ذرائع ابلاغ سکون یا بے سکونی
’ذرائع ابلاغ سکون یا بے سکونی‘ بہت خوبصورت اور وسیع عنوان ہے جس کا احاطہ کرنا تو شاید ممکن نہیں ہوگا کیونکہ میرے نزدیک سکون کا تعلق انسان کی ذات سے ہے اگر اس کا اندر مطمئن ہو تو کوئی بات اسے بے سکون نہیں کرسکتی ۔جبکہ ذرائع ابلاغ تو خدا تعالیٰ کے نشانات کا زندہ و جاوید ثبوت ہے۔ جس سے افادہ کرنا انسان پہ منحصر ہے کہ وہ اس کے مثبت پہلو سے فائدہ اٹھاتا ہے یا منفی اثرات کو اپنے پہ اثر انداز ہونےدیتا ہے ۔
آج سے چند دہائیوں پہلے کا انسان اس کوئیں کے مینڈک کی مانند تھا جس کی دنیا اور سوچ صرف ایک خاص دائرہ اختیار میں گھومتی نظر آتی تھی جو ایک مخصوص قطہ ارض کو ہی اپنی کل کائنات سمجھتا تھا اس کا فہم اور عقل ان تمام باتوں کو قبول کرنے سے عاری تھا جو دور جدید کا حصہ ہیں۔ مجھے ایک بزرگ کا قول یاد آرہا ہے کہ برتن میں وہی کچھ ہوگا جو اس میں ڈالا گیا ہے۔ بظاہر اس بات کا اوپر والی بات سے آپ کو کوئی ربط نہ لگے مگر گہرائی میں جائزہ لیں تو یہ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہےکہ وہ کس چیز کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔ کسی چیز کا منفی استعمال اس چیز کی افادیت کو کم نہیں کردیتا۔ بات سوچ اور زاویہ نگاہ کی ہے اگر آپ اسی ٹول کو مثبت استعمال کریں تو اس سے بڑا ہتھیار اور کوئی نہیں ۔جیساکہ آج کے دور کا انسان بہت زیادہ میچور اور درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت اور قابلیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے پاس ان علوم تک رسائی ہے جو چند دہائیوں قبل کفر کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ تاریخ انسانی میں ایک دور وہ بھی آیا جس میں معلومات کو عامتہ الناس تک پہنچانا کفر کے مترادف قرار دیا جاتا تھا۔ پھر اس کے بعد ہم نے دیکھا کہ قرآن کریم کی پیش گوئی کے مطابق خدا تعالیٰ نے ترویج دین کے لیے ایسے اسباب و ذرائع مہیا فرما دیے جن سے اشاعت دین آسان ہوگئی ۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا کہ
و اِذَا النُّفُوْسُ زُوِّجَتْ
(اورنفوس ملا دئیے جائیں گے، یعنی مختلف النوع افراد و اقوام کا اجتماع و ادغام ہو گا 81:8) ۔اس آیت کے تحت انسانیت ایسے دور میں داخل ہوئی جس سے بالآخرغلبۂ اسلام اور توحید خالص کاقیام عمل میں آنا تھا۔
سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا زمانہ فی الحقیقت یورپ کے صنعتی انقلاب کے ساتھ ساتھ انتشارِ علوم اور ایجاداتِ جدیدہ کے لحاظ سے تاریخِ عالَم کا اہم ترین حصہ تھا۔ سائنسی اور تکنیکی اعتبار سے یہ وہ انقلاب آفریں دور تھا جس میں برقی طاقتوں پر تسلط کے بعد میکانکی اور کیمیاوی قوتوں سے استفادہ کر کے ایک طرف لاؤڈ سپیکر، پرنٹنگ پریس، ساکت و متحرک فوٹو گرافی، ریڈیو، وائرلیس، ٹیپ ریکارڈر، ٹائپ رائٹر اور ذرائع ابلاغ کے دیگر بنیادی عناصر کو عوام الناس کے استعمال میں لایا جانے لگا ۔
ان میسر وسائل و ذرائع کے استعمال اور اس میں نئی نئی جدتوں اور اختراعات کے بر موقع و بر محل استعمال کے ساتھ ساتھ 12 ؍دسمبر 1902 ءکو خدا تعالیٰ سے بذریعہ الہام بشارت پا کر سیّدنا حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان فرمایا:
”یُنَادِی مُنَادٍ مِنَ السَّمَآءِ“
(بدر 19 ؍دسمبر 1902ء)
یعنی ”ایک منادی کرنے والا آسمان سے پکارے گا۔“ اور پھر 1897ءکے اس الہام کی روشنی میں کہ:
”اَلْاَرْضُ وَ السَّمَآءُ مَعَکَ کَمَا ھُوَ مَعِیَ“
(سراجِ منیر روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 83)
کے تحت خدا تعالیٰ نئی جہات اور تائیدات کی طرف اشارہ فرما رہا تھا جس کی تشریح کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”یہ الہام کو حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک ایسے ترجمے کے ساتھ پیش کیا ہے جو خود اپنی ذات میں ایک تشریح اور تفسیر کے معنے رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں یعنی آسمان اور زمین تیرے ساتھ ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانی طاقتیں اور خدائی نوشتے تیری تائید کریں گے۔ اس زمین پر تُو اپنی کوشش کر لیکن آسمان سے ایسی ہوائیں چلائی جائیں گی جو تیری مدد گار ثابت ہوں گی۔“
(خطبہ جمعہ فرمودہ25؍جولائی1997ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍ستمبر1997ءصفحہ7تا8)
چنانچہ آپؑ نے اس زمانے کے ہر علم اور ایجاد کو اعلیٰ مقاصد کے لیے استعمال کیا اور کم فہم اور دین سے بے بہرہ نام نہاد علمائے اسلام کے فتووں کے بر عکس یہ رہنما اصول بیان فرما دیا کہ فی ذاتہٖ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ کوئی بھی شے بے فائدہ و بے مقصد نہیں۔ فی الحقیقت اس کا استعمال اسے بھلائی یا برائی پر منتج کرتا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے اِنہی رہنما اصولوں کی بنیاد پر کلامِ الٰہی کی اس عظیم بشارت
”وَ اَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بَنُوْرِ رَبِّھَا“
(اور زمین اپنے ربّ کے نور سے چمک اٹھے گی 39:70) کی صحیح تفہیم اور عملی تعبیر کی جس کے لیے ربِّ کریم نے
”وَ اِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ“
(اور جب صحیفے نشر کیے جائیں گے یعنی انتشارِ علوم ہو گا 81:11 ) اور
”وَ اِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتْ“
(اور جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی یعنی ایجادات و انکشافات کا دور ہو گا 81:12) کی پیشگوئیوں کے تحت سامان اور وسائل و ذرائع قائم فرما رکھے تھے۔
یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیّدنا حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام تبلیغ اور دعوت الی اللہ کے ہر ذریعے کو اختیار کرنے اور ذرائع مواصلات و ابلاغ کے ہر وسیلے سے استفادہ کرنے کو ہمہ وقت مستعد رہتے۔ بابائے ایجادات تھامس ایڈیسن (Thomas Edison) اور امریکہ میں نظامِ مواصلات کا بانی مبانی الیگزینڈر گراہم بیل (Alexander Graham Bell) حضورؑ کے ہم عصر تھے۔ 1877ءمیں ایڈیسن نے آواز ریکارڈ کرنے کا آلہ فونوگراف (Phonograph) ایجاد کیا جسے 1887ء میں گراموفون (Gramophone) کے ٹریڈ مارک کے ساتھ رجسٹر کیا گیا۔ 1880ء میں گراہم بیل کی وولٹا لیبارٹری (Volta Laboratory) میں کی گئی نئی اصلاحات اور افزائش سے اس ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔
یہ ابتدا تھی اس نئے مواصلاتی دَور کے آغاز کی جس کے نتیجے میں بعد ازاں پچاس کی دہائی سے جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی آوازِ مبارک محفوظ ہونا شروع ہو گئی۔ 27 ؍دسمبر 1952ء کو جلسہ سالانہ پر تعلق باللہ کے موضوع پر اور دسمبر 1953ء میں ”سیرِ روحانی“ کی مشہور اور مقبول عام ”نوبت خانے والی“ تقریر ریکارڈ کی گئی۔ ازاں بعد 1960ء سے 1965ء تک ریکارڈ شدہ تقاریر اور پیغامات مختلف مواقع پر اور خصوصیت سے مستورات کے جلسہ سالانہ پر سنوائے جاتے رہے۔ قبل ازیں 1936ء میں جلسہ سالانہ پر پہلی بار لاؤڈ سپیکر کا استعمال کیا گیا جس سے 25؍ ہزار احباب نے استفادہ کیا۔ اس موقع پر حضورؓ نے فرمایا:
”مَیں سمجھتا ہوں یہ بھی حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک نشان ہے؛ کیونکہ رسولِ کریم ﷺ نے خبر دی تھی کہ مسیحِ موعود اشاعت کے ذریعے دینِ اسلام کو کامیاب کرے گا۔ اور قرآنِ کریم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسیحِ موعود کا زمانہ اشاعت کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نشان کی صداقت کے لیے پریس جاری کر دئیے اور پھر آواز پہنچانے کے لیے لاؤڈ سپیکر اور وائر لیس وغیرہ ایجاد کرائے۔ اور اب تو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ایسا دن بھی آ سکتا ہے کہ مسجد میں وائر لیس کا سیٹ لگا ہوا ہو اور قادیان میں جمعہ کے روز جو خطبہ پڑھا جا رہا ہو وہی تمام دنیا کے لوگ سن کر بعد میں نماز پڑھ لیا کریں۔“
(روزنامہ الفضل قادیان 29 ؍دسمبر 1936ء)
حضورانور ایدہ اللہ نےاپنے خطابات میں بارہا توجہ دلائی ہے کہ مواصلاتی ایجادات کو دین اور خلافتِ احمدیہ سے مضبوط تعلق قائم کرنے کے لیے استعمال کریں تاکہ علمی اور روحانی مائدوں سے فیض یاب ہوسکیں۔ یہی ذرائع دنیا کی سعید فطرت روحوں کو راستی کی طرف کھینچ کراسلام کی آغوش میں لا رہے ہیں۔