خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍ اگست 2024ء

ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوا ہے اس وقت آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو گا جب اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائے گا

الحمد للہ آج جلسہ سالانہ جرمنی شروع ہو رہا ہے۔ … اللہ تعالیٰ جلسہ اور تمام انتظامات ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور لوگوں کو تمام پروگراموں سے بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے
کارکنان اس جذبہ سے کام کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بلانے پر آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور جو چاہے حالات ہوجائیں ہم نے اپنے اخلاق کے معیار بلند رکھنے ہیں اور خدمت کرتے چلے جانا ہے

اگر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے دکھانے کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر بندوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں

اگر آپ کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں پیدا ہوا، اگر آپ کے اخلاقی اور روحانی حالات میں بہتری نہیں ہوئی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی بیزاری کا اظہار فرمایا ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی جماعت میں شمار ہی اسے کیا ہے جس میں حقیقی تقویٰ اور طہارت پیدا ہو اور اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اپنی نیکیوں کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرے

آج یہ عہد کریں کہ ہم نے جو عہدِ بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے باندھا ہے اس کو ہم پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے زیر اثر اور آپ کے مشن کو پورا کرتے ہوئے ایمان کو ثریا سے لانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے

ہم بیشک کہتے رہیں، لاکھ ہم یہ کہیں کہ ہم احمدی ہیں لیکن اگر عرش کے خدا نے ہمیں اس فہرست میں شامل نہیں کیا تو ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ بھی بیکار ہے
جماعت کا ہر فرد، ہر بڑا دو سو۲۰۰ دفعہ یہ درود شریف پڑھے:

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّد …

اور ساتھ ہی سو۱۰۰ دفعہ استغفار بھی کریں

اسی طرح سو۱۰۰ دفعہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کا ورد بھی کریں

یہاں بہت سی علمی تربیتی اور روحانی بہتری پیدا کرنے کے لیے بھی تقاریر ہوں گی۔ انہیں بھی سنیں

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ جمع ہونے والے آپس میں تعارف بڑھائیں یعنی آپس میں محبت اور پیار اور تعارف کو بڑھائیں

’’اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودؑ)

ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت تبھی فائدہ دے گی جب ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ صرف کھوکھلے نعروں پر انحصار نہیں کرنے والے ہوں گے

دنیا کے حالات کے لیے بھی بہت دعا کریں۔

اپنے ملک کے لیے بھی بہت دعا کریں۔

جو میں نے تحریک کی ہے درود شریف دو سو دفعہ پڑھنے اور استغفار سو دفعہ پڑھنے اور رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھنے کی …یہ صرف تین دنوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ مستقل تحریک ہے، ہر احمدی کو مستقل پڑھتے رہنا چاہیے

جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۲۴ءکی مناسبت سے جلسے کے اغراض و مقاصد کا پُر معارف بیان نیز بعض دعاؤں کے وِرد کی خصوصی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 23؍اگست 2024ء بمطابق 23؍ظہور 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

الحمدللہ آج جلسہ سالانہ جرمنی شروع ہو رہا ہے۔

اس وقت جرمنی کی جماعت مجھے وہاں جلسہ میں دیکھنا چاہتی تھی لیکن انسان کے ساتھ بشری تقاضے بھی لگے ہوئے ہیں، صحت وغیرہ بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ اس وجہ سے ڈاکٹر کے مشورے سے آخری وقت میں جرمنی کے سفر کو ملتوی کرنا پڑا اور یہی تجویز ہوا کہ یہاں سے ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ہی جرمنی جلسہ کے پروگراموں میں شامل ہوا جائے اور یہاں سے ہی جرمنی کے جلسہ میں شامل ہونے والے لوگوں سے مخاطب ہوا جائے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہی ہو گا۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس زمانے کی ایجادوں میں اس نے اس طرح رابطے کے سامان مہیا فرمائے ہیں۔ بہت سے لوگ جو ملاقات چاہتے تھے اس کے سامان اللہ تعالیٰ کسی اَور وقت فرما دے گا۔ بہرحال اس ذریعہ سے کم از کم جلسہ میں شمولیت کی ساٹھ، ستر فیصد کمی تو پوری ہو جاتی ہے۔ وہاں کے نظارے ان شاءاللہ آتے رہیں گے، اِس وقت بھی میں لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔

اللہ تعالیٰ جلسہ اور تمام انتظامات ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور لوگوں کو تمام پروگراموں سے بھرپور استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔

اس مرتبہ اس انتظام سے ہٹ کر جلسہ منعقد ہو رہا ہے جس کی جرمنی جماعت کو عادت پڑ چکی ہے۔ ہالوں کے اندر اور بنے بنائے انتظام میں جلسہ ہوتا تھا اور جلسہ کی انتظامیہ کو بھی جلسہ گاہ کے لحاظ سے زیادہ انتظام نہیں کرنا پڑتا تھا۔ اور لوگوں کو بھی عموماً بنی بنائی سہولت مل جاتی تھی لیکن اب

کھلی جگہ پر جلسہ کے انتظام کی وجہ سے انتظامیہ کو بھی کچھ دقتیں ہوں گی اور شامل ہونے والوں کو بھی لیکن ان مشکلوں کو برداشت کرنا اور جلسہ کے مقصد کو پورا کرنا دونوں کا، انتظامیہ کا بھی اور شاملین کا بھی مقصد ہونا چاہئے۔

اور مشکلات پر پریشانی اور شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔ آہستہ آہستہ یہ انتظام بہتر ہو جائے گا۔ برطانیہ میں بھی اسی طرح مشکلات ہوتی تھیں اور اب بھی ہیں لیکن اب انتظام بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ پس ان دنوں میں سمجھیں کہ ہم نے ہر مشکل پر ہنسی خوشی اپنے مقصد کو ترجیح دینی ہے۔

ابھی مہینہ نہیں ہوا کہ برطانیہ کاجلسہ منعقد ہوا ہے۔ اس میں بھی جہاں لوگوں نے انتظامات کی تعریف کی ہے وہاں بعض نے کمیوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ تو یہ کمیاں کمزوریاں تو ساتھ لگی ہوئی ہیں انہیں دور کرنے کی کوشش انتظامیہ کرتی ہے اور آئندہ بھی مزید کرے گی ان شاء اللہ۔

اگر سب شاملین تعاون کریں اور کارکنان بھی اپنی مقدور بھر کوشش کریں کہ ہم نے ہر لحاظ سے انتظامات کو اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے لحاظ سے بہتر کرنے کی کوشش کرنی ہے تو برکت پڑتی ہے۔

اور اس کے لیے میں تمام ڈیوٹی کرنے والے کارکنان سے کہوں گا کہ سب سے پہلے آپ کا فرض ہے کہ مہمانوں کی بہترین مہمان نوازی کے لیے حتی المقدور خدمت کے جذبہ سے کام کریں۔ ہمیشہ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں۔ ہر شعبہ کا کارکن ہنستے ہوئے مہمان کے ساتھ پیش آئے۔ دعائیں کرتے ہوئے کام کریں۔

اس جذبہ سے کام کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بلانے پر آئے ہوئے مہمانوں کی خدمت کرنی ہے اور جو چاہے حالات ہو جائیں ہم نے اپنے اخلاق کے معیار بلند رکھنے ہیں اور خدمت کرتے چلے جانا ہے۔

اور مہمان بھی اس مقصد کو سامنے رکھیں جو جلسہ کا مقصد ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہر تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے ان تین دنوں میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

جلسہ سالانہ یوکے میں مَیں نے جو جلسہ کا مقصد بیان کیا تھا وہی ہمارا مقصد ہے اور ہر جگہ جہاں بھی جلسے منعقد ہوتے ہیں اسی مقصد کو ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہیے۔

اگر یہ ہو گا تو ہر قسم کی تکلیفوں کو ہر شامل ہونے والا خدا تعالیٰ کی خاطر برداشت کرے گا اور یوں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس کی توفیق دے۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سے یہ ایک بہت بڑا انعام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے کہ سال میں ایک دفعہ ہم جمع ہو کر اپنی روحانی اور اخلاقی ترقی کے سامان بہم پہنچائیں۔ ایسے پروگرام بنائیں جو ہمیں خدا تعالیٰ سے قریب کرنے والے اور تقویٰ میں بڑھانے والے ہوں۔ اس ارادے اور نیت سے دن گزاریں کہ ہم نے اعلیٰ اخلاق اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے بھی اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ آپس میں محبت پیار اور تعلق کو بڑھانا ہے۔ رنجشوں کو دور کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنی ہے۔ ہر قسم کی لغویات سے اپنے آپ کو بچانا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہم سے توقع کی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے اور جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں انسان بنایا ہے اور اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ پس جلسہ پر آنے والے ہر احمدی کو ہمیشہ یہ باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔

اگر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر تقویٰ میں ترقی کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر اخلاق کے اعلیٰ نمونے دکھانے کی کوشش نہیں ہو رہی، اگر بندوں کے حقوق ادا نہیں ہو رہے تو پھر جلسہ پر آنے کا مقصد ہی پورا نہیں ہوتا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں صرف انہی کے حق میں پوری ہوں گی جو اس مقصد کو سمجھ رہے ہوں گے۔ اس غرض کو سمجھ رہے ہوں گے جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کا اجرا فرمایا تھا۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’میں ہرگز نہیں چاہتا کہ حال کے بعض پیرزادوں کی طرح صرف ظاہری شوکت دکھانے کے لئے اپنے مبائعین کو اکٹھا کروں بلکہ وہ علّتِ غائی جس کے لئے میں حیلہ نکالتا ہوں اصلاحِ خلق اللہ ہے۔‘‘

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395)

یعنی وہ بنیادی وجہ اور مقصد جس کے لیے میں نے یہ جلسہ کا انتظام کیا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اذن پاکے یہ تدبیر کی ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا سے، اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کو حاصل کرنے والا بنوں۔

پس ہر احمدی کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ دنیا میں ہر احمدی کو عموماً بھی سامنے رکھنا چاہیے صرف خاص طور پر جلسہ کے لئے نہیں۔ لیکن خصوصاً آپ لوگ جو یہاں جلسہ پر جمع ہوئے ہیں ان کو خاص طور پر اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر یہ باتیں آپ کریں گے تو جلسے کے مقصد کو پورا کرنے والے ہوں گے اور تب ہی آپ کو جلسہ پر آنے کا فائدہ ہوگا جب اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے۔

اگر آپ کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں پیدا ہوا، اگر آپ کے اخلاقی اور روحانی حالات میں بہتری نہیں ہوئی تو ایسے شامل ہونے والوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی بیزاری کا اظہار فرمایا ہے۔

یہاں نئے انتظامات کے تحت اگر آپ ہزاروں بھی جمع ہو جائیں یا جہاں بھی جلسے ہوتے ہیں اگر وہاں لوگ ہزاروں کی تعداد میں بھی جمع ہو جائیں لیکن اس مقصد کو حاصل نہیں کرتے جو جلسہ کا مقصد ہے کہ تقویٰ پیدا کیا جائے تو پھر جلسہ پر آنے کا کوئی مقصد نہیں اور جلسہ منعقد کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’تمام مخلصین داخلین سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دل پر غالب آجائے اور ایسی حالت انقطاع پیدا ہو جائے جس سے سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو۔ ‘‘

(آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 351)

پس یہ کتنی بڑی ذمہ داری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پہ ڈالی ہے۔ یہ کتنی بڑی توقع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم سے کی ہے کہ اپنی تمام محبتوں پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو غالب کریں۔ کوئی ایسی دنیاوی محبت نہ ہو جو اس محبت کا مقابلہ کر سکے۔ پس اگر یہ بات ہمارے دلوں میں بیٹھ جائے گی تو پھر ہی ہماری دنیا بھی سنور جائے گی اور دین بھی سنور جائے گا۔ آخرت بھی سنور جائے گی اور یہ دنیا بھی سنور جائے گی۔

پس اس بات کو ہمیشہ شامل ہونے والوں کو سامنے رکھنا چاہیے اور ان تین دنوں میں اس کی جگالی کرتے رہنا چاہیے۔ اس کو بار بار دہراتے رہنا چاہیے۔ بار بار اپنے ذہن میں لاتے رہنا چاہیے۔ اگر یہ چیز آپ کر لیں گے تو پھر سمجھیں کہ آپ نے جلسہ پر آنے کے مقصد کو پا لیا اور اگر نہیں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنے والے نہیں ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ کی ہم پر یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ماننے کی توفیق دی اور اگر ہم اس ماننے کے بعد، آپ کی بیعت میں آنے کے بعد ان مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے جو روحانی ترقی اور اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرنے کے مقصد ہیں تو پھر ہم اپنی بیعت کا بھی حق ادا نہیں کر رہے۔

پس ایسی باتیں ہر شامل ہونے والے کو اپنے سامنے رکھنی چاہئیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیاوی نعمتیں ایک احمدی کو تقویٰ سے دُور ہٹانے والی نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے دُور ہٹانے والی نہ ہوں۔ عبادتوں کو بھلانے والی نہ ہوں۔ اعلیٰ اخلاقی قدروں کو ہم سے چھیننے والی نہ ہوں۔ یہ کاروبار، یہ دنیاوی نعمتیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہیں، یہاں آ کے بہت سارے لوگوں کے حالات بہت بہتر ہو گئے ہیں بلکہ سب کے ہی بہتر ہیں اس کی نسبت جو پاکستان میں حالات تھے یا جو پہلے آپ کے حالات تھے باوجود آجکل یہاں مہنگائی کے اور معاشی حالات خراب ہونے کے پھر بھی آپ کے حالات ان حالات سے معاشی لحاظ سے، دنیاوی لحاظ سے زیادہ بہتر ہیں جو آپ کے پاکستان میں تھے۔ پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں اور اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرتے ہوئے اس کی محبت اور اس کے رسولؐ کی محبت کو دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لیے جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جیسا کہ فرمایا یہ تو آپؑ نے ایک حیلہ نکالا ہے۔ یہ ایک ذریعہ ہے، یہ ایک بہانا ہے تا کہ جلد سے جلد تقویٰ میں ترقی ہو۔ یہ تو آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے تربیت کا ایک ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ صرف یہی نہیں کہ جو جلسہ میں شامل ہو اس نے ہی اپنے معیار اونچے کر لیے۔

ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شامل ہوا ہے اس وقت آپ کی بیعت کے مقصد کو پورا کرنے والا ہو گا جب اپنے تقویٰ کے معیار بڑھائے گا۔

اور جب آپ جلسہ میں شامل ہوئے ہیں تو یقیناً اس نیت سے شامل ہوئے ہیں اور ہونا چاہیے کہ آپ نے پہلے سے بڑھ کر اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھانا ہے۔ پس ہر احمدی کو اس لحاظ سے اپنی بھرپور کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے والا ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 277-278۔ایڈیشن 1984ء)

پھر آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں :’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308)

پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان ارشادات کو ہمیشہ سامنے رکھیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہی مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ میں آنے کا اور حقیقی احمدی بننے کا بیان فرمایا ہے۔ اس نیت سے ہر احمدی کو جلسہ میں شامل ہونا چاہیے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا کہ یہ چیزیں اپنے اندر پیدا کرنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو ماحول میسر فرمایا ہے اس سے فائدہ اٹھائیں اور ان دنوں میں ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے اپنے آپ کو پاک کرنے کی کوشش کریں اور اس نیت سے پاک کرنے کی کوشش کریں کہ آئندہ زندگی میں بھی آپ نے ان دنیاوی آلائشوں سے اپنے آپ کو صاف رکھنا ہے اور دین کو ہمیشہ دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کام لینا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے اپنی جماعت میں شمار ہی اسے کیا ہے جس میں حقیقی تقویٰ اور طہارت پیدا ہو اور اپنی حالتوں کو درست کرتے ہوئے اپنی نیکیوں کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرے

اور یہ خواہش کا اظہار کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے حتی المقدور کوشش کرو۔ اپنی زبانوں کو ذکرِالٰہی سے تر رکھو۔ اپنی راتیں اور دن عبادتوں میں گزارو۔ دنیاوی کاموں میں جو ایک انسان کو بشری تقاضوں کے تحت کرنے پڑتے ہیں اور معاشرے میں رہتے ہوئے کرنے پڑتے ہیں ان کو خدا کی یاد سے غافل نہ ہونے دو۔ ان کو خدا کے مقابلے پر کبھی کھڑا نہ کرو۔ ہر عمل سے خدا کی رضا کی تلاش کی جھلک نظر آتی ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یاد رکھو کہ کامل بندے اللہ تعالیٰ کے وہی ہوتے ہیں جن کی نسبت فرمایا ہے۔ لَا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ (النور آیت 38)۔ جب دل خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور عشق پیدا کر لیتا ہے تو وہ اس سے الگ ہوتا ہی نہیں۔ اس کی ایک کیفیت اس طریق پر سمجھ میں آسکتی ہے کہ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہو تو خواہ وہ کہیں جاوے کسی کام میں مصروف ہو مگر اس کا دل اور دھیان اسی بچہ میں رہے گا۔ اسی طرح پر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق اور محبت پیدا کرتے ہیں وہ کسی حال میں بھی خدا تعالیٰ کو فراموش نہیں کرتے۔‘‘

(ملفوظات جلد 7 صفحہ 20-21 ایڈیشن 1984ء)

پس اللہ تعالیٰ کی یہ یاد اور اس کا ذکر ہر احمدی کو ہمہ وقت مدنظر ہونا چاہیے۔ ہمیشہ یہ کوشش ہو کہ میں ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے والا بنوں اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اپنی زبان کو بھی تر رکھوں اور ہر اس کام سے بچنے والا بنوں جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں روکا ہے۔

ہمیشہ یہ یاد رہے اور اس بات کا خیال رہے اور ذہن میں یہ بات ہمیشہ بیٹھی رہے کہ میری ہر حرکت و سکون خدا تعالیٰ کی نظر کے سامنے ہے۔ اس لیے میرے سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہو جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب بنے۔

پس یہ حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں اور جس کے حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ پس

آج یہ عہد کریں کہ ہم نے جو عہدِ بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے باندھا ہے اس کو ہم پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے زیر اثر اور آپ کے مشن کو پورا کرتے ہوئے ایمان کو ثریا سے لانے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں گے

نہ کہ اپنے ایمانوں کو بھی کم کر کے دنیاداری میں پڑ جائیں اور ہمیشہ قرآنی تعلیم پر عمل کریں گے تا کہ ہم خیرِ امت میں سے شمار ہوں۔ اس اُمّت میں سے شمار ہوں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے خیر رکھی ہے اور اپنے ہر عمل سے اس کے پاک نمونے قائم کریں گے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ اب یہ ایمان اور یہ تعلیم ہمارے دلوں کا، ہمارے عملوں کا ہمیشہ کے لیے حصہ بنی رہے گی۔ ان شاء اللہ۔ اور ہم ہمیشہ اپنی زبانوں کو خداتعالیٰ کے اس حکم کے مطابق ذکرِالٰہی سے تر رکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَاالَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذۡکُرُوا اللّٰہَ ذِکۡرًا کَثِیۡرًا (الاحزاب آیت42) یعنی اے مومنو! اللہ کا بہت ذکر کیا کرو۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ موقع مہیا فرمایا ہے کہ اس بات کی یاددہانی ہو جائے اور ان دنوں میں ذکرِالٰہی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے، عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوجائے تا کہ تقویٰ کے معیار بڑھیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے بنیں اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے گا۔

پس تقویٰ میں بڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا لطف و احسان ظاہر ہو گا جس کا ایک ذریعہ حقوق اللہ کی ادائیگی ہے اور یہ حق عبادت اور ذکرِالٰہی سے حاصل ہو گا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جلسہ کی مناسبت سے اس بات کو یوں بیان فرماتے ہیں کہ کیونکہ یہ جلسہ شعائر اللہ میں شامل ہے۔( ماخوذ از افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 26دسمبر 1931ء، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 389)اور اس میں شامل ہونے کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے روحانیت میں ترقی کا حصول بتایا ہے جس کا ایک بہت بڑا ذریعہ عبادت اور ذکرِالٰہی ہے اور ذکرِالٰہی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَور بہت سارے فائدوں میں سے اس کا بہت بڑا اور عظیم فائدہ یہ ہے کہ اُذْکُرُوا اللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ۔ یعنی اگر تم ذکرِالٰہی کرو گے تو خد اتعالیٰ تمہارا ذکر کرے گا۔

پس خوش قسمت ہے وہ شخص جس کا ذکر اس کا آقا ،اس کا مالک، اس کا پیدا کرنے والا اور مالک حقیقی کرے۔ اس پر لطف و احسان فرمائے۔

پس ان دنوں میں اس اہم امر کی طرف ہر ایک کو بہت توجہ دینی چاہیے۔ چاہے وہ جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسہ سننے والے مرد ہیں یا عورتیں ہیں یا مختلف جگہوں پر خدمت پر مامور ڈیوٹی والے مرد ہیں یا عورتیں ہیں یا لجنہ ہیں، ناصرات ہیں، اطفال ہیں سب کو اس بات کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔

اگر ہم عبادت اور ذکرِالٰہی کو جتنی اہمیت دینی چاہیے وہ نہیں دیں گے تو پھر نہ تو خدا تعالیٰ کے اس نمائندے کے ساتھ سچا تعلق جوڑنے والے بن سکتے ہیں اور نہ ہی خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ’’آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ ‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 15)

یہ ایک ایسا فقرہ ہے کہ اس سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں۔ ہم یہ پڑھتے ہیں، سنتے ہیں جماعتی پروگراموں میں کئی دفعہ یہ الفاظ دہرائے جاتے ہیں لیکن سرسری نظر سے ہم ان چیزوں کو دیکھتے ہیں اور دہرا کے اور سُن کے گزر جاتے ہیں یا تھوڑی دیر کے لیے توجہ پیدا ہوتی ہے اور وقتی توجہ پیدا ہوتی ہے پھر بھول جاتے ہیں۔ پس ایک مخلص احمدی کو، ایک حقیقی احمدی کو بہت فکر سے اس بات کو غور سے ہر وقت اپنے دل میں رکھنا چاہیے۔ ہر فقرہ اور ہر لفظ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ہمیں جھنجھوڑنے والا ہے۔

ہم بیشک کہتے رہیں، لاکھ ہم یہ کہیں کہ ہم احمدی ہیں لیکن اگر عرش کے خدا نے ہمیں اس فہرست میں شامل نہیں کیا تو ہمارا احمدی ہونے کا دعویٰ بھی بیکار ہے

اور ہمارا ان جلسوں میں آنے کا مقصد بھی فضول ہے۔ پس ان دنوں میں خوب دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑیں۔ ذکرِالٰہی پر زور دیں۔ اپنے دل کے اندھیروں کو مٹاتے چلے جائیں۔ ظلمات کو دور کریں۔

اسی حوالے سے

مَیں یہاں ایک تحریک بھی کر دینا چاہتا ہوں

حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کا ایک رؤیا تھا کہ ان کو کسی بزرگ نے کہا کہ

اگر جماعت کا ہر فرد، ہر بڑا دو سو۲۰۰ دفعہ یہ درود شریف پڑھے

سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّد

اور پھر آپؒ نے فرمایا کہ جو درمیانی عمر کے ہیں پندرہ سے پچیس سال کے لوگ وہ بھی کم از کم سو۱۰۰ دفعہ پڑھیں۔ بچے بھی کم از کم تینتیس۳۳ دفعہ پڑھیں۔ چھوٹی عمر کے جو بچے ہیں ان کو ان کے ماں باپ تین۳، چار۴،دفعہ یہ پڑھائیں

اور ساتھ ہی سو۱۰۰ دفعہ استغفار بھی کریں۔

اسی طرح میں یہ بھی شامل کرتا ہوں کہ

سو۱۰۰ دفعہ رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ کا ورد بھی

ان دنوں میں خاص طور پہ اور عموماً ہمیشہ کے لیے کریں ۔آپؒ کو رؤیا میں یہی دکھایا گیا تھا کہ

اگر یہ کرو گے تو تم ایک محفوظ قلعہ میں محفوظ ہو جاؤ گے جہاں شیطان کبھی داخل نہیں ہو سکتا اور لوہے کی دیواریں ہیں اس قلعہ کی جس کی دیواریں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ پس کوئی سوراخ ایسا نہیں رہے گا جہاں سے شیطان حملہ کر سکے۔

(ماخوذ از رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدیہ 1968ء مطابق 7,6,5 اپریل 1968ء صفحہ233)

ان دنوں میں جبکہ شیطان ہر حیلے سے ہمارے پر بحیثیت جماعت بھی اور مجموعی طور پر، عمومی طور پر دنیا میں بھی حملے کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس سے بچنے کے لیے ایک ہی ذریعہ ہے کہ خاص طور پر دعاؤں پہ زور دیں اور صرف جلسہ کے دنوں میں نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے یہ درود شریف اور ذکرِالٰہی جو ہے، یہ ورد جو ہے اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں اور اس پر ہر ایک کو، بچے کو، بڑے کو ،عورت کو، مرد کو، سب کو توجہ دینی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ

یہاں بہت سی علمی، تربیتی اور روحانی بہتری پیدا کرنے کے لیے بھی تقاریر ہوں گی۔ انہیں بھی سنیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ان تقریروں کو سنتے ہوئے عہد کریں اور مدد مانگیں کہ اے خدا! ہم نیک نیت ہو کر تیرے مسیح کے بلانے پر دلوں کی اصلاح کے لیے حاضر ہوئے ہیں لیکن یہ اصلاح ہم اپنے زور بازو سے نہیں کر سکتے۔

تیری مدد کی ضرور ت ہے۔ اگر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی دعا سنتے ہوئے تُو نے ہماری مدد نہ کی تو ہم تیری عبادت کے معیار حاصل نہیں کر سکتے۔ پس یہ دعا کریں کہ اے میرے خدا! اے میرے پیارے خدا! تجھ کو تیرا ہی واسطہ کہ ہمیں ضائع ہونے سے بچا لے۔ جس نیک مقصد کے لیے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں اس سے ہمیں بیشمار حصہ دے۔ اپنے فضل ہم پر نازل فرما کیونکہ تیرے فضل کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے دلوں کو اتنا پاک اور صاف کر دے کہ جو کچھ ہم سنیں اس سے صرف علمی اور ادبی لطف اٹھانے والے نہ بن جائیں بلکہ ان تربیتی اور روحانی معیاروں کو اونچا کرنے والے بنیں جو تیرا قرب دلانے والے ہوں اور ان کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں۔ اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ اپنی نسلوں میں بھی ان باتوں کو جاری کرنے والے ہوں۔ پس جب ہم نیک نیت ہو کر جلسہ کے پروگراموں سے فیض اٹھانے کی کوشش کریں گے، دعائیں کرتے ہوئے تمام باتوں کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی ہم اپنی زندگیوں میں انقلاب لانے والے بن سکیں گے۔ اس انقلاب سے حصہ لینے والے بن سکیں گے جس انقلاب کے لانے کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے اور پھر اس کے نتیجہ میں ہم دنیا میں انقلاب لانے والے بنیں گے ورنہ دنیا جس طرح آجکل لہو و لعب میں ڈوبی ہوئی ہے یہ تباہی کی طرف جا رہی ہے جیسا کہ میں نے کہا ہر طرف سے شیطان حملے کر رہا ہے۔ اس سے ہم بچ نہیں سکتے۔ اگر ہم بھی اس میں پڑ گئے تو پھر اس کو بچانے والا، دنیا کو بچانے والا کوئی نہیں ہو گا اور ہم بھی دنیا کے ساتھ ہی ڈوبنے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔ ایک احمدی کو ہمیشہ غور کرنا چاہیے اور ہمیشہ اس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے کہ میں نے اس مقصد کو حاصل کرنا ہے جو میری زندگی کا مقصد ہے اور جو میری بیعت کا مقصد ہے جس کے لیے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور عہد کیا ہے کہ میں اس کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے جلسہ کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ جمع ہونے والے آپس میں تعارف بڑھائیں یعنی آپس میں محبت اور پیار اور تعارف کو بڑھائیں۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

اور اگر اس کا حق ادا کرتے ہوئے اس مقصد کو حاصل کرنے والے بنیں گے تو تبھی ہم حقیقی معنوں میں وہ جماعت کے فرد بن سکیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام چاہتے ہیں۔ پس

اِن دنوں میں تعلقات بڑھانے میں، محبت کو فروغ دینے میں، آپس میں سلامتی کو پھیلانے میں بہت زیادہ زور دیں اور پہلے جو تعلقات ہیں ان میں پہلے سے بڑھ کر بہتری پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

اگر کسی وجہ سے کوئی رنجش پیدا ہو چکی ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے نہ صرف فضول باتوں سے بچیں بلکہ پیار اور محبت کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ نہ صرف یہ کہ لڑائی جھگڑوں سے بچیں بلکہ اپنے جو پرانے لڑائی جھگڑے ہیں ان پر بھی ایک دوسرے سے معذرتیں کریں اور معافیاں مانگیں۔ ذاتی اناؤں کے جال سے نکل جائیں۔ مجھے کئی شکایات آتی ہیں کہ ذرا سی بات پر لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں۔ جماعت کی بدنامی کا باعث بھی بنتے ہیں۔ کئی دفعہ میں اس بارے میں کہہ چکا ہوں۔ گذشتہ جلسہ میں یوکے پر بھی میں نے یہی بات کہی تھی۔ اس پر توجہ دیں۔ جب ایسی حرکتیں ہوں تو بعض کو پھر مجبوراً جماعتی نظام کے تحت جماعت کی خاطر، جماعت کے وقار کی خاطر سزا بھی دینی پڑتی ہے جس سے پھر تکلیف بھی ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ خوشی سے سزا دی جا رہی ہوتی ہے۔

پس

ہمیشہ یاد رکھیں کہ جماعت کے تقدس کو ہم نے قائم کرنا ہے

اور انتظامیہ اور خلیفہ وقت بھی اگر کسی کو کوئی سزا دیتا ہے تو جماعت کے تقدس کو قائم کرنے کے لیے دیتا ہے کیونکہ جماعت کا تقدس تمام رشتوں سے زیادہ اور بالا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے حقیقی تعلق ہے تو اپنی حرکتوں پر پشیمان ہوتے ہوئے آپس میں پیدا ہوئی ہوئی دراڑوں کو، فاصلوں کو نہ صرف اس محبت کی وجہ سے جوڑنے والے بنیں بلکہ محبت کے تعلقات پیدا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے والے بنیں کہ ایک مسلمان سے دوسرے مسلمان کو اس کی زبان اور ہاتھ سے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہٖ و یدہ حدیث 10)

پھر ان دنوں میں جبکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے جمع ہوئے ہیں اس کے آگے جھکتے ہوئے اس سے دعائیں مانگتے رہیں۔ کامل ایمان کے ساتھ ذکرِالٰہی میں مشغول رہیں۔ کامل فرمانبرداری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلنے والے بنیں تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی بھی موقع پر نظام جماعت کی فرمانبرداری سے باہر ہوں۔

ایک طرف تو یہ کوشش ہو کہ ہم آسمان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں لکھے جائیں اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اور آپ کے خلفاء کے قائم کردہ نظام جماعت کی اطاعت سے باہر جا رہے ہوں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ یہ دو عملیاں ہیں۔

نیک نیت سے اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والے کبھی یہ دو عملیاں نہیں دکھا سکتے۔ پس ان دنوں میں دلوں کے اس میل کو بھی دعاؤں کے ذریعہ سے اصلاح کے ذریعہ سے دھونے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے جو موقع فراہم فرمایا ہے اس کی قدر کریں۔ اگر اصلاح کی غرض سے جلسہ میں شامل ہوئے ہیں اور کوئی میلہ سمجھ کر شامل نہیں ہوئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ جلسہ کوئی میلہ نہیں ہے۔(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 395)تو یقیناً پھر دلوں کے میل بھی دھوئے جائیں گے۔

بعض دفعہ روزمرہ کی زندگی میں اور جلسہ کے بعد کے دنوں میں بھی ایک عام احمدی کی رنجشیں اور جھگڑے عہدیداروں سے بھی ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں اگر یہ ذہن میں ہو کہ اس جلسہ کا مقصد کیا ہے تو ہر احمدی اپنے پرانے جھگڑے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اگر یہاں کوئی تلخی کی صورت پیدا ہوئی ہے تو اسے بھی دور کرنے کی کوشش کرے گا۔ عہدیداران اور جلسہ کے دنوں میں ڈیوٹی دینے والے بھی اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم نے ہر طرح سے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنی ذاتی اناؤں اور رنجشوں کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہے اور بھائی بھائی بن کر رہنے کا ہم نے جو عہد کیا ہے اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔

اعلیٰ اخلاق کے معیار سب سے زیادہ ڈیوٹی دینے والوں سے ظاہر ہونے چاہئیں کیونکہ بحیثیت کارکن و عہدیدار اِن کی زیادہ ذمہ داری ہے اس لیے ان میں برداشت کا پہلو بھی زیادہ ہونا چاہیے کہ اگر کوئی زیادتی ہو بھی جائے تب بھی اسے برداشت کریں اور کبھی مقابلے پر آکر دوسرے کو سختی سے جواب نہ دیں۔

جب آپ یہ کریں گے تو یہ آپ کے اونچے اخلاق ہیں جو دوسروں کے لیے بھی نمونہ بن جائیں گے۔ پس اگر عہدیدار اپنے آپ کو عہدیدار کے بجائے خادم سمجھیں اور ہر کارکن اپنے آپ کو خادم سمجھے اور افرادِ جماعت اپنے عہدیداران کو نظام جماعت چلانے کے لیے خلیفہ وقت کے مقرر کردہ کارکن سمجھیں تو یہ تعلقات ہمیشہ محبت اور پیار کے تعلقات کی صورت میں رہیں گے جو خلیفہ وقت کے تابع ہو کر دنیا کو امن اور سلامتی کا حقیقی پیغام دینے والے ہوں گے۔ دنیا میں ا یک انقلاب پیدا کرنے والے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بعثت کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ ان راہوں پر چلنے والے ہوں گے جن راہوں پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمیں چلانا چاہتے ہیں۔ ان معیاروں کو حاصل کرنے والے ہوں گے جن معیاروں کے حصول کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے۔

آپؑ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’اے سعادتمند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے۔‘‘ یعنی ایک قدم جو تم نے سعادت کا حاصل کر لیاتو تمہارے اندر سعادت تھی۔ تم نے مجھے پا لیا، میری بیعت کر لی لیکن اب اس تعلیم کو اپنی زندگیوں کا عملی حصہ بھی بناؤ تبھی یہ سعادت کے جوہر نکھریں گے۔ فرماتے ہیں کہ ’’تم خدا کو واحد لا شریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو۔ نہ آسمان میں سے نہ زمین میں سے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں ’’خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا‘‘ بیشک دنیاوی اسباب استعمال کرو ’’لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔ قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں۔ سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفسِ امارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبر کی پلیدی ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافرنہ رہتا۔ سو تم دل کے مسکین بن جاؤ۔ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو۔‘‘ یعنی ہم کہتے یہی ہیں کہ اسلام ہے جو اصل نجات دلانے والا دین ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کا قرب پا سکتے ہیں۔ تو لوگوں کو ہم بہشت کا وعظ کرتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں بنی نوع کی ہمدردی کرو جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو۔ ’’سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے۔ اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے۔ ہر ایک بدی جو دور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دور ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔

اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خدا تعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63)

یعنی تم دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بنو۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ قائم کردہ معیار ہیں جنہیں اپنے اندر پیدا کرنے اور حاصل کرنے کی کوشش ہمیںکرنی چاہیے کہ نفسانی کینوں اور غصوں سے الگ ہونا ہے۔ یہ بڑا اچھاموقع ہے۔ ان دنوں میں اس کی طرف کوشش کرنی چاہیے۔

ان دنوں میں جہاں روحانی ماحول پیدا ہوتا ہے اس لیے اپنا محاسبہ کرنے کی طرف توجہ بھی پیدا ہوتی ہے اور محاسبہ کرنے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہیے۔ اس بات پر ہی غور کریں کہ آپ نے فرمایا کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہی ہے جو نافرمان بناتا ہے۔ تکبر ہی ہے جس نے انبیاء کا انکار کروایا۔ تکبر ہی ہے جو نظام جماعت کے خلاف بھی بھڑکاتا رہتا ہے اور پھر جو نظام جماعت ہے اس کے مقابلے میں کھڑا کرتا ہے۔ تکبر ہی ہے جو ایک دوسرے سے لڑاتا بھی ہے۔ تکبر ہی ہے جو پھر اپنی انا کی جھوٹی غیرت دکھاتا ہے۔ پس تکبر سے بچنے کی بہت کوشش کرو۔

پھر حقیقی ہمدردی اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے پیدا کرنے کا کہا ہے۔ تمہاری باتوں کا اثر تب ہی ہوگا، تبلیغ تب ہی مؤثر ہو گی جب حقیقی ہمدردی مخلوق سے پیدا ہو گی۔ یہاں ہمیشہ جلسوں میں لوگ آتے ہیں، ہمارے جلسوں سے لوگ متاثر ہوتے ہیں، ہمارے ماحول کو دیکھ کر متاثر ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت ان میں ان کو یہ بات نظر آرہی ہوتی ہے کہ احمدی عاجزی کے ساتھ اپنے مہمانوں کی خدمت کر رہے ہیں اور پیار اور محبت سے رہ رہے ہیں اور یہ خاموش تبلیغ ہوتی ہے جس کی طرف میں ہمیشہ توجہ دلاتا رہتا ہوں۔ یہ تبلیغ ہی ہے جو لوگوں کے دلوں میں احمدیت کے پیغام کی حقیقت کو غالب کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہاں آپ کے جلسہ میں بھی مختلف ممالک سے لوگ آئے ہوئے ہیں اور ہمیشہ کی طرح مجھے امید ہے کہ یہ لوگ نیک اثر لے کر جائیں گے بشرطیکہ آپ لوگ اپنا نیک اثر ڈالنے کی کوشش کریں اور اپنے قول و فعل کو ایک کرتے ہوئے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے اپنی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے ان مقاصد کو حاصل کرنے والے بنیں جو جلسہ کو حاصل کرنے والے مقاصد ہیں، جو تقویٰ کو حاصل کرنے کا مقصد ہے اور جس سے نیکیاں کرنے کی توفیق پیدا ہوتی ہے اور جب یہ ہوگا تو ہماری دعوت الی اللہ میں بھی برکت پڑے گی۔

آجکل اسلام کے خلاف ،مسلمانوں کے خلاف بہت سی باتیں کی جاتی ہیں لیکن جب یہاں کے ماحول میں پیار،محبت اور بھائی چارہ دیکھیں گے اور ہمارے اعلیٰ اخلاق دیکھیں گے، ہمارے خداتعالیٰ سے تعلق دیکھیں گے تو بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے دماغوں میں سے یہ شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے کہ مسلمان غلط عمل کرنے والے ہیں، غلط تعلیم دینے والے ہیں۔

پس ان دنوں میں اپنے قول و فعل سے اس ماحول کو ایسا پرامن ماحول بنائیں بلکہ ہمیشہ اپنی زندگیوں میں اس کو لاگو کریں جس سے ایک ایسا اثر دنیا پر قائم ہو کہ لوگ کہیں کہ یہی لوگ ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اسلام کی حقیقی تعلیم ہی ہے جو دنیا کو حقیقی امن اور سلامتی دے سکتی ہے۔ پس یہ خاموش تبلیغ بھی ہے جو بغیر کسی لٹریچر، بغیر کسی دلیل کے آپ لوگ کر رہے ہوں گے۔ اگر ہم اپنی زندگیوں میں حقیقی اسلامی تعلیم کا اصل نمونہ پیدا کر لیں تو اپنا عہدِ بیعت پورا کرنے والے بن جائیں گے۔

ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت تبھی فائدہ دے گی جب ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے، صرف کھوکھلے نعروں پر انحصار نہیں کرنے والے ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے کس درد اور تڑپ سے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی ہے اس کا ایک نمونہ میں آپ کو پیش کرتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے ان کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے ان کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہو گی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہاں میں یہ بھی دعا کرتا ہوں۔‘‘ یہ بڑی تنبیہ کرنے والی انذاری بات آپؑ نے فرمائی ہے۔ کہتے ہیں ’’ہاں

میں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو۔‘‘

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 398)

پس یہ بات ہمیں جھنجھوڑنے والی ہونی چاہیے۔ اگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا حصہ بننا ہے تو اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی ورنہ آپؑ نے فرمایا اگر یہ نہیں تو پھر میرے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ میں تو نیک لوگوں سے اور سعید لوگوں سے تعلق رکھنا چاہتا ہوں۔ پس جہاں یہ دعا ہمیں امید اور توجہ دلاتی ہے کہ ہم نیکیاں کرنے والے بنیں وہاں خوف کا مقام بھی ہے کہ ان نیکیوں پر عمل نہ کر کے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سے دُور نہ ہو جائیں۔ صرف نام کی بیعت کرنے والے نہ ہوں اور بیعت کر کے پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے کی بجائے اس کی ناراضگی کو حاصل کرنے والے نہ بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس چیز سے بچائے۔

یہ بات بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ جلسہ کے دنوں میں ہر ڈیوٹی دینے والا، ہر شامل ہونے والا ماحول پر بھی نظر رکھے۔ آجکل جو حالات ہیں اس میں کوئی شرارتی عنصر فائدہ اٹھا سکتا ہے اس لیے سیکیورٹی کے لحاظ سے بہت ہوشیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر شر سے بچائے اور یہ جلسہ تمام برکات سمیٹنے والا ہو اور ہر ایک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے۔ دنیا کے حالات کے لیے بھی بہت دعا کریں۔ اپنے ملک کے لیے بھی بہت دعا کریں۔

جب ہم لوگ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے و الے ہوں گے، اس کی رضا حاصل کرنے والے ہوں گے، اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں گے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت و عشق کا اظہار کرنے والے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی نشأة ثانیہ کے لیے اور اسلام کی تعلیم کو پھیلانے کے لیے آئے ہیں اس کو پورا کرنے والے ہوں گے۔اگر ہماری یہ نیتیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ پھر یقیناً ہماری دعائیں بھی سنے گااور ہم دنیا کی راہنمائی کا ذریعہ بھی بنیں گے۔

اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ ہم جلسہ کی برکات سے فائدہ اٹھانے والے ہوں۔

اللہ تعالیٰ ان تین دنوں میں خاص طور پر اور ہمیشہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور اپنے فضلوں کی بارش برساتا رہے اور دعاؤں کی توفیق بھی دیتا رہے۔

جو میں نے تحریک کی ہے درود شریف دو سو دفعہ پڑھنے اور استغفار سو دفعہ پڑھنے اور رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ پڑھنے کی اس طرف بھی بہت توجہ کریں اور یہ صرف تین دنوں کے لیے نہیں ہے بلکہ یہ مستقل تحریک ہے۔ ہر احمدی کو مستقل پڑھتے رہنا چاہیے۔ مائیں اپنے بچوں کو بھی یہ دہرواتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔

جلسہ کی انتظامیہ نے یہ بھی لکھ کے مجھے بھجوایا تھا کہ وہاں کچھ نمائشیں بھی منعقد ہو رہی ہیں اور کہا کہ آپ یہ اعلان کر دیں کہ لوگ نمائشوں کو دیکھیں۔ اس لیے

اس طرف بھی میں توجہ دلاتا ہوں کہ ان نمائشوں کو بھی دیکھیں اور ان سے فیض پانے والے ہوں

اور تا کہ پھر آپ کو بھی پتہ لگے کہ اللہ تعالیٰ کے افضال کس طرح ہم پر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے اور ان دنوں میں خاص طور پر جرمنی والے، میں دیکھ رہا ہوں کہ ماشاء اللہ کافی بڑی تعداد ہے دعاؤں اور ذکرِالٰہی کی طرف خاص توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button