آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جس نے اس عُرْوَۂ وُثْقٰی کو پکڑا ہوا ہے
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ 30؍ مئی 2008ءمیں فرمایا:
آج اس وحدت کی وجہ سے عافیت کے حصار میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق کوئی جماعت ہے تو وہ صرف اور صرف مسیح محمدی کی جماعت ہے۔ باقی سب انتشار کا شکار ہیں اور رہیں گے جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے انعام کی قدر نہیں کریں گے۔ جب تک کہ وہ آنحضرت ﷺکے اس ارشاد کو نہیں مانیں گے کہ جب میرا مسیح و مہدی ظاہر ہو تو اس کومیرا سلام پہنچاؤ۔ مسلمانوں کی حالت اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ غیر مذاہب کی خداتعالیٰ سے دُوری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ شیطان کی گود میں جا پڑے ہیں۔ اپنے پیدا کرنے والے کو بھول چکے ہیں۔ اس مقصد کو بھول چکے ہیں جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے۔ بلکہ اب تو اس کا فہم و ادراک بھی ان کو نہیں رہا کہ ان کی پیدائش کا مقصد کیا ہے۔
پس آج اگر کوئی جماعت ہے تو یہ مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہے جو اس مقصد کو جانتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتی ہے۔ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی ہے جس نے اس عُرْوَۂ وُثْقٰی کو پکڑا ہوا ہے جس سے ان کے صحیح راستوں کا تعین ہوتا رہتا ہے۔ اس مضبوط کڑے کو پکڑا ہوا ہے جس کے نہ ٹوٹنے کی ضمانت خود خداتعالیٰ نے دی۔ اللہ تعالیٰ نے آج اپنے فضل سے احمدیوں کو اس برتن کے کڑے کو مضبوطی سے پکڑایا ہوا ہے جس میں مسیح محمدی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے تازہ بتازہ روحانی پانی بھر دیا ہے۔ وہ زندگی بخش پانی جس کو پینے سے روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار ایک مومن طے کر سکتا ہے۔ پھر اس مضبوط کڑے کو پکڑنے کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ اس کو پکڑے رہنے والوں کے ایمان ہمیشہ سلامت رہیں گے۔ مسیح محمدی کی غلامی میں آکر اس سے عہد بیعت باندھنے والے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے اپنے ایمان میں ہمیشہ ترقی کرتے چلے جائیں گے۔ ہر حالت میں ہرمخالفت کے دور میں اس کڑے کے پکڑے رہنے والوں کے ایمان محفوظ رہیں گے۔ اس کڑے سے چمٹنے والا مومن اپنی جان تو دے سکتا ہے لیکن اس کڑے کو نہیں چھوڑتا جس کے چھوڑنے سے اس کے ایمان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہو۔
چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ مخالفت کی آندھیاں حقیقی مومنین کو ان کے ایمان کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکیں۔ ماؤں کے سامنے بیٹے قتل کئے گئے، بیٹوں کے سامنے باپوں کو آہستہ آہستہ اذیت دے کر ماراگیا، شہید کیا گیا، باپوں کے سامنے بیٹوں کو شہید کیاگیا۔ پھر احمدیت کو چھوڑنے کے لئے انتہائی اذیت سے کئی احمدیوں کو گزرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ ٹارچر دے کر مارا گیا۔ اور یہ دُور کے واقعات نہیں ہیں۔ اس سال بھی کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔ لیکن جس ایمان پر وہ قائم ہو چکے تھے یہ اذیتیں اُن کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں لا سکیں۔