صدائے حق
یہ دور مہدی آخر زمان ہے
کہاں ہے طالب صادق کہاں ہے
ہوا گلزار دیں سر سبز و شاداب
جدھر دیکھو بہار جاوداں ہے
بڑھے کیوں اب نہ شان و شوکت دین
کہ یہ عیسیٰ و مہدی کا زماں آیا
نہ ہو مومن کبھی رحمت سے مایوس
کہ مایوسی تو کافر کا نشاں ہے
شہادت دے چکے شمس و قمر بھی
پھر اب کیوں آنکھ سوئے آسماں ہے
چلو مہدی کی خدمت میں چلو تم
وہی درماں درد جاں ستاں ہے
وہی اسلام کا ہمدرد و مونس
وہی اسلامیوں کا پاسباں ہے
وہی عیسیٰؑ وہی مہدیٔؑ دوراں
وہی موعود ادیانِ جہاں ہے
وہی غالب ہوا ہر معرکہ میں
یہی اس کی صداقت کا نشاں ہے
مقابل جو ہوا اس نے پچھاڑا
یقیناً وہ خدا کا پہلواں ہے
وہ جس کی مدح ہے میری زباں پر
غلام احمد شاہِ جہاں ہے
بہت شیطان نے کی سعی لیکن
نتیجہ اس کی کوشش کا کہاں ہے
اٹھو ڈھونڈو متاعِ آسمانی
یہ دنیا تو مقامِ امتحاں ہے
صدائے حق سنائے جاؤں گا شوقؔ
دہن میں جب تلک گویا زباں ہے