نشاناتِ صداقت آنحضرت ﷺ (قسط نمبر 2)
از: سیدناحضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
پہلے زمانہ کے مخالفینِ اسلام کے حملے کیوں کمزور تھے؟
پہلے مخالفین اسلام پر اس لئے ناپاک اور گندے اعتراض نہ کرتے تھے کہ مسلمانوں کی حکومتوں سے ڈرتے تھے۔ پھر ان کے سامنے ایسے ایسے نمونے موجود تھے جن کی موجودگی وہ اسلام کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ان کی زندگیوں میں ایسا تغیر پیدا کر دیا تھا کہ ان کا مسلمان کہلانا ہی اس بات کے ثبوت میں کافی ہوتا تھا کہ وہ بدی اور برائی کے نزدیک تک نہیں جاتے اور جب لوگوں کا ان پر یہ اعتماد تھا تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا تھا کہ (محمدﷺ) دنیا میں نیکی اور بھلائی پھیلانے والا انسان تھا۔ پھر لوگ ان بزرگوں کو دیکھ کر جو خاص طو رپر ہر زمانہ میں پیدا ہوتے رہے رسول کریم ﷺ کی صداقت پر کوئی ایسا حملہ نہیں کر سکتے تھے جیسے کہ اب کرتے ہیں۔ چنانچہ پہلے زمانہ کے مخالفین کی جو کتابیں موجودہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت جو اعتراض کئے گئے وہ بالکل پھیکے اور بہت کمزور تھے۔ چونکہ اس وقت عام طور پر مسلمانوں کی زندگیاں نقائص اور عیوب سے پاک و صاف تھیں اس لئے اسلام کی تعلیم بھی اعتراضات سے بری تھی اور اسلام مخالفین کے حملوں سے محفوظ تھا۔ کیا بلحاظ اس کے کہ اسلام کی تعلیم ہی ایسی ہے کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا اور کیا بلحاظ اس کے کہ اسلام کی تعلیم کے عملی نمونے مسلمانوں میں موجود تھے اور کیا بلحاظ اس کے کہ مسلمانوں کی جماعتیں اسلام کو پھیلانے کے لئے دنیا میں نکلی رہتی تھیں۔ تمام دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے اور خاص کر گزشتہ جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ کوئی قوم صرف دشمن کے مقابلہ میں اپنا بچاؤ کرتے کرتے اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتی جب تک خود بھی حملہ نہ کرے۔ چنانچہ اس جنگ میں لڑائی کے اس اصل پر خاص طور پر عمل کیا گیا۔ کیونکہ اس طرح دشمن کو اپنے گھر کا بھی فکر پڑ جاتا ہے۔ تو دشمن پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ نہ صرف اس کے حملہ کو روکا جائے بلکہ خود اس پر حملہ کیا جائے۔ اور مذہبی رنگ میں یہی حملہ ہوتا ہے کہ اس مذہب کے نقائص بتائے جائیں۔ اسلام میں گیارہویں بارہویں صدی تک ایسے لوگ ہوتے رہے ہیں جنہوں نےاشاعتِ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کی ہوئی تھیں۔ چنانچہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت سے اسلام نہیں پھیلا۔ بلکہ خواجہ معین الدین اجمیریؒ جیسے بزرگوں کے ذریعہ پھیلا تو ان حالات کے ماتحت اسلام مخالفین کے حملوں سے بچا ہوا تھا اور رسول کریم ﷺکی صداقت میں شبہ نہیں پیدا ہو سکتا تھا۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی حالت
لیکن اس کے بعد وہ زمانہ آیا کہ ایک طرف تو رسول کریم ﷺ سے بُعد اور دوری کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت میں ایسا تغیر آگیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ ایک شخص کا مسلمان کہلانا ہی ضمانت تھی اس بات کی کہ وہ سچ کہے گا۔ مگر ایک یہ وقت آگیا کہ مسلمان کہلانے والوں کو سب سے زیادہ جھوٹا سمجھا جانے لگا۔ پھر ایک تو وہ وقت تھا کہ یوروپین مصنف باوجود اسلام کے ساتھ سخت تعصب رکھنے اور گالیاں دینے کے لکھتے تھے کہ مسلمان عہد کے بڑے پکے ہوتے ہیں جو اقرار کر لیتے ہیں اسے ضرور پورا کرتے ہیں۔ چنانچہ سپین کے واقعات بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ بار بار عہد کئے گئے جن کو ریاستوں نے خود ہی توڑ دیا مگر مسلمانوں نے کبھی کسی عہد کو نہ توڑا۔ اسی طرح صلیبی جنگیں ہوئیں ان کے متعلق یوروپین مصنف اقرا رکرتے ہیں اور وہ مصنف اقرا ر کرتے ہیں جو خود لڑنے کے لئے گئے تھے کہ جب بھی مسلمانوں نے معاہدہ کیا اسے لفظاً لفظاً پورا کیا۔ اس کے مقابلہ میں جرمنی اور فرانس نے عہدناموں کو توڑا۔ تو اس وقت اسلام کا نام ضمانت تھی اس بات کی کہ صداقت اس کے ساتھ ساتھ جاتی ہے۔ مگر پھر وہ زمانہ آگیا کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کو جھوٹا اور فریبی سمجھا جانے لگا اور خود مسلمانوں نے اپنا مسلمان ہونا جھوٹے ہونے کے مترادف سمجھ لیا۔ ایک دفعہ مجھے کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں میں نے غالیچے بنوائے، بنانے والا مسلمان تھا۔ اسکے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس سے دس پندرہ فٹ کم اس نے غالیچے تیار کئے اور قیمت پہلے لے لی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا یہ تم نے کیا کیا؟ اس کے جواب میں بار بار وہ یہی کہے ‘‘میں مسلمان ہوں’’اس پر مجھے غصہ آئے کہ یہ ایسا جواب کیوں دیتاہے۔ کیا مسلمان کے معنی فریبی اور دغاباز اور بدعہد کے ہیں؟ تو مسلمانوں کی یہ حالت ہے اور اس کے لئے کسی بیرونی شہادت کی ضرورت نہیں۔ خود مسلمان شاعروں کے شعر دیکھ لو۔ وہ مسلمانوں کی کیا حالت بیان کرتے ہیں۔ حالی جو فوت ہو گئے ہیں ان کے دل میں مسلمانوں کا درد تھا۔ ان کے شعر دیکھ لئے جائیں وہ کیا کہتے ہیں۔ میں نے ایک مصنف کی کتاب پڑھی ہے وہ ہمارے متعلق لکھتا ہے یہ لوگ کہتے ہیں قرآن میں یہ خوبی ہے اور حدیث میں یہ۔ لیکن ہم ان باتوں کو کیا کریں ہم یہ دیکھیں گے کہ عملی طور پر اسلام کیسا ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتا ہے۔ چلو اسلامی ممالک میں چلیں اور دیکھیں مسلمان کہلانے والوں کی کیا حالت ہے۔ یہ اعتراض گو غلط ہے اور اسلام کی صداقت پر اس کی وجہ سے کوئی حرف نہیں آتا۔ تاہم ایسا ہے کہ ایک مسلمان سن کر شرمندہ ضرور ہو جاتا ہے ولایت میں ایک عیسائی ان کتابوں کو پڑھ کر جو اسلام کی تائید میں لکھی گئیں مسلمان ہو گیا اور اس نے ارادہ کیا کہ چلو ہندوستان چل کر ان لوگوں کو دیکھیں جو مسلمان ہیں۔ اس میں کوئی نقص ہو گا کہ وہ بدقسمتی سے ایسے وقت میں ہندوستان کی ایک ریاست میں پہنچا جبکہ محرم کے ایام تھے اور مسلمان کہلانے والے شیر چیتے کی کھالیں پہن کر ناچ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر اس نے کہا جس مذہب کے ماننے والوں کی عملی حالت یہ ہو اسے کوئی انسان قبول نہیں کر سکتا ا ور وہ مرتد ہو گیا۔ اس پر میں نے اس رئیس کو خط لکھا۔ اب اس نے محرم کے متعلق ایسی قیود لگا دی ہیں کہ بہت کم خلاف انسانیت باتیں کی جاتی ہیں۔
تو اس زمانہ میں مسلمانوں کی ایسی حالت ہو گئی ہے کہ جسے دیکھ کر رونا آتا ہے۔ دنیا کے سارے کے سارے عیب رسول کریم ﷺ پر لگائے جاتے ہیں۔ اگر اس وقت مَیں ان کو بیان کروں تو ہر مومن کے جسم کو کپکپی شروع ہو جائے۔ مگربیان کرنے کی ضرورت نہیں ہر ایک جانتا ہے۔
مسلمان کہلانے والے اسلام کے خلاف
یہ تو عملی کمزوری کی وجہ سے ہوا۔ لیکن مسلمانوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اسلام کے خلاف خود لیکچر دیئے اور کہا اس وقت اور رسول کریم ﷺ کے وقت میں بہت بڑا فرق ہو گیا ہے اس لئے وہ باتیں جو اس زمانہ میں کی گئیں اب نہیں ہو سکتیں۔ چنانچہ ایک شخص نے تجویز پیش کی کہ چونکہ پتلون پہن کر سجدہ نہیں کیا جاسکتا اور یہ جاہل لوگوں کے لئے تھا اس لئے اب اس طرح نماز پڑھنی چاہئے کہ لوگ بنچ پر بیٹھ کر میز پر سر جھکا لیا کریں۔ اسی طرح ہر روز نماز پڑھنے کا حکم زمانہ جہالت کے لئے تھا اب ہفتہ میں صرف ایک بار کافی ہے۔ اسی طرح روزہ یہ ہونا چاہئے کہ پیٹ بھر کے کھانا نہ کھایا جائے نہ یہ کہ سارا دن بھوکا پیاسا رہنا چاہئے۔ اسی طرح بعض مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ اسلام دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا کہہ دیا کہ اسلام سو سال کے اندر اندر دنیا سے مٹ جائے گا۔
کلمہ تک نہ جاننے والے مسلمان
عام لوگوں کی حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کلمہ تک نہیں جانتے۔ پہلے سنا کرتے تھے کہ ایسے بھی مسلمان ہیں جو کلمہ بھی نہیں جانتے۔ مگر سلسلہ احمدیہ میں داخل کرتے وقت چونکہ کلمہ پڑھایا جاتا ہے اس لئے اس بات کی تصدیق ہو گئی۔ بیسیوں مرد اور عورتیں ایسی آتی ہیں جنہیں کلمہ ایک ایک لفظ کر کے پڑھانا پڑتا ہے۔ ایک پٹھان کا قصہ سنا کرتے تھے کہ اس نے ایک ہندو کو پکڑ لیا اور کہا پڑھ کلمہ۔ ہندو نے کہا میں کلمہ جانتا نہیں کیا پڑھوں۔ پٹھان نے کہا پڑھ ورنہ مار دوں گا۔ آخر اس نے مجبور ہو کر کہا کہ اچھا پڑھاؤ پڑھتا ہوں۔ پٹھان نے کہا خود پڑھ۔ ہندو نے کہا میں جانتا نہیں پڑھوں کیا۔ پٹھان نے کہا معلوم ہوتا ہے تمہاری قسمت خراب ہے ورنہ آج تو مسلمان ہو جاتا۔ کلمہ مجھے بھی نہیں آتا۔ میں اس کو ایک لطیفہ سمجھتا تھا اور اب بھی سمجھتا ہوں کہ شاید یہ واقعہ نہ ہو مسلمانوں کی حالت کا نقشہ کھینچنے کے لئے یہ کہانی بنائی گئی ہو۔ مگر بیسیوں کی تعداد میں مرد اور عورتیں مَیں نے ایسی دیکھی ہیں جو باوجود میرے کہنے کے کلمہ کے الفاظ دہرا نہیں سکتیں۔ یہ حالت ہے اسلام کی اور اس اسلام کی جو ایسی کشش رکھتا تھا کہ اس نے وحشیوں اور جاہلوں کو مدبر اور حکمران بنا دیا۔ اس کے ماننے والوں کا آج یہ حال ہے کہ ایک چھوٹا سا کلمہ بھی نہیں پڑھ سکتے۔ پھر راجپوتانہ اور علیگڑھ کے پاس پاس ایسے دیہات ہیں جہاں لوگ کہلاتے تو مسلمان ہیں لیکن انہوں نے گھروں میں بت رکھے ہوئے ہیں اور ہندوؤں کی تمام رسمیں بجا لاتے ہیں۔
اسلام پر اندرونی بیرونی حملے
تو آج وہ زمانہ ہے جبکہ اسلام پر اندرونی اور بیرونی دونوں طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اپنی جو حالت ہے اس کے متعلق کسی قدر تو مَیں نے بتا دیا ہے اور عام طور پر سب لوگ جانتے ہیں۔ جاہل اور بے علم لوگ یوں اسلام سے دور ہو چکے ہیں اور انگریزی تعلیم یافتہ طرح طرح شکوک اور شبہات اٹھا کر اسلام سے متنفر ہو رہے ہیں۔ کہیں ایویلیوشن تھیوری پیش کرتے ہیں کہ انسان ترقی کرتے کرتے موجودہ حالت کو پہنچ گیا ہے نہ کہ خدا نے اسے ایسا ہی پیدا کیا ہے۔ کہیں سائنس کی تعلیم کے غلط نتائج نکال کر اسلام پر حملہ کیاجاتا ہے۔ غرض ایک طرف نئے نئے علوم نے مسلمانوں کے دلوں سے اسلام کی قدر و وقعت کو مٹا دیا ہے اور دوسری طرف مسلمانوں کی عملی حالت دیکھ کر مخالفین حملہ آور ہوتے ہیں تیسری طرف جب مسلمان دنیاوی طور پر گر گئے تو دشمنوں کو اسلام پر اور زیادہ حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔
شاہد کے آنے کی ضرورت
پس یہ وہ وقت ہے جبکہ اس شاہد کے آنے کی ضرورت ہے جو آکر ثابت کر دے کہ محمد ﷺ خداتعالیٰ کی طرف سے تھے خدا کے محبوب اور پیارے تھے۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب شاہد کے آنے کی ضرورت ثابت ہے اور کوئی اس بات کا انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام کے لئے یہ نہایت ہی خطرناک زمانہ ہے۔ آج زمین و آسمان مسلمانوں کے دشمن ہو گئے ہیں آسمان سے جو بلائیں آتی ہیں ان سے مسلمان ہی زیادہ مرتے ہیں۔ اور زمین پر جو لڑائیاں ہوتی ہیں ان میں بھی مسلمان ہی سب سے زیادہ زیرعتاب آتے ہیں۔ ایسی حالت میں رسول کریم ﷺ کی عزت رکھنے اور آپؐ کی امت کو بچانے کے لئے خداتعالیٰ نے کیا سامان کیا؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی کوئی ایسا موقع آئے گا تو خداتعالیٰ انتظام کرے گا۔ چنانچہ وہ خود کہتا ہے کہ میری طرف سے ایک گواہ آئے گا جو اس رسولؐ کی صداقت ثابت کرے گا۔ ہم کہتے ہیں اگر اب خداتعالیٰ نے یہ انتظام نہ کیا تو پھر کب کرے گا۔ ایک شاعر کہتا ہے۔؎
جب مر گئے تو آئے ہمارے مزار پر
پتھر پڑیں صنم تیرے ایسے پیار پر
اگر اسلام خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اگر محمد ﷺ خدا کا سچا رسول ہے اگر قرآن خدا تعالیٰ کا کلام ہے تو آج وہ وقت ہے جبکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اسلام کی مدد ہونی چاہئے۔ ورنہ اگر اب بھی خداتعالیٰ نے مدد نہ کی تو کہا جائے گا کہ اسلام خداتعالیٰ کا سچا مذہب نہیں۔ کیونکہ جب کوئی انسان یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ ایک شخص اس کے سامنے اس کے بچے کی گردن پر چھری چلائے اور وہ چپکا بیٹھا رہے تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ اگر اسلام خدا کی طرف سے ہے، رسول کریم ﷺ خدا کے سچے رسول ہیں، قرآن خداتعالیٰ کا کلام ہے تو جب ان پر طرح طرح کے حملے ہو رہے ہیں خداتعالیٰ کی غیرت جوش میں نہ آئے اور وہ ان کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرے۔ پس اگر رسول کریم ﷺ سچے ہیں اور ہر ایک مسلمان تسلیم کرتا ہے کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایسے سامان ضرور ہونے چاہئیں جن سے محمد ﷺ کی سچائی اس زمانہ میں بھی ثابت ہو ۔
(باقی آئندہ)