خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍ اپریل 2024ء
اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اگر وہ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو ان کے لیے ایسے پتھروں کو نشان لگا دیے گئے ہیں جن کی بارش سے ان کا اس طرح نام و نشان مٹ جائے گا جیسے گزرا ہوا کل ہوتا ہے (الحدیث)
ہمارے جتنے آدمی آج شہید ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جنت میں اکٹھا رکھا ہے اور سب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ہمارے پسماندگان کی خبر گیری رکھیو (الحدیث)
غزوۂ اُحد اور غزوۂ حمراء الاسد کے حوالے سے آنحضورﷺ کی پاکیزہ سیرت کاایمان افروز تذکرہ
مشرقِ وسطیٰ میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر دعاؤں کی تحریک
اللہ تعالیٰ دنیا کے ان لیڈروں کو بھی عقل دے جو عالمی جنگ کو ہوا دینے کی مزید کوشش کر رہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی سمجھ اور عقل دے اور ان کو توفیق دے کہ وہ ایک بن کر پھر اپنے مقابل کا صحیح طرح مقابلہ کر سکیں اور حکمت اپنا سکیں
مولاناغلام احمد نسیم صاحب مربی سلسلہ،سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ اور ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ امریکہ کی وفات پر ان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 19؍ اپریل2024ء بمطابق 19؍ شہادت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
جنگِ اُحد کے واقعات کے ضمن میں کچھ اَور واقعات پیش ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کا مزید پتہ چلتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ جب فوت ہوئے تو ان پر قرض تھا۔ مَیں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد طلب کی کہ آپؐ ان کے قرض خواہوں کو سمجھائیں کہ وہ ان کے قرض میں سے کچھ کمی کر دیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس خواہش کا اظہار کیا مگر قرض دینے والوں نے کمی نہیں کی۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ جاؤ اور اپنی کھجوروں کی ہر ایک قسم کو الگ الگ رکھو۔ مختلف قسم کی کھجوریں ہیں ان کے الگ الگ ڈھیر لگاتے جاؤ۔ کہتے ہیں عجوہ کھجور کی قسم کو علیحدہ رکھنا اور عِذْق بن زید کھجور کی قسم کو علیحدہ۔ پھر مجھے پیغام بھیجنا۔ چنانچہ مَیں نے ایسا ہی کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپؐ کھجوروں کے ڈھیر پر یا ان کے درمیان بیٹھ گئے۔ پھر آپؐ نے فرمایا ان لوگوں کو ماپ کر دو۔ چنانچہ مَیں نے ان کو ماپ کر دیا یہاں تک کہ جو اُن کا حق تھا مَیں نے ان کو پورا دے دیا پھر بھی میری کھجوریں بچ گئیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان میں کچھ کمی نہیں ہوئی۔
(صحیح بخاری کتاب البیوع باب الکیل علی البائع والمعطی حدیث 2127)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
اُحد کے شہیدوں کے لیے دعا
کی کہ اے خدا! اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کے لیے اچھے خبر گیر پیدا فرما۔ اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت معاذؓ کی بوڑھی اور نظر کی کمزور والدہ کا ذکر کیا جو پہلے بھی بیان ہو چکا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مدینہ سے باہر نکل آئی تھی۔ جس کی تفصیل جیساکہ مَیں نے کہا گذشتہ خطبہ میںبیان ہو چکی ہے۔ یہ تفصیل بیان فرمانے کے بعد آپؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری رکوا کر جب بڑھیا کو دیکھا تو بڑھیا سے ان کے بیٹے کی شہادت کا افسوس کیا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ان واقعات پر غور کرو اور دیکھو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنا زیادہ احساس تھا کہ جس کسی کو تکلیف پہنچتی ہے اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے۔ اس کے بعد آپؐ نے اس بڑھیا سے فرمایا تم بھی خوش ہو اور دوسری تمام بہنوں کو بھی جن کے رشتہ دارلڑائی میں شہید ہو گئے ہیں یہ خوشخبری سنا دو کہ
ہمارے جتنے آدمی آج شہید ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان سب کو جنت میں اکٹھا رکھا ہے اور سب نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! ہمارے پسماندگان کی خبر گیری رکھیو۔
یہ بتانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دعا کی کہ اے خدا! اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کے لیے اچھے خبرگیر پیدا فرما۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح آپؐ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اُحد کے شہیدوں کے پسماندگان کی دلجوئی فرمائی اور ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور باوجود اس کے کہ آپؐ زخمی ہو چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین رشتہ دار شہید ہو گئے تھے اور آپ کے عزیزترین صحابہ فوت ہو گئے تھے آپؐ برابر قدم بہ قدم مدینہ کے لوگوں کی دلجوئی فرما رہے تھے۔ آپؐ کو اپنی تکلیف کا ذرہ بھی احساس نہ تھا۔ آپؐ کے سوا ایسا کوئی شخص نہیں ہو سکتا جو اتنی تکلیفوں، اتنے دکھوں اور اتنی مصیبت کے وقت دوسروں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرے۔ ایسے وقت میں تو لوگ کسی کے ساتھ بات کرنے کےبھی روادار نہیں ہوتے چہ جائیکہ وہ کسی کے ساتھ ہمدردی کی باتیں کریں۔
(ماخوذ از مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں،انوارالعلوم جلد 19صفحہ 57-58)
پھر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اَور دعا کا ذکر
ملتا ہے جو آپؐ نے ایک شہید کی بیوہ کو دی۔ وہ دعا تھی کہ مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہارے خاوند سے بہتر خبرگیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کر دے۔ اس کی تفصیل بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُحد کی جنگ ایک نہایت صبر آزما جنگ تھی اس سے پہلے کبھی آپؐ پر قاتلانہ حملہ نہ ہوا تھا اور نہ صرف یہ کہ جنگِ اُحد میں آپؐ پر حملہ ہی ہوا اور نہ صرف یہ کہ آپؐ کے بعض دانت بھی ٹوٹ گئے اور نہ صرف یہ کہ آپؐ زخمی ہوگئے بلکہ دشمن آپؐ کی بے ہوشی کی حالت میں آپؐ کے اوپر سے اور آپؐ کے ساتھیوں کے اوپر سے ان کے جسموں کو روندتا ہوا گزرا اور یہ آپؐ کی زندگی میں اپنی قسم کی پہلی مثال تھی مگر اس جنگ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح بلندحوصلگی اوراپنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ پیش کیا اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور دل جوئی کی۔ اس جنگ کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ اخلاق کے کتنے بلند ترین مقام پر کھڑے تھے اور اس جنگ میں صحابہؓ کی عدیم المثال قربانیوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’مَیں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب آپؐ جنگ ختم ہونے پر مدینہ واپس تشریف لارہے تھے۔ مدینہ کی عورتیں جو آپؐ کی شہادت کی خبر سن کر سخت بے قرار تھیں اب وہ آپؐ کی آمد کی خبر سن کر آپؐ کے استقبال کے لئے مدینہ سے باہر کچھ فاصلہ پر پہنچ گئی تھیں ان میں آپؐ کی ایک سالی زینب بنت جحش بھی تھیں ان کے تین نہایت قریبی رشتہ دار جنگ میں شہید ہوگئے تھے۔‘‘
یہاں وضاحت یہ کر دوں کہ انوارالعلوم میں یہ جو واقعہ لکھا ہے یا لکھنے والے نے لکھا یا آپؓ نے اس طرح ہی بیان کیا لیکن نام میں کچھ سہو ہے۔ حضرت زینب بنت جحش تو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی یعنی ہمشیرہ نسبتی کا نام حضرت حَمنہ بنت جحش تھا جو حضرت مصعب بن عمیرؓ کی اہلیہ تھیں۔ بہرحال جہاں جہاں یہ نام کی غلطی ہے اس کو مَیں آگے درست کرتا جاؤں گا ، ان کا اصل نام تھا حَمنہ۔
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں دیکھا تو فرمایا اپنے مردے کا افسوس کرو۔ (یہ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مَیں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارا عزیز مارا گیا ہے۔)‘‘ تو ’’حمنہ بنت جحشؓ نے عر ض کیا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کس مردے کا افسوس کروں ؟ آپؐ نے فرمایا تمہارا ماموں حمزہؓ شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حضرت حَمنہؓ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنپڑھا اور پھر کہا اللہ تعالیٰ ان کے مدارج بلند کرے وہ کیسی اچھی موت مرے ہیں۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا اچھا اپنے ایک اَور مرنے والے کا افسوس کر لو۔ حَمنہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کس کا؟ آپؐ نے فرمایا تمہارا بھائی عبداللہ بن جحشؓ بھی شہید ہوگیا ہے۔ حمنہؓ نے پھر اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنپڑھا اور کہا الحمد للہ وہ تو بڑی ہی اچھی موت مرے ہیں۔ آپؐ نے پھر فرمایا حمنہؓ! اپنے ایک اَورمردے کا افسوس کرو۔ اس نے پوچھا یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کس کا؟ آپؐ نے فرمایا تیرا خاوند بھی شہید ہو گیا ہے۔ یہ سن کر حَمنہ ؓکی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اس نے کہا ہائے افسوس!! یہ دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! عورت کو اپنے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ جب مَیں نے حمنہؓ کو اس کے ماموں کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پڑھا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔جب مَیں نے اسے اس کے بھائی کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے پھر بھی اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنہی پڑھا لیکن جب مَیں نے اس کے خاوند کے شہید ہونے کی خبر دی تو اس نے ایک آہ بھر کر کہا ہائے افسوس! اور وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہ سکی اور گھبرا گئی۔ پھرآپؐ نے فرمایا: عورت کو ایسے وقت میں اپنے عزیز ترین رشتہ دار اور خونی رشتہ دار بھول جاتے ہیں لیکن اسے محبت کرنے والا خاوند یاد رہتا ہے۔ اس کے بعد آپؐ نے حَمنہؓ سے پوچھا۔ تم نے اپنے خاوند کی وفات کی خبر سن کر ہائے افسوس کیوں کہا تھا؟ حمنہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! مجھے اس کے بیٹے یاد آگئے تھے کہ ان کی کون رکھوالی کرے گا؟ آپؐ نے فرمایا:
مَیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی تمہارے خاوند سے بہتر خبر گیری کرنے والا کوئی شخص پیدا کر دے۔
چنانچہ اسی دعا کا یہ نتیجہ تھا کہ حَمنہؓ کی شادی حضرت طلحہؓ کے ساتھ ہوئی اور ان کے ہاں محمد بن طلحہؓ پیدا ہوا مگر تاریخوں میں ذکر آتا ہے کہ حضرت طلحہؓ اپنے بیٹے محمد کے ساتھ اتنی محبت اور شفقت نہیں کرتے تھے جتنی کہ حَمنہؓ کے پہلے بچوں کے ساتھ۔ اور لوگ یہ کہتے تھے کہ کسی کے بچوں کو اتنی محبت سے پالنے والا طلحہؓ سے بڑھ کر اَور کوئی نہیں اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا نتیجہ تھا۔‘‘
(مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں،انوارالعلوم جلد 19صفحہ 55 تا 57)
(اسد الغابہ جلد 7 صفحہ 71 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
پھر آپؓ نے اسی واقعہ کا اس طرح ذکر فرمایا ہے کہ ’’آپؐ نے جب حمنہ بنت جحشؓ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور پھر فرمایا دیکھو! ایک عورت کا اپنے محبت کرنے والے خاوند کے ساتھ کتنا گہرا تعلق ہوتا ہے تو اِس سے آپؐ کا یہ مطلب تھا کہ مَردوں کو چاہئے کہ وہ عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کیا کریں۔‘‘ یہ مَردوں کے لیے عمومی سبق ہے کہ وہ عورتوں سے حسن سلوک کیا کریں ’’اور معمولی معمولی باتوں پر ان کو مارنے اور کوٹنے نہ لگ جایا کریں۔‘‘ یہ بہانہ بنا لیتے ہیں کہ ہمیں مارنے کی اجازت ہے۔ آجکل بھی ان سے یہ ہوتا ہے بلکہ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ فرمایا کہ’’جب ان کی عورتیں اپنے عزیزو اقارب سے جدا ہو کر ان کے پاس رہتی ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ان کا اعزاز کیا جائے نہ کہ بات بات میں ان کے ساتھ جھگڑا فساد کیا جائے۔ آپؐ کے یہ فرمانے سے ایک طرف تو حمنہ بنت جحش ؓکی دلجوئی ہو گئی اور دوسری طرف آپؐ نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی بھی تلقین فرما دی۔‘‘(مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں،انوارالعلوم جلد 19صفحہ 60)ہر بات میں ایک سبق ہوتا ہے۔ انسان اس کو غور سے سنے اور سوچے تو پھر پتہ لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات صرف اس فرد کے لیے نہیں تھی بلکہ عمومی طور پر ہر ایک کے لیے ایک نصیحت ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اس پہلو کہ
آپؐ کو دوسروں کے احساسات اور جذبات کا کس قدر احترام تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ ’’جب آپؐ مدینہ میں داخل ہوئے تو چونکہ زخموں کی وجہ سے آپؐ کو نقاہت زیادہ تھی اس لئے صحابہؓ نے سہارا دے کر آپؐ کو سواری سے اتارا۔ مغرب کی نماز کا وقت تھا۔ آپؐ نے نماز پڑھی اور گھر تشریف لے گئے۔ مدینہ کی ان عورتوں کو جن کے رشتہ دار جنگ میں شہید ہو گئے تھے ان کی خبریں پہنچ چکی تھیں انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ آپؐ نے جب عورتوں کے رونے کی آوازیں سنیں تو آپؐ کو مسلمانوں کی تکلیف کا خیال آیا اور آپؐ کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا لٰکِنْ حَمْزَۃَ فَـلَا بَوَاکِیَ لَہٗ۔ ہمارے چچا اور رضائی بھائی حمزہ بھی شہید ہوئے ہیں لیکن ان کا ماتم کرنے والا کوئی نہیں۔ یہ سن کر صحابہ ؓجن کو آپؐ کے جذبات اور احساسات کو پورا کرنے کی اتنی تڑپ تھی کہ وہ چاہتے تھے کہ آپؐ کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا جذبہ اور چھوٹے سے چھوٹا احساس بھی ایسا نہ رہ جائے جو پورا نہ ہو۔ وہ اپنے گھروں کی طرف دوڑے اور اپنی عورتوں سے جا کر کہا بس اب تم اپنے عزیزوں کو رونا بند کر دو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر جا کر حمزہؓ کا ماتم کرو۔ اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ تھکے ہوئے تشریف لائے تھے آپؐ آرام فرمانے لگے۔ حضرت بلالؓ نے عشاء کی اذان دی مگر یہ خیال کر کے کہ آپؐ تھکے ہوئے آئے ہیں آپؐ کو نہ جگایا‘‘ سو گئے تھے۔ ’’جب ثلث رات گذر گئی تو انہوں نے آپؐ کو نماز کے لئے جگایا۔ آپؐ جب بیدار ہوئے تو اس وقت عورتیں ابھی تک آپؐ کے مکان پر حضرت حمزہؓ کا نوحہ کر رہی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا یہ کیا ہو رہا ہے؟ عرض کیا گیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کی وفات پر رو رہی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ مدینہ کی عورتوں پر رحم کرے انہوں نے میرے ساتھ ہمددری کا اظہار کیا ہے۔ پھر فرمایا: مجھے پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے بہت زیادہ محبت ہے۔ ساتھ ہی فرمایا: اس طرح نوحہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔ صحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری قوم کی یہ عادت ہے اور اگر ہم اس طرح نہ روئیں تو ہمارے جذبات سرد نہیں ہو سکتے۔ آپؐ نے فرمایا مَیں رونے سے منع نہیں کرتا ہاں عورتوں سے کہہ دیا جائے کہ وہ منہ پر تھپڑ نہ ماریں۔ اپنے بال نہ نوچیں۔‘‘ نوحہ کرتی تھیں تو اپنے آپ کو بھی مارتی پیٹتی تھیں۔ اپنے بال نہ نوچیں منہ پر تھپڑ نہ ماریں ’’اور کپڑوں کو نہ پھاڑیں اور اگر یوں رِقّت کے ساتھ رونا آئے‘‘ قدرتی طور پر اگر رقت کے ساتھ رونا آتا ہے ’’تو بے شک روئیں۔ ان باتوں سے آپؐ کی اخلاقی حالت کا پتہ چلتا ہے کہ باوجود زخمی اور تکلیف میں ہونے کے آپؐ کو دوسروں کے احساسات اور جذبات کا کتنا احترام تھا۔‘‘
(مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں،انوارالعلوم جلد 19صفحہ 58-59)
پھر آپؓ نے اس واقعہ کو اس زاویہ سے بیان فرمایا ہے کہ’’جب آپؐ نے یہ دیکھا کہ مدینہ کی عورتیں اپنے مرنے والوں کا نوحہ اور ماتم کر رہی ہیں تو آپؐ نے اس خیال سے کہ مہاجرین اور حضرت حمزہؓ کے رشتہ دار یہ خیال نہ کریں کہ ہمارا یہاں کوئی نہیں ہے۔ اس لئے ان کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا آج حمزہؓ کو رونے والا کوئی نہیں؟ اور پھر جب مدینہ کی عورتیں حضرت حمزہؓ کا ماتم کرنے لگ گئیں تو آپؐ نے منع فرما دیا کہ اس طرح ماتم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر واقعہ میں آپؐ کا یہی خیال ہوتاکہ حضرت حمزہؓ کا ضرور ماتم کیا جائے تو آپؐ بعد میں منع نہ فرماتے۔ آپؐ نے جب حضرت حمزہؓ کی وفات پر کسی کے نہ رونے پر افسوس کا اظہار فرمایا اس وقت بھی آپؐ کا جذبہ صرف دلجوئی کا تھا اور جب آپؐ نے رونے والوں کو منع فرمایا اس وقت بھی آپؐ کا جذبہ دلجوئی کا ہی تھا کیونکہ آپؐ نے ان عورتوں کو رونے سے روکا بھی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ انہوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا ہے اور یہ پھر فرمایا مجھے تو پہلے ہی معلوم تھا کہ انصار کو مجھ سے زیادہ ہمدردی ہے اور یہ کہنے سے آپؐ کا یہ مطلب تھا کہ وہ رونے سے منع کرنے پربرا نہ منائیں۔ آپؐ نے منع بھی کردیا اور ان کا شکریہ بھی ادا کر دیا۔ ہمیں یہ کتناشاندار اور عظیم الشان طریق نظر آتا ہے جو اتنے نازک وقت میں آپؐ نے اختیار کیا حالانکہ ایسے وقت میں جبکہ عزیز اور قریبی رشتہ دار مارے جا چکے ہوں خود کوئی شخص زخمی ہو اور مستقبل قریب کے ایّام میں خطرہ محسوس ہو رہا ہو تو کوئی شخص اس قسم کا نمونہ پیش نہیں کر سکتا جو آپؐ نے کیا۔‘‘
(مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں،انوارالعلوم جلد 19صفحہ 60-61)
تاریخ کی کتب میں
ان صحابہؓ کا ذکر جن کی تلواروں نے اُحد کی جنگ میں حق ادا کیا
یوں ملتا ہے کہ ’’جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو اپنی بیٹی فاطمہ ؓکو تلوار پکڑاتے ہوئے فرمایا۔ اِغْسِلِی عَنْ ھٰذَا دَمَہٗ یَا بُنَیَّۃُ فَوَاللّٰہِ لَقَدْ صَدَقَنِی الْیَوْمَ۔ اے میری پیاری بیٹی! اس تلوار پر لگے خون کو دھو ڈال۔ اللہ کی قسم! آج تو اس تلوار نے حق ادا کر دیا۔ پھر حضرت علیؓ نے بھی حضرت فاطمہؓ کو اپنی تلوار تھماتے ہوئے کہا۔ اس تلوار پر لگے خون کو بھی دھو ڈالو۔ اس موقع پر ان کی زبان پر بھی وہی الفاظ تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے تھے کہ اللہ کی قسم! آج تو اس تلوار نے کمال کر دکھایاہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے۔ لَئِنْ کُنْتَ صَدَقْتَ الْیَوْمَ الْقِتَالَ لَقَدْ صَدَقَ مَعَکَ سَھْلُ بْنُ حُنَیْفٍ وَ اَبُو دُجَانَۃَ۔ اگر آج تم نے قتال میں کمال کر دکھایا ہے تو تمہارے ساتھ سَہل بن حُنَیف اور ابودُجانہ نے بھی تو خوب دادِشجاعت دی ہے۔ ‘‘
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے شمشیر زنی میں کمال کر دکھایا ہے تو سَہل بن حُنَیفؓ، ابودُجانؓہ، عاصم بن ثابتؓ اور حارث بن صِمَّہ ؓنے بھی خوب دادِ شجاعت دی ہے۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہﷺ جلد7صفحہ 62مطبوعہ بزم اقبال لاہور)
حضرت مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے اُحد سے واپس آکر حضرت فاطمہؓ کو اپنی تلوار دی اور کہا اِس کو دھو دو آج اِس تلوار نے بڑا کام کیا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی ؓکی یہ بات سن رہے تھے آپؐ نے فرمایا: علی! تمہاری ہی تلوار نے کام نہیں کیا اَور بھی بہت سے تمہارے بھائی ہیں جن کی تلواروں نے جوہر دکھائے ہیں۔ آپؐ نے چھ سات صحابہ ؓکے نام لیتے ہوئے فرمایا: ان کی تلواریں تمہاری تلوار سے کم تو نہ تھیں۔ غرض آپؐ نے یہ بھی برداشت نہ کیا کہ آپؐ کا داماد کوئی ایسی بات کرے جس سے دوسرے صحابہؓ کے دلوں کو ٹھیس پہنچے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی نظر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی پہنچتی تھی اور باوجود یکہ جنگ ِاُحد کا واقعہ مستقل اثرات کے لحاظ سے اتنا بڑا واقعہ تھا کہ لوگوں کو اس واقعہ کے بعد سخت فکر تھی کہ دشمن اب دلیر ہوجائے گا یا آئندہ کیا ہوگا اور انسان ایسے اوقات میں چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف توجہ ہی نہیں دیتا مگر آپؐ نے ہر ایک کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور سب کی دلجوئی کی۔‘‘
(مصائب کے نیچے برکتوں کے خزانے مخفی ہوتے ہیں،انوارالعلوم جلد 19صفحہ 59-60)
جنگِ اُحد کے واقعات یہاں ختم ہوتے ہیں۔ ایک اَور غزوہ جس کا نام
غزوہ حمراء الاسد
ہے جو شوال تین ہجری میں ہوا اس کا ذکر کرتا ہوں۔ یہ غزوہ اصل میں غزوۂ اُحد ہی کا حصہ اور تتمہ ہے اور غزوہ حمراء الاسد سے حاصل ہونے والے نتائج کی بنا پر غزوۂ اُحد کو حقیقی معنوں میں مسلمانوں ہی کی فتح شمار کیا جاتا ہے۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد7صفحہ 119مطبوعہ بزم اقبال لاہور)
حمراء الاسد مدینہ سے ذُوْالْحُلَیْفَہ جاتے ہوئے راستے کے بائیں جانب مدینہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔
(فرہنگ سیرت صفحہ 106 زوار اکیڈمی کراچی)
(معجم البلدان اردو از ڈاکٹر غلام جیلانی برق صفحہ123 الفیصل ناشران و تاجران کتب لاہور)
غزوہ حمراء الاسد کا سبب
کیا بنا؟ اس بارے میں لکھا ہے کہ غزوۂ اُحد کے اختتام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے وقت مدینہ تشریف لائے اور باوجود شدید زخمی ہونے کے مغرب کی نماز بھی صحابہؓ کے سہارے چل کر مسجد میں تشریف لا کر ادا کی اور اسی طرح عشاء کی نماز بھی مسجد میں تشریف لا کر ادا کی۔ نمازِ عشاء کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف تو لے گئے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے یہ ساری رات جاگتے ہوئے ہی گزاری کیونکہ آپؐ کو یہ خدشہ تھا کہ ابو سفیان اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کا پروگرام بنا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے مدینہ میں ایک قسم کی ہنگامی حالت ہی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے باہر بھی مسلسل پہرہ رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی معلوم کروایاتھا کہ ابوسفیان کے ارادے کیا ہیں۔ کیا وہ مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ہرچند کہ ابتدائی رپورٹ یہی ملی کہ ابوسفیان بڑی تیزی سے اپنے لشکر کو لے کر مکہ کی طرف رواں دواں ہے لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس سے غافل نہیں رہے۔ آخر کار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور رات ابھی پوری طرح ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع مل گئی کہ ابوسفیان اپنے لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے آنے کو تیار ہے۔ ہوا یہ کہ جب مشرکین میدانِ اُحد سے واپس ہوئے تو راستے میں جو لوگ بھی ملتے اور جب انہیں جنگ کی خبر ملتی تو وہ طعنہ دیتے کہ نہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا اور نہ مسلمانوں کی عورتوں کو ساتھ لائے، نہ ان کے قیدی لائے اور نہ ہی کوئی اَور مال غنیمت ساتھ لائے ہو تو کس فتح کی بات کر رہے ہو؟ ان طعنوں کو سنتے سنتے یہ لشکر مدینہ سے کوئی چوہتر کلو میٹر یا بعض کے نزدیک پچپن کلو میٹر دُور رَوْحَا نامی منزل پر پہنچا اور پڑاؤ کیا تو آپس میں ان لوگوں کی بحث ہونے لگی کہ بات تو واقعی درست ہے کہ نہ ہمارے پاس کوئی قیدی ہے، نہ مال غنیمت ہے۔ اس لیے یہ بہت ہی بُرا کام ہے۔ ہمیں واپس لَوٹنا چاہیے اور مدینہ پر حملہ کر دینا چاہیے۔ البتہ اسی لشکر میں موجود ایک اَور سردار صفوان بن امیہ نے مشورہ دیا کہ ایسا ہرگز نہ کرنا۔ اس وقت مدینہ پر حملہ کرنے کا سوچنا بھی نہ ورنہ بہت بُری طرح شکست کھاؤ گے لیکن ابوسفیان اور اس کے دوسرے ساتھیوں کی اکثریت نے یہی فیصلہ کیا کہ ہمیں مدینہ پر حملہ کرنا چاہیے ورنہ مکہ کیا منہ لے کر جائیں گے۔ ادھر ابوسفیان کے لشکر میں یہ مشاورت جاری تھی کہ فجر کی نماز کے لیے حضرت بلالؓ نے اذان دی اور بیٹھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر تشریف لانے کا انتظار کرنے لگے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ بن عَمرو بن عَوف مُزَنی ؓنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتے ہوئے آئے۔ جب آپؐ باہر تشریف لائے تو انہوں نے کھڑے ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ وہ اپنے گھر والوں کی طرف سے آ رہے تھے کہ راستے میں دورانِ سفر یہ ابوسفیان کے قافلے کے پاس سے گزر کر آ رہے تھے تو انہوں نے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم لوگوں نے تو کچھ نہیں کیا۔ تم لوگوں نے انہیں نقصان نہیں پہنچایا یعنی مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچایا اور تکلیف نہیں پہنچائی اور پھر تم نے انہیں چھوڑ دیا اور تباہ نہیں کیا۔ کفار نے کہا کہ ان مسلمانوں میں کئی ایسے بڑے بڑے لوگ باقی ہیں جو تمہارے مقابلے کے لیے اکٹھےہوں گے۔ پس واپس چلو تاکہ ہم ان لوگوں کو جڑ سے اکھیڑ دیں جو ان میں باقی رہ گئے ہیں۔ صفوان بن امیہ اس بات سے انہیں روکنے لگا اور کہنے لگا کہ اے میری قوم! ایسا نہ کرنا کیونکہ وہ لوگ جنگ لڑ چکے ہیں اور مجھے خوف ہے کہ جو لوگ جنگ میں آنے سے رہ گئے تھے اب وہ تمہارے مقابلےمیں ان کے ساتھ جمع ہو جائیں گے۔ تم واپس چلو کیونکہ فتح تو تمہاری ہی ہے کیونکہ مجھے خوف ہے کہ اگر تم واپس گئے تو تم شکست کھا جاؤ گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ ساری بات سنی تو فرمایا کہ صفوان اتنا سمجھدار تو نہیں ہے لیکن اس کی یہ بات بہت سمجھداری کی ہے یعنی ابوسفیان کو مدینہ پر حملہ کرنے سے روکنا۔ لیکن ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے جلال سے فرمایا:
اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اگر وہ مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو ان کے لیے ایسے پتھروں کو نشان لگا دیے گئے ہیں کہ جن کی بارش سے ان کا اس طرح نام و نشان مٹ جائے گا جیسے گزرا ہوا کل ہوتا ہے۔
[دائرہ معارف سیرت محمدرسول اللہﷺ جلد7صفحہ63، 120مطبوعہ بزم اقبال لاہور)
(سبل الہدیٰ والرشاد مترجم جلد4صفحہ 267-268مکتبہ رحمانیہ لاہور)
بہرحال آگے اس کی تفصیل ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔
دوسری بات جو عموماً مَیں تحریک کرتا رہتا ہوںوہ دعا کے لیے ہے۔
دعائیں جاری رکھیں۔
جیساکہ خیال تھا اور خدشہ تھا۔ ایران پر براہِ راست بھی اسرائیل نے حملہ کر دیا ہے۔ ہر ایک کو پتہ ہی ہے۔ اس سے مزید حالات خراب ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ دنیا کے ان لیڈروں کو بھی عقل دے جو عالمی جنگ کو ہوا دینے کی مزید کوشش کر رہے ہیں اور مسلم امہ کو بھی سمجھ اور عقل دے اور ان کو توفیق دے کہ وہ ایک بن کر پھر اپنے مقابل کا صحیح طرح مقابلہ کر سکیں اور حکمت اپنا سکیں۔
اس وقت میں
دو مرحومین
کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں جس میں پہلا ذکر ہے
مکرم مولانا غلام احمد صاحب نسیم۔ یہ مربی سلسلہ تھے۔
جامعہ احمدیہ ربوہ میں پروفیسر رہے۔ آجکل امریکہ میں تھے۔ گذشتہ دنوں یہ ترانوے(93)سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
ان کے والد کا نام صلاح محمد صاحب تھا جنہوں نے کسوف و خسوف کا نشان دیکھ کر مہدی کی تلاش شروع کی۔ سورج چاند گرہن کا نشان دیکھا تو اس وقت انہوں نے مہدی کی تلاش شروع کی اور اس میں کئی سال گزر گئے اور پھر 1901ء میں بیعت کی ان کو سعادت ملی۔ دُور دراز علاقہ ہونے کی وجہ سے قادیان زیارت کے لیے نہیں پہنچ سکے۔ میر صلاح محمد صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے اور قبول احمدیت کی وجہ سے انہیں شدید مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اپنے گاؤں میں یہ اکیلا احمدی گھرانہ تھا۔ میر غلام احمد نسیم صاحب نے دورانِ تعلیم 1947ء میں وقف کا خط لکھا تو ان کے وقف کی منظوری بھی آ گئی اور پھر ان کو ساتھ یہ بھی ہدایت ملی کہ پڑھائی جاری رکھیں۔ پارٹیشن کے بعد 1948ء میں مدرسہ احمدیہ احمد نگر میں تعلیم شروع کی۔ 1954ء میں مولوی فاضل پاس کیا اور پھر جامعة المبشرین سے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ 1957ء میں میدان عمل میں آئے۔ 1960ء میں آپ سیرالیون پہنچے یہاں تین سال مبلغ کے ساتھ ساتھ احمدیہ سکول بو (Bo) کے ہیڈ ماسٹر کے طورپر بھی خدمات کرتے رہے۔ پاکستان واپس آنے پر ان کا تقرر جامعہ احمدیہ میں ہوا۔ یہاں لائبریری میں مہتمم کے فرائض بھی انجام دیے۔ کوئی استاد رخصت پر ہوتا تو پیریڈ بھی لیتے تھے۔ اس دوران آپ نے ایم اے عربی کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 1966ء میں ان کا تقرر گیانا ہوا۔ یہاں آپ نے سوا چار سال خدمات سرانجام دیں۔ 1970ء میں ان کی مرکز واپسی ہوئی۔ 1970ء سے 1975ء تک جامعہ احمدیہ میں بطور استاد خاص طور پہ غیر ملکی طلبہ کو پڑھانے پر مقرر ہوئے۔ 75ء سے 79ء چار سال آپ نے زیمبیا افریقہ میں بطور مبلغ خدمات سرانجام دیں۔ پھر 1980ء سے 1997ء تک جامعہ احمدیہ میں تاریخ اور تصوّف کے استاد کے طور پر خدمات بجا لاتے رہے۔
ان کے واقعات میں لکھا ہے کہ آپ سیرالیون، گیانا اور زیمبیا میں گیارہ سال تک خدمات بجا لاتے رہے اور پورا عرصہ فیملی کے بغیر بیرون ممالک میں رہے۔ ان کی زوجہ کا ذکر اور ان کی قربانیوں کا ذکر حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے بھی ایک تقریر میں کیا تھا۔
ان کی اہلیہ امة المنان قمر صاحبہ فضل عمر گرلز سکول ربوہ کی سابق ہیڈ مسٹرس تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بچوں سے نوازا جو خدمات میں پیش پیش ہیں اور وہ سارے ہی اچھے پڑھے لکھے ہیں۔
ان کی ایک بیٹی ڈاکٹر امة الشکور صاحبہ ہیں یہ ڈاکٹر عبدالحفیظ کی اہلیہ ہیں۔ یہ امریکہ میں ہیں۔ یہ بھی نصرت جہاں سکیم کے تحت گیمبیا اور تنزانیہ میں گیارہ سال تک خدمات سرانجام دیتی رہیں۔
علمی کام بھی ان کا ہے۔ یہ تین کتب کے مصنف ہیں۔ قاموس الرؤیا، (خوابوں کی تعبیر۔ حروفِ ابجد کے لحاظ سے) تصوف۔ روحانی سائنس، یہ ان کی دوسری کتاب ہے اور تیسری کتاب ہے یادِ ایام، ان کے خودنوشت حالات ہیں۔
انعام الحق کوثر مشنری انچارج آسٹریلیا لکھتے ہیں کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ شاگردوں کو خوب پڑھانے والے اور ان کا خیال رکھنے والے تھے۔ کہتے ہیں میں برٹش گیانا دورے پہ گیا تو تین چار دیہات میں ان کے ذریعہ سے جو جماعتیں قائم ہوئی تھیں وہاں سب پرانے لوگوں نے ان کا ذکر بہت عمدہ طریق پر کیا اور ان کی تصویر اپنے پاس رکھی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعہ برٹش گیانا میں ایک مضبوط جماعت قائم کی۔
لئیق مشتاق صاحب مربی سلسلہ سورینام لکھتے ہیں کہ مولانا میر غلام احمد نسیم صاحب نے گیانا میں قیام کے دوران 67ء سے 69ء تک سورینام کے تین دورے کیے اور یہاں ہفتوں قیام کر کے اس جماعت کو از سرِ نو فعال کیا۔ اس زمانے میں مختلف وجوہات کی بنا پر افراد جماعت کی اکثریت نے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور چند احمدی موجود تھے۔ ان کا بھی مرکز سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ ان حالات میں محترم مولانا غلام احمد نسیم صاحب گیانا سے سورینام آئے اور 15؍ستمبر67ء کو پہلا اجلاس کروایا جس میں چھ افراد نے شرکت کی اور جماعت سے اٹوٹ رشتہ قائم کرنے کا عہد کیا۔ ان دنوں پاکستان سے مولوی شاہ احمد نورانی بھی سورینام آیا ہوا تھا اور جماعت کے خلاف جگہ جگہ نفرت آمیز تقریریں کر رہا تھا۔ مولانا نسیم صاحب نے بھی متعدد جلسے کر کے اس کے الزامات کے جوابات دیے نیز ریڈیو پر صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے تین پروگرام کیے۔ مئی 1968ء میں دوسرے دورے کے دوران زیر تعمیر مسجد کے ساتھ مشن ہاؤس کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر چند سالوں میں مکمل ہوئی۔ لاہوری جماعت کے امام عبدالرحیم جگو اور سنی جماعت کے امام کو مناظرے کا چیلنج دیا۔ آپ نے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئی فولڈر بھی شائع کیے۔
21؍جون 1968ء کو جماعت کے ایک ممبر کے گھر میں منعقدہ مجلس سوال و جواب کے دوران شر پسند مسلمانوں نے افراد جماعت پر حملہ کر دیا اور کہتے ہیں کہ ہیڈ ٹیبل ایک کمرے کے دروازے کے سامنے رکھا ہوا تھا۔ مولانا صاحب کے دائیں بائیں بیٹھے افراد نے آپ کو دھکیل کر کمرے کے اندر کیا اور باہر سے دروازہ بند کر دیا۔ حملہ آوروں نے افراد جماعت کو شدید زدوکوب کیا اور لکڑی کی کرسیاں اٹھا اٹھا کر انہیں ماریں۔ اس واقعہ میں مَردوں کے علاوہ کئی خواتین بھی شدید زخمی ہوئیں۔ مولانا صاحب کمرے کے اندر سے چلّاتے رہے کہ مجھے باہر نکالو۔ مَیں بھی ان کا مقابلہ کروں گا۔ بڑی جرأت والے تھے۔ شرپسند مولاناصاحب کا ایک بریف کیس بھی ساتھ لے گئے جس میں آپ کا پاسپورٹ اور دیگر سامان تھا۔ کئی دن بعد پولیس نے یہ برآمد کیا۔ بہرحال اس واقعہ کے بعد آپ نے بھرپور طریق پر پولیس اور متعلقہ افسران سے رابطہ کر کے افراد جماعت کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی۔
کلچرل سینٹر میں اسلام اور عصر حاضر کے مسائل پر لیکچر دیا۔ افراد جماعت کو مرکز سے باقاعدہ رابطہ رکھنے کی تلقین کی۔ یوں آپ کی مساعی سے ایک بکھری ہوئی جماعت دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو گئی اور اللہ کے فضل سے بعد میں جانے والے مبلغین نے بھی اس کو مزید مضبوط کیا اور اب یہ مضبوط جماعت ہے۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولاد اور نسلوں میں بھی یہ نیکیاں جاری رکھے۔
اگلا ذکر
مکرم ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب سابق امیر جماعت امریکہ
کا ہے۔ گذشتہ دنوں ان کی اکاسی (81) سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ ایک لمبا عرصہ بطور مقامی صدر، نائب امیر جماعت امریکہ اور 2002ء سے 2016ء تک انہوں نے بطور امیر جماعت امریکہ خدمت کی توفیق پائی۔ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ نہایت محبت کرنے والے اور شفیق انسان تھے۔ بہت وسیع حوصلے کے مالک تھے۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں ہیں۔ ان کی اہلیہ چند سال پہلے ایک ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئی تھیں اور اسی طرح بیٹا بھی وفات پا گیا تھا۔ وہ صدمے بھی انہوں نے بڑے صبر اور حوصلے سے برداشت کیے اور کبھی شکوہ زبان پر نہیں لائے۔
آپ کی بیٹی ڈاکٹر ہانہ مریم کہتی ہیں کہ میرے والد بہت نیک اور دیندار شخص تھے۔ نماز اور قرآن اور چندے کی ادائیگی میں باقاعدہ ہونے کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق ہمیشہ بڑھانے میں لگے رہتے تھے۔ دن میں کئی مرتبہ اکیلے یا مجالس میں بیٹھے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے۔ وہ کبھی یہ نہیں سوچتے تھے کہ دوسرے میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔ زندگی کی مشکلات کے باوجود انہوں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ یہ بات سکھائی کہ خدا تعالیٰ کا ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ کہتی ہیں میرے والد صاحب خلافت کے بھی بہت مخلص اور فدائی تھے۔ ان کا دینی، تاریخی اور سیاسی علم بہت وسیع تھا۔ آخری مرتبہ ہسپتال جانے والے دن بھی انہوں نے اخبار کا مطالعہ کیا اور میرا خطبہ سنا اور تاریخ سے متعلقہ انٹرویوز دیکھے اور مجھے بھی کہا کہ یہ دیکھو۔ اپنے علم اور رائے کو دوسروں کے علم اور رائے پر کبھی فوقیت نہیں دیتے تھے بلکہ آرام سے سنتے تھے، غور کرتے تھے، پرکھتے تھے۔ قرآن کریم اور اس کے ترجمہ کا ان کو بہت گہرا علم تھا۔ کہتی ہیں ہمیں قرآن کریم کے الفاظ کے معنی بتانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے تھے کہ ان تعلیمات کا ہماری زندگی پر کیا اثر ہے۔ ذاتی زندگی میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی پہلو نظر آتا ہے۔ اسی طرح ان میں اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری بھی تھی۔ کہتی ہیں کہ ایک دن کھانے کے دوران وہ دعاکرنے لگ گئے۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کے پاس بعض اوقات کھانے کی اتنی قلت ہوتی تھی کہ کھجور اور روٹی کو سرکہ میں ڈبو کر کھا لیتے تھے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہم اَور زیادہ کی تمنا کرتے ہیں۔ ہمیں شکرگزار ہونا چاہیے۔ ضرورتمندوں کی مدد کرنے کا ان میں بہت جذبہ تھا۔
1967ء میں انہیں مکہ جانے کا موقع ملا۔ راستے میں ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس نے منہ سے تو کچھ نہیں کہا لیکن اس کی آنکھوں نے مدد اور بھوک کا اظہار کیا۔ کہتی ہیں میرے والد نے اس شخص کو کچھ رقم دی جو ان کے پاس تھی اور اس نے اپنی آنکھوں سے ہی شکریہ ادا کیا اور کھانے کے سٹال کی طرف چلا گیا۔ کہتی ہیں کچھ سال پہلے وہ تین ترکی قالین خرید کر گھر لے آئے۔ یہ دیکھ کر میری والدہ نے انہیں کہا کہ آپ نے بہت مہنگے لے لیے ہیں ان کی تو ہمیں ضرورت بھی نہیں تھی۔ انہوں نے بتایا کہ جس عورت نے مجھے یہ فروخت کیے ہیں اس کی آمدنی کا یہی ایک ذریعہ ہے۔ مَیں نے اس کا جذبہ دیکھ کر اس کی مدد کرنا چاہی تھی۔ ہمیشہ دوسروں کی خوبیوں کو دیکھتے تھے نہ کہ ان کی خامیوں کو۔ اپنے بچوں کو بھی تلقین کرتے تھے کہ مشکلات کے سامنے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے۔ ہمیشہ ہر چیز خدا تعالیٰ سے مانگنی چاہیے اور جو خدا عطا کر دے اس پر راضی ہونا چاہیے۔ کہتی ہیں وہ ہم سب کے لیے یہی نصیحت کرتے تھے اور بار بار کرتے تھے۔
ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں 1989ء سے ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب کے ساتھ کام کر رہا ہوں۔ بہت ہی نیک اور متقی انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ گہرا اور والہانہ عشق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر مبشر ممتاز صاحب امریکہ لکھتےہیںکہ عاملہ ممبران کو نہایت ہی نرم لہجے میں ہدایات دیتے۔ اگر وہ کسی تجویز سے اتفاق نہ رکھتے تو اس کے ردّ میں دلیل پیش کر کے سمجھاتے۔ یہ نہیں کہ زبردستی اپنا حکم ٹھونس دیا۔ جب کوئی سنجیدہ بات کرتے تب بھی لہجے میں سختی نہ لاتے۔ جو بات سمجھاتے وہ دل کی گہرائیوں میں اترتی۔
مرزا احسان لکھتے ہیں کہ خاکسار کو احسان اللہ ظفر صاحب کے ساتھ ایک لمبا عرصہ کام کرنے کی توفیق ملی۔ بطور امیر افراد جماعت کو خلافت اور جماعت کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرواتے ہوئے دیکھا۔ سادہ مزاج، درد مند، صلح جو،غریبوں کے ہمدرد،تصنع اور بناوٹ سے پاک، بخل اور لالچ سے بالکل مبرا انسان تھے۔ اپنے خزانے جماعت اور غریبوں کے لیے کھول دینے والے تھے۔ قرآن مجید کی تفسیر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ میں محو رہتے تھے۔ تکبر، بڑائی اور خود پسندی سے کلیةً عاری تھے اور خلیفۂ وقت کی ذرا سی بھی ناراضگی سے بے چین ہو جاتے تھے۔ یہ تو مَیں نے خود بھی تجربہ کیا ہے۔ ذرا سی بھی کوئی ایسی بات ہوتی جو مَیں ان کے بارے میں ان کو لکھتا تو ہمیشہ انہوں نے بڑی بے چینی کا اظہار کیا اور فوری طور پر معافی مانگی اور حالات کو اس کے مطابق کرنے کی کوشش کی۔ کتابوں کا بے انتہا شوق تھا۔ ان کی ذاتی لائبریری میں ایسی ایسی نادر کتابیں موجود ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ آپ کو قرآن کریم سے محبت اور عشق تھا۔ کوئی مجلس ہو، کوئی محفل ہو ہمہ وقت قرآن مجید کی آیات پر غور کرتے رہتے تھے۔ ان کی محفل بے تکلف اور محبت سے ہر ایک کو اپنی طرف کھینچنے والی ہوتی تھی۔ اپنے لیے بطور امیر کبھی کوئی پروٹوکول روا نہیں رکھا۔ بہت سادہ مزاج آدمی تھے۔
ظہیر باجوہ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ڈاکٹر احسان اللہ صاحب خاموشی سے مسجد میں آتے اور جب کوئی نہ ہوتا تو اکیلے مسجد اور باتھ روم کی صفائی کرتے۔ جب ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا اس ذریعہ سے مجھے اپنی روح کی صفائی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ بہت عاجزی تھی۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی خدا سے محبت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا ادراک، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی محبت اور خلفاء سے ان کی عقیدت مثالی تھی۔ ان کی قرآن کریم سے محبت تو بیان سے باہر ہے۔ کہتے ہیں جب بھی ہم اکٹھے کار میںبیٹھتے تو قرآن کریم کی سی ڈی لگی ہوتی تھی اور گھر میں ہمیشہ ایم ٹی اے لگا رہتا تھا۔ جب بھی بیت الرحمٰن آتے تو ہمیشہ ایم ٹی اے یا تلاوت لگا دیتے۔ ان کے گھر میں ہر طرف قرآن ہی قرآن اور تفاسیر موجود ہیں اور کتب کی ایک کثیر تعداد قریباً ہر کمرے میں اور الماری میں موجود ہے۔ صرف موجود ہی نہیں ہوتی تھی ان کا وہ باقاعدگی سے مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔
جب یہ ربوہ میں پڑھا کرتے تھے تو ڈاکٹر صاحب کی والدہ کی خواہش تھی کہ روزانہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ سے ملیں اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ سے ملا کریں اور ان کو دعا کی درخواست کریں۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں میں حتی المقدور یہ کوشش کرتا رہتا تھا اور میری کامیابی تعلیمی میدان میں بھی اور دوسری تربیت میں بھی اس میں ان دونوں بزرگوں کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔ ہر کسی سے پیار کرتے تھے مگر جو خاص پیار مَیں نے ان کی آنکھوں میں غریب احمدیوں کے لیے دیکھا وہ بیان سے باہر ہے۔ وہ کسی کا بُرا سوچ ہی نہیں سکتے تھے لیکن جو شخص، جو خوشحال احمدی جماعت کے لیے قربانی میں آگے نہیں آتے تھے ان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کے دل میں ایک خلش سی رہتی تھی اس کا کبھی کبھی اظہار بھی کر دیا کرتے تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحیح مقام سمجھے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو سمجھیں، اپنائیں اور پھیلائیں اور اس کے لیے وہ نئے نئے طریقے بھی سوچتے رہتے تھے۔ مجھے بھی بعض دفعہ لکھتے رہتے تھے۔ مساجد بنانے کی طرف بھی ان کی بہت توجہ تھی۔ ان کے زمانے میں کافی مساجد بنی ہیں۔ ان کا دعا پر اعتقاد بہت پختہ تھا۔ ایک دفعہ عاملہ میٹنگ میں کسی نے کوئی ایسی بات کی جس سے دعا کی عظمت میں کمی کا احساس ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے ان کو عاملہ میں کبھی اتنا غصہ میں نہیں دیکھا جیسا اس موقع پر دیکھا تھا۔
انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ اگر کوئی شوق تھا تو مسجدیں بنانے کا شو ق تھا۔ ہر کسی کی ہر بات مانتے تھے مگر مسجد نہ بنانے کی بات کو بہت بُرا سمجھتے تھے۔ جب تک ان کی صحت ٹھیک تھی ہر جمعرات کو مسجد بیت النصرWillingboroکی مکمل صفائی خود کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہمیشہ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق بخشی۔
مرزا مغفور احمد صاحب جو آجکل امیر جماعت امریکہ ہیںوہ لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر احسان اللہ ظفر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک لمبا عرصہ پہلے نائب امیر اور پھر بحیثیت امیر جماعت احمدیہ امریکہ کی خدمت کی توفیق عطا فرمائی اور جو میرے دورے ہیں، ان کے زمانے میں جب وہ امیر تھے مَیں نے امریکہ میں تین دورے بھی کیے اور انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے میرے ان دَوروں کو بھگتایا اور انتظامات کیے۔ کہتے ہیں کئی سالوں سے بیماری کی وجہ سے ان کا چلنا پھرنا محدود ہو گیا تھا مگر امارت کی ذمہ داریوں کو خوش دلی سے مکمل طور پر ادا کرتے رہے۔ ان کی گفتگو میں اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بات ہوتی تھی۔ باتیں کرتے تھے تو گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے بات کرتے۔ آپ کی کتب کے حوالے دیا کرتے تھے۔ اور حضور علیہ السلام سے ایک خاص تعلق کا اظہار ہوتا تھا۔ خلافت کے ساتھ بڑا گہرا اور اطاعت کا تعلق تھا اور پھر موجودہ امیر صاحب امریکہ لکھتے ہیں۔ مجھے لکھ رہے ہیں کہ آپ کی ساری ہدایات جو آتی تھیں ان کو افراد جماعت تک فوراً پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ بہرحال مَیں نے بھی دیکھا ہے جیساکہ مَیں نے کہا خلافت کی اطاعت ان میں بےمثال تھی۔ اپنی رائے خود چھوڑ دیتے تھے اور بڑی خوشدلی سے چھوڑتے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند فرمائے۔ ان کی بچیوں کو بھی اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنشنل ۱۰؍ مئی ۲۰۲۴ء