مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے
آپؑ سے دریافت کیا گیا کہ سفر کے لئے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ آپؑ نے فرمایا کہ:
قرآن کریم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ
فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ(البقرہ:185)
یعنی مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ اس میں امر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ جس کا اختیار ہو رکھ لے جس کا اختیار ہو نہ رکھے۔ میرے خیال میں مسافر کو روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور چونکہ عام طور پراکثر لوگ رکھ لیتے ہیں اس لئے اگر کوئی تعامل سمجھ کر رکھ لے تو کوئی حرج نہیں مگر
عِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ
کاپھر بھی لحاظ رکھنا چاہیے۔
اس پر مولوی نورالدین صاحبؓ نے فرمایا کہ یوں بھی تو انسان کو مہینے میں کچھ روزے رکھنے چاہئیں۔
ہم اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت اقدسؑ نے بھی فرمایا تھا کہ سفر میں تکالیف اٹھا کر جو انسان روزہ رکھتا ہے تو گویا اپنے زورِ بازو سے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا چاہتا ہے۔ اس کو اطاعت امر سے خوش نہیں کرنا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ کی اطاعت امر اور نہی میں سچا ایمان ہے۔
(الحکم 31 جنوری 1899ء صفحہ 7 بحوالہ فقہ المسیح صفحہ 199)