امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفینِ نَو بیلجیم کی (آن لائن) ملاقات
مورخہ۱۲؍نومبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ واقفینِ نَو بیلجیم کی آن لائن ملاقات منعقد ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز سے رونق بخشی جبکہ واقفینِ نو بچوں نے بیلجیم کے دارالحکومت برسلز (Brussels) کی اُکل (Uccle) کونسل میں واقع مسجد بیت المجیب سے آن لائن شرکت کی۔اس ملاقات کا آغاز تلاوت، حدیث، نظم اور سیّدناحضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک اقتباس سے ہوا۔
بعد ازاں واقفینِ نو کو مختلف نوعیّت کے سوالات پوچھنے اور اس کی روشنی میں اپنے حضور انورسےراہنمائی حاصل کرنے کا موقع ملا۔
پہلا سوال کیا گیا کہ واقفینِ نو کو کس ریسرچ فیلڈ(research field) کو اختیار کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ واقفینِ نو کو سائنس، تاریخ اور آرکائیوز (archives)سمیت مختلف ریسرچ فیلڈزکوexploreکرنا چاہیے نیز حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اورمیڈیسن (medicine) کی ریسرچ کے بارے میں بھی دلچسپی لینی چاہیے۔ مزید آپ نے اس بات پر زور دیا کہ واقفینِ نو کو تمام ریسرچ فیلڈز میں شامل ہونا اور ان میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔
ایک سوال کیا گیا کہ نظام وصیت میں کس عمر میں شامل ہونا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ جب تم ہوش و حواس میں قائم ہو جاؤ تو شامل ہو جاؤ۔ پندرہ، سولہ سال کی عمر میں شامل ہو سکتے ہو۔ پندرہ سال میں اگر شامل ہوتے ہو تو پھر سترہ، اٹھارہ سال کی عمر میں اس کوrenewکرو کہ میں اس کو اب جاری رکھنا چاہتا ہوں تا کہ جب تم لوگ بالغ ہو جاؤ تو قانونی لحاظ سے بھی پکا ہو جائے ۔ یہ نہ ہو کہ میں نے بچپن میں وصیت کی تھی مجھے پتا نہیں تھا۔ اس لیے اٹھارہ سال کی عمر میں پھر کہہ دو تا کہ تم لوگوں کو ہوش و حواس میں پتا ہو کہ ہم نے وصیت کی ہے اور ہم پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پندرہ سال کی عمر ایسی ہے جس میں انسان سمجھ سکتا ہے اور بچہ خدام الاحمدیہ میں جا رہا ہوتا ہے تو اس عمر میں پہلے رسالہ الوصیت پڑھو ، اس کو سمجھو۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم سے کیا چاہتے ہیں، کیوں آپؑ نے اللہ تعالیٰ سے اِذن پا کے اس کے حکم سے وصیت کی تحریک شروع فرمائی تھی اور جب اس کی سمجھ آ جائے تو پھر وصیت کرو۔
ایک سوال پوچھا گیا کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا عشق و وفا کس طرح مضبوط کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ دُرود شریف پڑھا کرو۔ دُرود شریف پڑھ کے اس کا مطلب سمجھا کرو کہ ہم دُرود شریف پڑھ رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں جو فضل ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے ، ان کی آل پر نازل فرمائے اور پھر ان کو اتنی برکت دے کہ وہ بڑھتی جائیں، پھیلتی جائیں، پھولتی جائیں۔
اگر اس طرح سوچ کے، غور کر کے دُرود شریف پڑھو تو اللہ تعالیٰ سمجھے گا کہ تم حقیقی دُرود شریف پڑھ رہے ہو اور پھر یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق اور وفا کا اظہار ہو گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ ساری رات اتنا دُرود شریف پڑھا اور اتنے درد سے پڑھاکہ رات کو میں نے رؤیا یا کشف میں دیکھا کہ فرشتے آسمان پر پھر رہے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ھَذَا رَجُلٌ یُّحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ۔ یہ وہ شخص ہے جو رسول اللہؐ سے محبّت کرتا ہے اور اس وجہ سے اس کو وہ مقام دیا جائے جو آج کل زمانے میں انقلاب لانے کے لیے مقام ہے اور پھر آپؑ کو مسیحِ موعود اور مہدیٔ معہود کا ٹائٹل دیا گیا۔ مسیحِ موعودؑ تو آ گئے، اب ان کے ماننے والوں کاکام ہے کہ عشق ِرسولؐ میں فنا ہو کے اتنا دُرود پڑھیں کہ اللہ تعالیٰ کی جتنی برکات ہیں، جتنے فضل ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں۔ اور جب اس طرح دُرود پڑھا جائے گا تو پھر ہماری حالت بھی بدلے گی، ہمارے اپنےعشق کا معیار بڑھے گا، جماعت کے عشق کا معیار بڑھے گا اور پھر اس کے دعاؤں کے فیض سے مسلمانوں کی حالت بھی بدلے گی۔اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے گی اور وحدانیت کا جھنڈا دنیا میں لہرائے گا،ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ایک آٹھ سالہ واقفِ نو بچے نے سوال کیا کہ وہ الله تعالیٰ سے کیسے دوستی کر سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اس کا دوست بنناچاہتا ہے اسے اس کی اطاعت کرنی چاہیے۔ حضور نےسائل کی عمر کی طرف نشاندہی کرتے ہوئےفرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو وہ نماز پڑھنا شروع کر دے اور دس سال کی عمر میں تو نماز فرض ہو جاتی ہے۔اس کی روشنی میں حضور نے تلقین فرمائی کہ نماز کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ اپنی محبت کا اظہار کرے اورآپ سے دوستی کرے۔
ایک واقفِ نو نے دریافت فرمایا کہ حضور اپنے مصروف شیڈیول (schedule)کے باوجود بہت سے خطوط کیسے پڑھ لیتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایاکہ بعض خطوط کو آپ براہ راست addressکرتے ہیں جبکہ بعض دیگر کا خلاصہ تیار کر کے آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے نیز کچھ خطوط آپ خود بھی پڑھتے اور ملاحظہ فرماتے ہیں۔
اکنامکس (Economics)کے ایک انیس سالہ طالب علم نے راہنمائی طلب کی کہ اسے کس فیلڈ میں جانا چاہیے؟
اس پر حضور انور نےموصوف کو اکنامکس میں تعلیم جاری رکھتے ہوئے مزید مہارت حاصل کرنے کی تلقین فرمائی نیز فرمایا کہ وہ اس مضمون میں پی ایچ ڈی (Ph.D) کرنے کاعزم کریں۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی الله تعالیٰ عنہ کی کتاب اسلام کا معاشی نظام کا مطالعہ کریں اور اس سلسلہ میں قرآن پاک کی تعلیمات پر غور کریں۔ مزید برآں اس بات پر زور دیا کہ یہ (explore)کرنا چاہیے کہ سود پر مبنی نظاموں کے زیرِ تسلّط دنیا میں کس طرح اسلامی نظام کے قیام سےکسی بھی معاشرے کو اس طرح کے رویوں سے آزادکرایا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ فلسطین کی زمین میرے نیک بندوں کو ملے گی، کیا وہ نیک بندے جماعت احمدیہ میں سے ہوں گے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر جماعت احمدیہ والے نیکی پر قائم رہیں گے تو نیک بندے وہی ہوں گے۔ عبادالصالحین، ایسے صالح بندے جو اللہ تعالیٰ کے صحیح بندے ہوں، عبادت کرنے والے بھی ہوں، اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کرنےو الے ہوں تو ایسے لوگ جب دعائیں کریں گے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے مانگیں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ان کی دعاؤں میں برکت ڈالے گا ۔ تو ظاہر ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں بھیجا۔ اس لیے بھیجا کہ آپؑ اسلام کی تعلیم ، جس کو دنیا بھول بیٹھی ہے یا اس میں غلط قسم کی باتیں شامل کر کے نئی بدعات پیدا کر دی ہیں جو غلط ہیں، اس کی صحیح تعلیم ، قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں لوگوں کو بتائیں اور ایک جماعت قائم کریں۔تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک جماعت قائم کرنے کے لیے بھیجا، اب یہ جماعت کا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں میں شامل ہوں جو عبادالصالحین ہیں، جو نیک لوگ ہیں اور جب ہم یہ ہوں گے تو دنیا کو بھی اپنی طرف لائیں گے اور دنیا کو ایک کریں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو یہ بھی فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں عَلیٰ دِیْنِ وَاحِدٍجمع کرو ۔ واحد دین کے اوپر جمع کروتا کہ سارے فرقے ختم ہو جائیں اور ایک اکثریت والا فرقہ صرف جماعت احمدیہ کا رہ جائے۔جب ایسے لوگ ہوں گے تو ان لوگوں میں عبادالصالحین بھی ہوں گے اور ان لوگوں کی دعاؤں سے، ان لوگوں کی کوششوں سے اللہ تعالیٰ پھر برکت ڈالے گا اور یہ ظلم ختم ہو گا اور عبادالصالحین کی حکومت قائم ہو جائے گی ۔لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہودی اگر ظلم سے باز نہیں آئیں گے تو ان سے زمین چھین لی جائے گی۔اللہ تعالیٰ نے ان کو دو دفعہ موقع دینا تھا، یہی قرآن شریف میں لکھا ہوا ہے، تو اگر وہ ظلم سے باز نہیں آتے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کو ختم کرنے کے لیے وہ زمین ان سے چھین کے عبادالصالحین کو دے دے گا۔ اگر وہ ظلم سے باز آ جاتے ہیں اور لوگوں کو تنگ نہیں کرتے اور ظلم نہیں کرتے تو پھر اللہ تعالیٰ ان کی حکومت ایک لمبا عرصہ بھی چلا سکتا ہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ اگر ہمارا کوئی غیر احمدی رشتہ دار یا دوست فوت ہو جائے تو کیا ہم اس کے لیے مغفرت کی دعا کر سکتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہاں! اگر وہ مسلمان ہے، موحّد ہے، اللہ تعالیٰ پر یقین رکھنے والا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے تو اس کے لیے ہم مغفرت کی دعا کر سکتے ہیں ،کوئی ایسی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اس کو بخش دے۔اگر اس نے کسی غلط فہمی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا تو اس کے لیے مغفرت کی دعا کرنے میں کوئی ہرج نہیں۔
اگر کوئی غیر احمدی فوت ہو جاتا ہے اور وہ مسلمان ہے اور وہاں اور کوئی مسلمان نہیں ہے اور اس کا جنازہ پڑھنے والا بھی کوئی نہیں ہے تو ہم اس کا جنازہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔
ایک واقفِ نو نے عرض کیا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہے کہ “Intelligence is a name of concentration”تو ہمconcentration کیسے قائم کر سکتے ہیں کہ ہماریintelligenceمیں اضافہ ہو؟
اس پرحضور انور نے فرمایا کہ ذہانت کسی چیز پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔concentrationکیا ہے؟ غور کرنا، سوچنا۔اگر تم کوئی مضمون پوری توجہ سے پڑھتے ہو، اس پر غور کرتے ہو تو اس سے تمہاری دماغی سوچیں کھلتی ہیں اور اسی سے تمہارے اندر ذہانت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے سوچنے کی عادت ڈالو، غور کرنے کی عادت ڈالو، جو مضمون ہیں ان میں توجہ پیدا کرو۔جب کسی topicپر توجہ کرو گے، سوچو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے رستے دکھائے گا اور تمہارے دماغ کو کھولے گا اور روشن کرے گا۔
جو بھی کام کرو ، غور سے ، سوچ سوچ کے کیا کرو اور دیکھا کرو کہ اس کے کیا فائدے ہیں، کیا نقصانات ہیں، اس کو کس طرح ہم بہتر طور پر کر سکتے ہیں؟ ہر کام توجہ سے کرو تو تمہارے اندر ذہانت پیدا ہوتی جائے گی، اس کام کو کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی۔
ایک واقفِ نو نے دریافت کیا کہ ہم واقفینِ نو بچوں کو آج کل کے جنگ کے حالات میں اپنے آپ کو مستقبل کے لیے کیسے تیار کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ پہلے تو یہ دعا کرو اللہ تعالیٰ ان جنگی حالات سے ہمیں بچا کے رکھے اور یہ جنگ جو گو عالمی جنگ کی تھوڑی بہت صورت تو اختیار کر چکی ہے لیکن زیادہ نہ پھیلے اور عالمی جنگ نہ بن جائے۔ پہلے تو یہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس سے بچائے اور نہ ہی ہو تو اچھی بات ہے۔ اور اگر ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ہمارا ایمان مضبوط رہے اور ہم کسی خوف کی وجہ سے اپنے ایمان سے دُور ہٹنے والے نہ ہوں۔
پھر یہ ہے کہ اپنے اندر خوف سے دُور کرو۔ اب دیکھو! فلسطینی بچے ہیں ، جنگ کی وجہ سے ان پر جو ظلم ہو رہے ہیں لیکن ان کو کوئی خوف نہیں۔ ان کی تصویریں آتی ہیں تو ہنستے ہی رہتے ہیں۔ اس لیے تمہارے اندر خوف نہیں ہونا چاہیے، جرأت ہونی چاہیے۔
دوسرا یہ ہے کہ اپنے دوستوں کو بتاؤ کہ ہمیں جنگ کے خلاف ہونا چاہیے اور ہمیں امن قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔پھر یہ ہے کہ اپنے میں صبر اور حوصلے کی عادت ڈالو۔ یہ بھی سوچ لو کہ تم گھر میں کھانا ، برگر (burger) ، شوارما (shawarma)یا پاستا (pasta)کھاتے ہو، اگر جنگ کے حالات میں اس میں سے تھوڑا بہت کھانا مل جائے، آدھا کھانا ملے تو تم نے اس میں بھی گزارا کرنا ہے تا کہ تمہارا کھانا زیادہ سے زیادہ چل سکے کیونکہ حالات جب خراب ہوں گے، عالمی جنگ ہو جاتی ہے، حالات خراب ہوتے ہیں تو پھر بہت زیادہ بھی خراب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس سوچ کے ساتھ ہمیشہ عمل کرو۔لیکن اوّل چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ جنگ کو ٹال دے اور نہ ہو تو زیادہ اچھا ہے۔
ایک واقفِ نو نے ذکر کیا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ کوئی نیکی میں صرف اسی صورت ترقی کر سکتا ہےجب وہ سنجیدہ ہو، جو لوگ سنجیدہ نہیں ہوتے وہ دینی یا دنیاوی معاملات میں نافع نہیں ہو سکتے۔ نیز دریافت فرمایا کہ اس نصیحت پر کیسے عمل کیا جا سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے مثال کے ذریعہ سے سمجھایا کہ جب کوئی پڑھ رہا ہو تو اسے ٹاپک(topic) پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے چاہے وہ جغرافیہ ہو، ریاضی ہو، انگریزی ہو، کوئی دوسری زبان ہو یا تاریخ۔ اپنی پڑھائی کو سنجیدگی سے لینا چاہیے، تب ہی کوئی صحیح معنوں میں ٹاپک (topic)کو سمجھ سکتا ہے، اسی طرح کے اصول دوسرے کاموں پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ مزید برآں اس بات پر زور دیا کہ تمام کاموں کو اہم سمجھا جانا چاہیے۔ آپ جو بھی کریں، اسے احتیاط سے کریں، اس کے بارہ میں سوچیں اور اسے اہمیت دیں۔ صرف اسی صورت میں آپ اپنے مفوّضہ کام میں ترقی کر سکیں گے۔
ایک سوال کیا گیا کہ ایک انسان جس کو دل سے احمدیت کی سچائی پر یقین ہو لیکن وہ لوگوں کے ڈر سے بیعت نہ کرے، اللہ تعالیٰ کا اس سے کیا سلو ک ہو گا؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر واقعی خوف کے حالات ہیں اور دل میں وہ احمدیت کو سچا سمجھتا ہے، حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو برا بھلا نہیں کہتا تو دل سے وہ احمدی ہے، باقی خوف کی وجہ سے، دنیاوی حالات کی وجہ سے اگر اس نے ایسی بات کی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحابیؓ کو پکڑ لیاگیا، اس کو بڑا بُرا بھلا کہا ، مارا پیٹا، اس نے انکار کر دیا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی غلط الفاظ ادا کر دیے۔ اس کے بعد وہ روتا ہوا آیا، اس نے کہا کہ میرے ساتھ انہوں نے یہ سلوک کیا جس کی وجہ سے میں نے کہہ دیا، میں بہت گناہگار ہوں، میں کس طرح بخشا جاؤں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دل سے تم پکے مسلمان ہو؟ اس نے کہا ہاں جی! میں دل سے پکا مسلمان ہوں، بس خوف کی وجہ سے میرے سے وہ غلط الفاظ نکل گئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ، پھر اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے گا اور تم بخشے جاؤ گے۔
تو اگر ایسے حالات ہیں کہ آدمی دل سے احمدیت کو سچا سمجھتا ہے لیکن خوف کی وجہ سے بیعت نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ رحمان ہے، رحم کرنے والا ہے، اس کو بخش دے گا ۔ لیکن ساتھ یہ شرط ہےکہ یہ نہیں کہ لوگوں کو دیکھ کر پھر وہ مستقل گالیاں ہی نکالنے لگ جائے۔ تو اگر برا بھلا نہ کہتا ہو اور لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا جماعت کو گالیاں نہ نکالتا ہو تو ٹھیک ہے پھر اللہ کے ساتھ اس کا معاملہ ہے۔
یہ کہہ دینا کہ میں لوگوں کے خوف سے تو مستقل کئی سالوں سے گالیاں نکال رہا ہوں لیکن دل سے میں احمدی ہوں، یہ نہیں ہو سکتا۔ ایمان چھپانے والے جو ہوتے ہیں۔قرآن شریف میں ایمان چھپانے والے کا بھی ذکر ہے ، لیکن وہاں جب موقع آیا تو اس نے ایمان ظاہر بھی کر دیا۔
اگر اس نے سچے دل سے احمدیت کو سمجھا ہے کہ یہ حقیقت ہے تو پھر ٹھیک ہے اظہار نہ کرے کہ میں احمدی ہوں لیکن یہ بھی اس کا فرض ہے کہ پھر احمدیوں کو گالیاں بھی نہ نکالے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو برا بھلا کہے۔ اگر وہ یہ کرے گا تو پھر گناہگار ہو گا ، اگر نہیں تو پھر ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے۔
ایک سوال نظر بد کے تصور اور ان لوگوں کے طرزِ عمل کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو نظر بد سے بچنے کے لیے خوشخبری چھپاتے ہیں، کیا اس میں کوئی حقیقت ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ نظر بد میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ تاہم کچھ لوگ حسد کرتے ہیں اور اپنی حسد کی وجہ سے وہ غیر ارادی طور پر کسی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ نیز حضور انور نے تلقین فرمائی کہ حسد کرنے والوں کے نقصان دہ ارادوں سے محفوظ رہنے کے لیے دعا کرنی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آخری دو سورتوں میں اس دعا پر زور دیا ہے۔
ایک سوال کیا گیا کہ دعاؤں کے علاوہ فلسطینیوں کی کیسے مددکی جا سکتی ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سب سے پہلے اور مقدم چیزدعا ہی ہے، وہ کرنی چاہیے کیونکہ دعا میں بہت طاقت ہے۔ پھرکسی بھی خیراتی کام میں حصہ ڈالا جا سکتا ہے، ہیومینٹی فرسٹ(Humanity First) انسانی ہمدردی کی کوششوں میں مدد کر رہی ہے لہٰذا وہاں بھی عطیات دیے جا سکتے ہیں۔
ایک واقفِ نو نے دریافت کیا کہ مسلمان حج اور عمرہ کے دوران سفید لباس کیوں پہنتے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ سفید کپڑے کو صفائی کی علامت کے طور پر پہنا جاتا ہے۔ حج اور عمرہ عبادت کی وہ اقسام ہیں جہاں انسان خدا کے بہت قریب ہوتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسی طرح سکھایا ہے۔
ایک واقفِ نو نے راہنمائی طلب کی کہ اسے ایک مثالی خادم بننے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
اس پر حضور انور نےسب سے پہلے اس بچہ سے اس کی عمر کی بابت دریافت فرمایا تو اس نے عرض کیا کہ وہ آٹھ سال کا ہے۔ جس پر آپ نے تلقین فرمائی کہ وہ نماز پڑھنی شروع کر دے اور عمرکے ساتھ ساتھ اس پر پختگی سے قائم رہے۔ نیز فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے سے گریز کرے اور عہدکرے کہ وہ بڑے ہو کر بھی نیک کاموں میں مشغول رہے گا اور اپنے دینی علم میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔
ایک سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مذاہب کیوں بنائے ہیں؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ابتدا،حضرت آدمؑ کےوقت سے انسان کو مذہب کا تعارف کروایا کہ مذہب کیا چیز ہے؟اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ اچھی باتیں ہیں، یہ بری باتیں ہیں۔ پھر اس زمانے میں آج جس طرح ایک گلوبل ولیج بن گیا ہے، تم جہاز پر بیٹھتے ہو، ٹرین پر بیٹھتے ہو، ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ملک سے دوسرے ملک چلے جاتے ہو۔ اس زمانے میں اتنی آسانی سے سفر نہیں ہوتے تھے۔ایک جگہ سے دوسری جگہ دو، تین سو میل کا بھی فاصلہ کرنا ہوتا تو اونٹوں پر یا پیدل سفر کیا کرتے تھے یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے۔ تو اس طرح آپس میں ایک دوسرے سے رابطہ نہیں تھا۔ پھر ہر برّاعظم کا تو دنیا کو پتا ہی نہیں تھا ۔ اس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ مثلاًجو عرب میں رہنے والا ہے کہ عرب ہی ساری دنیا ہے۔ امریکہ میں رہنے والا سمجھتا تھا کہ امریکہ ہی ساری دنیا ہے۔ آسٹریلیا میں رہنے والا سمجھتا تھا کہ آسٹریلیا ہی ساری دنیا ہے۔ساری دنیا کا تو پتانہیں تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر ملک، ہر علاقے میں نبی بھیجے تا کہ ان کو دین کے بارے میں بتائے اور یہ بتائے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کی عبادت کرو اور مذہب کیا اخلاق سکھاتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں میں نبی بھیجے۔ ایک حدیث کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی آئے اور اللہ تعالیٰ نے بعض نبیوں کا ،چوبیس پچیس کا قرآن شریف میں بھی ذکر کیا۔ تو بہرحال یہ مختلف نبی جو آئے انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں مذہب کی تعلیم دی اور ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ ایک زمانہ آئے گا جب سارے مذہب اکٹھے ہو جائیں گے، ایک ہو جائیں گے، ایک بڑا نبی آئے گا۔
اب دیکھو! یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وجود ہونے کا ثبوت ہے کہ ہر نبی نے جو بنیادی تعلیم دی، جو اخلاق سکھائے وہ ایک ہی ہے۔ چاہے وہ امریکہ میں پیدا ہونے والا نبی تھا یا چین میں پیدا ہونے والا تھا یا ہندوستان میں یا ایشیا میں یا آسٹریلیا میں جس طرح Aboriginesہیں یاکہیں بھی تھا ۔ تو سب کو اللہ تعالیٰ نے جو تعلیم دی وہ تقریباً ایک ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اچھے اخلاق پیدا کرو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جب دیکھا کہ اب دنیا کے لوگوں کے دماغ matureہو گئے ہیں اور اب ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ سب اکٹھے ہونے والے ہیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا اور آپؐ کو کہا کہ آپؐ ساری دنیا کے لیے نبی ہیں۔ باقی کسی نبی کو اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ ساری دنیا کے لیے نبی ہو، ان کو یہی کہا کہ تم اپنی قوم کے لیے نبی ہو اور ہر قوم کے نبی نے کہا کہ ایک نبی جب ساری دنیا کے لیے آئے گا تو اس کو مان لینا۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے یہ ساری پیشگوئیاں نبیوں نے کیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا اور اب آپؐ رحمۃ للعالمین ہیں۔ سب عالمین ، ساری دنیا ، سارے جہانوں کے لیے نبی ہیں اور پہلے نبیوں نے اسی کی تعلیم دی تھی ۔
اب کیونکہ ہم اکٹھے ہو سکتے ہیں اس لیے اسلام کی تعلیم بھی ہر جگہ پھیل سکتی ہے۔ دیکھو!تم بیلجیم میں بیٹھے ہو ، کچھ لوگ افریقہ میں بیٹھے ہیں، کچھ لوگ ساؤتھ امریکہ میں بیٹھے ہیں، کچھ لوگ Far East میں بیٹھے ہوئے ہیں ، آئی لینڈز میں بیٹھے ہوئے ہیں ، کچھ ایشیا کے ریموٹ ایریاز میں بیٹھے ہوئے ہیں، کچھ افریقہ کے ریموٹ ایریاز میں بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ساروں کو ایم ٹی اے (MTA)کے ذریعہ سے یہ ساری باتیں پہنچ رہی ہیں، یہ پیغام پہنچ رہا ہے۔ اب تمہارا یہ پروگرام ہو رہا ہے، جب دو سےچار دن بعد یہ پروگرام دیکھیں گے، افریقہ میں بیٹھا ہوا ، ایک دُور دراز علاقے، جنگل، گاؤں میں بیٹھا ہوا ہے اس کے پاس اگر ٹی وی (TV) لگا ہوا ہے تو ایم ٹی اے (MTA)کے ذریعہ سے وہ بھی تمہاری شکل دیکھ لے گا۔ تو ایک گلوبل ولیج (Global Village)بن گیا ۔ اس لیے اسلام عالمی مذہب ہے، باقی مذہب چھوٹے چھوٹے تھے اور وہ مذہب اس لیے آئے تھے کہ جو عالمی مذہب بننے والا ہے اس کے لیے اپنے اپنے لوگوں کو تیار کریں اور جب وہ تیار ہو جائیں تو پھر وہ ایک مذہب میں شامل ہو جائیں۔
اس لیے ہمارا کام ہے کہ اسلام کی تبلیغ کریں اور اسلام کی تبلیغ کے لیے اس زمانے میں اللہ میاں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھیجا اور ہم نے ان کو مان لیا، اب ہمارا کام ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰة والسلام کی ہدایات کے مطابق ہم اسلام کی تبلیغ دنیا میں کریں اور ساری دنیا کے لوگوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کریں ۔
ایک سوال شیطان کے آگ سے بننے اور اس کی آخری سزا کے بارے میں پوچھا گیا۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ شیطان کوئی جسمانی مخلوق نہیں ہے تاہم شیطان ہر شخص کے اندر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے خون کے ساتھ اس کے جسم میں چلتا ہے اور میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے۔ حضورِ انور نے تلقین فرمائی کہ شیطان کے اثر سے محفوظ رہنے کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ قرآن کریم میں ذکر ہے کہ شیطان نے یوم حساب تک مہلت مانگی اور چیلنج کیا ہےکہ لوگ اس کی پیروی کریں گے اور وہ ان سب کو ضرور گمراہ کر دے گا۔ اس پر خدا نے کہا کہ وہ شیطان اور اس کے تمام پیروکاروں کو جہنم میں ڈال دے گا۔ مزید برآں حضورِ انور نے فرمایا کہ جلنا دو قسم کا ہے ایک جہنم کی آگ ہے اور دوسری دل کی ندامت کی ہے۔
ایک آٹھ سالہ واقفِ نو نے سوال کیا کہ کیا وہ گھر میں باجماعت نماز ادا کر سکتا ہے؟
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر مسجد دُور ہو اور اس کے والدین کسی وجہ سے مسجد نہ جا سکیں تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ البتہ اگر مسجد قریب ہے اور اس کے والدین مسجد میں نماز پڑھتے ہیں تو وہ بھی مسجد میں نماز پڑھنے کی کوشش کرے۔
ایک سوال کیا گیا کہ کیا ایک واقف ِ نوPoliticianبن سکتا ہے؟
اس پرحضورِ انور نے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں! politicianبن سکتے ہو لیکن ایمانداری سےpolitician بننا، جھوٹ نہ بولنا۔ آج کل جو politicianہیں وہ بڑا جھوٹ بولتے ہیں اور بڑے بزدل ہیں۔ دیکھو! آج کل جو فلسطینیوں پر ظلم ہو رہا ہے، کوئی politicianاس پر نہیں بول سکتا۔ حالانکہ ظلم کے خلاف ہر جگہ آواز اٹھانی چاہیے۔ اگر اسرائیلیوں پر ظلم ہو رہا ہے تو ان کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے، اگر فلسطینیوں پرظلم ہو رہا ہے تو ان کے حق میں آواز اٹھانی چاہیے، حق کہنا چاہیے، حق بات کہنی چاہیے۔ جھوٹا politicianنہ بننا، ویسے بن سکتے ہو کوئی حرج نہیں۔
آخر پر سیکرٹری وقف نو نے حضور انور کاشکریہ ادا کیا کہ حضور نے گونا گوں مصروفیت کے باوجود واقفینِ نو بچوں کے لیے وقت عنایت فرمایا۔
اس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو واقفینِ نو کی صحیح تربیت کرنے کی توفیق دے اور واقفینِ نو کو اپنا وقف نبھانے اور دینی علم میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ملاقات کے اختتام پر حضور انور نے سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم کہا ۔