’’مرزا میرا مرزا‘‘ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا ایک منفرد انداز
حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ اللہ تعالیٰ آپؓ کو اپنی خاص تقدیرکے تحت بھیرہ کی سرزمین سے قادیان لے آیا جہاں آپ کی فاروقی نسبت کو صدیقی نسبت کا خطاب بزبان حضرت مسیح موعود علیہ السلام عطا ہوا جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو پہلا خلیفہ بنا کر ظاہری طور سے بھی پورا کر دیا۔ آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کے منفرد انداز کو ’’مرزا میرا مرزا‘‘ کے عنوان کے تحت درج کرنے کی سعادت پاتا ہوں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پیار سے مرزا یا میرا مرزا کہہ دیا کرتے تھے۔ (رؤیا و کشوف سَیّدنا محمود، صفحہ ۵۶۴)
شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگرمل تحریر فرماتے ہیں: ’’حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ سے متعلق خاکسار راقم الحروف نے اکثر بزرگوں سے سُنا ہے کہ آپ حضرت اقدس کا ذکر عام طور پر ’’ہمارے امام‘‘، ’’حضرت اقدس‘‘ اور ’’امام الزمان‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے کرتے تھے۔ لیکن کبھی کبھی شدت محبت کی وجہ سے ’’مرزا‘‘ یا ’’میرے مرزا‘‘ اور ’’مرزا جی‘‘ کہنے پر ہی اکتفا فرماتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ایک مرتبہ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب آپ بہت جوش اور محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر کرتے تو ’’مرزا‘‘ کا لفظ استعمال کیا کرتے اور فرماتے۔ ’’ہمارے مرزا‘‘ کی یہ بات ہے۔ ابتدائی ایام سے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلقات تھے۔ اس لئے اس وقت سے یہ لفظ آپ کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ کئی نادان اس وقت اعتراض کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب نہیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کو لوگ عام طور پر مولوی صاحب یا بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے) میں نے خود کئی دفعہ یہ اعتراض لوگوں کے منہ سے سُنا اور حضرت مولوی صاحب کو اس کا جواب دیتے ہوئے بھی سُنا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ اسی مسجد میں حضرت خلیفہ اولؓ جبکہ درس دے رہے تھے آپ نے فرمایا۔ بعض لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ادب نہیں کرتا۔ حالانکہ میں محبت اور پیار کی شدت کے وقت یہ لفظ بولا کرتا ہوں‘‘۔‘‘(خطبات محمود جلد ۱۹ صفحہ ۳۴۹)(حیات نور مصنفہ شیخ عبدالقادر، سابق سوداگرمل،صفحہ ۱۹۵ تا ۱۹۶)
مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی کتاب آسمانی فیصلہ میں تحریر فرماتے ہیں :’’حضرت مولوی صاحب کے محبت نامہ موصوفہ کے چند فقرہ لکھتا ہوں غور سے پڑھنا چاہئے تا معلوم ہو کہ کہاں تک رحمانی فضل سے ان کو انشراح صدر و صدق قدم و یقین کامل عطا کیا گیا ہے اور وہ فقرات یہ ہیں۔ ’’عالی جناب مرزا جی مجھے اپنے قدموں میں جگہ دو۔ اللہ کی رضا مندی چاہتا ہوں اور جس طرح وہ راضی ہوسکے طیار ہوں اگر آپ کے مشن کو انسانی خون کی آبپاشی ضرور ہے تو یہ نابکار(مگر محب انسان) چاہتا ہے کہ اس کام میں کام آوے‘‘۔ تمّ کلا مہ جزاہ اللّٰہٗ حضرت مولوی صاحب جو انکسار اور ادب اور ایثار مال و عزت اور جان فشانی میں فانی ہیں وہ خود نہیں بولتے بلکہ ان کی روح بول رہی ہے۔ ‘‘(آسمانی فیصلہ روحانی خزائن جلد۴ صفحہ ۳۳۸)
دیکھاہے میرا مرزا
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی چودھری غلام حسین صاحب بھٹیؓ فرماتے ہیں:جب ہم بیعت کرکے واپس مسجد مبارک میں گئے تو حضرت خلیفہ اول ملے اور فرمایا کہ بیعت کر لی۔ ہم نے عرض کی کہ کر لی تو حضور نے فرمایا کہ اے زمیندارو دیکھاہے میرا مرزا۔ ( رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر ۱ روایت چوہدری غلام حسین صاحب بھٹیؓ )
اسلام میں مرزا نے اضافہ نہیں کیا
مرزا کو میں نے ان تمام ذرائع سے صادق مانا جن ذرائع سے میں نے تمام راستبازوں کو بحمد اللہ راستباز مانا ہے۔ آپ جس ذریعہ سے کسی کو صادق مانتے ہیں اُسی ذریعے سے تحقیق کر لو۔ نیز استغفار ؔ، لاحول ؔ، درودؔ اور الحمد ؔ شریف کی کثرت کرو اور خیرات کرکے دعائیں مانگو کہ الٰہی اس حق کو ظاہر فرمائے۔ آمین یاربّ العالمین۔ تمام عقائد سلف میں جن کا بخاری میں ذکر ہے اورابانہ و حضرت التجلی میں مَیں نے پڑھا ہے۔ یا عقیدہ طحاویہ یا نونیہ ابن قیم میں مجھے پتہ لگا ہے اس کے مطابق پایا۔ کوئی نیا اصل اسلام میں مرزا نے اضافہ نہیں کیا۔ خدمت اسلام یہ کی ہے کہ مخالفان اسلام آریہ، برہمو،نصاریٰ، نیچریوں اور سکھ قوم کو قطعاً ساکت کر دیا۔ (ارشادات نور جلد دوم صفحہ ۸۰)
اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمَاءُ
ایک اَخْشَی اللّٰہ عالم میں نے دیکھا ہے۔ ایک مخالف اسلام کے بعض اعتراضوں کے بارے میں مَیں نے حضور میں عرض کیا کہ ان کے جواب کے متعلق موجودہ صورت میں مجھے یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یا تو ان اعتراضوں کا ذکر ہی نہ کروں اور اگر کروں تو الزامی جواب دے دوں۔ یہ سن کر آپؑ کو جوش آگیا فرمایا۔جس بات پر تمہیں خود اطمینان نہیں اسے دوسروں کو منواتے ہو؟ مومن ایسا ہر گز نہیں کرتا۔ یہ کلمات طیبات سن کر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بزرگ بڑی خشیت الٰہی رکھنے والا ہے اور کوئی بات نہیں کہتا جس کا خود اسے یقین نہیں۔ اس بزرگ کا نام مرزا تھا(علیہ الصلوٰۃ والسلام)
کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ
دوسرا فائدہ میں نے آپ کی صحبت میں یہ اٹھایا کہ دنیا کی محبت مجھ پر بالکل سرد پڑگئی کوئی ہو مخالف یا موافق میرے تمام کا روبار اور تعلقات کو دیکھے کیا مجھ میں ذرہ بھر بھی حُبِّ دنیا باقی ہے۔ یہ سب مرزا کی قوت قدسیہ اور فیض صحبت سے حاصل ہوا۔ یہ تو مشہور ہے کہ حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ۔ پس میں نے مرزا کی صحبت سے وہ فائدہ حاصل کیا جو تمام تعلیمات الٰہیہ کا منشاء ہے اور ذریعہ نجات اور اسی دنیا میں بہشتی زندگی۔(ارشادات نور جلد سوم صفحہ۲۴۳-۲۴۴)
اتنے سال پہلے مرزا کویہ واقعہ دکھایا
حضرت خلیفۃ المسیح نے ایک روز فرمایا کہ میری اس علالت میں کوئی عظیم الشان منشاء سرکاری معلوم ہوتا ہے جو اتنے سال پہلے مرزا کویہ واقعہ دکھایا ( یاد رہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح شدت پیار کی وجہ سے عموماً حضرت اقدس کو مرزا کے نام سے پکارا کرتے ہیں اور اہل زبان اس کا لطف اُٹھاسکتے ہیں۔ایڈیٹر) اور پھر اس واقعہ کو اسی رنگ میں پورا کرکے دکھایا اور مجھے چارپائی پر ڈال دیا۔(ارشادات نور جلد دوم صفحہ ۲۶۳)
میں بھی مرزا کا مرید ہوں
جماعت کے بعض لوگ دعا کرانے کی درخواست میں بھی شرک کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں۔ کوئی تمہارا کارساز نہیں۔میں علم غیب نہیں جانتا۔ نہ میں فرشتہ ہوں اور نہ میرے اندر فرشتہ بولتا ہے۔ اللہ ہی تمہارا معبود ہے۔ اسی کے تم ہم سب محتاج ہیں،کیا مخفی اور کیا ظاہر رنگ میں۔ اس کی طاقت بہت وسیع ہے اور اس کا تصرف بہت بڑا ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کر دیتا ہے۔اس کا ایک نظارہ اس امر میں دیکھو کہ تم بھی مرزا کے مرید ہو اور میں بھی مرزا کا مرید ہوں مگر اس نے تمہیں پکڑ کر میرے آگے جھکا دیا۔اس میں نہ میری خواہش تھی اور نہ مجھ پر کسی انسان کا احسان ہے۔ میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی اور نہ یہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے۔(خطبات نور،صفحہ ۵۰۶)
مرزا کو دیکھ دیکھ کر
اس وقت تمہاری آنکھوں کے سامنے اسی محمد مکی صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم اور غلام احمد قادیانی (خدا کی برکت اور نصرت اس کے ساتھ ہو) تم میں موجود ہے۔ یہ مرزا کا مکان ہے۔ اس کے چاروں طرف دشمن ہیں۔ اِدھر دشمن اُدھر دشمن، بازار میں دشمن، شہر سے باہر دشمن، غرض ہرطرف سے دشمنوں کے نرغہ میں ہے۔ اسی پربس نہیں ہے عالِم علمی تلوار سے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ سجادہ نشینوں نے اپنی ضربوں اور حزبوں کا پورا زور لگایا۔ ناعاقبت اندیشوں نے اقدام قتل کے مقدمے بناکر پھنسانا چاہا۔ ملانوں نے قتل کے فتوے دے کر جہلا اور عوام کو بھڑکا کر جان لینی چاہی۔ ٹیکس کا مقدمہ بنوا کر مالی نقصان پہنچانے کی فکر کی۔ غرض کوئی دقیقہ اپنی کوششوں کا باقی نہیں رکھا مگر یہ خدا کو سپر بنانے والا ہر میدان میں باوجود اس کے کہ ظاہری اسباب مخالف ہی تھے کیسے بچ کر نکلتا رہا ہے۔ یہ تو مسلمانوں کا حال ہے۔ پھر آریہ، برہمو، سناتن، سکھ، پادری اپنی اپنی جگہ پر کبھی گورنمنٹ کو بدظن کرنا چاہتے ہیں۔ کبھی کسی اور پیرایہ میں اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ اس کو پھنسائیں مگر اللہ اللہ اس کے پاس کوئی ایسی سپر موجود ہے کہ مخالفوں کا وار اس پر چل ہی نہیں سکتا۔ میں تو مرزا کو دیکھ دیکھ کر اس قدر ایمان میں ترقی کرتا ہوں کہ اس کا اظہار بھی نہیں ہوسکتا۔ تم خود اس کو دیکھو نت نئی جوانی کی بہار دکھاتا ہے۔ ہر نیا دن اس کو جوان بناتا جاتا ہے۔ اب اس کی حالت کو دیکھو کہ مخالفوں کی اس قدر کثرت اور اس کے دم میں تیزی پیدا ہوتی جاتی ہے اور کوئی مخالفت اور عداوت اس پراثر نہیں کرتی تویہ ضرور ماننا پڑے گا کہ خدا کو سِپر بنانے کا ڈھب اس کو ضرور یاد ہے۔ (خطابات نور صفحہ ۱۲۹-۱۳۰)