خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۲۸؍ اپریل ۲۰۲۳ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکے
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا:بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں اور اس پر بڑی پُرزور اپنی دلیلیں بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جماعت کے حالات پر جیساکہ پاکستان میں یا بعض اَور جگہ پر ہیں ہمیں صرف صبر دکھانے کی بجائے کچھ ردّعمل دکھانا چاہیے۔ بہت صبر ہو گیا۔ اور حضرت مصلح موعودؓ کی مثالیں دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے زمانے میں اس طرح جماعت نے ردّعمل دکھایا اور بعض جگہ جماعت کو ردّعمل کی آپؓ نے اجازت دی…ہاں آپؓ نے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بعض کارروائیاں کیں لیکن یہ نہیں کہ بلا سوچے سمجھے بلوائیوں کے جلوسوں کی طرح جلوس لے کر نکل آنے کی اجازت دے دی…حضرت مصلح موعودؓ کے حوالے سے بات کرنے والوں کے لیے مزید کھول کر آپؓ کے خطبہ کی روشنی میں بھی بتانا چاہتا ہوں۔ اس خطبہ میں آپؓ نے صبر کے معنی بڑی تفصیل سے بیان فرمائے، روشنی ڈالی بلکہ اس کے بعد ایک سلسلہ ٔخطبات اعلیٰ اخلاق کا بھی شروع کیا اور اس کو بھی صبر کے مضمون کے ساتھ جوڑا۔ بہرحال اس خطبہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں بعض باتیں بیان کروں گا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعودؑ کے مختلف مواقع پر ارشادات جو آپؓ نے فرمائے جو صبر سے متعلق باتوں کے متعلق ہیں وہ حوالے پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’صبر‘‘کےحوالہ سےکیاتفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓنے صبر کو ایک انتہائی اہم چیز قرار دیا اور فرمایا کہ یہ انبیاء کی جماعتوں کے اہم ترین اور اوّلین فرائض میں سے ہے جس کے بغیر کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور نہ دنیا کو اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتی ہےاور کوئی جماعت ایسی نہیں گزری جس نے اس فرض کی ادائیگی کے بغیر کامیابی کا منہ دیکھا ہو۔صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک صبر یہ ہے کہ انسان کو کسی ردّعمل کی طاقت ہو اور پھر وہ صبر دکھائے اور دوسرے اس وقت کا صبر ہے جب اس کو مقابلے کی طاقت ہی نہ ہو۔ وہ صبر ہے مجبوری کا صبر۔طاقت ہوتے ہوئے تو صبر یہی ہے کہ فتنہ و فساد کرنے والوں کا یا ظلم کرنے والوں کا جواب نہ دینا۔جیسا مخالفین سلوک کر رہے ہیں اس طرح کا ردعمل نہیں دکھانا اور انتہائی صبر کا اللہ تعالیٰ کی خاطر مظاہرہ کرنا۔ اور طاقت نہ ہوتے ہوئے بھی صبر ہے جو آسمانی آفات پر اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر شکر کرنا ہے۔ بہرحال اردو میں تو صبر صرف یہی ہے کہ خاموش ہو جاؤ، صبر ہو گیا لیکن عربی میں اس کے بڑے وسیع معنی ہیں۔ جب ہم عربی میں معنی دیکھیں تو صحیح سمجھ آتی ہے کہ صبر کے حقیقی معنی کیا ہیں اور کس طرح کا صبر ایک مومن کو دکھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے جو مختلف جگہوں پر صبر کی تلقین فرمائی ہے اور جو صبرکے لفظ کے حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے احکام کو سامنے رکھتے ہوئے لغت میں بیان ہوئے ہیں اس کے مطابق صبر کے تین معنی ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ گناہ سے بچنا اور اپنے نفس کو اس سے روکنا۔ دوسر ایہ کہ نیک اعمال پر استقلال سے قائم رہنا اور تیسرے معنی یہ ہیں کہ جزع فزع سے بچنا… پس صبر مستقل مزاجی، عاجزی اور دعاؤں سے اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کا نام ہے اور یہ اس وقت ہو گا جب ہم اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق کریں گے اور اپنی زندگیوں کو گزاریں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہو گا۔ اور پھر جیساکہ بیان ہوا ہے ایک مطلب صبر کا جزع فزع نہ کرنا بھی ہے۔ ظاہری ابتلا، بیماری یا مالی نقصان یا کوئی مشکل آئے تو نہ ہی گھبرانا ہے نہ شکوے کے رنگ میں شور مچانا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کیا کر دیا۔ یہ چیزیں بے صبری کی علامت ہیں۔ اللہ تعالیٰ پر شکوہ بالکل غلط چیز ہے۔ ہمیشہ یہ سوچ رکھنی چاہیے کہ جو کچھ میرے پاس ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کےرنگ میں ہے۔آج اللہ تعالیٰ نے لیا ہے تو کل اَور دے دے گا۔ پس یہ سوچ رکھنے والے حقیقی مومن ہیں اور یہی صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی صابر بھی ہیں۔ پس یہ تین معنی ہیں صبر کے۔ لیکن یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ صبر کسی کمزوری کی وجہ سے نہ ہو،کسی دنیاوی خوف کی وجہ سے نہ ہو بلکہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہوئے ہو تو پھر ہی وہ حقیقی صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے۔
سوال نمبر۳:حضرت مصلح موعودؓ نے حقیقی صبرکی بابت کیاوضاحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓنے صبر کے ضمن میں ایک یہ وضاحت بھی فرمائی کہ یہ یاد رکھو کہ تمہارے عمل سے صبر اور بےغیرتی میں فرق واضح نظر آنا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ضرورت کے لیے کسی شخص سے رقم مانگنے جائے اور دوسرا شخص اُسے برا بھلا کہے اور بے حیا کہے اور بے شرم کہے، بہت بے عزتی کرے اور مانگنے والا ہنس کر اس کی بات کو ٹال دے اور خیال کرے کہ اس وقت میں ضرورت مند ہوں اس لیے مجھے اس کی گالیاں بھی سن لینی چاہئیں تو یہ بے حیائی اور بےغیرتی ہے لیکن کبھی قومی اور مذہبی اغراض کے لیے صبر کرنا پڑتا ہے،خاموش بھی رہنا پڑتا ہے اور یہ صبر نفسانی اغراض کے لیے نہیں ہوتا۔ اس لیے یہ حقیقی صبر ہے اور بےغیرتی نہیں ہے مثلاً کسی ایسی جگہ پر جہاں اس کے بدلہ لینے کی وجہ سے اس کی قوم پر کوئی مصیبت آتی ہے وہاں اگر وہ حملہ کرتا ہے اور صبر نہیں کرتا تو اسے بیوقوف کہیں گے کیونکہ اس طرح وہ اپنی قوم کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس جب وہ اپنی قوم کے نفع کے لیے بدلہ نہیں لیتا یا دنیا کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے صبر کرتا ہے تو اس کا یہ صبر،صبر کہلائے گا۔
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب میں سخت الفاظ کےاستعمال کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کی یہ بات بیان فرماتے ہوئے کہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی اپنی کتب میں بعض سخت الفاظ استعمال کیے ہیں اس لیے ہم بھی کر سکتے ہیں، فرمایا کہ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اور ان کے انبیاء کی اَور شان ہوتی ہے۔ جیسے ہم دنیاوی مثال میں دیکھتے ہیں کہ ایک مجسٹریٹ ہے یا جج ہے جو ملزم کو چور کہتا ہے تو وہ اس کا کام ہے اور اس کا حق ہے اور اس بنیاد پر وہ اس کو سزا دیتا ہے اور اس کی اصلاح کے لیے کوشش کرتا ہے لیکن ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ وہ دوسروں کو چور یا مجرم کہتا پھرے اور اگر وہ کہے گا تو فساد پیدا ہو گا۔ پس اگر حضرت مسیح موعودؑ لوگوں کی کمزوریاں ظاہر کرکے ان کی نشاندہی فرماتے ہیں تو ان کی اصلاح کے لیے اور ان کے غلط نظریات سے لوگوں کو بچانے کے لیے یہ کرتے ہیں لیکن جہاں تک آپؑ کی ذات کا سوال ہے اپنے بارے میں آپ فرماتے ہیں
’’گالیاں سن کر دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے ‘‘
اور ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے یہی تعلیم دی ہے کہ دوسروں کی سختیوں کو صبر کے ساتھ جھیلو اور برداشت کرو۔
سوال نمبر۵: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جماعت میں نئےآنے والوں کی مشکلات کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں’’ہماری جماعت کے لئے بھی اسی قسم کی مشکلات ہیں جیسے آنحضرت ﷺ کے وقت مسلمانوں کو پیش آئے تھے۔چنانچہ نئی اور سب سے پہلی مصیبت تو یہی ہے کہ جب کوئی شخص اس جماعت میں داخل ہوتا ہے تو معاً دوست رشتہ دار اور برادری الگ ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات ماں باپ اور بھائی بہن بھی دشمن ہو جاتے ہیں۔ السلام علیکم تک کے روادار نہیں رہتے اور جنازہ پڑھنا نہیں چاہتے۔ اس قسم کی بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔‘‘فرمایا’’میں جانتا ہوں کہ بعض کمزور طبیعت کے آدمی بھی ہوتے ہیں اور ایسی مشکلات پر وہ گھبرا جاتے ہیں لیکن یاد رکھو کہ اس قسم کی مشکلات کا آنا ضروری ہے۔ تم انبیاء و رسل سے زیادہ نہیں ہو۔ ان پر اس قسم کی مشکلات اور مصائب آئیں اور یہ اسی لیے آتی ہیں کہ خد تعالیٰ پر ایمان قوی ہواور پاک تبدیلی کا موقعہ ملے۔دعاؤں میں لگے رہو۔ پس یہ ضروری ہے کہ تم انبیاء و رسل کی پیروی کرواور صبر کے طریق کو اختیار کرو۔ تمہارا کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا۔ وہ دوست جو تمہیں قبول حق کی وجہ سے چھوڑتا ہے وہ سچا دوست نہیں ہے ورنہ چاہئے تھا کہ تمہارے ساتھ ہوتا۔ تمہیں چاہئے کہ وہ لوگ جو محض اس وجہ سے تمہیں چھوڑتے اور تم سے الگ ہوتے ہیں کہ تم نے خدا تعالیٰ کے قائم کر دہ سلسلہ میں شمولیت اختیار کرلی ہے ان سے دنگہ یا فساد مت کرو بلکہ ان کے لئے غائبانہ دعا کروکہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی وہ بصیرت اور معرفت عطا کرے جو اس نے اپنے فضل سے تمہیں دی ہے… فرمایا ’’تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کر کے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو! میں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مخالفین کی گالیوں پرحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تعلیم اورطرزِعمل کی بابت کیابیان فرمایا ؟
جواب: فرمایا:(آپؑ فرماتے ہیں) یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتادیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتاہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔ فرمایا’’نہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔‘‘یہی تمہیں جوش آتا ہے ناں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ مجھے گندی گالیاں دیتے ہیں تو تمہیں جوش آ جاتا ہے۔ فرمایا کہ ’’تو اس معاملہ کو خد اکے سپرد کر دو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خد اپر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ مَیں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتاہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بیرنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے۔اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے۔ فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں اور میں اعتبار نہیں کرتاکہ ابوجہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہولیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔ جب میں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ ‘‘
سوال نمبر۷:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کےآخرپر احباب جماعت کوکیانصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا: پس یہ وہ نصائح ہیں جو ہماری کامیابی اور ترقی کی بنیادہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد کے مطابق اگر ہم صحیح رنگ میں استغفار،توبہ، دینی علوم سے آگاہی اور پانچ وقت کی نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہیں گے تو ہماری کامیابی ہے۔ دشمن جتنا شور و فغاں میں بڑھ رہا ہے اتنا ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ جھکنا ہو گا۔ یہی ہماری کامیابی کا راز ہے۔ اسی کی حضرت مسیح موعودؑ نے بار بار تلقین فرمائی ہے۔ نہ کہ کسی قسم کے ردّعمل دکھانے کی۔ ہماری کامیابی بہرحال مقدر ہے جیساکہ آپؑ نے فرمایا۔ ان شاء اللہ۔ ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ حکمت سے ہم نے اپنے کام کو بھی جاری رکھنا ہے۔ بہت سے کام حکمت سے ہوسکتے ہیں۔ اس لیے حکمت اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر ہر احمدی اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لے تو بہت سے مسائل کا حل ہمارے رویوں اور دعاؤں سے نکل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صبر عطا فرمائے اور دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی رضا کے حصول کے لیے ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔