متفرق مضامین

ایڈورڈ ہشتم کی دستبرداری (قسط اوّل)

(آصف محمود باسط)

اسلامی نقطۂ نگاہ سے حضرت مصلح موعودؓ کا بصیرت افروز تجزیہ

دنیا بھر میں Netflix کے ناظرین آج کل ڈرامہ سیریز’’دی کراؤن ‘‘ کے چوتھے سیزن سے خوب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ شاہی خاندان میں یہ بڑھی ہوئی دلچسپی ایک مرتبہ پھر لیڈی ڈیانا کی مرہونِ منت ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی گہری تحقیق کے بعد پیش کی گئی ہے، اور اس سلسلہ میں پیش کاروں کو برطانوی شاہی خاندان کی تاریخ پر ثقہ نام اور معروف محققین، مثلاً رابرٹ لیسی(Robert Lacey) وغیرہ نے خاطر خواہ معاونت مہیاکی ہے۔

ہر قسط کے آغاز پر بڑے فخر سے اعلان کیا جاتا ہےکہ ’’اصل حقائق پر مبنی‘‘۔ اس ذومعنی دعویٰ سے یہ گنجائش بھی نکل آتی ہے کہ ان ’’حقائق‘‘کی ترتیب زمانی لحاظ سے افسانوی ہو سکتی ہے۔ یوں کہانی میں ڈرامائی رنگ بھی برقرار رکھا گیا ہے۔

ڈرامہ سیریز ’’دی کراؤن ‘‘کو برطانیہ کی موجودہ ملکہ الزبیتھ دوم کی سوانح عمر ی کی ڈرامائی تشکیل بھی کہا جاسکتا ہے۔ تاہم اس سیریز کے پہلے سیزن میں یہ اشارہ دیا گیا کہ یہ ساری داستان ایک دوسرے بادشاہ یعنی ایڈورڈ ہشتم کی تخت شاہی سے کنارہ کشی کے واقعات کے گرد گھومتی ہے۔ کیونکہ یہی وہ واقعہ ہے جس کے سبب سے بادشاہ جارج ششم تخت شاہی پر فائز کردیا گیا اور پھر اس کی بڑی بیٹی الزبیتھ دوم اس تخت کی وارث ٹھہری۔

پس یہ کہا جاسکتا ہے کہ ڈرامہ سیریز’’دی کراؤن ‘‘، ان مصائب کی عکاسی ہے، جو ستائیس سالہ ایک نوجوان لڑکی کو ناگہاں پیش آئے اوراس کی عام ذاتی زندگی کا گویا خاتمہ ہوگیا۔ کیونکہ تخت نشینی کی قطار میں لگے کسی ولی عہد کی طرح اس لڑکی کوتو روز اول سے منصب شاہی کے تقاضے نبھانے کی تیاری کے مراحل سے گزارا ہی نہیں گیا تھا۔ بلکہ تخت نشینی کی دوڑ میں تیسرے یا چوتھے نمبر سے اٹھا کر بادشاہت سونپ دی گئی۔

سال 1936ء میں نوجوان الزبیتھ دوم کواپنے چچا شاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت شاہی سے علیحدگی کے بعد ایک عجیب صورت حال کا سامنا تھا۔

لیکن یہ ایڈورڈ ہشتم کون تھا؟وہ ایک شہزادہ ؟ایک ولی عہد؟شہزادہ ویلز؟یاپھر ونڈسر محل کے احاطہ (اور دستاویزات) میں مدفون ایک گمشدہ کردار؟

ایڈورڈ: شہزادہ ویلز

شہزادہ ایڈورڈ کو اس کے والد شاہ جارج پنجم نے 13؍جولائی 1911ء میں باضابطہ طور پر شہزادہ ویلز کامنصب و خطاب دیا۔ جنگ عظیم اوّل کے فوری بعد کے زمانے میں متعدد مواقع پر شہزادہ ایڈورڈ اپنے والد کی قائم مقامی میں سلطنت برطانیہ کی نوآبادیات میں خیر سگالی کے دورے بھی کرتا رہا۔ یہی شہزادہ 1922-1921ءمیں ہندوستان کے دورہ پربھی گیا۔

اس دورہ کے دوران وسیع و عریض برصغیر ہندوستان کے شرق وغرب کے مقامی راجاؤں اور صاحبِ ثروت رؤسانے اس شہزادہ کو طرح طرح کے قیمتی تحائف پیش کیے، لیکن اسی دورہ کے دوران اس شہزادے کو ایک ایسا تحفہ بھی پیش کیا گیا جو دنیا کی نظر میں ظاہراً بہت اہم نہ تھا۔ یہ تحفہ ایک کتاب کی صورت میں تھا جو اس شہزادے کو مذہب اسلام کی تعلیمات سے متعارف کروانے کے لیے لکھی گئی تھی۔ لیکن یہ تحفہ پیش کرنے والی جماعت احمدیہ اور اس کے امام کی طرف سے یہ نہایت بیش قیمت تحفہ تھا کیونکہ اسلامی تعلیمات پر مبنی اس کتاب کی اشاعت کا خرچ جماعت کے افراد نے فی کس ایک آنہ ادا کرکے پورا کیا تھا۔

’’ تحفہ شہزادہ ویلز‘‘کے مصنف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد، المصلح الموعودؓ نے اس میں تحریر فرمایا کہ’’بتیس ہزاردو سو آٹھ ممبرانِ جماعت نے اس کتاب کی چھپوائی میں حصہ لیا ہے‘‘۔ حضورؓ نے شہزادہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ’’کم از کم ایک دفعہ شروع سے آخر تک‘‘وہ اس کو ضرور پڑھے۔

یہ کتاب موصول ہونے پر شہزادہ ویلز کے پرائیویٹ سیکرٹری نے جوابی خط میں لکھا کہ’’شہزادہ معظم نے اس کتاب میں درج جماعت احمدیہ کے آغاز کے حالات بہت دلچسپی سے پڑھے ہیں اور جماعت احمدیہ کی جن تعلیمات کا مختصراً ذکر کیا گیا ہے، اُن کو تفصیلاً جاننے کا خواہش مند ہے۔ ‘‘

(Extract from Prince Edward‘s private secretary, HE Sir Geoffrey deMontmorency‘s diary, published in Programmes, Speeches, Addresses, Reports & References in the Press relating to His Royal Highness the Prince of Wales‘ Tour in India, 1921-۔1922, compiled by M O‘Nealey, Foreign and Political Department of the Government of India, Delhi, 1923)

سلطنت برطانیہ کی خصوصی نمائش منعقدہ 1924ء

جنگ عظیم اوّل میں سلطنت برطانیہ کو فتح کے باوجود شدید معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ اس تناظر میں یہ سوچا گیا کہ اپنے زیر نگیں اقوام و ممالک کو یہ باور کرایا جائے کہ اس صورت حال کے باوجود سلطنت برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوا۔

اس سلسلے میں متعدد اقدامات میں سے ایک تجویزسلطنت برطانیہ کی خصوصی نمائش 1924ءکا انعقاد بھی تھا، اور ایڈورڈ شہزادہ ویلز نے اس نمائش کی انتظامی کمیٹی کی صدارت کی پیشکش قبول کر لی تھی۔ اس عظیم الشان اور خصوصی نمائش کی انتظامیہ کا ارادہ تھا کہ اس نمائش کے ذریعہ سلطنت برطانیہ کے جھنڈے تلے جمع اقوام اور اس سے وفاداری کا دم بھرنے والوں کو ایک جگہ جمع ہوکر ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کا موقع مہیا کیاجائے۔

(British Empire Exhibition (1924): Incorporated Handbook of General Information, published by the organising committee, London [British Library])

شہزادہ ایڈورڈ نے کرسیٔ صدارت کی پیشکش کو قبول کیا۔ پس اس نمائش کی انتظامیہ نے شہزادہ ایڈورڈ کی نگرانی اور وزیرِ اعظم جارج لائیڈ کی سرکاری مشینری کے تعاون سے زبردست تیاریوں کا آغاز کردیا۔

یوں ایک عظیم الشان سلطنت کی عالی شان نمائش میں صنعت، ثقافت اور معاشرتی امور کے حوالے سے برطانوی نوآبادیات کی نمائندگی اوروہاں کی مقامی مصنوعات پیش کرنےکا عمل جاری تھا کہ ارباب علم و فضل کے ایک گروہ نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ سلطنت برطانیہ کے ممالک میں بسنے والے لوگوں کے مذاہب کی نمائندگی بھی ضروری ہے۔ اس تجویز کے پیچھے بڑے بڑے ناموں میں

Sir Denison Ross

Francis Younghusband

اور William Loftus Hareوغیرہ تھے۔

(SOAS Special Collections, School of Oriental Studies, London Institution, Governing Body Minutes, Vol 8)

انہوں نے اس نمائش کی انتظامیہ کے سامنے معاملہ رکھا کہ سلطنت میں مذاہب کے تنوع کی عکاسی بھی ضروری ہے۔

یوں سلطنت کے مذاہب کی اس عظیم الشان کانفرنس کا تصوّر ابھرا، جس میں شرکت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کو مدعو کیا گیا، اور آپؓ ایک طویل سفر اختیار فرماتے ہوئے عازم انگلستان ہوئے، تا برطانوی خواص و عوام کو اسلام کے خوبصورت پیغام سے روشناس کر سکیں۔

بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے 1899ء میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ لندن میں مذاہبِ عالم کی ایک کانفرنس منعقد کی جائے جس میں تمام مذاہب اپنے اپنے عقائد پیش کرسکیں۔ آپؑ نے اس غرض سے 27؍ستمبر1899ء کو ایک میموریل شائع کیا جس میں ملکہ وکٹوریہ کو اس تجویز سے آگاہ فرمایا۔

(Memorial addressed to the Empress of India by Hazrat Mirza Ghulam Ahmad, Tabligh-i-Risalat, published by Qasim Ali, Qadian, 1899)

وکٹوریہ کے دَور میں تو یہ ممکن نہ ہوسکا، مگر اس کے پوتے کے دَور حکومت میں 1924ء میں وہ موقع میسر آیا جبکہ ملکہ وکٹوریہ کا پڑپوتا اس کانفرنس کا میزبان ٹھہرا۔ اور یوں حضرت بانیٔ جماعتؑ کی خواہش کی تکمیل ہوئی اور آپ کے صاحبزادہ اور جانشین حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ نے اس میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے سلطنتِ برطانیہ کے خواص و عوام کو متعارف کروایا۔

تخت شاہی سے علیحدگی

کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ نوجوان شہزادہ ایڈورڈ جسے ہندوستان میں اسلامی تعلیم سے آگاہ کیا گیا تھا، اس کی زندگی کے اگلے ایام کتنے پُرمصائب اورتکلیف دہ معاملات میں الجھ کر رہ جائیں گے۔ کیونکہ 20؍جنوری 1936ءکو اپنے والد شاہ برطانیہ، جارج پنجم کی وفات کے بعد نوجوان ایڈورڈ نے سلطنتِ برطانیہ کی ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ سلطنت جس کے زیر نگیں برصغیر ہندوستان سمیت دیگر ممالک اور حکومتیں بھی شامل تھیں۔

برطانوی حکومت کی مشینری اس نئے بادشاہ کو ولی عہدی کے زمانہ میں ہی ایک بارسوخ اور پرولولہ شخصیت کے طور پر دیکھ رہی تھی، جو علامتی شاہی نظام میں ناقابلِ قبول تھا۔ اس نے حکومتی انتظامیہ کی ملک میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی طرف پرزور طریق پر توجہ مبذول کروائی۔ پھر ساؤتھ ویلز میں کان کنوں کے مسائل پر توجہ دی اوربرطانوی حکومت کےمتعلقہ حکام کو ان کی ذمہ داریاں احسن رنگ میں نبھانے کا کہا۔ ان حالات میں جب ایڈورڈ بادشاہ بنا تو جہاں حکومتی اربابِ اختیار طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا تھے وہاں چرچ آف انگلینڈ بھی بادشاہِ وقت سے مکمل مطمئن نہ تھا۔ کیونکہ حکومت اور چرچ کا علامتی سربراہ شاہِ انگلستان ہی ہوتا ہے۔

چرچ آف انگلینڈ کو تو بادشاہ ایڈورڈ ہشتم سے ایک اور اندیشہ بھی تھا، کیونکہ آرچ بشپ آف کینٹربری کے نزدیک شاہ ایڈورڈ عیسائیت سے برگشتہ ایک آزاد خیال آدمی تھا۔ برطانوی شاہی خاندان کی مذہب اور چرچ سے پختہ وابستگی اوران کی مذہبی عبادات کی بجاآوری میں باقاعدگی کے برعکس ایڈورڈ کا میلانِ طبع اور رجحان مذہبی رسومات کی طرف محض رسمی تھا۔ چرچ کے کاروبار کی ڈولتی کشتی کو بچانے کی کوششوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ شاہی خاندان کے مذہبی میلان کو عوام الناس پر ظاہر کیا جائے تاکہ وہ بھی چرچ سے وابستہ رہیں۔

مزید برآں اس نئے بادشاہ کا امریکہ سے تعلق رکھنے والی ایک مطلقہ خاتون سے معاشقہ چرچ کی نظر میں ناگوار اور غیر روایتی عمل تھا۔ یہاں تک کہ بادشاہ کی اس مطلقہ خاتون سے شادی کے ارادہ کو اہل چرچ نے گناہ کے طور پر پیش کیا۔ طویل سازشوں کا شکار ہوکر ایڈورڈ ہشتم تختِ شاہی سے بالآخر دستبردار ہو گیا۔

جماعتی اخبارات میں دستبرداری کی خبر پر تبصرہ

شاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے دستبرداری پرامریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا بھر کے اخبارات و رسائل میں خبریں اور تبصرے شائع ہوئے۔ اس حوالے سے ہندوستان کے اخبارات میں بھی خوب چرچا رہا۔یہاں جماعت احمدیہ کی طرف سے اس کے مرکزی اخبار الفضل قادیان میں 22؍دسمبر 1936ء کے شمارہ میں شائع ہونے والے دلچسپ اور منفرد تجزیہ کا تذکرہ مقصود ہے۔ جس کا عنوان تھا:’’حکومت برطانیہ کا تازہ انقلاب‘‘۔

جماعتِ احمدیہ کے اخبار الفضل نے بھی بادشاہ کی تخت سے علیحدگی کے موضوع پر بالکل ویسا ہی تبصرہ کیا جیسا عمومی طور پر اُس وقت کے پریس میں کیا جارہا تھا۔ اور بالکل وہی رائے اختیار کی گئی، جو برطانوی حکومت تمام سلطنت میں پھیلانا چاہتی تھی۔ چنانچہ اخبار الفضل نے 19 ؍دسمبر 1936ء کے شمارہ میں ایڈورڈ ہشتم کو اسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ اپنی سلطنت کے وسیع تر مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دے رہا ہے۔

اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ امام جماعت احمدیہ عالمگیر نے جامع تجزیہ کرتے ہوئے تفصیلی مضمون تحریر فرمایا، جو 22؍دسمبر کی اخبار میں شائع ہوا۔ آپؓ نے اپنے مضمون کے آغاز میں الفضل میں 19؍دسمبر کو شائع ہونے والے مضمون پر تبصرہ فرمایا کہ بادشاہ کی تخت سے علیحدگی کے متعلق الفضل میں شائع ہونے والا تجزیہ چرچ آف انگلینڈ اور برطانوی حکومت کی پھیلائی ہوئی معلومات سے متاثر ہوکر لکھا گیا ہے۔ آپؓ نے رہ نمائی فرمائی کہ ایک اخبار کاادارتی تجزیہ صرف اور صرف آرچ بشپ آف کنٹربری کی تقریر کے متن سے ماخوذ ہونا ہرگز مناسب نہیں۔ آرچ بشپ کی تقریر بی بی سی پرنشر کی گئی اورتمام پریس نے اسی کو بنیاد بناتے ہوئے اپنی رائے ترتیب دی۔ آپؓ نے آرچ بشپ آف کنٹربری کی تقریر کے مندرجہ ذیل حصے اپنے مضمون میں نقل فرمائے:

’’ایڈورڈ ہشتم کو خدا کی طرف سے ایک اعلیٰ اور مقدس امانت ملی تھی۔ مگر انہوں نے یہ امانت دوسروں کے حوالے کر دینے کے لیے ایک مخصوص صاف بیانی سے کام لیا۔ وہ ہر اقدام ذاتی خوشی کے حصول کے لیے کر رہے تھے۔ یہ امر افسوسناک اور حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے اس قسم کے مقصد کے پیش نظر اتنی بڑی امانت کو چھوڑ دیا۔ ‘‘

الفضل میں نقل کی جانے والی آرچ بشپ کی تقریر کا یہ حصہ اردو میں درج ہے۔ اصل متن برٹش لائبریری میں موجود ساؤنڈ آرکائیو میں سنا جاسکتا ہے۔

(Original speech of Cosmo Lang, the Archbishop of Canterbury; acquired from the British Library Sound Archives, T8077./0404)

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ اس موقع پر صرف آرچ بشپ کی تقریر کے متن پر اکتفا کرتے ہوئے کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے، ان تمام حالات وواقعات کا تجزیہ اور ان کی تفصیلات سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے، جن کی وجہ سے بادشاہ تخت سے دستبردار ہو گیا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا :

’’جو واقعات اخبارات میں شائع ہوچکے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہےکہ

اول:مسزسمپسن کی واقفیت شاہی خاندان سے نئی نہیں۔ وہ شاہ جارج پنجم کے سامنے بھی پیش کی جاچکی ہیں۔ اور اس وقت سے ان کی آمد درباری حلقوں میں ہے۔

دوم:سابق شاہ ایڈورڈ ہشتم بھی ان سے آج ملنے نہیں لگے۔ بلکہ مئی 1936ءسے ان کے تعلقات مسز سمپسن سے نہایت گہرے تھے۔ حتی کہ امریکن اخبارات میں مسز سمسپن کی طلاق کے وقوعہ سے پہلے یہ مضامین شائع ہورہے تھے۔ کہ اب مسزسمپسن طلاق لے لیں گی۔ اور غالبا ًشاہ ایڈورڈ ہشتم سے شادی کریں گی۔ وہ دیر سے شاہی دعوتوں میں بلائی جاتی تھیں۔ جن میں خود وزیر اعظم بھی شامل ہوتے تھے۔ وہ اکثر اوقات شاہی قلعہ میں رہتی تھیں۔ اور شاہی موٹر ان کی خدمت پر مامور تھی۔ ان سب واقعات کو انگلستان جانتا تھا۔ آرچ بشپ صاحب جانتےتھے۔ وزیر اعظم جانتے تھے مگر سب خاموش تھے۔ سوال یہ ہے کہ کیوں ؟

سوم: مسز سمپسن کو انگریزی عدالت میں طلاق ملی۔ ان کی طلاق کے وقت پولیس کی خاص نگرانی کا انتظام کیا گیا۔ پریس کو فوٹو شائع کرنے سے روکا گیا۔ ایک معمولی بروکر کی بیوی کی طلاق پر اس قدر احتیاطیں کیوں برتی گئیں۔ اگر حکومت برطانیہ ان واقعات سے واقف نہ تھی، جو شاہی قصر میں رونما ہورہے تھے۔ تو اسے مسزسمپسن کی طلاق کے موقع پر ایسی احتیاطیں کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھیں اوراس نے یہ احتیاطیں کیوں برتیں۔ کیا ایک ڈیوک کی بیوی کی طلاق پر بھی انگلستان میں ایسی احتیاطیں برتی گئی ہیں ؟ کیا اس واقعہ کی موجودگی میں حکومت کا کوئی افسر یہ کہہ سکتا ہے کہ اسے صرف امریکہ کے اخبارات سے یہ حالات معلوم ہوئے۔

چہارم: اگست میں بادشاہ سیر کے لئے جہاز پر گئے۔ مسزسمپسن بغیر خاوند کے ساتھ تھیں۔ دنیابھر کو معلوم تھا۔ کیا اس وقت کسی نے احتجاج کیا؟ …وزیراعظم نے اپنے بیان میں صاف تسلیم کیا ہے کہ پہلی دفعہ انہوں نے بادشاہ سے اکتوبر کے آخر پر بات کی ہے…حقیقت یہ ہے کہ اس سے بہت پہلے ایسی چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھیں۔ اور یقیناً وہ لوگ حالات سے واقف تھے جو شاہی دعوتوں میں مسزسمپسن کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔

آخریہ جھگڑا شروع ہوتا ہے بشپ آف بریڈ فورڈ کی ایک تقریر پرجس میں انہوں نے یہ کہا تھا کہ بادشاہ کو مذہب کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیئے…۔

بشپ کا یہ کہنا تھا کہ شمالی انگلستان کے اخبارات نے سب سے پہلے شور مچایا۔ اور پھر سارے انگلستان نے شور مچانا شروع کردیا کہ بشپ آف بریڈ فورڈ نے مسز سمپسن کی شادی کے متعلق اشارہ کیا ہے۔ اور اس معاملہ کے متعلق سختی سے جرح شروع کردی گئی…۔

بشپ آف بریڈ فورڈ نے اس مفہوم کا انکار کیا۔ لیکن یہ مخالف اخبارات برابر شور مچاتے گئے۔ کہ بشپ صاحب اب جھوٹ بول رہے ہیں …۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ بشپ بیچارے نے جو کچھ کہا تھا سچ کہا تھا۔ اس کا مطلب مسزسمپسن کی شادی کی طرف اشارہ کرنا نہ تھا۔ بلکہ یہی تھا کہ بادشاہ معظم کو عیسائیت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہئے…۔

خدا بھلا کرے کرنل وج وُڈ ممبر پارلیمنٹ کا کہ انہوں نے عین پارلیمنٹ میں اس راز کو فاش کر دیا۔ کہ مسزسمپسن کی شادی تو ایک اتفاقی امر تھا۔ جو پیدا ہوگیا۔ اصل سوال یہی تھا کہ بادشاہ عیسوی مذہب کے پوری طرح قائل نہیں ہیں …۔

جب پارلیمنٹ میں مسزسمپسن کی شادی کا مسئلہ زیر بحث تھا، کرنل وج وُڈ صاحب کھڑے ہوئے اور سادگی سے اصل مبحث کے متعلق تقریر شروع کردی۔ اور صاف کہہ دیا کہ صاحبان تاجپوشی کی رسم پر اگر ہمارے پیارے بادشاہ نے مذہبی رسوم ادا کرنے سے انکار کردیا ہے تو اس پر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ تاجپوشی کے معنے صرف تاجپوشی کے ہیں۔ یہ کوئی مذہبی عبادت تو ہے نہیں کہ اگر آرچ بشپ آف کنٹبری نے برکت نہ دی تو بس عبادت خراب ہوگئی۔ اگر ہمارا بادشاہ مذہبی رسم کو غیر ضروری قرار دے کر اس سے منکر ہے تو اس پر اس قدر ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں۔ اور اگر کنٹبری اور یارک کے آرچ بشپ اور ہمارے وزیر اعظم اس کو مذہبی ہتک خیال کرتے ہوئے کارونیشن کی رسم میں شامل ہونے سے انکار کریں تو ہمیں اس پر بھی برا منانے کی کوئی وجہ نہیں۔ کیونکہ یہ ان کا اپنا کام ہے۔ ہمارا حق نہیں کہ جبر کریں …۔

اس تقریر نے واقعات سے ملکر بالکل واضح کردیا کہ مسزسمپسن کا واقعہ اصل متنازعہ فیہ امر نہ تھا۔ یہ تو ناراضگی کے اظہار کا ایک اتفاقی واقعہ بہم پہنچ گیا۔ اصل واقعہ یہ تھا کہ جب کارونیشن کی رسوم کی تفصیل طے کرنے والی کمیٹی بیٹھی اور اس نے بادشاہ کے سامنے اپنی رپورٹ رکھی تو بادشاہ نے مذہبی رسم کا حصہ اداکرنے سے صاف انکار کردیا۔ اور صاف کہہ دیا کہ میں اس پر یقین نہیں رکھتا…۔

میں کہتا ہوں کہ کیا سوال یہ تھا کہ بادشاہ ایک عورت کو قبول کریں یا بادشاہت کے فرائض کو؟ یا بادشاہ ایک ایسے اصل کو قبول کریں جو بادشاہت سے بھی زیادہ تھا…یقینا ًسوال بادشاہت اور عورت کا نہ تھا۔ بلکہ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ سوال دو اصول کا تھا۔ پادریوں اورا ن کے ہمدردوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہورہا تھا کہ ایک بادشاہ جسے ڈیفنڈر آف فیتھ کہا جاتاہے یعنی محافظ عیسائیت۔ اگر وہی بعض مذہبی رسوم ادا کرنے سے انکار کردے۔ تو ملک کی طاقت اور اس کے اتحاد کا کیا باقی رہ جاتا ہے۔ اور بادشاہ کے دل میں یہ سوال تھا کہ جس چیز کو میرا دل نہیں مانتا میں اسے کس طرح حکومت کی خاطر تسلیم کر لوں …۔

ہمیں اِس وقت تک نہیں معلوم کہ سابق بادشاہ کے اصل عقائد کیا تھے …لیکن ہم یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتے کہ ان کا جو کچھ بھی عقیدہ تھا انہوں نے اس کی خاطر ایک عظیم الشان بادشاہت کو چھوڑنا پسند کیا۔

اب میں اس معاملہ کو لیتا ہوں جو ذریعہ بن گیا اس جھگڑے کے فیصلے کا۔ جو اندر ہی اندر چل رہا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ گو مذہب کا جھگڑا بھی جاری تھا لیکن بادشاہ نے تخت چھوڑا تو مسزسمپسن سے شادی کے سوال پر ہے۔ تو پھر اسے قربانی کیونکر کہا جاسکتا ہے؟‘‘

(الفضل قادیان22؍دسمبر1936ء)

یہاں حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے وضاحت سے سمجھایا کہ کس طرح چرچ آف انگلینڈ کے مطابق ایک طلاق یافتہ عورت سے شادی کرنا ایک مذہبی معاملہ تھا۔ حضورؓ نے بتایا کہ چرچ کو مسزسمپسن کی اخلاقی حالت پرکوئی اعتراض نہ تھا بلکہ چرچ کا سوال اس خاتون کے دو دفعہ طلاق یافتہ ہونے اور پہلے دونوں شوہروں کے زندہ موجود ہونےپر تھا۔

یہاں حضورؓ نے سوال اٹھایا کہ مسزسمپسن کی طلاق کی کارروائی جس برطانوی عدالت نے مکمل کی تھی اس کا قانون برطانوی پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ اب اگر طلاق لینا اتنا ہی مکروہ فعل تھا تو پارلیمنٹ نے کیونکر اس کی منظوری کے لیے قانون سازی کی ؟ اور اگر مطلقہ ہونا ایسی کوئی بات نہیں تھی تو پھر بادشاہ کی ایک طلاق یافتہ سے شادی پر اعتراض کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

حضورؓ نے فرمایا کہ ’’سابق بادشاہ قانون کے مطابق شادی کرنے کا پورا اختیار رکھتا تھا۔ اگر یہ بات ہے تو پھر یہ کہنا کہ بادشاہ نے بادشاہت کو ایک عورت کی خاطر چھوڑ دیا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟‘‘

اس مضمون میں حضورؓ نے تفصیل سے بیان فرمایا کہ اصل مسئلہ کی جڑ کیا تھی۔ یہ بادشاہ کے شادی کرنے یا نہ کرنے کا سوال تھا ہی نہیں، بلکہ اس سے ہٹ کرکوئی اور سوال تھا جس کے باعث بادشاہ کو یہ طریق اختیار کرنا پڑا۔ کیونکہ بادشاہ پر زور ڈالا جاتا تھا کہ اگر ایک مطلقہ عورت سے شادی کی تو ملک دو ٹکڑے ہوجائے گا۔ جو لوگ طلاق کے قائل نہیں وہ اس بات سے دل برداشتہ ہو کر حکومت سے الگ ہوجائیں گے۔ اور خصوصاً آئرلینڈ اور کینیڈا کا نام لیا جاتا تھا کہ ان میں اکثریت رومن کیتھولک عقیدہ رکھنے والوں کی تھی جو طلاق کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔

اس مسئلہ پر بادشاہ اور حکومتی وزراء کے درمیان تفصیلی بحث ہوئی۔ حضورؓ نے اپنے مضمون میں اس بحث کا تجزیہ بھی فرمایا۔ بادشاہ اور حکومت کی اس باہمی کشمکش کے بعد بڑی الجھن یہ سامنے آتی ہے کہ

’’بادشاہ دیکھ رہا تھا کہ میرے سامنے دو چیزیں ہیں۔ ایک طرف ملک نہیں بلکہ ملک کی ایک اقلیت کی خواہش کہ مطلقہ عورت سے شادی نہیں کرنی چاہئے اور دوسری طرف یہ سوال کہ ایک عورت جو مجھ سے شادی کے لئے تیار ہے اور جس سے شادی کے لئے میں وعدہ بھی کر چکا ہوں …۔

ایک طرف ایک اقلیت ہے جسے قانون کوئی حق نہیں دیتااور دوسری طرف ایک ایسے وجود کو زیر الزام لاکر چھوڑنا ہے جسے قانون شادی کا حق بخشتا ہے۔ یقیناً اس صورت میں بادشاہ کے پاس صرف ایک ہی راستہ کھلا تھاکہ وہ اس کا ساتھ دیتا جس کے ساتھ قانون تھا۔ ‘‘

اس مضمون کے بعد کے حصوں میں حضورؓ نے نہایت دلچسپ اور ایمان افروز پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے علیحدگی کو آخری زمانہ میں عیسائیت کی حالت سے متعلق اسلامی پیشگوئی کے احوال سےجوڑ کر بیان فرمایا اور طلاق کے متعلق دین فطرت یعنی اسلام کی تعلیمات سے آگاہی بخشی۔ آپؓ نے فرمایا:

’’ہمارے لئے تو یہ سوال ایک اور طرح سے بھی اہم ہے اور وہی میرے اس وقت یہ مضمون لکھنے کا موجب ہوا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیش گوئی پوری ہوئی ہے۔ اور آپﷺ پر لگائے جانے والے اعتراضوں میں سے ایک اعتراض دور ہوا ہے۔

پیش گوئی تو یہ ہے کہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں عیسائیت آپ ہی آپ پگھلنا شروع ہوجائے گی۔ اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ مسیحیت کی نمائندہ حکومت میں یعنی دنیا کی اس واحد حکومت میں جس کے بادشاہ کو محافظ عیسائیت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ایسے تغیرات پیدا ہورہے ہیں کہ اس کے ایک نہایت مقبول بادشاہ نے مسیحیت کی بعض رسومات ادا کرنے سے اس وجہ سے انکار کر دیا کہ وہ ان میں یقین نہیں رکھتا۔

اور اعتراض جس کا ازالہ ہوا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق کو جائز قرار دیا اور مطلقہ عورتوں سے شادی کی۔ کیونکہ دنیانے دیکھ لیا کہ طلاق کی ضرورت اس شدت سے تسلیم کی جاتی ہے۔ اور مطلقہ عورت کی عزت کو جبکہ وہ اخلاقی الزام سے متہم نہ ہو اس صفائی سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اس سوال کو حل کرنے کے لئے اپنی بادشاہت کو ترک کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں۔

پادری سمجھتے ہیں کہ وہ اس جنگ میں کامیاب رہے ہیں لیکن ایڈورڈ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی کیونکہ وہ پیش گوئیوں کے ماتحت ہوئی۔ یہ بیج بڑھے گااور ایک دن آئے گا کہ انگلستان نہ صرف اسلامی تعلیم کے مطابق طلاق کو جائز قرار دے گا بلکہ دوسرے مسائل کے متعلق بھی وہ اسلامی تعلیم کے مطابق قانون جاری کرنے پر مجبور ہوگا…۔

خداتعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ شاہ ایڈورڈ کے آخری ایامِ حکومت میں ان کے خیالات کی رَو کس طرف جارہی تھی۔ لیکن جو کچھ واقعات سے سمجھا جاسکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ سمجھتے تھے کہ مجھے اپنے ملک کے مذہب سے پوری طرح یا جزوی طور پر اختلاف ہے۔ بعض بڑے پادریوں کو مجھ سے شدید اختلاف پیدا ہوچکا ہے جب وہ ایک ایسے امر سے مجھے روک رہے ہیں جس کی قانون اجازت دیتا ہے تو کل وہ مجھ سے اور کیا کچھ مطالبہ نہ کریں گے…۔

وہ پادری جو سابق بادشاہ کی مخالفت کررہے تھے ان کے خیالات کی رو یہ معلوم ہوتی ہے کہ بادشاہ مذہب عیسائیت سے متنفر معلوم ہوتا ہے۔ آج موقع ہے کہ آئرلینڈ اور کینیڈا کیتھولک مذہب کے زور کی وجہ سے مسئلہ طلاق میں تعصب رکھتے ہیں۔ اگر اس وجہ سے ہم بادشاہ کا مقابلہ کریں تو جن دو نتائج کے نکلنے کا امکان ہے وہ دونوں ہی ہمارے حق میں مفید ہوں گے۔ اگر بادشاہ دب گیا تو آئندہ کو ہمارا رعب قائم ہوجائے گا۔ اور بادشاہ تخت سے الگ ہوگیا تو ہمارے راستہ سے ایک روک دور ہوجائے گی…۔

خلاصہ یہ کہ بادشاہ کے ساتھ بعض لوگوں کا (انگلستان کا نہیں )جھگڑاوہ نہیں تھا جو بعض ناواقف لوگ سمجھتے ہیں۔ بلکہ مذہب اور قانون کے احترام کا جھگڑا تھا۔ بادشاہ اپنے منفرد مذہب پر اصرار کرتا تھا۔ اور پادری قومی مذہب پر۔ (حالانکہ قومی مذہب مذہب نہیں سیاست ہےجبکہ اس کا اثر اصولی مسائل پر بھی پڑتا ہو)اور بادشاہ قانون کا احترام کرتے ہوئے قانون پر عمل کرنے کو تیار تھا لیکن اس کے مخالفوں کا یہ اصرار تھا کہ یہ قانون دکھاوے کے لئے ہے۔ عمل کرنے کے لئے نہیں۔ قانون طلاق کی اجازت دیتا ہے مگر مذہب نہیں۔

بادشاہ چونکہ مسیحیت کے کل طور پر یا جزوی طور پر قائل نہیں رہے تھے۔ انہوں نے قانون پر زور دیا۔ جو ان کے ضمیر کی آواز کی تصدیق کرتا تھا۔ اور آخر ملک کو فساد سے بچانے کے لئے تخت سے دست برداری دے دی۔

بعض احباب جو ایک حد تک واقعات کی تہہ تک پہنچے ہیں ان حالات کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ زندہ باد ایڈورڈ!

یہ بھی درست ہوگا۔ مگر میں تو ان حالات کے محرکات کو دیکھتے ہوئے یہی کہتا ہوں :

محمد زندہ باد۔ زندہ باد محمدﷺ ‘‘

یہ مضمون حضرت مصلح موعودؓ نے بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کی تخت سے دست برداری کے محض چند روز بعد تحریر فرمایا۔ حضورؓ کی اس معاملہ کی باریکیوں سے آگاہی قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ہزاروں میل دور ایک قصبہ میں بیٹھ کر سلطنت برطانیہ میں بادشاہ وقت، شاہی خاندان، عیسائی چرچ، حکومت وقت کے ارباب اختیار، ملکی اور عالمی پریس، حتیٰ کہ شاہی محل کے اندر اور باہر کے واقعات سے گہری آگاہی رکھنا، یقیناً حیران کُن امر ہے۔

شاہی خاندان کا اضطراب

عصر حاضر میں ایڈورڈ کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے لیڈی ڈیانا کے کردار سے مدد لی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں کے اندر ہی برطانوی شاہی خاندان کی روایتی عادات اور مخصوص رکھ رکھاؤ کا میلان نہ تھا۔ دونوں کو ہی عامۃ الناس سے خاص لگاؤ تھا اوردونوں ہی عوام کے دلوں میں بسنے والے وجود تھے۔ دونوں شادی کے باعث مصائب کا شکار ہوئے۔

مؤرخ Adrian Phillipsکی رائے میں شہزادہ ویلز ’’برطانوی شاہی خاندان کا وہ پہلا رکن تھا جس کا برطانیہ کے اندر اور باہر عوام الناس سے سب سے زیادہ اور مستحکم رابطہ اور تعلق تھا۔ گویا کہ وہ بیک وقت شاہی خاندان کا فردمگر عوام کی آنکھ کا تارا تھا۔ ‘‘

(Adrian Phillips, The King Who Had to Go: Edward VIII, Mrs Simpson and the Hidden Politics of the Abdication Crisis, Biteback Publishing, London, 2016)

برطانوی عوام کو تو یہ بات اچھی معلوم ہورہی تھی، مگر شاہی خاندان نے ان غیر شاہی طور طریقوں کو کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہ دیکھا۔ ’’ایڈورڈ کو اس کے والد کی سخت گیری اور قدامت پسند ی کے مقابل پر تازہ ہوا کا جھونکا خیال کیا جاتا تھا۔‘‘لیکن ایڈورڈ کے ان اطوار سے جہاں اُس کو عوام کی محبت ملی، وہیں ایڈورڈ کی باقی زندگی کے دن اپنے والد اور باقی شاہی خاندان کی نظروں میں کھٹکنے ہی تھے۔

شہزادہ ایڈورڈ کو اپنے والد کے حکم پر جو خصوصی شاہی لباس پہننا پڑتا، اس کو وہ اہتمام بھی بوجھل معلوم ہوتا۔ اسی وجہ سے شہزادہ ایڈورڈ وہ لباس زیادہ پسند کرتا جو اسے برطانوی عوام کے زیادہ قریب رکھتا۔ شہزادے کو اپنے والد کی طرف سے برملا تنقید بھی سننا پڑتی تھی، گو کہ عمومی طور پر درپردہ ہی ہوتی۔

(Philip Ziegler, King Edward VIII, Harper Collins, London, 2012)

بادشاہ تو ایڈورڈ کے دوستوں اور قریبیوں کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا اور ایڈورڈ کی ہر مزعومہ برائی اور خراب عادت کو ایسے دوستوں کی صحبت کا نتیجہ قرار دیا کرتا۔ شہزادہ ایڈورڈ کا تقاضا بزبانِ حال یہ تھا کہ جب اس سے بطور شہزادہ تکلفات کی توقع کی جائے تووہ حاضر ہے مگر اپنی نجی زندگی میں وہ بطور عام شہری بھی جینے کا حق رکھتا ہے۔ یہ سوچ اور مطالبہ بھی شاہی خاندان کی نگاہ میں سراسر غیر شاہی اور ناقابلِ قبول تھا۔

شہزادے کی جوانی میں ہر طرح کی عورتوں کے ساتھ معاشقوں سے بادشاہ شدید اکتاہٹ کا شکار تھا۔ کیونکہ جارج پنجم کا خیال تھا کہ اس کے اس جانشین کے معمولی، ناجائز، غیر محتاط معاشقے جہاں بدنامی کے داغ لگائیں گے وہاں اس کے مستقبل میں تخت نشینی پر اُس کی مقبولیت کو بھی کم کر دیں گے۔ یوں شہزادہ شاہی خاندان کے لیے سبکی کا باعث بھی بن سکتا ہے کیونکہ بالآخر اس ولی عہد نے اس سلطنت کی باگ ڈور سنبھالنی ہے جو محافظ عیسائیت کہلاتی ہے۔

(Phillips, The King Who Had to Go)

ایڈورڈ شہزادہ ویلز کی جدت پسندی کا رجحان جہاں نوجوان اور عوام الناس میں مقبول تھا، وہاں اسے شاہی خاندان کی طرف سے شدید دباؤ اور مخالفت کا سامنا تھا۔ وہ بھی ایک ایسے دورمیں جب ہر جانب بادشاہی نظام شکست و ریخت کا شکار تھے۔

ایسے میں شاہی خاندان کے افراد کے لیے ضروری تھا کہ وہ عوام کی دسترس سے دُور، محلات کی مضبوط دیواروں میں مافوق الفطرت مخلوق کا سا تاثر قائم کر کے رہیں تا عوام پر ان کا رعب باقی رہے۔ ایڈورڈ ایسی زندگی بسر کرنے سے کلیۃً بیزار تھا اور اس کا ہر عمل اس بات کا ثبوت تھا۔

برطانوی حکومت اور شاہ ایڈورڈ ہشتم

شہزادہ ایڈورڈ کے والد شاہ برطانیہ جارج پنجم کی بادشاہت کے زمانہ میں Stanley Baldwin وزارتِ عظمیٰ پر دو مرتبہ فائز ہوا۔ اس قدر طویل مدت اور دیگر کئی عوامل کی وجہ سے بادشاہ سے اس کے گہرے اور دوستانہ مراسم تھے۔ بلکہ تمام شاہی خاندان کی ہی وزیر اعظم سے بے تکلفی تھی۔ ایک موقع پر جارج پنجم نے وزیر اعظم Stanley Baldwinکو لکھا کہ وہ اپنے بیٹے ایڈورڈ کی طرف سے خاصا فکرمند ہے، جو کہ سلطنت کا ولی عہدہے اور مستقبل میں تخت شاہی پر بیٹھے گا۔ بادشاہ نے لکھا کہ ’’میرے مرنے کے بعد یہ لڑکا خود کو محض بارہ مہینوں میں ہی برباد کرلے گا۔ ‘‘

(Windham Baldwin Papers, 3./3./14, Cambridge University Library)

برطانوی خاندان کے مؤرخین اور سوانح نگاروں کے نزدیک شاہ جارج پنجم کی ان تمام پریشانیوں کا سبب ایڈورڈ کا ’’غیر شاہی‘‘ رویہ تھا۔

وزیر اعظم بالڈوِن اور حکومتِ وقت کا شہزادہ ایڈورڈ سے وابستہ اندیشوں کا محرک اس نوجوان شہزادے کی رنگین مزاجی نہ تھی بلکہ اس ولی عہد کی عوام میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غیرمعمولی مقبولیت، سیاسی معاملات میں رائےاور پھر اپنی اس رائے کا اظہار کرنے کی عادت نے وزیر اعظم اور اس کے ساتھیوں کو اندیشوں میں دھکیل دیا کہ اگر یہ شخص بادشاہ بن گیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ کیا شاہی خاندان کا یہ فرد، بادشاہ بن کر سیاسی معاملات میں بھی دخل اندازی کرے گا؟

روایتی طور پر یہی سمجھا جاتا تھا کہ شاہی خاندان کے افراد دیگر لوگوں سے محض ایک مختصر، خوشگوار، اورپُرتکلف سلام دعاہی کرسکتے ہیں۔ لیکن ایک موقع پر جب برطانوی حکومت کے ارکان غیر ملکی سفارتکاروں کی ایک دعوت میں جمع تھے، تب شہزادہ ایڈورڈ نےاس روایت کو پامال کرتے ہوئے روسی سفیر Ivan Maisky سے ایک غیر معمولی طویل گفتگو شروع کردی۔

(Gabriel Gorodetsky (Ed), The Maisky Diaries: Red Ambassador to the Court of St James‘s 1932.-1943, 15 November 1934)

نوجوان ایڈورڈ کی طرف تو حکومت کے صاحبانِ حل وعقداور آرچ بشپ آف کنٹبری تو پہلے ہی مشکوک نگاہوں سےدیکھ رہے تھے، مگر یہ سب گویا سکتے ہی میں آگئے جب ایڈورڈ نے روسی سفیر سے گفتگو کے دوران برطانیہ کے جرمنی اور فرانس کے ساتھ سفارتی معاملات پر اظہارِ رائے بھی شروع کردیا۔

(Phillips, The King Who Had to Go)

1934ء میں ایک دعوت کے دوران روسی سفارت کارسے ایڈورڈ کی طویل ملاقات سے شروع ہونے والی داخلی کشمکش پر روزبہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا گیا اور نوجوان شہزادے کی ہر مصروفیت اور دلچسپی حکومتی حلقوں میں جلتی پر تیل کا کام کرتی گئی۔ مثلاً British Legionسے خطاب کرتے ہوئے ایڈورڈ نے کہا کہ اب جرمنی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے، Legionکےکچھ ممبران کو اُن کے پاس بھیجنا چاہیے، تاکہ سفارتی تعلقات کو مضبوط کیا جاسکے۔

(The Times, London, 12 June 1935)

شہزادے کے اس بیان کو سیاسی امور میں شاہی خاندان کی مداخلت تصور کیا گیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ شہزادے کی رائے تھی بھی برطانوی سفارتی پالیسی سے متضاد۔

اس کے معاً بعد شہزادہ ایڈورڈ نے Berkhamsted School میں تقریر کی اور اس خطاب میں اس حکومتی پالیسی سے اختلاف کیا جس کے مطابق طلباء مشق کے طور پر بھی ہلی بندوقوں سے بھی فائرنگ کی تربیت نہیں لے سکتے تھے۔ یہاں شہزادے نے گویا اپنے خلاف ایک نیا ہی محاذ کھول لیا جب اس نے کہا کہ ایسے پالیسی ساز دراصل خود غیر تربیت یافتہ ہیں۔ نیز ایڈورڈ نے کہا کہ ’’میں تو ایسے لوگوں کو بے عقل کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ‘‘

(The Times, London, 13 June 1935)

وزیر اعظم بالڈوِن نے طیش میں آکر ان دونوں تقاریر کا متن کابینہ کے سامنے رکھا اور مشاورت طلب کی۔ تبادلہ خیال کے بعد طے پایا کہ یہ معاملہ بادشاہ کے علم میں لایا جائے اور انہیں کہا جائے کہ وہ شہزادے کو محتاط رہنے کی نصیحت کریں۔ برطانوی کابینہ کے اس اجلاس کی کارروائی کا خلاصہ بادشاہ کو ارسال کردیا گیا۔

(National Archives, CAB 23./82, 19 June 1935)

کیا یہ محض حکومتی معاملات میں مداخلت کا معاملہ تھا اگر واقعی ہی ایسا تھا تو حکومتی وزراء خود ہی شہزادے کوسمجھاسکتے تھے۔ لیکن سب دیکھ رہے تھے کہ شہزادے کی مقبولیت عوام الناس میں روز افزوں ہوکر اس قدر بلند درجے تک پہنچ چکی تھی جو حکومت کے لیے عملی اقدام کا متقاضی تھا۔ حکومتی حلقوں کو نظر آرہا تھا کہ ایڈورڈ بادشاہ بن کر صرف ایک روایتی تخت نشین اور حکومت کا آئینی اورعلامتی سربراہ ہی نہیں رہے گا بلکہ ’’صدر مملکت‘‘کا لبادہ اوڑھ کر حکومتی معاملات میں دخل اندازی بھی کرے گا۔ شہزادے کی نازی جرمنی میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے حکومتی حلقے اسےایک مطلق العنان حاکم کے طور پر دیکھنے لگے تھے۔

اسی طرح ایڈورڈ کی سلطنت کے زیر نگیں د وردراز کے علاقوں کے دورہ جات نے بھی اس کی شہرت اور پذیرائی میں غیر معمولی اضافہ کردیا تھا۔ مثلاً شہزادے کی ایسے دورہ جات میں مصاحبت کرنے والے Admiral Halsey نے رپورٹ لکھی کہ’’شہزادہ غیرمعمولی محنت کا عادی ہے۔ ‘‘

Admiral Halseyکا خط بنام Lord Stamfordham بتاتا ہے کہ ان دورہ جات کے دوران شہزادہ عوام سے ملاقات کرکے زیادہ راحت محسوس کرتا تھا، اس کو تو قریبا ًہر ایک زیر علاج سپاہی کی عیادت کرنا پسند تھااوران صاحب فراش سپاہیوں کی عیادت اور دلجوئی میں یہ شہزادہ وقت کا احساس بھی بھلا دیتاتھا۔

(Phillips, The King Who Had to Go)

شہزادے کے اس التفات پر اسے بدلے میں اس سے بھی زیادہ چاہت اور احترام کا برتاؤ ملتا تھا۔

پس ان حالات میں جب ایڈورڈ تخت نشین ہوا تو کہا گیا کہ یہ نیا بادشاہ شاہی خاندان میں سے برطانوی عوام میں سب سے زیادہ معروف اور سب سے زیادہ ہر دل عزیز شخصیت ہے۔

(Duke of Connaught to Princess Louise, Royal Archives, RA Vic Add A 17/.1590)

اور اس بادشاہ کو ملک میں بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے زیادہ فکر ہے۔

(Clement Attlee, As it Happened, William Heinemann, London, 1954)

اس نئے بادشاہ کی عام معلومات کی وسعت غیر معمولی ہے۔

(Hugo Vickers, Cecil Beaton: An Authorised Biography, Hodder & Stoughton, London, 2020)

یہ بادشاہ اپنے ملنے والوں کے نام تک بھی نہیں بھولتا، اور اس کا شماریاتی حقائق کا علم بھی بہت پختہ ہے۔

لیکن وقت نے ثابت کیا کہ جیسے جیسے چہروں سے نقاب اترتے گئے یہی سامنے آیا کہ نئے بادشاہ کے ساتھ کام کرنے والے یہ سب سیاست دان اور سرکاری عہدیدار منہ پر تو نئے بادشاہ کی مدح سرائی کرتے تھے لیکن درپردہ یہی لوگ نئے بادشاہ کے دشمن تھےاور اس کے منصوبوں کے سدِراہ۔

ایڈورڈ خود بھی اپنی مقبولیت سے آگاہ تھا اور بطور شہزادہ ویلز ان معلومات کی اہمیت سے بھی خوب واقف تھا جو اسے بطور شہزادہ ویلز سلطنت سے متعلق حاصل ہوئی تھیں۔ کئی سال بعد سامنےآنے والی یادداشتوں میں ایڈورڈ نے لکھا کہ’’محض 41 سال کی عمر میں میں نے قریباًوہ سب کچھ ہی دیکھ لیا تھا جو میرے لیے اپنے مقام و مرتبہ کے مطابق ممکن تھا۔ مثلا ًجنگ ِعظیم اوّل نے مجھے غیر معمولی مواقع فراہم کیے کہ میں ہرطرح کے انسانوں سے قریب ہوکر ان کے اصل حالات سے درست ترین واقفیت حاصل کر سکوں۔ میں نے دنیاکے قریباً تمام قابل ذکر ممالک کاسفر کرکے وہاں کا تفصیلی دورہ کرلیا، سوائے سوویت روس اور بعض چھوٹے ممالک کے۔ میں نے سلطنت برطانیہ کے اندر ہر طرح کی کامیابیاں بھی دیکھ لی ہیں اور شکست کے نظارے بھی۔ غرض سلطنت کے تمام اچھے برے پہلوؤں سے ذاتی طور پر صاحب ِتجربہ ہوں۔ میں نے بطور شہزادہ اپنی ذمہ داریاں ادا کیں، سفارتی اور تجارتی مشنوں پر گیا۔ اپنے ذاتی شوق اور خرچ پر جو میں نے سفر کیے وہ ان سے علاوہ ہیں۔ یوں میں نے سلطنت کا ہر خطہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ ‘‘

(Edward, Duke of Windsor, A King‘s Story: The Memoirs of HRH the Duke of Windsor KG, Cassell & Company, London, 1951)

پھر ایڈورڈنے ان القاب اور خطابات کی فہرست بھی درج کی ہے جو عوام الناس نے اسے دیے اور معاصراخبارات کی زینت بنتے رہے۔ مثلاً ’’برطانیہ کا سفیر اول‘‘، ’’برطانیہ کا سب سے کامیاب سیلز مین‘‘وغیرہ۔ اس نے ان تمام القاب کو اُن القاب سے زیادہ اہمیت دی، جوکہ محض وراثتی مرتبہ کے لحاظ سے یا رسمی خیر سگالی کےطور پر ملتے رہے۔

اب ایڈورڈ کی عوام الناس میں مقبولیت اور بےپناہ پذیرائی اور اس کی ملک کے اندر امور سرکار میں اور دنیا بھر میں سلطنت برطانیہ کے امور میں گہری بصیرت اور دانائی کو حکومتی ایوان ایک شدید طوفان کے پیش خیمہ کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

خوف وہراس کے شکار وزیر اعظم سٹانلے بالڈون نے اپنی ابتدائی خیر سگالی اور بظاہر خوش اخلاقی کالبادہ اتارتے ہوئے اپنے ہم نواؤں کو ہم راز بناتے ہوئے پیغام رسانی شروع کردی۔ کیونکہ اسی بالڈون نے اپنے حکومتی کارندوں کے لیے تین ضروری مطمح نظر مقرر کیے جن میں سے ایک یہ تھا کہ

’’شہزادہ ویلز کو (اگر کبھی وہ بادشاہ بن ہی گیا) ایک موزوں اور مددگار آغاز میں سہولت فراہم کرنا۔ ‘‘

(National Archives, PREM 1/.466)

یہ مختصربیان ہی بالڈون کے اندرونی شکوک اور فکرمندیوں کو عیاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ یہ وہی بالڈون تھا جس نے بعد میں بادشاہت ملنے پر ایڈورڈ ہشتم کو ’’ایک غیر موزوں شخصیت، بچگانہ مزاج، کم عقل‘‘وغیرہ بھی قراردیا تھا۔ اپنی مخالفت میں بڑھتے ہوئے اسی بالڈون نے بادشاہ کے بارے میں کہا تھا کہ’’ لگتا ہے کہ بادشاہ کے دماغ کے دو یا تین خلیوں کی نشوونما ہوہی نہیں سکی۔ ‘‘

(Baldwin Papers, University of Cambridge Library, The Royal Box)

پھر پرنس آف ویلز کے پرائیویٹ سیکرٹری Allan Lascelles کے وزیر اعظم بالڈون کے ساتھ خفیہ روابط کا بھی پتہ چلتا ہے جن میں اس شخص نے وزیر اعظم تک شہزادے کی بری عادات کی فہرست بنا کر پیش کی تھی۔ Allan Lascellesنے شہزادے کی ’’شراب نوشی، معاشقوں اور نفسانی خواہشات کی غلامی‘‘جیسی عادات پر تبصرہ کرتے ہوئے خدشہ کا اظہار کیا تھا کہ یہ شہزادہ مستقبل میں بادشاہ کے عظیم الشان منصب کا اہل ہو گابھی یا نہیں ؟

شہزادے کے بارہ میں خفیہ معلومات وزیر اعظم تک پہنچانے کے اس معاملہ میں صرف Allan Lascelles نے ہی قواعد کی خلاف ورزی نہیں کی بلکہ یہاں وزیر اعظم بالڈون بھی ولی عہد کے پرائیویٹ سیکرٹری سے نجی روابط رکھ کرپیشہ ورانہ کوتاہی کا مرتکب ہواتھا۔

پرائیویٹ سیکرٹریAllan Lascellesکی شہزادے سے نفرت، کینہ توزی اور اس معاملہ میں بےباکی کی انتہادرج ذیل مکالمے سے عیاں ہے:

’’اس شہزادے کی، اور ملک کی بھی بہتری اسی میں ہے کہ اس ایڈورڈ کی گردن توڑ کر اس کا خاتمہ کردیا جائے۔ ‘‘

وزیر اعظم بالڈون کا جواب اس سے بھی حیرت انگیز ہے کہ ’’خدا معاف کرے، میں بھی ایسا کئی بار سوچ چکا ہوں۔ ‘‘

(Duff Hart-Davis (Ed), King‘s Counsellor: Abdication and War: The Diaries of ’Tommy‘ Lascelles, Weidenfeld& Nicholson, London, 2006)

اس وقت سے کہ جب بادشاہ ایڈورڈ ہشتم ابھی ولی عہد ہی تھا، اس کے بارے میں بالڈون کے خوفناک عزائم اور مستقبل کے اندیشے کسی طرح بھی مخفی نہ تھے لیکن جب بالڈون نے چرچ سے گٹھ جوڑ کرکے بادشاہ کو تخت سے اتارنے کی سازش میں حصہ لیا تو یہ تاریخ کا زیادہ تاریک پہلو بن کر سامنے آیا۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button