مستورات سے خطاب (1941ء) (قسط دوم۔ آخری)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
پس کلمہ طیّبہ پر ایمان لانے والے کو سوچنا چاہئے کہ کیا اس میں یہ چاروں باتیں پائی جاتی ہیں۔ طیّبہ کے پہلے معنے خوش شکل کے ہیں۔ اب تم سوچو کہ کیا تمہارا ایمان خوش شکل ہے؟ تم منہ سے تو کہتی ہو کہ ہم احمدی ہیں مگر کیا ظاہر میں بھی تمہاری شکل احمدیوں والی ہے؟ کیا اگر آم کی شکل بیر جیسی ہو تو لوگ اسے پسند کریں گے؟ اسی طرح جب تک تمہاری نمازیں احمدیوں والی نہ ہوں، تمہارے روزے احمدیوں والے نہ ہوں، تمہاری زکوٰۃ احمدیوں والی نہ ہو، تمہارا حج احمدیوں والا نہ ہو تم کس طرح کہہ سکتی ہو کہ ہم نے کلمہ طیّبہ پڑھ لیا۔ کتنا ہی اچھا آم ہو لیکن اگر وہ داغدار ہو یا پچکا ہؤا ہو تو لوگ اسے نہیں خریدتے۔ اسی طرح اگر تم صرف اِس بات پر خوش ہو جائو کہ ہم نے کلمہ طیّبہ کہہ لیا تو ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہماری زکوٰۃ، ہمارا حج اور ہمارے صدقے خود بخود اچھے ہو جائیں گے تو یہ درست نہیں۔ جس طرح داغدار آم کو کوئی شخص نہیں خریدتا اسی طرح تمہاری نمازیں اور تمہارے روزے بھی قبول نہیں ہو سکتے۔صرف اسی صورت میں یہ عبادتیں قبول ہو سکتی ہیں جب وہ انہیں شرائط کے ساتھ ادا کی جائیں جن شرائط کے ساتھ ادا کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے۔
دوسری چیز کلمہ کا خوشبو دار ہونا ہے۔ جو چیز انسان خریدتا ہے اس کے متعلق یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ آیا اس کی خوشبو اچھی ہے یا نہیں۔ خربوزے ہوں تو ان کی خوشبو سونگھتا ہے اور چاہتا ہے کہ خربوزوں سے اچھی خوشبو آئے۔ یہی حال باقی پھلوں کا ہے۔ آم جتنا اچھا ہوگا اتنی ہی اس کی خوشبو اچھی ہوگی۔ اسی طرح سیب، انار، انگور اور کیلا وغیرہ کی لوگ شکل بھی دیکھتے ہیں اور ساتھ ہی خوشبو بھی سونگھتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم ایمان لائے ہو تو تمہارے ایمان کے اندر خوشبو بھی ہونی چاہئے۔ یعنی تمہارے اِرد گرد کے ہمسائے تمہیں دیکھیں تو تمہاری نیکیوں کی خوشبو اُن کو آجائے اور وہ کہہ اُٹھیں کہ واقعی یہ مذہب اچھا ہے۔ پہلے تو لوگ شکل دیکھیں گے کہ تمہاری نمازیں مسلمانوں والی ہیں یا نہیں۔ فرض کرو ایک عورت احمدی کہلاتی ہے مگر نماز نہیں پڑھتی تو اس کی ہمسایہ عورت کو یقین ہو جائے گا کہ ہمارا مولوی ٹھیک کہتا تھا کہ احمدی جماعت کی عورتیں نماز نہیں پڑھتیں یا احمدی نماز کو جائز نہیں سمجھتے۔ کیونکہ غیر احمدی مولویوں نے ان کو یہی بتایا ہوتا ہے کہ احمدیوں کا نماز روزہ الگ ہے۔ پس ایک غیر احمدی عورت نماز چھوڑ کر صرف اپنے لئے دوزخ مول لیتی ہے لیکن ایک احمدی عورت نماز نہ پڑھ کر صرف اپنے لئے نہیں بلکہ ان دوسری پچاس عورتوں کے لئے بھی دوزخ مول لیتی ہے جو اُس کو دیکھتی ہیں۔ تو فرمایا تم شجرۂ طیّبہ بنو۔ تم وہ درخت بنو جو نہ صرف خوش شکل ہو بلکہ خوشبودار بھی ہو۔ تم جس محلہ میں جائو وہاں نمازیں پڑھو، صدقات دو، خیرات کرو اور اس قدر نیکیوں میں حصہ لو کہ سب کہیں کہ معلوم نہیں کون آگئی ہے جو اس قدر نمازیں پڑھتی اور خیرات کرتی ہے۔ پھر جب وہ تمہارے پاس آئیں گی تو تم دیکھو گی کہ وہ اپنے مولوی کو وہاں سے سینکڑوں گالیاں دیتی ہوئی اُٹھیں گی۔ کیونکہ تمہاری خوشبو اُن کو احمدیت کے چمن کی طرف کھینچ رہی ہوگی۔ پس چاہئے کہ تمہاری نمازیں ایسی خوشبودار ہوں، صدقہ و خیرات ایسا خوشبودار ہو کہ خود بخود دوسرے لوگ متاثر ہوتے چلے جائیں۔ جب تمہارے اندر یہ خوشبو پیدا ہو جائے گی تو نتیجہ یہ ہوگاکہ لوگ بھاگ بھاگ کر تمہاری طرف آئیں گے اور تم لوگوں کو احمدیت کی طرف کھینچنے کا ذریعہ بن جائو گی۔
طیّبہ کے تیسرے معنے خوش ذائقہ کے ہیں یعنی ایسی چیز جس کا مزہ اچھا ہو اور انسان کی زبان اس سے حلاوت محسوس کرے۔ یہ چیز بھی ایسی ہے جس کا مومن میں پایا جانا ضروری ہے۔ فرض کرو ایک عورت نمازیں بھی پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے مگر اس کے ساتھ ہی صبح شام غیبت میں مشغول رہتی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہتی ہے کہ فلاں نے یوں کیا اور فلاں نے یوں کیا تو اِس سے اُس کی نیکی کا اثر زائل ہو جائے گا۔ یہ باتیں ایسی ہی گندی ہیں جیسے بعض عورتیں مٹی کھانے لگ جاتی ہیں بے شک یہ باتیں ہیں مگر ایسی جن کی کوئی قیمت نہیں۔ نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ہوتا ہے اور نہ سنانے والے کو۔ لیکن اگر وہ اس قسم کی باتیں کرے کہ اے بہن! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےیوں فرمایا ہے۔ اے بہن! خدا کا یہ حکم ہے، نماز کے متعلق یہ حکم ہے، روزوں کے یہ احکام ہیں تو سننے والے اس کا اثر محسوس کریں گے اور انہیں اس کی باتوں میں لذّت آئے گی۔
پس پہلی بات تو یہ ہے کہ دین پر عمل کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ اتنا اچھا عمل کرو کہ لوگوں میں شہرت ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ ایسی باتیں کرو جن سے لوگ فائدہ اُٹھائیں۔
پھر طیّبہ کے چوتھے معنے شیریں کے ہیں یعنی تمہاری باتیں ایسی ہوں جو نہ صرف لوگوں کو فائدہ بخشیں بلکہ علمی بھی ہوں اور صرف دماغ سے تعلق نہ رکھتی ہوں بلکہ ایسی شیریں باتیں ہوں جو دل سے تعلق رکھیں اور جن سے حلاوتِ ایمان نصیب ہو۔ عقلی باتوں سے لذّت تو آتی ہے لیکن حلاوت نصیب نہیں ہوتی۔ شاعر کتنے اچھے شعر کہتے ہیں لیکن وہ میٹھے نہیں ہوتے۔ پھر ایک شخص خدا کی باتیں سناتا ہے اور نہایت فصیح و بلیغ طریق پر الفاظ لاتا ہے اُس کی باتیں بھی لذیذ ہوتی ہیں لیکن شیریں نہیں ہوتیں۔ اس کے مقابلہ میں ایک اور شخص ہوتا ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جن میں گو لفاظی نہیں ہوتی مگر ان باتوں سے دلوں پر اثر ہوتا اور تقویٰ پیدا ہوتا ہے اس کی باتیں شیریں کہلائیں گی کیونکہ وہ دلوں پر اثر کرنے والی ہوں گی۔
یہ چار باتیں ہیں جن کا مومن کے اندر پایا جانا ضروری ہے۔ اگر تم ایسی بن جائو تو تم جنت کی وارث بن سکتی ہو۔ جنت کیا ہے؟ جنت کے درخت مومن ہیں اور جنت کی نہریں مومنوں کے اعمال۔ جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو سب لوگوں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں گے۔
اس دنیا اور اگلے جہاں میں یہ فرق ہے کہ یہاں مومن چھپے ہوئے ہیں مگر اگلے جہان میں ان سب کو اکٹھا کر دیا جائے گا تب دنیا حیران رہ جائے گی کہ واہ واہ کیسے شاندار لوگ ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب، حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور دوسرے ہزاروں بزرگ جو امت محمدیہ میں گزرے ہیں جب یہ سارے وہاں اکٹھے ہو جائیں گے تو لوگ ان کو دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ دنیا میں تو الگ الگ درخت تھے لیکن وہاں میٹھے پھلوں والے باغات کی صورت میں دکھائی دیں گے اور ان کے اعمال اور ایمان کو دیکھ کر لوگ کہہ اٹھیں گے کہ اس سے بڑھ کر کوئی جنت نہیں۔ جس گائوں میں جھوٹ بول کر لوگ فتنہ ڈلواتے ہوں، لوگوں کا مال ظُلماً چھین لیتے ہوں، بھوکے کا خیال نہ کرتے ہوں اور ڈاکے ڈالتے ہوں اُس کو کیسے جنت کہہ سکتے ہیں؟ اس کے مقابلہ میں اگلے جہان کی سب سے بڑی جنت یہ ہے کہ اس میں تمام نیکوں کو اکٹھا کر دیا جائے گا اور بدوں کو الگ کر دیاجائے گا۔ نماز پڑھنے والی عورتیں اور نماز پڑھنے والے مرد، سچ بولنے والی عورتیں اور سچ بولنے والے مرد، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی عورتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مرد، قرآن کریم پر ایمان لانے والی عورتیں اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے مرد، پہلے نبیوں پر ایمان لانے والی عورتیں اور پہلے نبیوں پر ایمان لانے والے مرد، لوگوں کی خدمت کرنے والی عورتیں اور لوگوں کی خدمت کرنے والے مرد، جھوٹ، فریب اور جھگڑے سے بچنے والی عورتیں اور جھوٹ، فریب اور جھگڑے سے بچنے والے مرد جس جگہ جمع ہوں گے وہاں رہنے کو کس کا دل نہ چاہے گا۔ بے شک وہاں باغ بھی ہوں گے لیکن اصل مطلب یہی ہے کہ وہ ایسی جگہ ہوگی جہاں تمام نیک لوگ جمع ہوں گے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کلمہ تو تمہیں پڑھا دیا گیا ہے اب اس کو طیّبہ بنانا تمہارے اختیار میں ہے۔ لوگ بڑے بڑے نام رکھتے ہیں لیکن نام سے کچھ نہیں بنتا۔ اسی طرح صرف کلمہ پڑھنے سے عزت نہیں ملتی بلکہ کلمہ طیّبہ سے ملتی ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں مل جائیں تو پھر مومن جنت کا درخت بن جاتا ہے۔ پس جب تک تم کلمہ طیّبہ نہ بنو گی جنت کا درخت نہیں بن سکو گی۔ قرآن کریم نے تمہارے سامنے ایک موٹی مثال درخت کی پیش کی ہے۔ وہ تم کو چاند یا سورج کی طرف نہیں لے گیا، اس نے سکندر یا ارسطو کی کوئی مثال پیش نہیں کی، اُس نے الجبرے کا کوئی سوال نہیں ڈالا، اس نے تم کو کسی عمارت کے گنبدوں کی طرف نہیں لے جانا چاہا بلکہ خدا نے وہ بات کہی ہے جو تم میں سے ہر ایک نے دیکھی اور جس کو بچہ بچہ جانتا ہے۔ خدا نے کہا ہے کہ ہم تم کو پہاڑ اور دریا کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کبھی تم نے درخت کو دیکھا ہے یا نہیں؟ جس طرح درخت کو پانی دیا جاتا ہے اسی طرح تم اپنے ایمان کو عمل کا پانی دو۔ اپنے اندر اچھی باتیں پیدا کرو۔ جب تم ایسا کرو گی تو تم جنت کا درخت بن جائو گی۔ پھر جس طرح اچھے درخت پر اچھی شکل اور اچھی خوشبو کے لذیذ اور شیریں پھل پیدا ہوتے ہیں اسی طرح تم اپنے ایمان کو خوش شکل، خوشبودار، لذیذ اور شیریں بنائو۔ جب تم ایسا درخت بن جائو گی تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے تم جہاں بھی ہوگی وہاں سے اُٹھا کر تمہیں اللہ تعالیٰ کی جنت میں لے جائیں گے کیونکہ خداتعالیٰ کہے گا کہ ان درختوں کے بغیر میرا باغ مکمل نہیں ہو سکتا۔
لوگ اپنے باغوں کے سجانے کے لئے دُور دُور سے درخت منگواتے ہیں تاکہ ان کا باغ خوبصورت معلوم ہو اسی طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے ہر جگہ کے نیک لوگوں کو جنت میں لائیں گے تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اللہ تعالیٰ کے باغ میں فلاں درخت نہیں۔
یہ کیا ہی اچھاسودا ہے جو مومن اپنے رب سے کرتا ہے مگر افسوس کہ لوگوں کو اس سودے کی طرف بہت کم توجہ ہے۔
اب میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ تم کو توفیق دے کہ تم اپنے آپ کو جنت کا پودا بنائو۔ اپنے کلمہ کو کلمہ طیّبہ بنائو اور اس کے فضل سے شجرۂ طیّبہ کی مانند بن جائو۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰ نَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
(مصباح فروری 1942ء)