قرآن شریف ہر ایک خُلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگاتا ہے
قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ نخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریرو ں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائےبلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ محل اور موقع گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کاہے۔پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقع بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے۔بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے توبہ کرتا ہےاور بعض وقت ایک مجرم گناہ بخشنے سے اور بھی دلیر ہو جاتا ہے۔پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھوں کی طرح صرف گناہ بخشنے کی عادت مت ڈالوبلکہ غور سے دیکھ لیا کروکہ حقیقی نیکی کس بات میں ہے آیا بخشنے میں یا سزا دینے میں۔پس جو امر محل اور موقع کے مناسب ہو وہی کرو۔افراد انسانی کے دیکھنے سے صاف ظاہر ہے کہ جیسے بعض لوگ کینہ کشی پر بہت حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ دادوں پردادوں کے کینوں کو یاد رکھتے ہیں۔ایسا ہی بعض لوگ عفو اور درگذر کی عادت کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں اور بسا اوقات اس عادت کے افراط سے دیوثی تک نوبت پہنچ جاتی ہے اور ایسے قابل شرم حلم اور عفو اور درگذر ان سے صادر ہوتے ہیں جو سراسر حمیت اور غیرت اور عفت کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ نیک چلنی پر داغ لگاتے ہیں اور ایسے عفو اور درگذر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سب لوگ توبہ توبہ کر اٹھتے ہیں۔انہیں خرابیوں کے لحاظ سے قرآن شریف میں ہر ایک خُلق کے لئے محل اور موقع کی شرط لگا دی ہے اور ایسے خلق کو منظور نہیں رکھا جو بے محل صادر ہو۔
یاد رہے کہ مجرد عفو کو خلق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ایک طبعی قوت ہے جو بچوں میں بھی پائی جاتی ہے۔بچہ کو جس کے ہاتھ سے چوٹ لگ جائے خواہ شرارت سے ہی لگے تھوڑی دیر کے بعد وہ اس قصہ کو بھلا دیتا ہے اور پھر اس کے پاس محبت سے جاتا ہے اور اگر ایسے شخص نے اس کے قتل کا بھی ارادہ کیا ہو تب بھی صرف میٹھی بات پر خوش ہو جاتا ہے۔پس ایسا عفو کسی طرح خلق میں داخل نہیں ہوگا۔خلق میں اسی صورت میں داخل ہوگا جب ہم اس کو محل اور موقع پر استعمال کریں گے ورنہ صرف ایک طبعی قوت ہوگی۔
(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد۱۰ صفحہ۳۵۱، ۳۵۲)