حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ لجنہ اماء اللہ فرانس کی ملاقات

دنیاوی امور کے ساتھ ساتھ دینی علم بھی حاصل کریں، خاص طور پر فرانس میں جہاں دنیاوی معاملات پر زور دیا جاتا ہے دین کے بارے میں سیکھنے پر زیادہ توجہ دیں، کیونکہ یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے

مؤرخہ۱۲؍اکتوبر ۲۰۲۴ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ نیشنل مجلسِ عاملہ لجنہ اماء الله فرانس کواسلام آباد (ٹلفورڈ) میں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ممبراتِ عاملہ نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےفرانس سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا ۔

حضورِ انور نے سٹوڈیو تشریف لانے کے بعد شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ پیش کیا نیز استفسار فرمایا کہ کیا یہ عاملہ ہے؟ صدر صاحبہ لجنہ اماء الله فرانس نے اس کی تصدیق کی اور اس امر پر شکر گزاری کا اظہار کیا کہ حضور انور نے از راہِ شفقت انہیں ملاقات کا موقع عطا فرمایا۔

ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا،جس کے بعد ممبراتِ عاملہ کو حضور انور کی خدمت میں اپنا تعارف پیش کرنے نیز اپنے متعلقہ شعبہ جات کے حوالے سے قیمتی راہنمائی حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

حضور انور نے سیکرٹری اشاعت سے گفتگو کرتے ہوئے دریافت فرمایا کہ کیا وہ باقاعدگی سے کوئی مواد شائع کرتی ہیں؟ اس پر موصوفہ نے حضور انورکی خدمت میں عرض کیا کہ اس وقت رسالہ ’’الصدّیقہ‘‘ کا ستائیسواں شمارہ پروف ریڈنگ کے مرحلے میں ہے۔

اس رسالہ کی اشاعت کے بارے میں دریافت فرمانے پرجب حضور انور کو یہ معلوم ہوا کہ یہ سالانہ شائع ہوتا ہے تو حضور انور نے توجہ دلائی کہ آپ کی لجنہ اتنی بڑی ہے، آپ کو تواسے کم از کم سال میں دو بار شائع کرناچاہیے۔جس پر موصوفہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ان شاء اللہ اس پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گی۔

اس کے بعد حضورانورنے سیکرٹری تبلیغ سے گفتگو فرمائی اور ان کے تبلیغی منصوبہ جات کے بارے میں دریافت فرمایا، جس پر انہوں نے مختصراً اپنی سرگرمیوں کا خاکہ پیش کیا۔

حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کیا ان کے لیے سالانہ بیعتوں کا کوئی ہدف مقرر ہے؟موصوفہ نےعرض کیا کہ ان کا ہدف سترہ بیعتیں یعنی ہر مجلس سے ایک بیعت ہے۔ اس پر حضور انور نے ان کو ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا کہ کم از کم پچاس بیعتوں کا سالانہ ہدف ہونا چاہیے۔

اس کے بعد حضورانور نے سیکرٹری تربیت کونماز اورتلاوت قرآن کریم کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔

حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تلاوت عمل کے لیے ہے اور ممبرات کو ترجمہ سیکھنا چاہیے تاکہ وہ قرآن کی تعلیمات کو سمجھ کر ان پر عمل کر سکیں۔ بایں ہمہ حضور انورنے خاص طور پر فرانس میں حجاب اور باحیا لباس کی اہمیت پر زور دیا ۔

حضور انور نے مزید فرمایا کہ لجنہ ممبرات کو سمجھانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے۔ یہ پیغام ہر ممبر تک پہنچائیں کہ جو بھی کام ہم کریں، وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے اور اللہ ہمارےتمام اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے اقوال اور افعال کو ایک جیسا بنانا چاہیے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو تبھی ہم زندگی میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ورنہ محض احمدی ہونے کا دعویٰ کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔

اس کے بعد حضور انور نے سیکرٹری تربیت نو مبائعات سے نو مبائع خواتین کی تعداد کے بارے میں دریافت فرمایا۔ جس پر انہوں نے عرض کیا کہ نو مبائعات کی تعدادنو ہے۔

حضورانور نےاستفسار فرمایا کہ کیا ان کو جماعت سے وابستہ کرنے کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے؟ موصوفہ نے وضاحت کی کہ چونکہ وہ فرانس کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں، اس لیے ہر ماہ ایک آن لائن کلاس منعقد کی جاتی ہے اور سالانہ ایک بار بالمشافہ ملاقات ہوتی ہے۔

حضورانور نے مزیددریافت فرمایا کہ کیا نو مبائعات جماعت سے وابستہ ہیں اور تمام پروگراموں میں باقاعدگی سے شامل ہوتی ہیں؟ جس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ چار فعّال طور پر شمولیت اختیار کرتی ہیں۔

حضور انور نے یہ سماعت فرما کر موصوفہ کو توجہ دلائی کہ باقی پانچ پر بھی توجہ دیں ،انہیں بھی جماعتی پروگراموں میں شامل کریں اور بتدریج جماعت کا حصہ بنائیں۔

پھر حضورانور نے سیکرٹری خدمتِ خلق سے دریافت فرمایا کہ آپ کی خدمتِ خلق سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے؟

موصوفہ نے اس پر اپنے شعبہ کی مساعی کی بابت عرض کیا کہ وہ غریب اور تنہائی کا شکار خواتین کی مالی خود مختاری میں مدد کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ملازمت کی ورکشاپس، ہنر سیکھنے کی کلاسیں اور ڈیجیٹل تعلیمی سیشنز منعقد کیے جاتے ہیں۔ بیمار بچوں کے لیے خیرات کی فنڈریزنگ کی گئی،چھاتی کے کینسر سے متاثرہ خواتین کی مدد کی گئی، نرسنگ ہومز کا دَورہ کیا گیا، غذائی اشیاء تقسیم کی گئیں نیز سنگل یا غریب ماؤں کے بچوں کے لیے تعلیمی مدد فراہم کی گئی۔

حضور انور نے ان کی مساعی کو سراہتے ہوئے توجہ دلائی کہ فرانس تو پہلے ہی ایک خوشحال ملک ہے، لہٰذاآپ کو خدمت خلق کے تحت افریقہ کے غریب لوگوں کی مدد کے لیے بھی کچھ رقم بھیجنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس کے بعد حضورانورنے سیکرٹری امور طالبات سےدریافت فرمایا کہ یونیورسٹی میں کتنی طالبات زیرِتعلیم ہیں؟ جس پرانہوں نےعرض کیاکہ ان کی تعداد باسٹھ ہے۔

حضورانور نے ان کے جماعت کے ساتھ تعلق کے بارے میں بھی دریافت فرمایا نیز تلقین فرمائی کہ ان کو جماعت کے ساتھ وابستہ کریں، جماعت کے پروگراموں میں شامل کریں اور انہیں نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کے بارے میں تاکید کریں۔ چونکہ وہ دنیاوی علم حاصل کر رہی ہیں، اس کے ساتھ انہیں دینی علم بھی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، انہیں بتائیں کہ صرف دنیاوی علم کے پیچھے نہ بھاگیں اور میرے خطبات کو باقاعدگی سے سنا کریں۔

سیکرٹری تحریکِ جدید اور وقف جدیدسے گفتگوکرتے ہوئےحضور انور نے لجنہ ممبرات کے ان دو تحریکات میں مؤثرکردار کے بارے میں بات کی اور نصیحت فرمائی کہ انہیں تحریک جدید اور وقف جدید کی مدّ میں نیشنل جماعت کی کُل شراکت کا ایک تہائی حصہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نیز فرمایا کہ آپ کو نومبائعات کو بھی اس میں شامل کرنا چاہیے۔

اس کے بعد حضورانور نے جنرل سیکرٹری سے دریافت فرمایا کہ مجموعی طور پر کتنی مجالس ہیں اور کیا تمام مجالس اپنی رپورٹس بھیجتی ہیں نیز ان میں سے کتنی فعّال ہیں؟

اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ کُل سترہ مجالس ہیں، جن میں سے پندرہ باقاعدگی سے اپنی رپورٹس بھیجتی ہیں، اور بیاسی فیصد لجنہ فعّال اور باقاعدہ رابطے میں ہیں۔

حضور انور نے مزیددریافت فرمایا کہ کیا موصوفہ رپورٹس موصول ہونے پر فیڈبیک فراہم کرتی ہیں؟ انہوں نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے اثبات میں جواب دیا کہ وہ فیڈ بیک دیتی ہیں اور اس حوالہ سے صدر صاحبہ لجنہ کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔

حضور انور نے درست فیڈبیک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے توجہ دلائی کہ کسی بھی کمی کی نشاندہی کرنا اور اس کو دُور کرنے کے لیے کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ موصوفہ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ پوری کوشش کرتی ہیں کہ درست فیڈبیک فراہم کیا جائے۔

ان کے بعد نائب جنرل سیکرٹری کو بھی اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔

پھر حضورانور نے سیکرٹری تعلیم سے دریافت فرمایاکہ کیا انہوں نے لجنہ ممبرات کے لیے جماعت کے لٹریچر کو بنیاد بناتے ہوئے کوئی علمی امتحانات منعقد کیے ہیں؟

موصوفہ نے اس حوالے سے عرض کیا کہ پچھلے سال کے دوران انہوں نے اپنے باقاعدہ نصاب اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃوالسلام کی تصنیف’’گناہ سے نجات کیوں کر مل سکتی ہے‘‘ (روحانی خزائن، جلد ۱۸، صفحات ۶۲۱تا۶۵۱) پر مبنی تین معروضی قسم کے امتحانات کا انعقاد کروایا تھا۔

حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا اس کتاب کا فرانسیسی ترجمہ موجود ہے؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی نیزعرض کیاکہ وہ اس کتاب کا بُک کلبز ، مختلف مجالس اور یہاں تک کہ نیشنل عاملہ کی میٹنگز میں بھی اکٹھے مطالعہ کرتی ہیں۔

حضور انور نے استفسار فرمایا کہ کیا تمام ممبراتِ نیشنل عاملہ نے یہ کتاب پڑھی ہے؟ اسی طرح تاکید فرمائی کہ پہلےعاملہ کی ممبرات کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔

سیکرٹری تجنیدسے بات کرتے ہوئے حضور انور نے ان کے تجنید کے اعداد و شمار کی درستی اور معلومات جمع کرنے کے طریقۂ کار کے بارے میں استفسارفرمایا۔ جس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ وہ مختلف مجالس کی مقامی تجنید سیکرٹریوں سے معلومات حاصل کرتی ہیں۔

حضور انور نے نصیحت فرمائی کہ مقامی تجنید سیکرٹریوں کو یہ بتائیں کہ وہ انفرادی طور پر گھروں سے رابطہ کر کے ڈیٹا کی تصدیق کریں۔ صرف جماعت کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار پربھروسا نہ کریں۔ آپ کو جماعت کے علاوہ اپنی کوششیں کرنی چاہئیں۔

حضورانور نے سیکرٹری ناصرات سےدریافت فرمایا کہ فرانس میں ناصرات کی تعداد کتنی ہے؟ جس پرانہوں عرض کیا کہ ان کی کُل تعداد ایک سَو چھپن ہے۔

حضورانور نے ان کے لیے منعقد کردہ پروگراموں کے بارے میں بھی دریافت فرمایا، جس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ ہر ماہ ایک کلاس منعقد ہوتی ہے جس میں قرآن کریم، حدیث اور اسلامی تاریخ کا احاطہ کیا جاتا ہے اور ہر مہینے ایک اہم موضوع پر توجہ دی جاتی ہے۔

حضور انور نے نصیحت فرمائی کہ ان چیزوں کے علاوہ، ان نوجوان لڑکیوں کو اسی عمر سے یہ سکھائیں کہ نماز ادا کرنا، قرآن کریم پڑھنا اور جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

دنیاوی امور کے ساتھ ساتھ دینی علم بھی حاصل کریں، خاص طور پر فرانس میں جہاں دنیاوی معاملات پر زور دیا جاتا ہے۔ دین کے بارے میں سیکھنے پر زیادہ توجہ دیں، کیونکہ یہی ہماری کامیابی کا راستہ ہے۔

حضورِانور نے فرمایا: ہمارا ایک مقصد ہے۔ اگر ہم ناصرات کو ابتدائی عمر سے ہی تربیت اور تعلیم دیں، تو جب وہ لجنہ میں شامل ہوں گی، تو وہ صحیح طریقے سے شمولیت اختیار کریں گی۔ لیکن اگر وہ بغیر اچھے نمونوں اور صحیح تربیت کے لجنہ میں شامل ہوں گی تو وہ آئندہ نسلوں کی راہنمائی نہیں کر پائیں گی۔ اس لیے آنے والی نسلوں کی دیکھ بھال کرنا ایک اہم ذمہ داری ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور پروگرام ترتیب دیں۔

اس کے بعد محاسبہ مال کو اپنا تعارف پیش کرنے کا موقع ملا، جس پر حضور انور نےان کے آڈٹنگ (auditing)کے کام کو سراہا۔

پھر حضورانور نے سیکرٹری مال سے بجٹ کے امور پر گفتگو فرمائی نیز دریافت فرمایا کہ کیا تمام ممبرات اپنے چندے مقررہ شرح کے مطابق ادا کرتی ہیں؟جس پرانہوں نےعرض کیا کہ کچھ ممبرات ایسا نہیں کرتیں۔

حضور انور نے مشاہدہ کیا کہ لجنہ کی چندہ کی شرح کافی کم ہے تو فرمایا کہ اگر ممبرات کبھی کبھار باہر سے برگر خریدنے سے پرہیز کریں تو وہ آسانی سے اس کا انتظام کر سکتی ہیں۔

اس کے بعد حضورانور نے صدر لجنہ ہیڈکوارٹرز سے گفتگو کی اور ان سے دریافت فرمایا کہ ان کی مجلس میں کتنی ممبرات ہیں؟ جس پر انہوں نے اپنی مجلس کی ممبرات لجنہ کی تعداد کی بابت عرض کیا۔

حضور انور نےتلقین فرمائی کہ وہ بہترین تربیتی پروگرام تیار کریں اور ہر لحاظ سے اچھا نمونہ قائم کریں، خاص طور پر پردہ، نماز، قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت اور دینی علم کے حصول کے حوالے سے۔ نیز فرمایا کہ اللہ کو گواہ بنائیں اور اپنی صورتحال کا جائزہ لیتی رہیں، پھر ان کے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں اور ان کی تربیت کریں۔

اس کے بعدمعاونہ صدر برائے وصایا کو اپنا تعارف کروانے کی توفیق ملی ، جس پرحضور انور نے ان کے کام کو سراہا۔

حضورانور نےمعاونہ صدر برائے واقفاتِ نَوسےاستفسار فرمایا کہ فرانس میں کُل کتنی واقفات ہیں، کیا ان کو وقف نَو کا نصاب پڑھایا جاتا ہے، کیا ان کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں اور کیا وہ اس کے بارے میں رپورٹس بھیجتی ہیں؟

موصوفہ نے اس پر فرانس میں واقفاتِ نَو کی تعداد عرض کی اور یہ بھی تصدیق کی کہ ان کی کلاسیں باقاعدگی سے منعقد کی جا رہی ہیں۔

عاملہ ممبرات کے ساتھ گفتگو کے بعدحضور انور نے صدر صاحبہ لجنہ سے دریافت فرمایا کہ کیا ان کے پاس کچھ اور کہنے کے لیے ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کچھ سیکرٹریز کے پاس سوالات ہیں جنہیں وہ پوچھنا چاہتی ہیں۔ اس پر حضور انور نے از راہِ شفقت انہیں سوالات پیش کرنے کی اجازت دی۔

سب سے پہلا سوال جو حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا وہ یہ تھا کہ حضور! آپ فرانس کی لجنہ کودنیا داری کے پیشِ نظر روحانیت میں بڑھنے کے لیے کیا نصیحت فرما سکتے ہیں؟

حضور انور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اپنے نمونے قائم کرو۔ لجنہ کو بتاؤ کہ ہمارا مقصد کیا ہے، ہم احمدی کیوں ہیں اور ان ملکوں میں رہ کر ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں؟

ہمارا پہلا کام یہ ہے کہ ہم الله تعالیٰ کی عبادت کریں جو الله تعالیٰ کا حکم ہے۔ قرآنِ کریم کو پڑھیں اور سمجھیں۔ دینی علم کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

سیکرٹری تربیت اور لجنہ کی عاملہ ان کے سامنے اپنا صحیح نمونہ پیش کرے اور خود عمل کرنے والی ہو تو دوسری لجنہ کی ممبرات کو بھی احساس پیدا ہو گا کہ ہم نے بھی صحیح کام کرنا ہے۔ جب تک سیکرٹری تربیت اور لجنہ کی عاملہ ہر سطح پر، لوکل، مقامی لجنہ کی عاملہ اور نیشنل عاملہ بھی اپنے عملی نمونے قائم نہیں کرے گی، تو اس وقت تک لوگوں میں تربیت کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا، وہ کہیں گی کہ آپ کچھ اور کرتی ہیں اور ہمیں کچھ اور کہتی ہیں۔

اور spritual progress کو improve کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو بتاؤ کہ اس مادی دنیا میں رہتے ہوئے ہم نے بطور احمدی مسلمان دنیا کو اسلام کے قریب لے کے آنا ہے اور وہ اس وقت تک نہیں لے کے آ سکتے جب تک ہم اپنی حالتوں کو بہتر نہیں کرتے، اپنے عمل کو الله اور رسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نہیں بناتےاور اس کے لیے سب سے پہلے تو اپنی عاملہ کو کہیں کہ اپنے نمونے ہر سطح پر قائم کرے۔ تو پھر لوگوں کو نصیحت کریں۔

تو اس طرح پھر جب لوگ دیکھیں گے کہ عاملہ نیکیوں کی طرف جا رہی ہے اور حقیقت میں واقعی نیک بن گئی ہے اور تربیت کی طرف ان کی توجہ ہے اور عبادت کی طرف ان کی توجہ ہے، الله تعالیٰ کے حکموں کو پڑھنے کی طرف ان کی توجہ ہے، قرآن کریم پڑھتی ہیں، جھوٹ سے ان کو نفرت ہے، سچائی پر یہ قائم ہیں، جو بات کہتی ہیں سچ کہتی ہیں، حق کہتی ہیں اور دین کا علم حاصل کرنے کی طرف توجہ کرتی ہیں، تو پھر لوگوں کی بھی توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہمارے اپنے نمونے اچھے نہیں ہیں تو لوگوں کی تربیت بھی نہیں کر سکتیں۔

ایک عاملہ ممبر نے اس حوالے سے راہنمائی طلب کی کہ مختلف مجالس کی تجنید میں کچھ ایسی لجنہ کے نام بھی ہیں، جن کا جماعت سے بہت دیر سے تعلق یا رابطہ نہیں ہے، یہاں تک کہ ان کے کوائف بھی تبدیل ہو چکے ہیں اور ہمیں درست تجنید بنانے میں مشکل پیش آتی ہے۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ان سے رابطہ کریں۔ اگر وہ جماعت سے رابطہ رکھنا چاہتی ہیں اور اپنے آپ کو احمدی کہتی ہیں تو پھر ان کو شامل کریں۔ نہیں تو ان کو کہہ دیں کہ پھر ہم تجنید سے تمہارا نام کاٹ دیتے ہیں۔ فی الحال ایسی جو ہیں، جن کا رابطہ نہیں ہے، ان کی ایک علیحدہ لسٹ بنا دیں۔ ان کو اپنی main تجنید میں شامل نہ کریں۔ لیکن ایسے لوگوں میں شامل کریں جن کانام لکھا ہو کہ قابلِ اصلاح یا قابلِ رابطہ۔

پھر کوشش کریں ان کے جو واقف کار ہیں، کوئی نہ کوئی احمدی ان کا واقف ہو گا، وہ ان سے جا کے پیار سے پوچھیں کہ تمہارا نام ہم نے ابھی تک جماعت کی لسٹ میں رکھا ہوا ہے، آیا رکھیں یا کاٹ دیں تم بتا دو؟ اگر وہ کہے کہ کاٹ دو، میرا کوئی تعلق نہیں، تو کاٹ دیں۔ لیکن اس کی علیحدہ لسٹ بنا لیں۔ جو mainstream جماعت کی تجنید ہے اس میں ان کو فی الحال نہ رکھیں۔

لیکن اگر آپ لوگوں کے اچھے نمونے ہوں گے، اچھے اخلاق ہوں گے، لوگوں کو قریب لانے کی کوشش کریں گی، بعض لوگوں کی سہیلیاں ہوتی ہیں، تعلق والے ہوتے ہیں، جن کےذریعہ سے وہ تعلق رکھنا چاہتے ہیں لیکن عہدیداروں کے رویہ کی وجہ سے وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کو ان لوگوں کے ذریعہ سے، جن سے ان کے اچھے تعلقات ہیں، قریب لانے کی کوشش کریں۔ عہدیدار اپنے رویے ٹھیک کریں، نرمی اختیار کریں، پیار سے، تعلق سے قریب لانے کی کوشش کریں۔ پھر بعض لوگ ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔

یہ سارا جائزہ لینا ہو گا لیکن فی الحال ان کی ایک لسٹ بنالیں اور جو با قاعدہ شامل ہیں ان کی علیحدہ لسٹ بنا لیں۔

ایک سوال کیا گیا کہ بطور نیشنل عاملہ ممبرات ہم اپنے اندر یہ روح کیسے پیدا کریں کہ خلیفۂ وقت کے ہر حکم ، فیصلے، ہدایت اور راہنمائی کو سب سے مقدّم رکھیں، نیز خلیفۂ وقت کے احکامات پر توجیہات نکالنے اور اپنی ذاتی سوچ ، رشتے داریوں اور دوستیوں کا خیال رکھنے کی بجائے ہم اپنے اندر اطاعت کا مادہ کیسے پیدا کریں؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ اگر الله تعالیٰ کی بات ہی نہیں ماننی تو پھر خلیفۂ وقت کی بات لوگ کیا مانیں گے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ الله میاں نے کہا کہ تمہارا بنیادی کام ہے کہ الله تعالیٰ کی عبادت کرو، جس مقصدکے لیے تمہیں پیدا کیا گیا ہے، اگر یہ احساس پیدا ہو جائے کہ ہمیں جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے وہ الله کی عبادت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے الله تعالیٰ کو راضی کرنا ہے اور الله تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے پھر ان باتوں پر عمل کرنا ہے جن کا الله تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے۔

عبادت کا یہی مطلب ہے کہ صحیح عابد بندےبنو، عاجز بندے بنو، عبادت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو حکم ہےاس پر عمل کرو۔ تو جو لوگ عہد کرتے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدّم رکھیں گے، ہم اپنی قربانیاں دینے کے لیے تیار ہوں گے، لجنہ کا عہد دُہراتی ہیں ، اس کے باوجود بات نہیں مانتے اور خلیفۂ وقت کو صرف خط لکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کام کر لیا اور ذاتی انائیں ان پر مقدّم ہو جاتی ہیں اور جو مقصد ہے وہ ختم ہو جاتا ہے۔ تو اس لیے رشتہ داریوں کا پاس نہیں ہونا چاہیے۔

یہ تو ایک مسلسل کوشش ہے ، مَیں بھی جس کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں، لجنہ کے خطابات میں توجہ دلاتا رہتا ہوں، تقریروں میں توجہ دلاتا رہتا ہوں، اجتماع پر ابھی مَیں نے توجہ دلائی ۔ تو یہ احساس اگر خود پیدا نہیں ہو گا تو پھر جتنا مرضی کوئی کہتا رہے اس کا اثر نہیں ہو گا۔ کہتے ہیں کہ کسی سوئے ہوئے کو جگانا تو آسان کام ہے کہ جاگو اور نماز پڑھ لو لیکن جو پہلے ہی جاگا ہوا ہے اور ڈھیٹ بن کے سویا ہوابنا ہے، مچلا بن گیا ہے، اس کو ہم کس طرح سمجھا سکتے ہیں جس نے عمل ہی نہیں کرنا؟

اس لیے پہلےبے نفس ہونے کی ضرورت ہے اور جو نہیں ہوگا تو وہ پھر گنہگار ہے، اگر پھر بھی عہدیدار اپنی اصلاح نہیں کرتیں اور اس پر عمل نہیں کرتیں جو الله تعالیٰ کے حکم ہیں تو پھر وہ الله کے نزدیک گنہگار ہیں۔ اس دنیا میں تو انسانوں کو دھوکا دے لیں گے، اگلے جہان میں تو دھوکا نہیں دیا جا سکتا، الله میاں پھر آپ ہی پکڑے گا کہ تم نے رشتہ داریوں کا پاس زیادہ کیا اور جو الله تعالیٰ کا حکم تھا اس پر کم چلے۔

اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہر عاملہ کے ممبر کو پہلے اپنا نمونہ قائم کرنا چاہیے کہ ہمارا ایسا نمونہ ہو جسے دیکھ کر لوگ اپنی اصلاح کریں۔ اور سب سے مقدّم یہ ہو کہ الله تعالیٰ کے حکم ہیں، اس کے بعد رشتہ داریاں اور باقی تعلقات ہیں۔ اس طرف کوشش کرنی چاہیے۔

ایک لجنہ ممبرنے عرض کیا کہ باہر کے ماحول سے متاثر اور پریشرائزڈ(pressurized) ہو کے اکثر بچیاں بے پردگی کی طرف آ رہی ہیں اور والدین بھی ان کو ٹھیک سے گائیڈ نہیں کر پا رہے ہیں، آپ اس بارہ میں کیا راہنمائی فرمائیں گے؟

حضور انور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ والدین کو چاہیے کہ ان سے دوستی پیدا کریں، تعلق پیدا کریں اور جن کے ماں باپ جاہل ہیں، پڑھے لکھے نہیں اور لڑکیاں پڑھ لکھ گئی ہیں، متاثر ہو رہی ہیں، ان سے لجنہ تعلق پیدا کرے اور نیک نیتی سے اور دوست بنا کے تعلق پیدا کرے، ان کے ہمدرد بن کے تعلق پیدا کرے، ان کو بتائے کہ ہم تمہارے ہمدرد ہیں۔

جب تک احمدی ہیں، ہم اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو ہم نے دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے، ہمیں اس عہد کو پورا کرنا چاہیے اور یہ دنیا تو چند دن کے بعد ختم ہو جائے گی۔ لیکن جو ہمیشہ کی دنیا رہنے والی ہے وہ تو اگلے جہان کی دنیاہے، اس کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیےاور اگر ہم یہ کریں گے تو ہم دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو جائیں گے، نہیں تو یہ چند دن کی دنیا گزار کے ہم تباہ ہو کے اس دنیا سے چلے جائیں گے، کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

تو آہستہ آہستہ سختی سے نہیں، پیار سے سمجھاؤ، دین کے قریب لاؤ، بتاؤ کہ الله تعالیٰ نے کتنا تمہارے پر احسان کیا ہے، تمہیں نعمتیں عطا کی ہیں، تم لوگ غریب تھے، تمہیں یہاں لاکے ان ملکوں میں الله تعالیٰ نے بہتر حالات تمہارے پیدا کر دیے، تمہیں پڑھنے کے زیادہ موقعے مل گئے، تمہیں ترقی کے زیادہ موقعے مل گئے، تو ان باتوں کی قدر کرو اور اپنی حالتوں کو بہتر کرو۔ تو پھر ہی تم الله کے ہاں اس دنیا میں بھی reward حاصل کرو گے اور اگلے جہان میں بھی۔

تو پیار سے، محبّت سے اگر تعلق ہو اور ساری عاملہ نیک نیتی سے، ایک ہو کے ، الله کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اپنی اصلاح بھی کرے اور اپنے آپس کے تعلقات میں بھی بہتری پیدا کرے اور جماعت کی جو لجنہ ممبرات ہیں ، ان کے ساتھ بھی تعلقات پیدا کرے، ان کی اصلاح کی کوشش کرے اور پیار اور محبّت سے ہر ایک سے پیش آئے، ذاتی انائیں ختم کر دے، ذاتی رشتے داریوں کے تعلقات کوpreference نہ دے بلکہ preference یہ ہو کہ ہم نے الله تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے تو پھر لوگوں کی اصلاح بھی ہم کر سکتے ہیں، نہیں تو پھر جتنا مرضی زور لگا لیں، ہم پھراصلاح نہیں کر سکتے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button