دادی جان کا آنگن

ناصرات الاحمدیہ

ہیں دیں کی ناصرات ہم بہار کائنات ہم

رواں دواں، رواں دواں ہیں چشمۂ حیات ہم

گڑیا اپنا ہوم ورک کرتے ہوئے ترنم کے ساتھ اس شعر کو بار بار دُہرا رہی تھی۔دادی جان اس کی نظم سے دل ہی دل میں بہت محظوظ ہورہی تھیں۔اچانک گڑیا نے سر اُٹھایا اور دادی جان کو اپنی جانب متوجہ پا کر بولی: دادی جان ! آپ نے محمود کو تو بتا دیا کہ اچھا طفل کیسے بن سکتے ہیں اب مجھے بھی بتائیں کہ اچھی ناصرہ بننے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے ؟

دادی جان : ہوں تو لگتا ہے آج میری گڑیا کی باری ہے چلیں آپ اپنا ہوم ورک مکمل کرلیں پھر ہم اس بارے میں بات کرتے ہیں۔

گڑیا : جی میرا ہوم ورک توختم ہوگیا ہے بس بیگ سمیٹنا ہے ایک منٹ میں وہ بھی ہو جائے گا۔لیکن اس کے ساتھ مجھے یہ بھی جاننا ہے کہ ہماری تنظیم کی بنیاد کب اور کس نے رکھی تھی؟

دادی جان : یہ تو بہت عمدہ سوال ہے مگر مجھے یہ بتائیں کہ کیاآپ کو پہلے سے معلوم نہیں ؟

گڑیا : جی تھوڑا بہت علم ہے مگر اتنا زیادہ نہیں۔

دادی جان : ہمم چلیں میں آپ کو بتاتی ہوں۔ جولائی 1928ء میں صاحبزادی امۃ الحمید صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی کوشش سے ’’چھوٹی بچیوں کی لجنہ‘‘ قائم ہوئی اور کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد پڑی۔ صاحبزادی موصوفہ کےکی حضورؓکی خدمت میں درخواست کے جلد بعد ہی حضورؓ نے احمدی لڑکیوں کی تنظیم کے قیام کا اعلان فرمایا اور ایک کاغذ پر اپنے دست مبارک سے اس کا نام ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ تحریر فرمایا اور اس طرح اس تنظیم کی ابتدا ہوئی۔

تاریخ لجنہ اماء اللہ کے مطابق بچیوں کے لیے اس شعبہ کی ابتدا تو کئی سال پہلے ہو چکی تھی۔ بنات الاحمدیہ، خادمات الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کے ناموں سے کئی بار بچیوں نے مجالس قائم کیں۔ چونکہ ان کو پورے طور پر لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میسر نہ آئی کچھ عرصہ کام کرکے سست ہوگئیں۔ سال1945ءمیں ناصرات الاحمدیہ کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا گیا اور اس کی سب سے پہلی سیکرٹری 24؍اپریل 1945ء میں طیبہ صدیقہ صاحبہ بیگم خاں مسعود احمد خاں صاحب مقرر کی گئیں۔ ناصرات میں شامل ہونے کے لیے آٹھ سال سے پندرہ سال کی عمر مقرر کی گئی۔ اور مئی 1945ء تک قادیان کے ہر محلہ میں ناصرات کا قیام ہو چکا تھا۔ (تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحہ 634)

گڑیا : چھوٹی بچیوں کی لجنہ ! یہ تو بہت پیارا سا نام ہے۔

دادی جان : جی ہاں۔ لجنہ کا مطلب ہے تنظیم۔ تو لجنہ اماء اللہ کی ہی چھوٹی تنظیم ہوئی ناں۔

گڑیا: بڑی لجنہ کے ساتھ ناصرات الاحمدیہ کی کیا ضرورت تھی؟

دادی جان: عمر کے لحاظ سے تربیت کے مختلف دور ہوتے ہیں۔ لڑکوں کی تربیت اور رنگ میں ہوتی ہے اور لڑکیوں کی اور رنگ میں۔ اس لیے حضرت مصلح موعودؓ نے ہر عمر کے لوگوں کے لیے الگ الگ تنظیم بنائی تا کہ ذہنی و جسمانی اعتبار سے ان کی بہتر تربیت ہو سکے۔ پھر اگر تمام لڑکیوں اور عورتوں کی ایک تنظیم ہوتی تو آپ کی تقریر میں پوزیشن کیسے آتی؟ سارے انعام تو بڑے لوگ لے جاتے۔

گڑیا مسکراتے ہوئے بولی: اوہ تویہ بات بھی صحیح ہے۔ دادی جان! لڑکیوں کی تربیت کیوں ضروری ہے؟ ہم تو زیادہ وقت گھر پر رہتی ہیں اور آپ سے اور امی سے بہت کچھ سیکھ تو لیتی ہیں۔

دادی جان: جی ہاں۔ گھر پر رہ کر تو گھر کی باتیں ہی سیکھیں گی۔ پھر دین کی باتوں کی تفصیل اور رکھ رکھاؤ بھی سیکھنا ضروری ہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر بہت زور دیا ہے۔ پھر یہی نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹیوں کا خاص خیال رکھتے تھے۔ ان کی تربیت کا بھی خیال رکھتے تھے۔ اور بیٹیوں کو انکار نہیں فرماتے تھے۔ آپؑ اپنا عملی نمونہ دکھاتے تھے۔ حضرت امِّ ناصر صاحبہؓ حرم اول حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتی ہیں کہ ’’حضور علیہ السلام مجھ پر نہایت مہربانی اور شفقت فرمایا کرتے تھے۔ مجھے جس چیز کی ضرورت ہوتی حضورؑ سے عرض کرتی حضورؑ اس کو مہیا کر دیتے اور کبھی انکار نہ کرتے۔ میرا اور سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہؓ کا روز مرہ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد ایک دن مَیں اور ایک دن مبارکہ بیگم حضورؑ کے پاس جاتے اور کہتے کہ حضورؑ بھوک لگی ہے۔ حضورؑ کے سرہانے دو لکڑی کے بکس ہوتے تھے۔ حضورؑ چابی دے دیتے۔ مٹھائی یا بسکٹ جو اس میں ہوتے تھے جس قدر ضرورت ہوتی ہم نکال لیتیں، ہم کھانے والی دونوں ہوتی تھیں مگر ہم تین یا چار یا چھ کے اندازہ کا نکال لیتیں اور حضورؑ کو دکھا دیتیں تو حضور علیہ السلام نے کبھی نہیں کہا کہ زیادہ ہے اتنا کیا کرو گی۔‘‘(سیرت المہدی روایت نمبر 1446)

گڑیا :دادی جان جزاکِ اللہ۔ مگر میری اس بات کا جواب بھی بتائیں کہ میں اچھی ناصرہ کیسے بن سکتی ہوں ؟

دادی جان :اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے موٴرخہ 2؍جنوری 2021ء کو نیشنل عاملہ لجنہ اماء اللہ برطانیہ کے ساتھ ایک ورچوئیل ملاقات میں ناصرات الاحمدیہ کو اس Slogan سے نوازا:

Modesty is part of Faith

جو ترجمہ ہے آنحضور ﷺکے اس ارشاد کا اَلْحَیَآءُ مِنَ الْاِیْمَانِ کہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔

گڑیا :اس کا کیا مطلب ہوا ؟

دادی جان : Modesty اپنے لباس، رہن سہن اور آداب زندگی میں شائستگی اختیار کرنا ہے۔ اور اس بات کا ایک احمدی بچی کو ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکرؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے باریک کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ آپؐ نے اس سے اعراض کیا۔ یعنی اِدھر اُدھر ہونے کی کوشش کی اور فرمایا: اے اسماء! عورت جب بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کے منہ اور ہاتھ کے علاوہ کچھ نظر آئے اور آپؐ نے اپنے منہ اور ہاتھ کی طرف اشارہ کرکے یہ بتایا۔ (ابوداؤد کتاب اللباس)

گھر میں بھی مکمل کپڑے پہننے ضروری ہیں اور بچپن سے ہی اس کی عادت ڈالنی چاہیے۔

پھر ایک موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’جو بچیاں آٹھ، نو یا دس سال کی بھی ہیں انہیں مناسب قسم کے فیشن اپنانے چاہئیں۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے چھوٹی احمدی بچیاں بھی بہت ذہین ہیں۔ اس لیے انہیں دین کا علم حاصل کرنا چاہئے اور اپنی ذہانت کو اچھے اور مثبت طور پر استعمال میں لانا چاہئے۔ ایک چھوٹی بچی کے لیے یہ اہم ہو گا کہ اُس کو جو اچھی باتیں اُس کے والدین بتائیں وہ انہیں غور سے سنے اور عمل کرنے کی کوشش کرے۔‘‘(خطاب برموقع نیشنل اجتماع واقفاتِ نَو یوکے 27؍فروری 2016ءمطبوعہ رسالہ مریم واقفاتِ نَو، اپریل تا جون 2016ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنی والدہ سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کے بارے میں فرمایا کہ میری والدہ وہ تھیں جنہوں نے گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ تو نہیں دیکھا لیکن ابتدائی زمانہ دیکھا۔… حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت سے براہِ راست فیض یاب ہونے والوں کی صحبت کا اثر اُن میں نمایاں تھا۔ آپ کا اُٹھنا بیٹھنا، بول چال، رکھ رکھاؤ میں ایک وقار تھا اور وقاربھی ایسا جو مومن میں نظر آنا چاہئے۔….لجنہ کی تربیت کا بہت خیال رہتا تھا۔ اس کے لیے نئے سے نئے طریق سوچتی تھیں۔ نئی تدابیر اختیار کرتی تھیں، ہمیں بتاتی تھیں۔ یہ کوشش تھی کہ ربوہ کی ہر بچی اور ہر عورت تربیت کے لحاظ سے اعلیٰ معیارکی ہو۔ (الفضل انٹرنیشنل مورخہ 26 اگست تا یکم ستمبر 2011ء صفحہ5-9)

گڑیا : شکریہ دادی جان آپ نے مجھے بہت اچھی مثالیں دی ہیں۔ میں کوشش کروں گی ان تمام باتوں پر عمل کروں اور بہت اچھی بچی بن کر دکھاؤں۔ ان شاء اللہ۔

دادی جان : ان شاء اللہ کیوں نہیں۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button