خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 31؍ مئی 2024ء
حضرت خُبیبؓ نے اپنی شہادت کے وقت دعا کی کہ اے اللہ! یہاں کوئی ایسا نہیں جو اس وقت تیرے رسولؐ تک میرا سلام پہنچا دے اس لیے اے خدا! تُو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچا دے اور آپؐ کو بتا دے جو یہاں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے
حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جن کو لکڑی پر باندھ کر شہید کیا گیا
حضرت خبیبؓ پہلے تھے جنہوں نے قتل سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی سنّت قائم کی تھی
یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اللہ کی خاطر قربانیاں کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی قدر کرتا تھا اور پھر مرنے کے بعد بھی ان کی نعشوں کو محفوظ رکھا
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعہ کا ایمان افروز بیان اور فلسطین، سوڈان نیز یمنی اور پاکستانی احمدیوں کے لیےدعاکی تحریک
مکرم چودھری منیر احمد صاحب(مربی سلسلہ امریکہ) ڈائریکٹر مسرور ٹیلی پورٹ (ایم ٹی اے انٹرنیشنل امریکہ)اور مکرم عبد الرحمٰن کٹی صاحب آف الا نور کیرالہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 31؍ مئی 2024ء بمطابق 31؍ ہجرت 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
ایک سریہ کے ذکر میں
حضرت خبیبؓ کے شہید کیے جانے کا ذکر ہو رہا تھا۔
اس کی مزید تفصیل میں یہ لکھا ہے کہ یہ پہلے صحابی تھے جن کو لکڑی پر باندھ کر شہید کیا گیا۔یعنی صلیب کی طرح لٹکا کر شہید کیا گیا۔ علامہ ابن اَثِیرجزری لکھتے ہیں کہ
حضرت خبیبؓ پہلے صحابی تھے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر صلیب دیے گئے۔
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ156 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2003ء)
ایک روایت میں ہے کہ قریش نے حضرت خبیبؓ سے کہا کہ اگر تم اسلام سے رجوع کر لو تو ہم تمہارا راستہ چھوڑ دیں گے لیکن اگر تم نے رجوع نہ کیا تو ہم تمہیں قتل کر دیں گے۔ حضرت خبیبؓ نے کہا:
اللہ کے راستے میں میرا قتل تو ایک معمولی بات ہے۔
پھر گویا ہوئے:
اے اللہ! یہاں کوئی ایسا نہیں جو اس وقت تیرے رسولؐ تک میرا سلام پہنچا دے اس لیے اے خدا! تُو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچا دے اور آپؐ کو بتا دے جو یہاں ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔
(سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ 235دارالکتب العلمیۃ بیروت)
حضرت اسامہ بن زیدؓ سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی نازل ہونے کے وقت طاری ہوا کرتی تھی۔ ہم نے آپؐ کو فرماتے ہوئے سنا: وَعَلَیْہِ السَّلَامُ ورَحْمَۃُاللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ یعنی اُس پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سے وحی کے آثار ختم ہوئے تو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ جبرئیل تھے وہ مجھے خبیب کا سلام پہنچا رہے تھے۔ خبیب کو قریش نے قتل کر دیا۔
روایت ہے کہ قریش نے ایسے چالیس آدمیوں کو حضرت خبیبؓ کے قتل کے وقت بلایا جن کے باپ دادا جنگِ بدر میں قتل ہوئے تھے۔ پھر قریش کے ان لوگوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک نیزہ دے کر کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس نے تمہارے باپ داد ا کو قتل کیا تھا۔
(سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ 236دارالکتب العلمیۃ بیروت)
تو ان لوگوں نے خبیب کو اپنے نیزوں کے ساتھ ہلکی ہلکی ضربیں لگائیں اس پر حضرت خبیبؓ صلیب پر بے چین ہونے لگے۔ پھر خبیب پلٹے تو ان کا چہرہ کعبہ کی طرف ہو گیا۔ انہوں نے کہا :
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میرے چہرے کو اپنے قبلہ کی جانب کر لیا جو اس نے اپنے لیے پسند کیا ہے۔
پھر مشرکین نے خبیب کو قتل کر دیا۔
(سبل الھدیٰ جلد6،صفحہ44دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرکین نے پہلے حضرت خبیب ؓکو نیزے چبھوئے، شدید اذیّت دی اور پھر قتل کیا۔ جبکہ بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خبیبؓ نے جب اپنے اشعار ختم کیے تو عُقْبہ بن حارث ان کے پاس آیا اور اس نے حضرت خبیبؓ کو قتل کر دیا۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع … حدیث 4086)
عُقْبہ بن حارث کی کنیت ابو سِروَعہ بیان ہوئی ہے۔اور بعض روایات میں ذکر ہے کہ ابو سروعہ عقبہ بن حارث اس وقت چھوٹا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نیزہ دیا گیا مگر وار ابو مَیْسَرہ عَبْدَرِی نے کیا۔ یعنی بچے کے ہاتھ میں بدلہ لینے کے لیے نیزہ پکڑایا لیکن اس پہ زور دوسرے بڑے آدمی نے لگایا۔ بعض علماء نے ابوسروعہ الگ نام ذکر کیا ہے اور عقبہ بن حارث کو اس کا بھائی لکھا ہے۔ جب ابومیسرہ نے وار کیا تو کارگر ثابت نہ ہوا جس پر ابوسروعہ نے آگے بڑھ کر نیزے سے کام تمام کر دیا۔ بعد میں عقبہ بن حارث نے جو کہ فتح مکہ کے وقت اسلام لے آئے تھے انہوں نے بیان کیا کہ مَیں ابھی چھوٹا تھا اور ابومیسرہ عَبْدَرِی نے میرے ہاتھ میں برچھی یا نیزہ دیا اور خود میرے ہاتھ کے ذریعہ سے خبیب کو مارا۔
(دائرہ معارف سیرت محمد رسول اللہ ﷺ جلد 7صفحہ148-149 مطبوعہ بزم اقبال لاہور)
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کےبارےمیں لکھا ہے کہ ’’رؤسائے قریش کی قلبی عداوت کے سامنے رحم وانصاف کا جذبہ خارج از سوال تھا۔ چنانچہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بنو الحارث کے لوگ اوردوسرے رؤساء قریش خبیب کو قتل کرنے اوراس کے قتل پر جشن منانے کے لئے اسے ایک کھلے میدان میں لے گئے۔ خبیب نے شہادت کی بُو پائی تو قریش سے الحاح کے ساتھ کہا کہ مرنے سے پہلے مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے جو غالباً اسلامی نماز کے منظر کو بھی اس تماشہ کاحصہ بنانا چاہتے تھے اجازت دے دی اور خبیب نے بڑی توجہ اورحضورِقلب کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور پھر نماز سے فارغ ہوکر قریش سے کہاکہ
’’میرا دل چاہتا تھا کہ مَیں اپنی نماز کو اَور لمبا کروں، لیکن پھرمجھے یہ خیال آیا کہ کہیں تم لوگ یہ نہ سمجھو کہ مَیں موت کو پیچھے ڈالنے کے لئے نماز کو لمبا کر رہا ہوں۔‘‘
اور پھر خبیب یہ اشعار پڑھتے ہوئے آگے جھک گئے
وَمَا اَنْ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلٰی اَیِّ شِقٍّ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذَالِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَاء یُبَارِکْ عَلٰی اَوْصَالِ شَلْوٍ مُمَزَّعِ
یعنی ’’جبکہ مَیں اسلام کی راہ میں اورمسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے یہ پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پرقتل ہوکر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔‘‘ غالباً ابھی خبیب کی زبان پران اشعار کے آخری الفاظ گونج ہی رہے تھے کہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر وار کیا اور یہ عاشقِ رسولؐ خاک پر تھا۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ قریش نے خبیب کوایک درخت کی شاخ سے لٹکا دیا تھا اورپھر نیزوں کی چوکیں دے دے کر قتل کیا۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ515)
حضرت مصلح موعودؓ اس بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ’’جب ان کے قتل کا وقت آن پہنچا توخبیبؓ نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے ان کی یہ بات مان لی اور خبیبؓ نے سب کے سامنے اِس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی۔ جب وہ نماز ختم کر چکے تو انہوں نے کہا کہ
مَیں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھا مگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ مَیں مرنے سے ڈرتا ہوں۔
پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیااور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے۔
وَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ یُبَارِکُ عَلٰی اَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ
یعنی جبکہ مَیں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ مَیں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں۔ یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔ خبیبؓ نے ابھی یہ شعر ختم نہ کئے تھے کہ جلاد کی تلوار ان کی گردن پر پڑی اور ان کا سر خاک پر آگرا۔‘‘
(دیباچہ تفسیر القرآن ،انوار العلوم جلد 20صفحہ262)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ
حضرت خبیبؓ پہلے تھے جنہوں نے قتل سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے کی سنّت قائم کی تھی۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع … حدیث 4086)
حضرت خبیبؓ کی دعا تھی مخالفین کے بارے میں اور اس دعا کے نتیجہ میں ان کا انجام کیا ہوا؟
اس بارے میں علامہ ابن حجر عسقلانی جو بخاری کے شارح ہیں وہ سریہ رجیع کے تحت ایک حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ خبیب نے شہادت کے وقت یہ دعا مانگی کہ اَللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا۔ کہ اے اللہ! ان دشمنوں کی گنتی کو شمار کر رکھ۔ یہ جو میرے دشمن ہیں ان کی گنتی کر لے تا کہ ان سے بدلہ لے سکے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْھُمْ اَحَدًا۔ اور انہیں چُن چُن کر قتل کر اور ان میں سے کسی ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ۔
جب حضرت خبیب ؓقتل کیے جانے کے لیے تختہ پر چڑھے تو اس وقت انہوں نے یہ دعا کی تھی۔ ایک مشرک نے جب یہ دعا سنی کہ اَللّٰهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا۔یعنی اے اللہ! ان کی گنتی کو شمار کر رکھ اور ان کو چُن چُن کر قتل کر تو وہ خوف سے زمین پر لیٹ گیا۔ کہتے ہیں کہ ابھی ایک سال نہیں گزرا تھا کہ سوائے اس کے جو زمین پر لیٹ گیا حضرت خبیبؓ کے قتل میں شریک تمام لوگ زندہ نہ رہے اور سب ختم ہو گئے۔
(فتح الباری شرح صحیح البخاری جزء7 صفحہ443 دار الریان للتراث القاھرۃ 1986ء)
بہرحال یہ تو کہیں بھی باقی جگہوں سےثابت نہیں ہے کہ ایک سال ابھی ختم نہ ہوا تھا کہ سب لوگ ختم ہو گئے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں سے اکثریت ماری گئی۔ یا تو مارے گئے یا فتح مکہ تک قریباً سارے ہی اسلام لے آئے اور
یوں حضرت خبیبؓ کی دعا پوری شان سے پوری ہوئی کہ کچھ تو جہنم رسید ہوئے اور باقی لوگوں کو اسلام کی ہدایت نصیب ہوئی۔
ایک سیرت نگار اس حوالے سے لکھتا ہے کہ مشرکین خبیب کی زبان سے یہ کلمات سن کر کانپ اٹھے۔ انہیں یقین تھا کہ خبیب کی یہ بددعا رائیگاں نہیں جائے گی۔ حارث بن بَرصَاء وہاں موجود تھے۔ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ خبیب کی بددعا سنتے ہی مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ بددعا ان میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گی۔یہی وجہ ہے کہ یہ بددعا سن کر وہاں موجود کافروں اور مشرکوں میں سے بعض لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر فرار ہوگئے ،کچھ لوگوں کے پیچھے چھپنے لگے،یعنی بددعا کے اثر سے بچنے کے لیے اپنے رواج کے مطابق ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے لگ گئے،کچھ درختوں کی اوٹ میں ہو گئے اور کچھ زمین پر لیٹ گئے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح ہم اس بددعا سے محفوظ رہیں گے۔ ان کے ہاں روایتی طور پر یہ بات مشہور تھی کہ اگر کسی آدمی کے لیے بددعا کی جائے اور وہ پہلو کے بل لیٹ جائے تو اس بددعا کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
حضرت معاویہ بن ابوسفیانؓ اپنے اور اپنے والد کے اسلام قبول کرنے سے پہلے کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کی طرح مَیں بھی اپنے والد کے ساتھ اس جگہ پہنچا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ میرے والد خبیب کی بددعا سے گھبرا گئے۔ انہوں نے مجھے لٹانے کے لیے بہت زور سے زمین کی طرف گھسیٹا۔ مَیں پیٹھ کے بل گرا۔ گرنے کی وجہ سے مجھے اتنی زبردست چوٹ لگی کہ مَیں بڑی مدت تک اس کی تکلیف محسوس کرتا رہا۔
حُوَیْطِبْ بِن عَبْدُالْعزّیٰ فتح مکہ والے سال مسلمان ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت خبیبؓ کی بددعا سنتے ہی مَیں نے فورا ًکانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور بھاگ نکلا۔ مَیں ڈر رہا تھا کہ مبادا ان کی بددعا کی آواز میرے کانوں کے تعاقب میں آ جائے۔ حکیم بن حِزَام بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت خبیبؓ کی بددعا سے ڈر کر درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ جُبَیر بن مُطْعِم کہتے ہیں کہ مَیں اُس دن حضرت خبیبؓ کی بددعا کا سامنا کرنے کا حوصلہ نہ کر سکا۔ مَیں نے خوفزدہ ہو کر لوگوں کی آڑ لے لی۔ نوفل بن مُعَاویہ دِیْلِی فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دن میں خبیب کی بددعا کے وقت موجود تھا۔ مجھےیہ پورا یقین تھا کہ ان کی بددعا سے وہاں موجود لوگوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچے گا۔ مَیں کھڑا ہوا تھا، ان کی بددعا سے گھبرا گیا اور زمین کی طرف جھک گیا۔
قریش کے لوگوں میں اس بددعا کا بہت چرچا رہا۔ ایک مہینے یا اس سے زیادہ عرصہ تک ان کی مجلسوں میں خبیب کی بددعا کا خوف منڈلاتا رہا اور وہ اس پر طرح طرح کے تبصرے کرتے رہے۔
(سیرت انسائیکلو پیڈیا جلد6صفحہ470-471مکتبہ دار السلام ریاض 1434ھ)
ایک اَور روایت میں ہے کہ ’’اس مجمع میں ایک شخص سعید بن عامر بھی شریک تھا۔ یہ شخص بعد میں مسلمان ہو گیا اور حضرت عمرؓکے زمانہ خلافت تک اس کا یہ حال تھا کہ جب کبھی اسے حضرت خبیب کا واقعہ یاد آتا تھا تو اس پر غشی کی حالت طاری ہو جاتی تھی۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 515تا516)
سعید بن عامر جن کا ابھی ذکر ہوا ہے ان کے بارے میں یہ ملتا ہے کہ حضرت عمر ؓنے اپنے عہد خلافت میں ملک شام میں انہیں ایک جگہ عامل مقرر فرمایا تھا۔ اور بعض اوقات انہیں لوگوں کے درمیان ہی اچانک غشی کا دورہ پڑ جایا کرتا تھا۔ لوگوں نے حضرت عمر ؓسے شکایت کی کہ یہ بیمار شخص ہے جس کو آپؓ نے ہم پر مقرر فرما دیا ہے۔ ایک مرتبہ جب وہ حضرت عمر ؓسے ملنے آئے تو حضرت عمر ؓنے ان سے پوچھا کہ اے سعید !تمہیں کوئی بیماری لاحق ہے؟ اس پر وہ عرض کرنے لگا کہ
اے امیر المومنین! مجھے کسی قسم کی کوئی بیماری نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ حضرت خبیبؓ کو جس وقت قتل کیا جا رہا تھا تو وہاں موجود لوگوں میں مَیں بھی شامل تھا۔ اور اب جب مجھے حضرت خبیب ؓکی وہ بددعایاد آ جاتی ہے تو خوف کے مارے مجھ پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ، ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث، جزء 2 صفحہ 150، دارالمعرفۃ بیروت 2000ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت خبیبؓ کی نعش کو سولی سے اتارنے کے لیے ایک پارٹی کو روانہ فرمانے کے بارے میں
یہ ذکر ملتا ہے۔
روایت میں بیان ہوا ہے کہ قریش نے سولی کی حفاظت کے لیے چالیس آدمی تعینات کیے تھے تاکہ وہ لاش وہیں لٹکی رہے اور وہیں خراب ہو جائے، گل سڑ جائے یا بعد میں یہ اپنابدلہ لیتے رہیں۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مقدادؓ اور حضرت زبیر بن عوام ؓکو مکہ کی طرف روانہ کیا تا کہ وہ حضرت خبیبؓ کی لاش کو سولی سے اتاریں۔ آپؐ کو اس کی خبر ہو گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے شاید علم دے دیا ہو۔ بہرحال ایک روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون ہے جو خبیب کو سولی سے اتارے گا تو اس کے لیے جنت ہو گی۔ حضرت زبیر بن عوامؓ نے عرض کیا :یا رسول اللہؐ! مَیں اور میرا ساتھی مقداد بن اسود یہ کام کر لیں گے۔ جب یہ دونوں اس جگہ پہنچے جہاں حضرت خبیبؓ کی نعش تھی تو انہوں نے وہاں چالیس آدمیوں کو پایا لیکن وہ سب کے سب مدہوش سوئے ہوئے تھے۔ ان دونوں نے خبیب کو اتار لیا اور یہ حضرت خبیبؓ کی شہادت کے چالیس روز بعد کا واقعہ ہے۔ حضرت زبیرؓ نے خبیبؓ کی لاش کو اپنے گھوڑے پر رکھ لیا اور وہ دونوں چلے۔ یہاں تک کہ جب کفار کو خبر ہوئی اور انہوں نے حضرت خبیبؓ کو گم پایا تو انہوں نے قریش کو اس کی خبر دی جس پر ان میں سے ستّر سوار نکلے۔ مزید لوگ بھی شامل کیے تا کہ پیچھا کریں۔ پھر جب قریش کے افراد ان دونوں صحابہؓ کے قریب پہنچے تو حضرت زبیرؓ نے حضرت خبیبؓ کی لاش کو زمین پر رکھا اور حضرت زبیرؓ نے اپنے سر سے اپنا عمامہ کھول دیا اور ان سے کہا مَیں زبیر بن عوام ہوں اور یہ میرا ساتھی مقداد بن اسود ہے ہم دونوں ایسے ببرشیر ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو پیچھے چھوڑا ہے۔ اگر تم لوگ چاہو تو ہم تیروں سے تمہارا استقبال کریں اور چاہو تو تم پر آ پڑیں اور اگر تم لوگ چاہو تو یہیں سے لَوٹ جاؤ۔ یہ سن کر وہ مشرکین واپس چلے گئے اور اس کے بعد جب حضرت زبیرؓ نے دیکھا کہ حضرت خبیبؓ کی لاش غائب تھی جیسے زمین انہیں نگل گئی ہوجس پر آپؓ کا نام بَلِیْعُ الْاَرْضمشہور ہو گیا یعنی وہ شخص جس کو زمین نگل گئی ہو۔
لاش غائب ہونے کے متعلق اس طرح کی روایات ہیں جو عجیب لگتی ہیں۔ تاہم ایک روایت ہے جو آگے بیان کروں گا، وہ صحیح لگتی ہے کہ کس طرح لاش غائب ہوئی۔ بہرحال حضرت زبیر ؓاور حضرت مقدادؓ پر فرشتوں کے فخر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کے بعد حضرت زبیرؓ اور حضرت مقدادؓ مدینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل تھے۔ جبرئیل نے آپؐ سےعرض کیا: اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہؓ میں سے ان دو آدمیوں پر فرشتے بھی فخر کرتے ہیں۔
(سیرت حلبیہ جلد3 صفحہ 236دارالکتب العلمیۃ بیروت)
(تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 254 دارالکتب العلمیۃ2009ء)
سیرت کی کتابوں میں حضرت خُبیبؓ کی نعش لانے کے لیے ایک اَور پارٹی کی روانگی کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔چنانچہ ایک روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عَمرو بن امیہ ؓکو تنہا بطور جاسوس قریش کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بیان کیا مَیں حضرت خبیبؓ کی صلیب کے پاس آیا۔ مَیں جاسوسوں سے ڈر رہا تھا۔ مَیں صلیب پر چڑھا۔مَیں نے حضرت خبیبؓ کی نعش کو کھولا تو وہ زمین پر آ گئی۔ میں کچھ دیر کنارہ کش رہا۔مَیں نے اپنے پیچھے آواز سنی۔ مَیں نے دیکھا تو مَیں نے وہاں حضرت خبیبؓ کی نعش کو نہ پایا گویا کہ زمین نے انہیں نگل لیا۔ آج تک ان کا کوئی نشان نہیں ملا۔
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد6 صفحہ45 دارالکتب العلمیۃ بیروت)
اس میں بھی مبالغہ لگتا ہے۔بہرحال اس طرح کی روایات تاریخ میں لکھی ہوئی ہیں۔
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت عمرو بن امیہ ضَمْرِی ؓکے ساتھ حضرت جَبَّار بن صَخْر انصاریؓ کو بھی بھیجا گیا تھا۔ حضرت خبیبؓ کی نعش کی نگرانی کرنے والے قریشیوں نے جب ان دونوں کا پیچھا کیاتو حضرت جبارؓنے لاش کو ندی میں پھینک دیا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے خبیب کی نعش کو کافروں سے غائب کر دیا۔(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ885 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2001ء)بہرحال جیساکہ مَیں نے کہا تھاکہ اس کی مختلف روایات ہیں۔
یہ روایت ہے جو زیادہ صحیح لگتی ہے کہ جب وہ پیچھے دوڑے تو انہوں نے یعنی حضرت جبارؓ نے نعش کو دریا میں پھینک دیا اور دریا اس نعش کو بہا کر لے گیا۔
اور یہ ہوتا ہے کہ دریا کا تیز پانی لاشوں کو بہا کر لے جاتا ہے۔تو اس بارے میں مختلف روایات آتی ہیں۔ بہرحال ان کی لاش کافروں کے ہاتھ نہیں لگی اور یہی کہتے ہیں کہ زمین نگل گئی، غائب ہو گئی۔ اسی نام سے یعنی بَلِیْعُ الْاَرْض کے نام سے پھر یہ مشہور ہو گئے تھے کہ ان کی نعش زمین میں غائب ہو گئی۔ وہ کفار تو جو کچھ کرنا چاہتے تھے وہ نہ کر سکے اور اس طرح نعش کو اللہ تعالیٰ نے بےحرمتی سے محفوظ رکھا۔
اللہ تعالیٰ اس طرح بھی اپنے پیاروں کی حفاظت کرتا تھا۔ بہت سے ایسے مواقع ہیں جہاں نعشوں کو محفوظ رکھا۔
پچھلی دفعہ مَیں نے ایک واقعہ سنایا تھا بھڑوں اور شہد کی مکھیوں کے ذریعہ سے نعش کو محفوظ رکھا۔ بےحرمتی نہیں ہو سکی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ353 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)بہرحال
یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اللہ کی خاطر قربانیاں کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ بھی ان کی قدر کرتا تھا اور پھر مرنے کے بعد بھی ان کی نعشوں کو محفوظ رکھا۔
اس سریہ کا ذکر یہاں ختم ہوا۔
دعا کی طرف مَیں توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ فلسطینیوں کے لیے خاص طور پر دعا کریں۔
اب تو انتہا ہو گئی ہے۔ رَفَح کے بارے میں پہلے یہ تھا کہ امریکہ کہتا تھا کہ یہ ہماری ریڈ لائن ہو گی اور اب کہتے ہیں کہ نہیں ابھی نہیں ختم ہوئی۔ان کی ریڈ لائن کا معیار پتہ نہیں کیا ہے؟ کتنے لاکھ لوگوں کو مارنا ہے انہوں نے پھران میںکوئی ہل جُل پیدا ہو گی۔
اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے دنیا کو نجات دے اور معصوم فلسطینیوں کو بھی نجات دے۔
اسی طرح
سوڈان کے لوگوں کے لیے دعا کریں۔
وہاں تو خود اپنی قوم کے لوگ اپنی قوم کے لوگوں کو مار رہے ہیں۔ مسلمان مسلمانوں کو مار رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی عقل دے اور یہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے جو احکامات ہیں، یہ مسلمان کہلاتے ہوئے پھر ان پر عمل کرنے والے بھی ہوں۔
یمن کے اسیران کے لیے دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ان کی رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔
پاکستان کے احمدیوں کے لیے دعا کریں۔
وہاں بھی حالات اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں اور اب جبکہ عید قریب آ رہی ہے تو مولوی ان دنوں میں مزید سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ اسیران کی رہائی کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے۔
اب میں جمعہ کے بعد
نماز جنازہ غائب
بھی پڑھاؤں گا۔پہلا جنازہ
ہمارے ایک مربی سلسلہ چودھری منیر احمد صاحب
کا ہے جو ایم ٹی اے انٹرنیشنل ٹیلی پورٹ امریکہ کے ڈائریکٹر تھے۔ گذشتہ دنوں تہتر (73)سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
ان کے خاندان میں احمدیت ان کے پڑنانا حضرت مولوی فضل دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعہ سے آئی جن کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین سو تیرہ صحابہ کی فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔ چودھری منیر صاحب نے 1978ء میں جامعہ احمدیہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا۔پھر پاکستان میں مختلف جگہوں پر مربی کی حیثیت سے خدمت کی۔ پھر معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے طورپر خدمت کی توفیق ملی۔ 81ء میں امریکہ بھجوائے گئے۔ 90ء تک وہاں رہے۔ پھر اس کے بعد واپس آ گئے۔پھر 94ء میں دوبارہ امریکہ چلے گئے اور تا دم آخر امریکہ میں ہی رہے اور جماعت کی خدمت کرتے رہے۔ آپ نے ایم ٹی اے ٹیلی پورٹ امریکہ کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پہلے تو صرف وہاں سے ٹرانسمٹ (transmit)کرنے کا یہ ایک چھوٹا سا سٹوڈیو تھا۔پھر اس میں وسعت پیدا کی گئی اور باقاعدہ نارتھ،ساؤتھ امریکہ کے لیے ایک علیحدہ محکمہ،شعبہ کھولا گیا اور وہاں مَیں نے ان کو ایم ٹی اے کا ڈائریکٹر بنایا۔اور بڑی محنت سے ،بڑی جانفشانی سے بڑی ٹیکنیکل skillسے جو انہوں نے حاصل نہیں کی تھی، دنیاوی علم سے ان کو حاصل نہیں ہوئی یعنی خاص طور پر کوئی ڈگری لے کے نہیں پڑھی،لیکن یہ کام کرنے کا شوق تھا اس لیے خود علم حاصل کیا اور اس ٹیلی پورٹ کو انہوں نے بڑے احسن رنگ میں چلایا اور ہر طرح سے اس کو ٹیکنیکلی بھی اعلیٰ معیار پہ پہنچایا۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹا اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔
ان کے بچوں نے بتایا کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ پر توکل کرنے والے اور مشکل وقت میں دعا کی طرف توجہ دلاتے تھے۔ یہی کہتے تھے کہ جو اسباب ہیں وہ استعمال کرو اور پھر معاملہ ہمیشہ خدا تعالیٰ پر چھوڑو۔ مہمان نوازی کی صفت بہت نمایاں تھی۔ ہر وقت گھر مہمانوں کے لیے کھلا رہتا۔ بچوں کو ہمیشہ خلافت سے بھرپور تعلق کی تلقین کرتے۔ ایم ٹی اے کے لیے جو بھی صلاحیتیں تھیں استعمال کرتے بلکہ ان کے بچے کہتے ہیں کہ ہسپتال میں بھی جب مختلف وقتوں میں بیمار رہے۔ یہ مختلف وقتوں میں کافی لمبا عرصہ بیمار رہے ہیں۔ ہسپتال بھی داخل ہوتے تو وہاں بھی ایم ٹی اے کے لیے کام کرتے رہتےتھے۔ غرضیکہ ایک واقف زندگی کا ایک اعلیٰ نمونہ تھے۔
مرزا مغفور احمد صاحب امیر جماعت امریکہ لکھتے ہیں کہ بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ نہ صرف اپنے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے محنت اور توجہ سے کام کرتے تھے بلکہ اپنا وقت اور علم جماعت کے دوسرے کاموں کو دینے میں بھی کبھی تامل نہیں کرتے تھے۔ بعض جماعتی کاموں میں انہوں نے خاکسار کی بھی انتہائی خوشی اور توجہ سے مدد کی۔ اگر جماعتی مفاد کے لیے ان کے علم میں کوئی معلومات آتیں تو وہ جماعتی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کرتے اور اس طرف توجہ دلایا کرتے تھے۔ نظام جماعت کے ساتھ پورے تعاون اور اس کی اہمیت کا ان کے قول و فعل سے بخوبی پتہ چلتا تھا۔ خلافت کے جاںنثار، مطیع اور فرمانبردار تھے۔ خلیفہ وقت کے ارشادات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے ہمیشہ ان کو خلیفة المسیح کی خواہشات اور توقعات پر پوری تندہی کے ساتھ عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پایا۔
امیر جماعت برکینا فاسو جو اِن کے عزیز بھی ہیں لکھتے ہیں کہ بچپن کا ایک واقعہ مشہورہے کہ چند ماہ کے تھے جب آپ شدید بیمار ہو گئے۔ آخری آثار نظر آنے لگے۔ مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ ان دنوں میں ان کے علاقے میں قیام پذیر تھے۔ ان کی والدہ ان کی بیماری میں گھبراہٹ میں مولوی صاحبؓ کے پاس ان کو لے گئیں اور مولوی صاحبؓ کی گود میں دیتے ہوئے کہا مولوی صاحب! یہ گیا۔اور روتی جا رہی تھیں۔ مولوی صاحبؓ نے بچہ کو اٹھایا اور فرمایا: ٹھیک ہو جائے گا اسے وقف کر دو۔ اس طرح وہ بچپن میں ہی وقف ہو گئے۔ وہاں ماں نے عہد کیا کہ وقف کر دوں گی۔ خود بھی یہ کہتے تھے مجھے میر صاحب نے تلقین کی تھی کیونکہ مَیں پڑھائی وغیرہ میں اچھا نہیں تھا کہ سورة فاتحہ اسمبلی کے دوران پڑھا کرو جو مَیں مستقل پڑھتا تھا۔
شمشاد ناصر صاحب مربی کہتے ہیں اور تقریباً ہر ایک نے ان کی یہی خوبیاں لکھی ہیں کہ خلافت کے احکامات کی پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرنے والے۔ اکثر بیمار رہنے کے باوجود کسی کو کبھی نہیں بتایا اور نہ کبھی احساس ہونے دیا کہ کسی تکلیف میں ہیں۔بس ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا اور بڑی محنت سے اسی میں جتے رہے۔ہر قسم کے معاملات پربڑی دسترس تھی۔ گہرائی سے ہر چیز کا مطالعہ کرتے۔ پھر مربیان کی راہنمائی بھی فرماتے تھے۔ بہترین منتظم بھی تھے اور ساتھیوں کے ساتھ بہت مشفقانہ سلوک کرتے تھے۔ مہمان نوازی بھی تھی ان میں۔ غیروں نے بھی محسوس کیا صرف بچوں نے ہی نہیں لکھا۔ ہر ایک سے مسکرا کے ملنا ان کا شیوہ تھا۔ طبیعت بڑی دھیمی تھی مگر ہمت سے کام لینے والے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ میں عجیب صلاحیتیں رکھی تھیں۔ مربی تھے مگر جب حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان کی ارتھ سٹیشن میں تقرری فرمائی تو ہر چیز کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا اور پھر اس کو انتہائی کامیابی تک لے گئے۔
جب نئی ڈش لگوانے کے لیے کارروائی شروع ہوئی تا کہ وہاں سے پروگرام سارے امریکہ میں ٹرانسمٹ ہو سکے تو متعلقہ ادارے سے اجازت لینی تھی۔ وہاں سے انسپکٹر آیا اور اس نے اجازت نہیں دی اور فارم پہ سائن نہیں کیے۔ بہرحال انہوں نے پھر مجھے لکھا۔ مَیں نے کہا آپ کوشش کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔کچھ عرصہ بعد وہاں سے دوبارہ ایک انسپکٹر آیا جو گھانا کا رہنے والا تھا۔ اس نے جب جماعت کا نام سنا تو کہنے لگا کہ مَیں بھی جماعت کے احمدیہ سکول میں پڑھا ہوا ہوں اور پھر اس نے وہیں اس پہ سائن کر دیے اور اجازت مل گئی۔ تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی خاص تائید تھی۔ ان کی محنت اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے اس کام کو بھی آسان کر دیا۔
لئیق مشتاق صاحب مربی سُرینام کہتے ہیں کہ انہوں نے جنوبی امریکہ کے ممالک کا دورہ کیا اور ایم ٹی اے کے بارے میں معلومات لیں۔ تین دن سرینام میں قیام کیا اور انہوں نے کہا کہ مجھے خلیفہ وقت نے یہاں ایک مقصد کے لیے بھجوایا ہے مَیں صرف یہی کام کروں گا اس لیے کوئی سیر ویر کا پروگرام نہیں ہو گا۔اور پورا وقت ایم ٹی اے کی نشریات کے ٹیسٹ،گھروں کا دورہ کر کے افراد جماعت کو ایم ٹی اے سے استفادہ کرنے اور نوجوانوں کو ایم ٹی اے کی نشریات کے دوران پیش آنے والے مسائل کو حل کرنے کے طریقے سمجھانے پر صَرف کیا۔
یہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ ایک دفعہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مربی نے مجھ سے شکوہ کیا۔ بعض دفعہ مربیان بھی ایسے شکوے کردیتے ہیں۔ اب بھی کر دیتے ہیں کہ ہمیں سات سال جامعہ میں پڑھایا گیا۔ اب ہمیں دفتر میں بٹھا دیا گیا ہے۔ تو مَیں نے، چودھری منیر صاحب نے اسے جواب دیا تھا کہ خلیفہ وقت بہتر جانتے ہیں کہ کس سے کب کیا کام لینا ہے۔ مبلغ سلسلہ ہوں۔ کہتے ہیں مَیں بھی مبلغ سلسلہ ہوں مگرگذشتہ پندرہ سال سے خلیفہ وقت کے حکم سے میں ٹیلی پورٹ کا کام کر رہا ہوں۔ہتھوڑی پلاس ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ٹیکنیکل کام بھی کرتا ہوں۔ اگر مجھے خلیفہ وقت کی طرف سے کہا جائے کہ گلیوں میں جھاڑو پھیرو تو مَیں شرح صدر کے ساتھ یہ کام کروں گا اور خود کو خاکروب کہلاؤں گا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی ایک دفعہ فرمایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب ہمیں مربیان کو یہاں لگانا ہوگا۔ ہمارے دفتروں میں کام کرنے والے بھی مربی ہوں گے۔ یہ نہیں کہ دوسرا کلیریکل (clerical)سٹاف لیا جائے۔ اس لیے
ہر مربی کو یہ دماغوں سے نکال دینا چاہیے کہ اس سے کیا خدمت لی جا رہی ہے۔ کہیں بھی کوئی بھی خدمت لی جا سکتی ہے۔
جامعہ پڑھے ہیں تو اچھی بات ہے کہ ایک دینی علم ان کو حاصل ہو گیا۔ اس دینی علم کو استعمال کرتے رہنا چاہیے۔
غالب خان ایم ٹی اے سٹوڈیوز امریکہ کے انچارج ہیں ۔کہتے ہیں ہر کام وہ خود تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کرتے تھے۔ اس کا ریکارڈ رکھنا ،سٹاف کے اوقات، سائٹ دیکھنا ،عمارت کی صفائی کا وہ خود خیال رکھتے تھے۔ اور ہر وقت اسی بات میں توجہ رہتی تھی کہ کس طرح اس نظام کو بہتر سے بہتر کیا جائے۔ پھر اپنے ساتھیوں سے بھی نرم مزاجی سے پیش آتے۔ اعلیٰ منتظم تھے لیکن مضبوط عزم و ہمت والے تھے۔
مرزا محمد افضل صاحب لکھتے ہیں کہ ان سے چھپن سال سے واقفیت تھی۔ اکٹھے امریکہ آئے تھے۔ خلافت کے فدائی تھے۔ 1974ء میں اسیری بھی کاٹی۔ اخلاص و وفا کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ عشق کے جذبے سے خدمت کرتے تھے۔ کام کا طریقہ بہت منظم ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی خدمت سے انکار ان کی فطرت میں نہیں تھا۔ ہمیشہ ان کو خلافت کا سلطان نصیر ہی پایا۔
ظفر سرور صاحب بھی کہتے ہیں کہ جب امریکہ سے ٹیلی پورٹ کی ٹرانسمیشن کا آغاز ہوا تو انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کو درخواست کی کہ ٹیکنیکل کام ہے اس کے لیے ایک انجینئر دیا جائے تو حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے ان کو فرمایا کہ آپ خود انجینئر بننے کی کوشش کریں۔
چنانچہ پھر انہوں نے خود ہی یہ کام سیکھا اور اس پر عبور حاصل کیا اور بڑے پُراعتماد طریقے سے انہوں نے یہ سارے کام کیے۔انتیس سال تک انہوں نے ایم ٹی اے کی خدمت کی باوجود اس کے کہ اتنا عرصہ ان کو دل کی بیماری بھی رہی۔
اب نارتھ امریکہ، ساؤتھ امریکہ میں ان کی وجہ سے ہی ایم ٹی اے پروگرام بڑے آرام سے دیکھے جا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حمید الرحمٰن صاحب لاس اینجلس امریکہ لکھتے ہیں کہ 1993ء میں لاس اینجلس میں ان کی تقرری ہوئی۔ ہمارے ساتھ مل کر چینو(Chino) میں زمین خریدی اور پھر فوراً مسجد کی تعمیر کی کوشش کی۔ مرحوم بہت نڈر اور بہادر اور متوکل علی اللہ انسان تھے۔ چینو کے میئر کے پاس جماعت کے تعارف کے لیے اس کے دفتر گئے اور تعارف کروانے کے بعد چینو میں مسجد کی تعمیر کا بتایا۔ میئر نے فوراً کہا کہ مسجد بالکل نہیں بنے گی۔اور بڑے غصہ میں یہ جملہ کہا کہ over my dead body۔ یہ سنتے ہی چودھری صاحب غیر معمولی جوش کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میئر صاحب! یہ مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہ ہے اور بنے گی اور ضرور بنے گی! چنانچہ الحمد للہ وہاں مسجد تعمیر ہوئی اور پھر اسی میئر نے مسجدمیں آ کر معافی مانگی اور پھر اس کے بعد کئی بار وہ مسجد میں آتا رہا۔ بڑے نڈر آدمی تھے۔
حماد صاحب مربی ہیں۔ منیر صاحب ان کے رشتہ دار تھے۔ کہتے ہیں مَیں فیلڈ میں آیا ہوں تو مجھے شروع میں مشکلات پیش آنی شروع ہوئیں۔ بڑے پیار سے میری باتیں سنیں۔ مجھے سمجھایا۔ بڑی پُرحکمت نصیحتیں کیں اور اس طرح جو معاملات اور مشکلات تھے میرے خود بخود حل ہو گئے۔ بہت سارے معاملات میں ان سے میں نصیحت لیا کرتا تھا۔
منیر شمس صاحب ڈائریکٹر ایم ٹی اے کہتے ہیں کہ ٹیلی پورٹ کا سیٹ اَپ انہوں نے بڑے احسن رنگ میں کیا۔ چودھری منیر صاحب کی خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ تھی کہ ہر کام میں مشورہ کے ساتھ ہمیشہ جماعت کا پیسہ بچانے کی کوشش کرتے تھے اور صرف وہی مشینری حاصل کرتے تھے جس کی ازحد ضرورت ہوتی تھی۔ آپ کے ہر قول و فعل میں خلافت کے ساتھ بے حد اخلاص و وفا کا تعلق نمایاں ہوتا تھا اور یہی ہوتا تھا کہ خلیفہ وقت کے ہر لفظ کی حرف بہ حرف اطاعت کی جائے۔ایم ٹی اے ٹیلی پورٹ کے ڈائریکٹر تھے لیکن کوئی نمائش اور نمود و نما یہ نہیں تھا کہ مَیں نے یہ کام کیا اور میری وجہ سے یہ کامیابی ہو رہی ہے۔ بڑی عاجزی سے کام کرنے والے تھے بلکہ دوسروں کو کریڈٹ دے دیتے تھے۔
مَیں نے دیکھا ہے بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنا وقف نبھایا اور بے لوث ہوکر انہوں نے ایم ٹی اے کو امریکہ کے براعظم میں پہنچانے کی بھرپور کوشش کی۔ جو ایمانداری سے سمجھا اس کے بارے میں بڑے اچھے مشورے دیے۔ مجھے بھی لکھتے رہتے تھے۔ آگے آ کے اپنی اہمیت بتانے کا شوق نہیں تھا۔ بس ایک لگن تھی کہ جو کام خلیفہ وقت کی طرف سے مجھے سپرد کیا گیا ہے اسے مَیں احسن رنگ میں پورا کرنے کی کوشش کروں۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا ذکر ہے
مکرم عبدالرحمٰن کٹی (Kutty) صاحب الانلور (Alanallor) کیرالہ۔
گذشتہ دنوں میںان کی بھی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ سولہ سال کی عمر میں اپنے ماموں مولانا محمد علوی صاحب کے ذریعہ بیعت کی توفیق پائی۔ صوم و صلوٰة کے پابند، جماعت کے ساتھ بہت اخلاص کا تعلق رکھنے والے، سادہ طبیعت کے مالک ،عاجز اور نیک انسان تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہر کام میں کوئی نہ کوئی دینی پہلو ضرور شامل رکھتے۔
ان کے بیٹے لکھتے ہیں انہوں نے ہماری تربیت میں دینی پہلو کو مقّدم کیا۔چنانچہ صبح سویرے سکول جانے سے پہلے ایک دو گھنٹے کے لیے دینی مدرسے میں بھیجتے اور رات کو سونے سے پہلے قرآن شریف کی تلاوت بڑی باقاعدگی سے کرواتے تھے۔
ان کی اہلیہ تین سال پہلے وفات پا گئی تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹیاں اور چار بیٹے شامل ہیں۔ ایک بیٹے شمس الدین مالا باری صاحب مبلغ انچارج کبابیر کے طور پر خدمت کی توفیق پا رہے ہیں جو جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔
٭…٭…٭
الفضل انٹرنیشنل ۲۱؍ جون ۲۰۲۴ء