خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍اکتوبر 2024ء

اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ، اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَانْصُرْنَاعَلَیْھِم۔
اے اللہ !کتاب نازل کرنے والے!! جلد حساب لینے والے!!! تُو لشکروں کو شکست دے دے۔
اے اللہ !ان کو شکست دے دے اور ان کے خلاف ہماری مدد کر

’’ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہو اکہ آپ نے فرمایا: خد اکفار کو سزا دے انہوں نے ہماری نمازیں ضائع کیں … اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لیے خدا تعالیٰ کی عبادت تھی‘‘(حضرت مصلح موعودؓ)

’’ان خطرناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے ربّ کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی۔‘‘

حذیفہؓ کہتے ہیں کہ جب میں کفار کے لشکر کی خبر لینے روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے بدن میں سردی کا نام ونشان تک نہیں تھا۔ بلکہ میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا ایک گرم حمام میں سے گزررہا ہوں اورمیری گھبراہٹ بالکل جاتی رہی

کفار کے راہِ فرار اختیار کرنے پر ’’آپؐ نے خدا کاشکر ادا کیا اور فرمایا کہ یہ ہماری کسی کوشش یاطاقت کانتیجہ نہیں ہے بلکہ محض خدا کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے اپنے دم سے احزاب کو پسپا کر دیا‘‘

دنیا کے حالات جیسا کہ آپ کو پتہ ہے دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ امریکہ اور بڑی طاقتیں انصاف سے کام لینا نہیں چاہتیں۔ جنگ وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں اور معصوموں کو اس کے خوفناک اور بداثرات سے بچائے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق میں ہمیں بڑھنا ہو گا اور دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ اس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہیے

پاکستان میں احمدیوں کے بھی حالات کافی زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کریں

بنگلہ دیش کے احمدیوں کے حالات کے لیےبھی دعا کریں۔ ان لوگوں پر بھی بڑی سختیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم اور فضل فرمائے

غزوۂ خندق کے تناظر میں سیرت نبوی ﷺ کا بیان نیز دنیا کے حالات اور پاکستان و بنگلہ دیش کے احمدیوں کے لیے دعاؤں کی تحریک

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 04؍اکتوبر 2024ء بمطابق 4؍اخاء 1403 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)،یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾

اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

خطبات میں آجکل جنگِ احزاب کا ذکر ہو رہا ہے۔

جنگِ احزاب کی مزید تفصیل

یوں بیان ہوئی ہے کہ جب مشرکین کو خندق عبور کرنے کے باوجود کوئی کامیابی نصیب نہ ہوئی بلکہ سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے اتحاد کیا کہ وہ سب صبح کو حملہ کریں گے کوئی پیچھے نہیں رہے گا۔ ساری رات وہ تیاری کرتے رہے اور سورج کے طلوع ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خندق پر آ گئے۔ مشرکین نے ہر طرف سے خندق کو گھیر لیا اور ایک لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف متوجہ کیا۔ اس میں خالد بن ولید تھے۔ خندق کو بار بار عبور کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ سخت تیر اندازی کا مقابلہ ہوا۔ کفار مسلمانوں کی طرف سے کسی بھی غفلت کے منتظر رہے کہ کہیں موقع ملے تو وہ خندق عبور کریں اور یہ حملے اور کوششیں وقفے وقفے سے ہوتی رہیں۔ اسی موقع پر وحشی بن حرب نے طفیل بن نعمانؓ کو اور بعض نے کہا ہے طفیل بن مالک بن نعمان انصاریؓ کو اپنا چھوٹا نیزہ مار کر شہید کر دیا۔ حضرت سعد بن معاذؓ کو بھی ایک تیر لگا جس سے وہ زخمی ہوئے اور اسی زخم کی وجہ سے کچھ دنوں کے بعد ان کی شہادت ہوئی۔(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ380 دار الکتب العلمیۃ بیروت)(سیرت انسائیکلوپیڈیا جلد 7 صفحہ 345 مطبوعہ دار السلام)اور

یہی وہ دن تھا کہ جس روز مسلمانوں کے لیے نماز بھی اپنے وقت پر پڑھنا مشکل ہوگیا۔

اس دن کی مسلسل مصروفیت اور بار بار کے حملوں کی وجہ سے جو واقعات بیان ہوئے، معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے راوی ان باتوں کو صحیح طرح محفوظ نہیں رکھ سکے اور کچھ عرصہ بعد مضمون یہ بن گیا کہ اس دن مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت نہ ظہر کی نماز ادا کر سکے اور نہ عصر کی نماز ادا کر سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ اور یہ نمازیں سورج غروب ہونے کے بعد ادا کی گئیں۔ عموماً ایک قصہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔

بعض مؤرخین نے تو یہاں تک مبالغہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ڈوبے ہوئے سورج کو واپس بھیجا تا کہ مسلمان ظہر اور عصر کی نماز ادا کر سکیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دن بہت سخت دن تھا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام مسلمان مسلسل حملوں کی زد میں تھے لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہ سب اور بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بھی نماز نہ پڑھ سکے ہوں۔

سخت دن تو تھے لیکن اتنا نہیں تھا کہ نمازیں بالکل نہ پڑھ سکے ہوں۔

اس دن بھی نمازیں تو ادا کرتے رہے لیکن ایک مسلسل خوف اور پریشانی کے عالم میں یہ نمازیں ادا ہوئیں۔اور معلوم ہوتا ہے کہ عصر کے وقت حملوں میں اتنی شدت آئی کہ عصر کی نماز ادا کرنے میں مشکل پیش آئی ہو گی اور وہ تنگ وقت میں پڑھی گئی ہو گی۔

سیرت خاتم النبیینٌ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے اس کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’اس دن مسلمانوں کی ساری نمازیں وقت پر ادا نہیں ہوسکیں۔ یہ درست نہیں ہے۔‘‘یہ کہا جاتا ہے کہ نمازیں ادا نہیں ہو سکیں۔ یہ درست نہیں ہے ’’بلکہ جیسا کہ صحیح روایات سے ثابت ہوتا ہے بات صرف یہ ہوئی تھی کہ

چونکہ اس وقت تک صلوٰةِ خوف شروع نہیں ہوئی تھی اس لیے بوجہ مسلسل خطرے اورمصروفیت کے صرف ایک نماز یعنی عصر بے وقت ہوگئی تھی جو مغرب کے ساتھ ملاکر پڑھی گئی۔ اور بعض روایات کی رو سے صرف ظہروعصر کی نماز بے وقت ادا ہوئی تھی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ588)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کو بیان فرمایا ہے۔ لکھا ہے کہ

’’ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہو اکہ آپ نے فرمایا: خد اکفار کو سزا دے انہوں نے ہماری نمازیں ضائع کیں … اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لیے خدا تعالیٰ کی عبادت تھی

جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے ان عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں۔ جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کا دل دھڑک رہا تھا کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہو جائے اس وقت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے۔‘‘ یعنی انتہائی خوف کی حالت میں بھی آپ کی خواہش تھی تو صرف یہ کہ عبادت نہ کہیں ضائع ہو جائے۔ ’’مسلمانوں کی عبادت یہودیوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرح ہفتہ میں کسی ایک دن نہیں ہوا کرتی بلکہ مسلمانوں کی عبادت دن رات میں پانچ دفعہ ہوتی ہے۔ ایسے خطرناک وقت میں تو دن میں ایک دفعہ بھی نماز ادا کرنا انسان کے لئے مشکل ہے چہ جائیکہ پانچ وقت اور پھر عمدگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جائے۔ مگر

ان خطرناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے ربّ کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ273-274)

اس زمانے کے حَکَم و عَدَل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ان تمام روایات کو جن میں ان نمازوں کو رات کے وقت ادا کرنے کا ذکر ہے ضعیف قرار دیتے ہوئے صرف ایک روایت کو درست قرار دیا ہے جس میں عصر کی نماز معمول سے تنگ وقت میں پڑھنے کا ذکر ہے۔

چنانچہ جنگ خندق میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار نمازیں قضا کرنے پر ایک پادری کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:’’باقی رہا یہ کہ خندق کھودنے کے وقت چار نمازیں جمع کی گئیں اس احمقانہ وسوسہ کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دین میں حرج نہیں ہے یعنی ایسی سختی نہیں جو انسان کی تباہی کا موجب ہو۔ اس لیے اس نے ضرورتوں کے وقت اور بلاؤں کی حالت میں نمازوں کے جمع کر نے اور قصر کرنے کا حکم دیا ہے مگر اس مقام میں ہماری کسی معتبر حدیث میں چار جمع کرنے کا ذکر نہیں۔‘‘ یہ تو ٹھیک ہے کہ ہو سکتی ہیں لیکن کہیں کسی معتبر حدیث میں ذکر نہیں ہے کہ چار نمازیں جمع ہوئی ہوں ’’بلکہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ

واقعہ صرف یہ ہوا تھا کہ ایک نماز یعنی صلوٰة العصر معمول سے تنگ وقت میں ادا کی گئی۔‘‘

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اگر آپ اس وقت ہمارے سامنے ہوتے تو ہم آپ کو ذرہ بٹھا کر پوچھتے‘‘ کہ آپ نے کہاں سے لے لی ہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مخالف کو مخاطب کر کے فرما رہے ہیں تم میرے سامنے ہوتے تو میں تمہیں پوچھتا کہ کس طرح کہاں سے تم نے یہ روایت لے لی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’ کہ کیا یہ متفق علیہ روایت ہے کہ چار نمازیں فوت ہوگئی تھیں۔ چار نمازیں تو خود شرع کی رو سے جمع ہوسکتی ہیں یعنی ظہر اور عصر۔ اور مغرب اور عشاء۔ ہاں ایک روایت ضعیف میں ہے کہ ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اکٹھی کرکے پڑھی گئی تھیں لیکن دوسری صحیح حدیثیں اس کو ردّ کرتی ہیں اور

صرف یہی ثابت ہوتا ہے کہ عصر تنگ وقت میں پڑھی گئی تھی۔‘‘

(نورالقرآن نمبر2،روحانی خزائن جلد9 صفحہ390)

بہرحال یہ واضح ہے کہ تمام دن کی نمازیں جمع نہیں کی گئیں بلکہ تنگ وقت میں عصر پڑھی گئی تھی، تھوڑا وقت تھا اس کا اور اس کا افسوس بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا کہ صحیح طریق پر آرام سے نماز ادا نہیں کی گئی۔

جنگِ احزاب کی تفصیل میں مزید

لکھا ہے کہ جنگِ خندق مسلمانوں کے لیے اعصاب شکن جنگ تھی۔ جنگی خوف کے علاوہ بھوک اور موسم کی شدت بھی عروج پر تھی۔ کئی کئی وقت کے فاقے کرنے پڑ رہے تھے۔اس دوران

ایک غیبی مدد

یوں ہوئی کہ مسلمانوں کا ایک مسلح دستہ جو کہ اپنے ایک عزیز کی تدفین کے لیے جا رہا تھا اس کو بیس اونٹ غلہ سے لدے ہوئے ملے جو کہ بنو قریظہ کی طرف سے سامانِ رسد کے طور پر قریش مکہ کی طرف جارہے تھے۔یہ راشن حُیَی بن اَخْطَب کی سفارش اور خصوصی کوشش سے بھیجے جا رہے تھے۔ ایک چھوٹی سی جھڑپ کے بعد یہ سارے اونٹ انہوں نے اپنے قبضہ میں کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اہلِ خندق نے اس میں سے کھایا اور ان اونٹوں میں سے کچھ اونٹ ذبح کیے اور کچھ باقی رہ گئے جو مسلمان جنگ کے اختتام پر مدینہ لے گئے۔ قریشی سپہ سالار ابوسفیان کو جب یہ خبر ملی تو اس نے کہا حُیَی کتنا منحوس ثابت ہوا۔ اب جب ہم واپس جائیں گے تو اپنا سامان لادنے کے لیےکوئی جانور بھی ہمارے پاس نہیں۔ (سبل الھدیٰ والرشاد جلد4 صفحہ382 دار الکتب العلمیۃ بیروت)جنگ کی حالت میں یہ جائز تھا۔ جس طرح انہوں نے گھیرا ہوا تھا۔ اس میں اگر انہوں نے ان کے راشن پر قبضہ کیا تو بالکل جائز بات تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احزاب کے خلاف بددعا

کرنے کا بھی ذکر یوں ملتا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بروز پیر منگل اور بدھ ظہر اور عصر کے درمیان تشریف لائے اور اپنے اوپر کی چادر رکھ دی اور کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کیے۔ احزاب پر بددعا کی۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں خوشی پہچان لی۔

عبداللہ بن اُبَی بن اَوفیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب پر بددعا کی۔ ابونُعَیم نے اضافہ کیا ہے۔ یہ زائد بات اس میں بتائی ہے کہ آپؐ نے انتظار کیا جب سورج کا زوال ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو !تم دشمن سے مڈھ بھیڑ کی تمنا نہ کرو اور تم اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو اور اگر تمہاری دشمن سے مڈھ بھیڑ ہو جائے تو پھر صبر کرو اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سایوں کے نیچے ہے۔

پھر فرمایا :

اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ،
اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَانْصُرْنَاعَلَیْھِم۔

اے اللہ !کتاب نازل کرنے والے!! جلد حساب لینے والے!!! تُو لشکروں کو شکست دے دے۔ اے اللہ !ان کو شکست دے دے اور ان کے خلاف ہماری مدد کر۔

ایک روایت میں یہ دعا بھی مذکور ہے کہ

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اَللّٰهُمَّ إِنْ تَشَأْ لَاتُعْبَدْ۔
اے اللہ !میں تجھے تیرے عہد اور وعدے کا واسطہ دیتا ہوں
اے اللہ !اگر تُو چاہے تو تیری یہ عبادت نہ کی جائے۔

ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کلیجے منہ کو آ گئے ہیں۔ بہت بری حالت ہو گئی ہے۔ کیا ہمارے کہنے کے لیےکچھ کلمات ہیں یا ایسی دعا سکھائیں کہ ہم کوئی دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تم کہو

اَللّٰهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَاوَ آمِنْ رَوْعَاتِنَا۔
اے اللہ !ہمارے عیب ڈھانپ دے اور ہمارے خوف دور فرما دے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے کہ ’’بعض مسلمان گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! حالات نہایت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اب بظاہر مدینہ کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ آپ اِس وقت خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کریں اور ہمیں بھی کوئی دعا سکھلائیں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو۔ آپؐ نے فرمایا تم لوگ گھبراؤ نہیں۔ تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ تمہاری کمزوریوں پر وہ پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور گھبراہٹ کو دور فرمائے اور پھر آپ نے خود بھی اس طرح دعا فرمائی کہ

اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ
اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۔

اور اسی طرح یہ دعا فرمائی۔

یَا صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ یَامُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ
اکْشِفْ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ وَکَرْبِیْ
فَاِنَّکَ تَرٰی مَا نَزَلَ بِیْ وَ بِاَصْحَابِیْ۔

اے اللہ! جس نے قرآن کریم مجھ پر نازل کیا ہے، جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہوکر آئے ہیں اِن کو شکست دے۔ اے اللہ! میں پھر عرض کرتا ہوں کہ تُو انہیں شکست دے اور ہمیں اِن پر غلبہ دے اور ان کے ارادوں کو متزلزل کر دے۔ اے دردمندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے!‘‘

اس دعا کا ترجمہ یہ ہے کہ

اے درد مندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے! ’’میرے غم اور میری فکر اور میری گھبراہٹ کو دور کر کیونکہ تو اِن مصائب کوجانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو درپیش ہیں۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ275)

تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ اسی طرح اپنے عروج کی طرف پہنچ چکی تھی اور قریشِ مکہ اور ان کے حلیف قبائل اب طویل محاصرے سے تنگ آ چکے تھے اور جلد سے جلد کوئی حتمی وار کر کے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کی جلدی میں تھے کیونکہ حربی نکتہ نظر سے جس طرح مسلمان چاروں طرف سے محصور تھے اور بنو قریظہ جیسے ان کے حلیف مدینہ کے اندر موجود تھے یہ تمام عوامل کفار کی امیدوں اور حوصلوں کو بڑھانے کے لیے کافی تھے اور اب یہ چاہتے تھے کہ ہم سب مل کر ایک ہی دفعہ ہلّہ بول دیں اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ کفار کے سردار یہ حکمتِ عملی طے کر رہے تھے کہ تدبیر کُنَد بندہ یعنی بندہ تدبیر کرتا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تدبیر کیا تھی تقدیر کُنَد خَنْدَہ کہ تقدیر اس پر ہنستی ہے کہ دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرنے والی ہوں یعنی اس کی کوئی پیش نہیں جاتی۔ اور پھر

تقدیر کُنَد خندہ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے ایک غیبی مدد کا آغاز فرما دیا۔

اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ ’’ایک شخص نُعَیم بن مسعود جو قبائل غَطَفان کی شاخ قبیلہ اَشْجَعْ سے تعلق رکھتا تھا جواس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف لڑ رہے تھے مدینہ میں پہنچ گیا۔ یہ شخص دل میں مسلمان ہوچکا تھا مگر ابھی تک کفار کو اس کے مسلمان ہونے کی اطلاع نہیں تھی۔ اس حالت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے کمال ہوشیاری سے ایسی تدبیر اختیار کی جس سے کفار میں پھوٹ پیدا ہو گئی۔

سب سے پہلے نُعیم بن مسعود قبیلہ بنوقریظہ کے پاس گیا۔اور چونکہ ان کے ساتھ اس کے پرانے تعلقات تھے وہ ان کے رؤساء سے مل کر کہنے لگا کہ میرے خیال میں تم نے یہ اچھا نہیں کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدعہدی کرکے قریش وغَطَفَان کے ساتھ مل گئے ہو۔ قریش وغَطَفَان تو یہاں مدینہ میں صرف چند دن کے مہمان ہیں مگر تم لوگوں نے بہرحال یہاں رہنا ہے کیونکہ تمہارا یہ وطن ہے اور یہاں مسلمانوں کے ساتھ ہی تمہارا واسطہ پڑنا ہے اورتم یہ یاد رکھو کہ قریش وغیرہ یہاں سے جاتے ہوئے تمہارا کوئی خیال نہیں کریں گے اورتمہیں یونہی مسلمانوں کے رحم پر چھوڑ کرچلے جائیں گے۔ پس تم کم از کم ایسا کرو کہ قریش وغَطَفَان سے کہو کہ بطور یرغمال کے اپنے کچھ آدمی تمہارے حوالے کر دیں تاکہ تمہیں اطمینان رہے کہ تمہارے ساتھ کوئی غداری نہیں ہو گی۔ رؤساء بنو قریظہ کو نُعیم کی یہ بات سمجھ آگئی اور وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ قریش سے یرغمالوں کا مطالبہ کریں تا کہ بعد میں انہیں کسی مصیبت کا سامنا نہ ہو۔ اس کے بعد نُعیم بن مسعود قریش کے رؤساء کی طرف گیا اور جا کر کہنے لگا کہ بنو قریظہ خائف ہیں کہ کہیں تمہارے چلے جانے کے بعد انہیں کسی مصیبت کاسامنا نہ ہو۔ اس لئے وہ تمہارے اس اتحاد میں متزلزل ہورہے ہیں اور یہ ارادہ کررہے ہیں کہ بطور ضمانت کے تم سے چند یرغمالوں کامطالبہ کریں۔ مگر تم ان کو ہرگز یرغمال نہ دینا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تم سے غداری کرکے تمہارے یرغمال مسلمانوں کے حوالہ کردیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح اس نے اپنے قبیلہ غَطَفَان کے پاس جا کر اسی قسم کی باتیں کیں۔ اب خدا کی طرف سے اتفاق ایسا ہوا کہ قریش وغَطَفَان پہلے سے ہی یہ تجویز کررہے تھے کہ مسلمانوں پر پھر ایک متحدہ حملہ کیا جاوے اور یہ حملہ شہر کے چاروں اطراف میں ایک ہی وقت میں کیا جاوے تاکہ مسلمان اپنی قلتِ تعداد کی وجہ سے اس کا مقابلہ نہ کر سکیں اورکسی نہ کسی جگہ سے ان کی‘‘ لائن ٹوٹ جائے اور’’لائن ٹوٹ کرحملہ آوروں کو راستہ دے دے۔ اس ارادے کے ماتحت انہوں نے بنو قریظہ کوکہلا بھیجا کہ ’’محاصرہ لمبا ہو رہا ہے اور لوگ تنگ آرہے ہیں۔ پس ہم نے یہ تجویز کی ہے کہ سب قبائل مل کر کل کے دن ایک متحدہ حملہ مسلمانوں پر کریں۔ اس لیے تم بھی کل کے حملہ کے واسطے تیار ہو جاؤ۔ بنوقریظہ نے جن کے ساتھ نُعیم بن مسعود کی پہلے سے بات ہوچکی تھی یہ جواب دیا کہ کل تو ہمارا سبت کا دن ہے اس لیے ہم معذور ہیں اور ویسے بھی جب تک آپ لوگ اس ضمانت کے طورپر کہ آپ کی طرف سے بعد میں ہمارے ساتھ غداری نہیں ہو گی اپنے کچھ آدمی ہمارے حوالے نہ کر دیں ہم اس حملہ میں شامل نہیں ہو سکتے۔ جب قریش وغَطَفَان کوبنو قریظہ کایہ جواب گیا تووہ حیران رہ گئے اورکہنے لگے کہ واقعی نُعیم نے سچ کہا ہے کہ بنوقریظہ ہماری غداری پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف جب بنوقریظہ کو قریش وغَطَفَان کایہ جواب گیا کہ ہم یرغمال نہیں دیتے۔ تم نے مدد کو آنا ہے توویسے آؤ تو بنو قریظہ نے کہا کہ واقعی نُعیم نے ہمیں ٹھیک مشورہ دیا تھا کہ قریش وغَطَفَان کی نیت بخیر نہیں ہے اوراس طرح نُعیم کی حسن تدبیر سے کفار کے کیمپ میں انشقاق واختلاف کی صورت پیدا ہو گئی۔‘‘دونوں ایک دوسرے سے مشکوک ہو گئے۔

’’یہ وہ تدبیر ہے جونُعیم نے اختیار کی مگر نُعیم کایہ کمال ہے کہ اس نے ایسے نازک مشن کی ادائیگی میں بھی حتی الوسع کوئی ایسی بات اپنے منہ سے نہیں نکالی جو معین طورپرکذب بیانی کے نام سے موسوم کی جا سکے۔ باقی لطائف الحیل کے طور پر کوئی‘‘ حیلہ اختیار کیا کوئی ’’تدبیر اختیارکرنا یا کوئی ایسا داؤ چلنا جس سے انسان دشمن کے شر سے محفوظ ہوسکے سو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے بلکہ جنگی فن کاایک نہایت مفید حصہ ہے جس سے ظالم دشمن کو خائب وخاسر کرنے اور بے جاکشت وخون کے سلسلے کوروکنے میں بہت مدد لی جا سکتی ہے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیین ؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 591-593)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایاکہ ’’کچھ دن بعد دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وقت مقررہ پر یہودیوں اور مشرکوں کے لشکر یکدم مسلمانوں پر حملہ کر دیں مگر اس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید ایک عجیب طرح ظاہر ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے کہ نُعیم نامی ایک شخص غَطَفَان کے قبیلہ کا دل میں مسلمان تھا۔ یہ شخص بھی کفار کے ساتھ آیا ہوا تھا لیکن اس بات کی انتظار میں تھا کہ اگر مجھے کوئی موقع ملے تو میں مسلمانوں کی مدد کروں۔ اکیلا انسان کر ہی کیا سکتا ہے مگر جب اس نے دیکھا کہ یہود بھی کفار سے مل گئے ہیں اور اب بظاہر مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو اِن حالات سے وہ اتنا متاثر ہو اکہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ بہرحال مجھے اس فتنہ کے دور کرنے کے لیےکچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق مل کر ایک دن حملہ کریں تو وہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور ان کے رؤسا سے کہا کہ اگر عربوں کا لشکر بھاگ جائے تو بتاؤ مسلمان تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ تم مسلمانوں کے معاہد ہو اور معاہدہ کر کے اس کے توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا تم کو ملے گی اس کا قیاس کر لو۔ ان کے دل کچھ ڈرے اور انہوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں؟ نُعیم نے کہا جب عرب مشترکہ حملہ کے لئے تم سے خواہش کریں تو تم مشرکین سے مطالبہ کرو کہ اپنے ستر آدمی ہمارے پاس یرغمال کے طور پر بھیج دو۔ وہ ہمارے قلعوں کی حفاظت کریں گے اور ہم مدینہ کے پچھواڑے سے اس پر حملہ کر دیں گے۔‘‘ یعنی مسلمان پہ۔ ’’پھر وہ وہاں سے ہٹ کر مشرکین کے سردارو ں کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ یہ یہود تو مدینہ کے رہنے والے ہیں اگر عین موقع پر یہ تم سے غداری کریں تو پھر کیا کرو گے؟ اگر یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اور اپنے جرم کو معاف کروانے کے لیے تم سے تمہارے آدمی بطور یرغمال مانگیں اور ان کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟ تمہیں چاہیےکہ ان کا امتحان لے لو کہ آیا وہ پکے رہتے ہیں یا نہیں اور جلد ہی ان کو اپنے ساتھ باقاعدہ حملہ کرنے کی دعوت دو۔ کفار کے سرداروں نے اس مشورہ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے دن یہود کو پیغام بھیجا کہ ہم ایک اجتماعی حملہ کرنا چاہتے ہیں تم بھی اپنی فوجوں سمیت کل حملہ کردو۔ بنوقریظہ نے کہا کہ اوّل تو کل ہمارا سبت کا دن ہے‘‘ اور سبت کے دن ہم حملہ نہیں کرتے ’’اس لیے ہم اس دن لڑائی نہیں کر سکتے۔ دوسرے ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں اور تم باہر کے۔ اگر تم لوگ لڑائی چھوڑ کر چلے جاؤ تو ہمارا کیا بنے گا۔ اس لئے آپ لوگ ہمیں ستر آدمی یرغمال کے طور پر دیں گے تب ہم لڑائی میں شامل ہوں گے۔ کفار کے دل میں چونکہ پہلے سے شبہ پیدا ہو چکا تھا انہوں نے ان کے اِس مطالبہ کوپورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارا ہمارے ساتھ اتحاد سچا تھا تو اس قسم کے مطالبہ کے کوئی معنی نہیں۔ اِس واقعہ سے اُدھر یہود کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اِدھر کفار کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اور جیساکہ قاعدہ ہے جب شبہات دل میں پید اہو جاتے ہیں تو بہادری کی روح بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20صفحہ280تا281)

پھر

اللہ تعالیٰ کی تقدیر ایک رات مسلمانوں کے حق میں تیز آندھی کی صورت میں بھی ظاہر ہوئی

جس کی وجہ سے احزاب کو یا مختلف قبائل کو، مشرکین کو، حملہ آوروں کو راہ فرار اختیار کرنی پڑی۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے اور ابن اسحاق نے اسے یوں بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سخت سردی کی رات میں ایسے زور کی آندھی بھیجی جس نے کفار کی ہانڈیوں کو پلٹ دیا اور برتن پھینک دیے۔ بلاذری نے لکھا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے کفار کے خلاف مسلمانوں کی آندھی کے ذریعہ مدد کی۔ یہ زرد آندھی تھی اس نے ان کی آنکھیں بھر دیں۔ ان میں کمزوری اور بزدلی داخل کر دی اور مشرکین پسپا ہو گئے اور اپنے پڑاؤ کی جگہ چلے گئے اور ہوا ان پر چلتی رہی اور ان کو فرشتوں نے ڈھانپ لیا۔ ان کی آنکھوں کو پھوڑ دیا تو وہ لوٹ گئے۔

(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 386-387 دار الکتب العلمیۃبیروت)

اس کی تفصیل حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے یوں بیان کی ہے کہ ’’ممکن ہے کہ نُعَیم بن مسعود کی اس امن پسند کوشش کانتیجہ ضائع چلا جاتا اورایک عارضی لغزش وتزلزل کے بعد کفار میں پھر اتحاد وثبات کی روح پیدا ہو جاتی مگر خدا کی طرف سے ایسا اتفاق ہوا کہ ان واقعات کے بعد رات کوایک نہایت سخت آندھی چلی جس نے کفار کے وسیع کیمپ میں جو ایک کھلی جگہ میں واقع تھا ایک خطرناک طوفان بے تمیزی برپا کر دیا۔ خیمے اکھڑ گئے۔ قناتوں کے پردے ٹوٹ ٹوٹ کر اڑ گئے۔ ہنڈیاں الٹ الٹ کر چولہوں میں گر گئیں اور ریت اورکنکر کی بارش نے لوگوں کے کانوں اورآنکھوں اور نتھنوں کو بھر دیا اور پھر سب سے بڑھ کر غضب یہ ہوا کہ وہ قومی آگیں جو عرب کے قدیم دستور کے مطابق رات کے وقت نہایت التزام کے ساتھ روشن رکھی جاتی تھیں اِدھر اُدھر خس وخاشاک کی طرح اڑ کر بجھنے لگ گئیں۔‘‘ ان کا ان آگوں پر بڑا اعتقاد تھا کہ یہ بجھنے نہ پائیں۔ ’’ان مناظر نے کفار کے وہم پرست قلوب کو جو پہلے ہی محاصرہ کے تکلیف دہ طول اوراتحادیوں کی باہمی بے اعتمادی کے تلخ تجربے سے متزلزل ہورہے تھے ایک ایسا دھکا لگایا کہ پھر وہ سنبھل نہ سکے اور صبح سے پہلے پہلے مدینہ کا افق لشکر ِکفار کے گردوغبار سے صاف ہو گیا۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ جب اس آندھی کازور ہوا تو ابوسفیان نے اپنے آس پاس کے قریشی رؤساء کو بلا کر کہا کہ ہماری مشکلات بہت بڑھ رہی ہیں اب یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم واپس چلے جائیں اور مَیں تو بہرحال جاتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے آدمیوں کو واپسی کا حکم دیا اور پھر اپنے اونٹ پر سوار ہو گیا مگر گھبراہٹ کا یہ عالم تھا کہ اونٹ کے پاؤں کھولنے یاد نہ رہے اور سوار ہونے کے بعد اونٹ کے حرکت نہ کرنے سے یہ یاد آیا کہ اونٹ کے پاؤں ابھی تک نہیں کھولے گئے۔ اس وقت عکرمہ بن ابوجہل ابوسفیان کے پاس کھڑا تھا اس نے کسی قدرتلخی سے کہا کہ ابوسفیان! تم امیرالعسکر ہو کر ‘‘ لشکر کے سپہ سالار ہو کر ’’لشکر کو چھوڑ کر بھاگے جارہے ہو اورتمہیں دوسروں کاخیال تک نہیں ہے۔ اس پر ابوسفیان شرمندہ ہوا اوراونٹ سے اتر کر کہنے لگا۔ لو مَیں ابھی نہیں جاتا مگر تم لوگ جلد جلد تیاری کرو اور جس قدرجلد ممکن ہویہاں سے نکل چلو۔ چنانچہ لوگ جلدی جلدی تیاری میں لگ گئے اور ابوسفیان تھوڑی دیر کے بعد اپنے اونٹ پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو گیا۔ اس وقت تک بنو غَطَفَان اور دوسرے قبائل کو قریش کے اس فرار کا علم تک نہیں تھا مگر جب قریش کا کیمپ سرعت کے ساتھ خالی ہونا شروع ہوا تو دوسروں کوبھی اس کی اطلاع ہوئی جس پر انہوں نے بھی گھبرا کر کوچ کا اعلان کر دیا اور بنوقریظہ بھی اپنے قلعوں کے اندر چلے گئے اوربنوقریظہ کے ساتھ بنونضیر کا رئیس حُیَی بن اخطب بھی ان کے قلعوں میں چلا آیا اور اس طرح

صبح کی سفیدی نمودار ہونے سے پہلے پہلے سارا میدان خالی ہو گیا اورایک فوری اور محیرالعقول تغیر کے طور پر مسلمان مفتوح ہوتے ہوتے فاتح بن گئے۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 593-594)

کہاں تو یہ حال تھا کہ خطرہ تھا کہ ان پہ کفار قبضہ نہ کر لیں۔ اب یہ حالت تھی کہ وہ فاتح ہوگئے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس کی تفصیل لکھی ہے۔ فرمایا ہے کہ ’’شکوک و شبہات کو ساتھ لیے ہوئے کفار کا لشکر رات کو آرام کرنے کے لیےاپنے خیموں میں گیا تو خد اتعالیٰ نے آسمانی نصرت کا ایک اَور راستہ کھول دیا۔ رات کو ایک سخت آندھی چلی جس نے قناتوں کے پردے توڑ دیے۔ چولہوں پر سے ہنڈیاں گرا دیں اور بعض قبائل کی آگیں بجھ گئیں۔ مشرکینِ عرب میں ایک رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اِس کو وہ نیک شگون سمجھتے تھے۔ جس کی آگ بجھ جاتی تھی وہ خیال کرتاتھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنے خیمے اٹھا کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہٹ جاتا تھا اور جن قبائل کی آگ بجھی انہوں نے اِس رواج کے مطابق اپنے خیمے اٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے تاکہ ایک دن پیچھے انتظار کر کے پھر لشکر میں آشامل ہوں لیکن چونکہ دن کے جھگڑوں کی وجہ سے سردارانِ لشکر کے دل میں شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ جو قبائل پیچھے ہٹے ان کے اِردگرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگے جار ہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹنے شروع کر دئیے اور میدان سے بھاگنا شروع کیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اِس واقعہ کی خبر اس کو بھی پہنچی۔ وہ گھبرا کے اپنے بندھے ہوئے اونٹ پر جا چڑھا اور اس کو ایڑیاں مارنی شروع کردیں۔ آخر اس کے دوستوں نے اس کو توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے۔ اِس پر اس کے اونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوںسمیت میدان سے بھاگ گیا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ281)

کفار کی جب یہ حالت ہو گئی تو اس کا جائزہ لینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُذَیْفَہ بن یَمَان کو مشرکین کی خبر لینے کے لیے بھیجا۔ اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیینٌ میں لکھا ہے کہ ’’اسی رات جبکہ کفار اس طرح خودبخود میدان جنگ سے بھاگ رہے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد کے صحابہ کو مخاطب فرما کر آواز دی کہ تم میں سے کوئی ہے جواس وقت جائے اورلشکرِ کفار کا حال معلوم کرے؟ لیکن صحابہ روایت کرتے ہیں کہ اس وقت سردی کی اس قدر شدت تھی اور پھر خوف اور تھکان اوربھوک کایہ عالم تھا کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے اندر یہ طاقت نہیں پاتا تھا کہ جواب میں کچھ عرض کرسکے یااپنی جگہ سے حرکت کرے۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نام لے کر حذیفہ بن یمانؓ کو بلایا۔ جس پر وہ سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے اٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑے ہو گئے۔ آپؐ نے کمال شفقت سے ان کے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اوران کے لئے دعائے خیر فرمائی اور فرمایا تم بالکل ڈرو نہیں اور اطمینان رکھو۔ انشاء اللہ تمہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔ بس تم چپکے چپکے کفار کے کیمپ میں چلے جاؤ اورکسی سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرو اور نہ اپنے آپ کو ظاہر ہونے دو۔

حذیفہ کہتے ہیں کہ جب میں روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میرے بدن میں سردی کا نام ونشان تک نہیں تھا۔‘‘ کہاں تو یہ حالت تھی کہ سردی سے بالکل ٹھٹھر رہے تھے۔ کہتے ہیں سردی کا نام و نشان نہیں تھا ’’بلکہ میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا ایک گرم حمام میں سے گزررہا ہوں اورمیری گھبراہٹ بالکل جاتی رہی۔

اس وقت رات کی تاریکی پورے طور پر اپنی حکومت جمائے ہوئے تھی۔ میں بالکل نڈر ہو کر مگر چپکے چپکے کفار کے ‘‘کیمپ کے ’’ اندر پہنچ گیا۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ ابوسفیان ایک جگہ کھڑا ہوا آگ سینک رہا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر جھٹ اپنی تیر کمان سیدھی کر لی اور قریب تھا کہ میں اپنا تیر چلادیتا مگر پھر مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد یاد آگیا اور تیر چلانے سے رک گیا اور اگر اس وقت میں تیر چلادیتا تو ابوسفیان اس قدر قریب تھا کہ وہ یقیناً بچ نہ سکتا۔ اس وقت ابوسفیان اپنے آدمیوں کوواپسی کاحکم دے رہا تھا اور پھر وہ میرے سامنے ہی اونٹ پر سوار ہوگیا مگر گھبراہٹ کی وجہ سے اسے اپنے اونٹ کے پاؤں تک کھولنے یاد نہیں رہے۔ اس کے بعد میں واپس چلا آیا۔‘‘کہتے ہیں ’’جب میں اپنے کیمپ میں پہنچا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ کے فارغ ہونے تک انتظارکیا اور پھر آپ کو سارے واقعہ کی اطلاع دی جس پر

آپؐ نے خدا کاشکر ادا کیا اور فرمایا کہ یہ ہماری کسی کوشش یاطاقت کانتیجہ نہیں ہے بلکہ محض خدا کے فضل کی وجہ سے ہے جس نے اپنے دم سے احزاب کو پسپا کر دیا۔ اس کے بعد کفار کے فرار ہونے کی خبر فوراً سارے مسلمان کیمپ میں مشہور ہو گئی۔‘‘

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ594-595)

اس واقعہ کو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’رات کے آخری ثلث میں وہ میدان جس میں پچیس ہزار کے قریب کفار کے سپاہی خیمہ زن تھے وہ ایک جنگل کی طرح ویران ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا تبھی آپؐ نے صحابہ سے پوچھا تھا کون ہے جو آئے۔ ’’آپ نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے کسی شخص کو بھیجنا چاہا اور اپنے اِردگرد بیٹھے ہوئے صحابہؓ  کو آواز دی۔ وہ سردی کے ایام تھے اور مسلمانوں کے پاس کپڑے بھی کافی نہ ہوتے تھے۔ سردی کے مارے زبانیں تک جم رہی تھیں۔‘‘ بول نہیں سکتے تھے۔ ’’بعض صحابہؓ  کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور ہم جواب بھی دینا چاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں گیا۔ صرف ایک حذیفہؓ تھے جنہوں نے کہا یارسول اللہ! کیا کام ہے؟‘‘ یہاں حضرت مصلح موعودؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ آپؐ نے حضرت حذیفہؓ کو بلایا۔ حضرت مصلح موعودؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا تو ’’آپؐ نے فرمایا تم نہیں مجھے کوئی اَور آدمی چاہیے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کوئی ہے؟ مگر پھر سردی کی شدت کی وجہ سے جو جاگ بھی رہے تھے وہ جواب نہ دے سکے۔ حذیفہؓ نے پھر کہا میں یارسول اللہ! موجود ہوں۔ آخر آپ نے حذیفہؓ کو یہ کہتے ہوئے بھجوایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے۔ جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے حذیفہؓ  خندق کے پاس گئے اور دیکھا کہ میدان کلی طور پر دشمن کے سپاہیوں سے خالی تھا۔ واپس آئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور بتایا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن، انوار العلوم جلد20 صفحہ281-282)

باقی تفصیل انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

دنیا کے حالات جیسا کہ آپ کو پتہ ہے دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ امریکہ اور بڑی طاقتیں انصاف سے کام لینا نہیں چاہتیں۔ جنگ وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ احمدیوں اور معصوموں کو اس کے خوفناک اور بداثرات سے بچائے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے تعلق میں ہمیں بڑھنا ہو گا اور دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینی ہو گی۔ اس کی طرف ہر احمدی کو توجہ دینی چاہیے۔

پاکستان میں احمدیوں کے بھی حالات کافی زیادہ خراب ہو رہے ہیں۔ ان کے لیے بھی دعا کریں۔

بنگلہ دیش کے احمدیوں کے حالات کے لیےبھی دعا کریں۔ ان لوگوں پر بھی بڑی سختیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم اور فضل فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button