غزوۂ حمراء الاسد کے حوالے سے آنحضورﷺ کی سیرت اورصحابہ ٔکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عشق و وفا اور قربانیوں کا ایمان افروز تذکرہ۔ خلاصہ خطبہ جمعہ ۲۶؍اپریل ۲۰۲۴ء
٭…حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن کے تعاقب میں نکلنے کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا
٭… حضرت اُسید بن حضیرؓ کو نو زخم لگے تھے اُنہوں نے ابھی دوا لگانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ کانوں میں آواز پڑتےہی زخموں پر دوائی لگانے کے لیے بھی نہیں رُکے اور چل پڑے
٭… حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کے متعلق زیادہ فکر مند تھا
٭…دنیا کے حالات نیزاحمدیوں کے ہر قسم کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے دعاؤں کی تحریک
٭… فراز احمد طاہرصاحب شہید آف آسٹریلیا کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۶؍اپریل۲۰۲۴ء بمطابق۲۶؍شہادت ۱۴۰۳؍ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ ۲۶؍اپریل ۲۰۲۴ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت مولانافیروزعالم صاحب کے حصے ميں آئي۔
تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا: غزوہ حمراء الاسدکا سبب اور اس کا پس منظرگذشتہ خطبہ میں بیان ہوا تھا۔بہرحال جب اُحد کی جنگ کے بعد دشمن کا راستہ سے پلٹ کر مدینے پر حملہ کرنے کی سازش کا علم ہوا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓاور حضرت عمرؓ کو بلایا اوران دونوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کی طرف چلیں تاکہ وہ ہمارے بچوں پر حملہ آور نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد لوگوں کو بلوایا اور حضرت بلال ؓسے اعلان کروایا کہ دشمن کے لیے نکلو اور ہمارے ساتھ وہی نکلے جو گذشتہ روزاُحد کی لڑائی میں شامل تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جھنڈا منگوایااور یہ حضرت علی ؓکو دےدیا۔ایک جگہ یہ بھی بیان ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو دیا تھا۔ اس موقع پرآپؐ نے حضرت ابن ام مکتومؓ کومدینے میں اپنا نائب مقرر کیا تھا۔
سیرت نگار لکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن کے تعاقب میں نکلنے کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا۔تفصیل میں بیان ہوا ہے کہ منافقین کے نزدیک بنا زائد افرادی قوت کے جانا انتہائی خطرناک تھا مگر بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ انتہائی دانشمندانہ تھا جس سے مسلمانوں کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے۔
اس فیصلے نے مجاہدین کے حوصلوں کو مزید بلندیوں تک پہنچا دیا اور منافقین کے دل پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی قوت ارادی اور قوت یقین کی ہیبت طاری کر دی۔
تیسری طرف جب دشمن کو خبر ملی کہ اسلامی لشکر ان کے تعاقب میں ہے تو اُن کے حوصلوں کے ٹمٹماتے چراغ بجھنے لگے۔اس موقع پر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی نے بھی ساتھ جانے کی اجازت مانگی تھی جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے منع فرمادیا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کے بعد زخمی صحابہؓ کے عشق اوروفا کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے زخموں کو سنبھالتے ہوئے اپنے اسلحوں کو لیے ہوئے ایک بار پھر فوری طور پر نکل پڑے۔
حضرت اُسید بن حضیرؓ کو نو۹ زخم لگے تھے اُنہوں نے ابھی دوا لگانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ کانوں میں آواز پڑتےہی زخموں پر دوائی لگانے کے لیے بھی نہیں رُکے اور چل پڑے۔بنو سلمہ سے چالیس زخمی نکلے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں ایسی حالت میں بھی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دیکھ کر اُن کے لیے دعائے مغفرت کی۔طفیل بن نعمانؓ کوتیرہ،خراش بن الصمۃ کو دس، کعب بن مالک کو دس سے زائداور قطبہ بن عامر کو نو زخم لگے تھے لیکن اس کے باوجود مسلمان اپنے ہتھیاروں کی طرف دوڑے اور اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے نہیں ٹھہرے۔
خدا تعالیٰ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی جذبہ بے مثل کو اپنے کلام میں مرقوم فرما دیا تاکہ رہتی دنیا تک کے لیے ان پر عقیدتوں کے پھول نچھاور ہوتے رہیں۔
خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَلَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰہِ وَالرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَہُمُ الۡقَرۡحُ ؕۛ لِلَّذِیۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡہُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور رسول کو لبیک کہا بعد اس کے کہ انہیں زخم پہنچ چکے تھے، ان میں سے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے احسان کیا اور تقویٰ اختیار کیا بہت بڑا اجر ہے۔
حضرت عائشہ ؓفرمایا کرتی تھیں کہ اس کے ایک مصداق حضرت ابوبکرؓاور حضرت زبیر بن عوامؓ بھی ہیں۔
اس مہم میں ایک خوش بخت مخلص صحابی حضرت جابر بن عبداللہؓ ایسے تھے جو جنگ اُحد میں اپنے باپ کے حکم کی تعمیل میں اپنی نو ۹بہنوں کے پاس رُکنے کی وجہ سے شامل نہیں ہوسکے تھے جس کی تفصیل اُنہوں نے آپؐ کو بتائی تو آپؐ نے اُن کی عشق و محبت میں ڈوبی تفصیل سُن کر اُنہیں اجازت دی تھی۔
اس مہم میں آپؐ اس حالت میں روانہ ہوئے کہ چہرۂ مبارک مجروح تھا۔ پیشانی مبارک زخمی تھی۔دندانِ مبارک ٹوٹا ہوا تھا۔دونوں ہونٹ اندر کی جانب سے زخمی تھے۔داہنا کندھااور دونوں گھٹنے بھی زخمی تھے۔
حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے زخموں کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کے متعلق زیادہ فکر مند تھا۔ ایک روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓسے فرمایا کہ آئندہ کبھی قریش ہمارے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کر پائیں گے یہاں تک کہ ہم حجر اسود کو بوسہ دیں گے۔اس غزوہ میں دو انصاری بھائیوں حضرت عبداللہ بن سہلؓ اور حضرت رافع بن سہلؓ کی اطاعت کا نمونہ بھی نظر آتا ہے جنہوں نے زخمی حالت میں پیدل سفر کیا۔ آپؐ نے دونوں کو دعائے خیر دیتے ہوئے فرمایا کہ
اگر تم دونوں کو لمبی عمر نصیب ہوئی تو تم دیکھو گے کہ تم لوگوں کو گھوڑے،خچر اور اونٹ بطور سواریوں کے نصیب ہوں گے لیکن وہ تم دونوں کے اس سفر سے بہتر نہیں ہوں گی جو سفراس وقت تم نے پیدل گرتے پڑتے کیا ہے یعنی تمہارے سفر کا ثواب اس زمانے کی بہترین نعمتوں سے بھی زیادہ ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت انسؓ اور حضرت مونس فضالہ کے بیٹوں کے ساتھ پیش آیا تھا۔ممکن ہے کہ یہ واقعہ دونوں کے ساتھ ہی پیش آیا ہو۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ اس غزوہ میں ہماری عام زادِراہ کھجوریں تھیں۔حضرت سعد بن عبادہؓ تیس اونٹ اور کھجوریں لائے جوحمراء الاسد مقام تک ہمارے لیے وافر رہیں۔بعض دفعہ اونٹ کا گوشت بھی کھایا جاتا تھا۔ رات کے وقت کثرت سے آگ کے الاؤ روشن کیے جاتے تاکہ لشکر کی کثرت ظاہر ہو اور دشمن خائف ہو۔
اس دوران میں معبد بن ابو معبد خزاعی کا بھی ذکر آتا ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اورقریش کو بھی لشکر اسلام سے ڈرایا۔ یہ ابھی تک مشرک تھا لیکن بعد میں یہ اسلام لےآئے تھے۔اس نے ابو سفیان کے سامنے لشکر اسلام کا مبالغہ سے ایسا نقشہ کھینچا کہ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ان پر گھبراہٹ اور رعب طاری ہو گیا اورابو سفیان کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ وہ جس قدر جلدی ہو سکے اپنے لشکر کو لے کر مکہ پہنچ جائے۔ابو سفیان کی روانگی کی خبرکے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار منگل اور بدھ کے روز وہاں قیام فرمایا اور پھرآپؐ مدینہ واپس تشریف لے گئے۔ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مدینہ واپس تشریف لائے اور پانچ دن مدینہ سے باہر رہے۔
حضرت ابوعبیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے کی طرف واپس آنے سے پہلے معاویہ بن مغیرہ کو گرفتار کر رکھا تھا۔ معاویہ بن مغیرہ کے بارے میں روایت ہے کہ معاویہ چھپ کر مدینے میں رہ رہا تھا اور مدینے کے حالات کی خبر مخالفین کو دیا کرتا تھا۔ جب پکڑا گیا تو حضرت عثمانؓ نے اس کے لیے امان مانگی۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے امان دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ تین روز کے اندر یہاں سے چلا جائے اگر تین روز کے بعد دیکھا گیا تو قتل کر دیا جائے گا لیکن یہ تین روز کے بعد بھی وہیں چُھپا رہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن حارثہؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ کو فرمایا کہ تم فلاں جگہ اسے چُھپا ہوا پاؤ گے۔ چنانچہ اُن دونوں نے اُسے وہیں پایا اورقتل کر دیا۔حمراء الاسد کے مقام پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کے شاعر ابوعزہ کو بھی گرفتار کیا تھا جس نے اپنی غربت اور اپنی بیٹیوں کا واسطہ دے کر آپؐ سے کہا کہ مجھ پر رحم فرمائیں۔
آپؐ نے اس کی بیٹیوں کی وجہ سے اس کو بغیر فدیہ لیےا حسان کے طور پر چھوڑ دیا تھا اور اس سے یہ عہد لیا تھا کہ آئندہ وہ نہ تو آپؐ کے خلاف جنگ کوآئے گا۔نہ ا ٓپؐ کے خلاف لشکر اکٹھا کرے گا اور نہ ا ٓپؐ کے خلاف کسی کو اُکسائے گا مگر اُس نے اپنا عہد توڑ دیا اور جنگ اُحد میں قریش کے ساتھ واپس آیااور اپنے شعروں کے ذریعے اُنہیں بھڑکاتا تھا۔
اس کو گرفتار کرنے والے شخص حضرت عاصم بن ثابتؓ تھےجبکہ حضرت زیدؓ کو آپؐ نے حکم دیا کہ اس کی گردن ماردو۔ایک روایت ہے کہ یہ حکم آپؐ نے حضرت عاصم بن ثابتؓ کو دیا تھا۔پھرآپؐ نے فرمایا مومن ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ باقی انشاءاللہ آئندہ بیان ہوگا۔
بعد ازاں حضور انور نے فرمایا کہ دعائیں جاری رکھیں دنیا کے حالات کے لیے۔اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے۔
حضور انور نے آخر میں فراز احمد طاہرصاحب شہید آف آسٹریلیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اُنہیں آسٹریلیا کے شہر سڈنی کے ایک مشہور علاقہ بنڈائی کے ایک شاپنگ سینٹر میں ایک آسٹریلین شخص نے چاقو کے وار کر کے شہید کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم شاپنگ سینٹر میں بطور سیکیورٹی گارڈ کام کررہے تھے۔ مرحوم کی عمرتیس برس تھی اور غیر شادی شدہ تھے۔ان کا تعلق ربوہ سے تھا۔۲۰۱۸ء میں پاکستان سے سری لنکا چلے گئے تھے جہاں چار سال رہےاور پھر آسٹریلیا آئے۔تفصیلات کے مطابق جب
مکرم فراز احمد طاہر مرحوم حملہ آور کو روکنے کے لیے آگے بڑھے تو اُس نے مرحوم پر وار کیا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔
ان کے والدین پہلے ہی وفات پاچکے تھے۔پسماندگان میں تین بھائی دو بہنیں اور دادا سفیان صاحب شامل ہیں۔آسٹریلیا کے وزیراعظم اور نیو ساؤتھ ویلزکے پریمیئر نے فرازاحمد طاہر صاحب مرحوم کی بہادری اور قربانی کو خراج تحسین پیش کیا۔ اسی طرح آسٹریلیا میں مقیم پاکستان کے ہائی کمشنر صاحب نے بھی مرحوم کی بہادری کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا اور ہرطرح کے تعاون کا یقین دلایا۔مرحوم اور اس واقعہ کے بارے میں میڈیا میں۱۲۰/ سے زائد نیوز شائع ہوئیں اور مزید ہو رہی ہیں۔آج ان کا وہاں جنازہ تھا اس پہ بھی وہاں کے پرائم منسٹر وغیرہ آئے ہوئے تھے۔سوشل میڈیا میں بھی مرحوم کی بہا دری اور قربانی نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان کی جا رہی ہے اور اکثر لوگ انہیں نیشنل ہیرو کہہ کر پکار رہے ہیں۔ ان کی یہ قربانی ظاہر کرتی ہے کہ وہ پاکستان سے موت کے ڈر سے نہیں آئے تھے بلکہ جو مذہبی پابندیاں احمدیوں کےاوپر لگائی جاتی ہیں ان سے تنگ آکر ملک چھوڑا تھا جہاں انہیں اللہ اور اس کے رسول کا نام لینے سے روکا جاتا ہے۔ان کے بڑے بھائی مدثر بشیر کہتے ہیں کہ مرحوم بچپن سے ہی بہت محنتی ہنس مکھ اور نڈر تھا۔ اپنے بہن بھائیوں سے بہت پیار کرنے والا تھا۔ جماعتی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتا تھا۔جتنا عرصہ پاکستان پھر سری لنکا اورپھر آسٹریلیا رہا جماعتی کاموں میں ڈیوٹیوں میں سرگرم رہا۔عزیزم منصور احمد لکھتے ہیں کہ یہ میرے تایازاد بھائی تھے۔یہ ہمارے خاندان کی تیسری شہادت ہے۔مرحوم نے بتا دیا کہ میں موت کے ڈر سے ملک سے نہیں نکلا بلکہ مذہبی آزادی کے لیے آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ سب لواحقین کو بھی حوصلہ عطا فرمائے۔
٭…٭…٭