیں؟ یہ کہ خدا تعالیٰ سے خیر طلب کرنا اور اﷲ تعالیٰ سے یہ چاہنا کہ وہ کام جو مَیں کرنے لگا ہوں اس کے کرنے کا سیدھا اور محفوظ رستہ دکھایا جائے۔ سورۃ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اس میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہاَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ۔اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَاِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ۔اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ۔
پہلے اﷲ تعالیٰ کی تعریف کی جاتی ہے۔ پھر تعریف کے بعد اپنی عبودیت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے بعد انسان اﷲ تعالیٰ سے کہتا ہے کہ اے میرے خدا! جس طرح تو اپنے خاص بندوں کی راہنمائی کیا کرتا ہے۔ اسی طرح میری راہ نمائی فرما۔ اور اس راہ پر چلنے سے مجھے بچا جس پر وہ لوگ چلے جو کہ ایک وقت تک تو تیرے حکم کے ماتحت رہے، لیکن پھر انہوں نے اس راہ کو چھوڑ دیا۔ یہ ہے سورہ فاتحہ جس کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ اس کے پڑھنے کے بغیر نماز ہی نہیں ہو سکتی۔(بخاری کتاب الاذان باب وجوب القراءۃللامام والماموم فی الصلوٰۃ کلہا)
یہی استخارہ ہے صرف نام کا فرق ہے۔ اسی کو سورۃ فاتحہ کہا جاتا ہے
اور دوسرے وقت اسی کا نام استخارہ رکھا جاتا ہے۔ استخارہ کے معنی خیر مانگنا ہے اور اس خیر مانگنے کا طریق سورۃ فاتحہ میں بتایا گیا ہے اس لئے استخارہ کرنا اور سورۃ فاتحہ پڑھنا ایک ہی ہے۔ فرق اگر ہے تو یہ ہے کہ سورہ فاتحہ پڑھتے وقت ہر ایک بات، ہر ایک معاملہ اور ہر ایک کام کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے، مگر استخارہ کرتے وقت کسی خاص معاملہ کے متعلق خیر طلب کی جاتی ہے۔
تو اسلام نے سب عبادتوں کی جڑ استخارہ ہی کو مقرر کیا ہے۔
خدا کی تعریف بیان کرکے اپنی عبودیت کا اظہار کرنا کیا ہوتا ہے۔ یہی کہ انسان خدا تعالیٰ کا مطیع اور فرمانبردار ہو جائے اور وہی کام کرے جو خدا اسے بتائے اور جو خدا کی منشاء کے ماتحت ہو۔ سورہ فاتحہ میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا سے پوچھو کہ فلاں کام ہم کس طرح کریں۔ اگرچہ کرنے والے کاموں کے متعلق شریعت نے احکام بتا دیئے ہیں۔ لیکن وہ عام طور پر ہیں اور عام باتیں خاص لوگوں کے لئے نہیں ہوتیں بلکہ ان کو خاص طور پر بتائی جاتی ہیں۔ انہیں کے دریافت کرنے کے لئے سورہ فاتحہ میں درخواست کی جاتی ہے اور انسان خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ مَیں اپنے متعلق خود کوئی راستہ اختیار نہیں کرتا۔ جو آپ بتائیں گے اسی پر چلوں گا۔
یہی استخارہ ہوتا ہے۔ جو ہررکعت میں کیا جاتا ہے۔
بعض لوگوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ جب کسی امر کے متعلق استخارہ کیا جائے تو ضرور ہے کہ اس کے بارے میں خدا کی طرف سے انہیں آواز کے ذریعہ بتایا جائے کہ کرو یا نہ کرو ،لیکن کیا سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بعد انہیں کوئی آواز آیا کرتی ہے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ جو کام وہ کرتے ہیں اس میں برکت ڈالی جاتی ہے اور جو نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں۔ ان سے روکا جاتا ہے۔ یہی بات استخارہ میں ہوتی ہے
خدا تعالیٰ سے دُعا کی جاتی ہے کہ اگر فلاں کام میرے لئے مفید اور فائدہ بخش ہے تو اس کے کرنے کی توفیق دے اور اگر نہیں تو اس سے مجھے باز رکھ لے۔
مَیں نہیں جانتا کہ اس کے متعلق تیری کیا مرضی ہے ممکن ہے مَیں اسے تیری رضا کے ماتحت سمجھوں اور ہو اس کے خلاف۔ اس لئے میں تیری رضا کے آگے اپنے آپ کو ڈال دیتا ہوں۔ جس طرح تیری مرضی ہے اس کے مطابق مجھے چلا۔ یہ استخارہ ہوتا ہے۔ اس پر خداتعالیٰ کبھی بتا بھی دیتا ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ بتائے۔ کیونکہ خداتعالیٰ انسانوں کے ماتحت نہیں بلکہ آقا ہے اور آقا کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ نوکر کو ہرایک کام کے متعلق کہے۔ تب وہ کرے ورنہ نہ کرے اکثر اوقات آقا کی خموشی ہی حکم ہوتا ہے۔ تو
استخارہ کے لئے کسی خواب یا الہام کے آنے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کئی لوگ اس کو ضروری سمجھتے ہیں۔
اور خواہش رکھتے ہیں کہ انہیں خوابیں آئیں۔ حالانکہ ایسی خوابیں جو خواہش پر آئیں کسی مصرف کی نہیں ہوتیں۔ دیکھو اگر ایک شخص اپنے دوست کی ملاقات کے لئے جائے گا تو اس کا دوست مقدور بھر اسے اچھی خوراک کھلائے گا اور اس کی خاطر تواضع کرے گا لیکن اگر وہ ملاقات کی نیّت سے نہ جائے کہ آپس میں پیار اور محبت کے تعلقات مضبوط ہوں، بلکہ اس خیال سے جائے کہ وہاں مجھے اچھا کھانا ملے گا۔ تو وہ ایک بیہودہ اور لغو انسان ہو گا، کیونکہ اگر وہ ملنے کی نیّت سے جاتا تب بھی اسے اچھا کھانا مل جاتا اور اب جبکہ صرف کھانے کی خاطر آیا ہے تب بھی مل گیا ہے، لیکن یہ کھانا ا س کے لئے کسی فخر کا باعث نہیں بلکہ ذلّت کا موجب ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو اس لئے استخارہ کرتا ہے کہ مجھے خوابیں آئیں۔ وہ ایک بیہودہ حرکت کرتا ہے اور ایسی خوابیں اُس کے لئے کچھ بھی مفید نہیں ہوں گی۔ پھر اگر استخارہ کرنے پہ خوابوں کا آنا ضروری ہے۔ تو چاہئے کہ انسان کو ہر رات خوابیں ہی آتی رہیں۔ ہر بات کے متعلق اسے اسی طرح آگاہ کیا جایا کرے کیونکہ ہر روز نمازوں میں کئی کئی بار وہ استخارہ کرتا ہے، لیکن استخارہ کے لئے خوابوں کا آنا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ تو دُعا ہے۔ اس کے کرنے کے بعد جو خدا دل میں ڈالے اس پر عمل کرنا چاہئے۔ اگرخداتعالیٰ اس کام کے متعلق انشراح کر دے تو کر لیا جائے۔ اور اگر قبض پیدا ہو۔تو نہ کیا جائے۔(الفضل۵؍فروری۱۹۱۸ء)