متفرق مضامین

لاہور جنکشن ریلوے اسٹیشن

(منور علی شاہد۔ جرمنی)

ہندوستان میں جب برطانوی دَور شروع ہوا تو اس وقت لاہور کی آبادی تقریباً ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔ لاہور کی فصیل کے اندر آباد شہر کے علاوہ باہر گردو نواح میں کچھ آبادیاں موجود تھیں ان میں باغبانپورہ، بیگم پورہ، مزنگ اور قلعہ گجر سنگھ وغیرہ شامل ہیں۔ برطانوی حکمرانوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اندرون شہر پر توجہ دینے کی بجائے لاہور کے نئے حصوں کی تعمیر کی طرف توجہ دینازیادہ ضروری سمجھااور اس کے لیے لاہور کا جنوبی حصہ منتخب کیاتھا۔ متحدہ ہندوستان کے شہروں سے زمینی رابطے کے لیے ٹرین ناگزیر تھی، اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے انہوں نے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر اور ریلوے ٹریکوں کے جال بچھانے کا فیصلہ کیا تاکہ امرتسر اور دہلی کے علاوہ دیگر بڑے شہروں کے ساتھ زمینی رابطے قائم ہو سکیں۔ اس کے علاوہ ریلوے اسٹیشن سے چند میل دوری کے فاصلے پر مال روڈ کی تعمیر اور دیگر جدید ملحقہ سڑکیں اور عمارتوں کی تعمیر منصوبے میں شامل تھی۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کا سنگ بنیاد اس وقت کے گورنر پنجاب سر جان لارنس نے1859ءمیں رکھا تھا اور عمارت کی ڈیزائننگ برطانوی ماہر تعلیم ولیم برٹن نے کی تھی۔ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کاجو نقشہ تیار کیا گیا تھا اس میں دفاعی ضروریات کو بھی مدنظر رکھا گیا، لاہورریلوے اسٹیشن کی موجودہ عمارت ایک انتہائی پرشکوہ قلعہ نماعمارت ہے، لال پتھروں سے بنی اس کی موٹی موٹی دیواریں، حفاظتی ٹاورز اور ان میں بڑے بڑے سوراخ دیکھ کر عام شخص اس کو ایک انجینئر کا ڈیزائن خیال کرتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اس کی تعمیر اور ڈیزائننگ کا پس منظر جنگی اور دفاعی نقطہ کاتھا۔ ان ٹاورز اور ان کے سوراخوں کے ذریعے بوقت ضرورت بندوقوں اور توپوں سے گولے چلانے کا کام لینا مقصود تھا، کیونکہ اس دَور میں انگریز حکمرانوں کو مختلف قسم کے سیاسی دبائو کا سامنا تھا، اس کے علاوہ1857ءکے غدر کے بعد مزید بغاوتوں کے خوف میں بھی مبتلا تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک قلعہ کی متعدد خصوصیات اس کے ڈیزائن میں شامل تھیں، لاہور کا ریلوے اسٹیشن بم پروف ہے، یعنی ٹینک اور توپوں کے گولوں کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا ٹھیکہ مغلیہ دَور کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار میاں محمد سلطان صاحب چغتائی ٹھیکیدار کو دیا گیا تھا۔ انہوں نے کم و بیش ڈیڑھ سال میں اس کوتعمیر کردیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کی تعمیر1861ء میں مکمل ہوئی تھی اور10؍ اپریل1962ءکو پہلی ٹرین لاہور سے امرتسر کو روانہ ہوئی تھی۔ اس دَور میں مبلغ پانچ لاکھ روپے ریلوے اسٹیشن کی تعمیر پر خرچ ہوئے تھے۔ لاہور کا اسٹیشن ایک جنکشن ریلوے اسٹیشن ہے جس کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے۔ ایک طرف واہگہ امرتسر کو جاتا ہے تو دوسری طرف پشاور کی سمت کو ہے۔ ابتدا میں اس کے پلیٹ فارموں کی تعداد8تھی، بعد میں اس میں اضافہ بھی ہوا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کےبارے نقوش لاہور نمبرمیں لکھا ہے کہ

’’لاہور اسٹیشن کی تعمیر پی ڈبلیو ڈی کے مشہور ٹھیکیدار محمد سلطان کے ہاتھوں ہوئی۔ اس عمارت کا نقشہ مسٹر برٹن(Burton) انجینئر نے تیار کیا تھا، اس اسٹیشن کے آٹھ پلیٹ فارم ہیں، مسافروں کی آسائش کے لیے متعدد انتظار گاہیں ہیں، اس اسٹیشن کے پانچ پل ہیں جن میں سے تین ریلوے مسافروں کے لیے خاص پلیٹ فارم پر ہیں، چوتھا پل ریلوے ملازمین کو ورکشاپ لے جاتا ہے اور پانچواں پل گڑھی شاہو کی سڑک اور گرینڈ ٹرنک روڈ کو ملاتا ہے، تار گھر اور ڈاک خانہ بھی ہے، مسافروں کی آسائش کے لیے یورپین اور پاکستانی وضع کے کھانے کے کمرے ہیں …ہر پلیٹ فارم پر ایک بڑی گھڑی نصب ہے لیکن سب سے بڑی گھڑی ریلوے اسٹیشن کی ڈیوڑھی کے اوپر لگی ہے جو دور سے گزرنے والوں کو بھی وقت بتاتی ہے‘‘

(انگریز دور کی چند تعمیرات از پروفیسر یوسف جمال انصاری، نقوش لاہورنمبر صفحہ 668تا669)

یہ پانچوں پل لوہے اور اسٹیل سے بنائے گئے تھے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ اس دَور کی حکومت نے کسی وجہ سے اسٹیشن کی عمارت کے فرنٹ حصےکی تعمیر کے لیے رقم کی ادائیگی سے انکار کردیا تھا، تب میاں محمد سلطان نے اپنے پلے سے ریلوے اسٹیشن عمارت کے سامنے والے حصے کی تعمیر مکمل کی تھی۔ مشہور سول انجینئر اور’’تاریخ لاہور‘‘ کے مصنف کنہیالال نے لاہور اسٹیشن کی تعمیر بارے لکھا ہے کہ

’’عالیشان ریلوے اسٹیشن نے آبادی کی زیب و زینت دو چند کردی ہے، فی الحقیقت ایسا عالی شان اسٹیشن جیسا لاہور کا ہے کہیں نہیں بنایا گیا جس کا بانی محمد سلطان ٹھیکیدار مرحوم تھا، اس نے زرکثیر خرچ کرکے ایسی عالی شان و عمدہ و وسیع سرائے پختہ تعمیر کی جس میں ہزار ہا مسافر ملکوں کے آئے ہوئے ہر روز آرام پاتے ہیں ‘‘

(سنگ میل پبلی کیشنز اردو بازار لاہور، ایڈیشن1990ء صفحہ38)

لاہور ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار میاں محمد سلطان صاحب کے متعلق تاریخ احمدیت میںلاہور میں لکھا ہوا ہے کہ وہ کون تھے؟ حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ کے تفصیلی تعارف کے باب میں ان کا ذکر کیا گیا ہے اختصار کے ساتھ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ

’’مرحوم میاں چراغ دین کے دادا میاں الٰہی بخش صاحب بھی اپنے وقت کی حکومت میں ایک معزز و مکرم عہدے پر فائز تھے۔ یہ سکھوں کی حکومت کا زمانہ تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ پنجاب پر حکمران تھے۔ چنانچہ میاں الٰہی بخش صاحب مہاراجہ موصوف کے محکمہ عمارات کے وزیر اعلیٰ تھے… لاہور شہر کے مخیر رئیس میاں محمد سلطان، میاں الٰہی بخش کے چھوٹے بھائی تھے…۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ168تا169)

میاں محمد سلطان صاحب کے بارے ایک انتہائی ایمان افروز واقعہ تاریخ میں لکھا ملتا ہے جس کے مطابق ان کو برطانوی حکومت کی طرف سے ان کے کام اور خدمات کے عوض’’نواب‘‘اور ’’خانی‘‘دونوں میں سے کوئی ایک خطاب دینے کی پیش کش کی گئی لیکن سلطان صاحب نے یہ کہہ کر شکریہ کے ساتھ رد کردی تھی کہ میرے نام کے ساتھ لفظ ’’محمد‘‘ نام ہی کافی ہے، امیدوار ہوں کہ سرکار یہی نام منظور رکھے، اور انگریز حکومت نے اس بات کو منظور کر لیا تھا۔ اس واقعے سے ان کی آنحضورﷺ سے محبت عیاں ہوتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن کی تعمیرکے ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں ٹرین سروس کی ابتدا ہوئی تھی۔ 1975ء میں کنگ ایڈورڈ نے جب لاہور کا دورہ کیا تو لاہور ریلوے اسٹیشن پر ان کا والہانہ استقبال کیا گیااور یوں ریلوے اسٹیشن کولاہور کے داخلی راستے کا مقام ملا۔

افغانستان کے افغانیوں کے ساتھ جب انگریزوں کی لڑائی ہوئی تو اس وقت لاہور ریلوے اسٹیشن نے کلیدی کردار ادا کیا اور اسٹیشن کے پلیٹ فارموں سے ٹرینیں فوجی اور اسلحہ بارود لے کر روانہ ہوا کرتی تھیں۔

1889ءمیں دریائے سندھ پر پل کی تعمیر سے پنجاب اور سندھ کے مابین ٹرین سروس شروع ہوئی۔ یہ وہ دَور تھا جس میں جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور قادیان سے پھوٹنے والی احمدیت کی کرنوں نے دنیا کے کناروں کو منور کرنا شروع کردیا ہوا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور میں تشریف آوری اور لاہور ریلوے اسٹیشن سے متعلق متعددایمان افروز واقعات کی تفصیلات تاریخ احمدیت اور سلسلہ کی دیگر کتب و رسائل میں لکھی موجود ہیں۔ پہلی بار حضورؑ کی لاہور میں تشریف آوری کے عنوان سے تاریخ احمدیت لاہور میں لکھا ہے کہ

’’1857ء کے غدر کے بعد لیفٹیننٹ گورنر پنجاب نے رؤسائے پنجاب کو معہ ان کے لڑکوں کے اپنی ملاقات کے لئے بلایا۔ چنانچہ جب حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام کے والد ماجد حضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب اپنے دونوں بیٹوں یعنی مرزا غلام قادر صاحب اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو ساتھ لے کر لاہور میں تشریف لائے تو انہوں نے لاہور کے رئیس محمد سلطان ٹھیکیدار کے اس رئیس خانہ میں قیام فرمایا جو لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے معزز مہمانوں کے ٹھہرنے کے لئے بنوایا ہوا تھا۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 24)

یہ وہی میاں سلطان ٹھیکیدار صاحب ہیں جن کو ریلوے اسٹیشن کی تعمیر کا ٹھیکہ دیا گیا تھا۔

لاہور ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر1تاریخی نوعیت کا ہے جو واہگہ کے راستے بھارت جانے والی ٹرین کے لیے مختص ہے، یہ بھارت کے ساتھ زمینی رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جہاں سے سمجھوتہ ایکسپریس چلتی ہے۔ پنڈت لیکھرام سے متعلق مشہور ایمان افروز واقعہ بھی لاہور کے اسی ریلوے اسٹیشن پر 1893ء میں رونما ہواتھا۔ تاریخ احمدیت لاہور کے مطابق:

’’14؍دسمبر1893کووہاں ( فیروزپور۔ ناقل) سے واپسی پر لاہور اسٹیشن کے پاس ایک مسجد( دایہ انگا، پلیٹ فارم نمبر1۔ ناقل)میں وضو فرما رہے تھے کہ مشہور آریہ لیڈر پنڈت لیکھرام نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا مگر حضور نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے اس خیال سے کہ شاید آپ نے سنا نہیں، دوسری طرف سے آکر سلام کیا مگر آپ نے پھر بھی کوئی توجہ نہ دی۔ جب پنڈت جی مایوس ہو کر لوٹ گئے تو کسی نے یہ خیال کرکے کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پنڈت لیکھرام کا سلام سنا نہیں ہوگا۔ حضور سے عرض کیا کہ حضور پنڈت لیکھرام آئے تھے اور سلام کرتے تھے۔ حضور نے یہ سنتے ہی بڑی غیرت کے ساتھ فرمایا۔ ’’اسے شرم نہیں آتی ہمارے آقا کو تو گالیاں دیتا ہے اور ہمیں سلام کرتا ہے‘‘

(تاریخ احمدیت لاہور صفحہ31)

یہ تاریخی مسجد’’دایہ انگا‘‘شاہ جہان بادشاہ کے دَور میں 1635ءمیں تعمیر ہوئی تھی۔ یہ مسجد اس دایہ کے نام پر تعمیر کی گئی تھی جس نے شاہ جہان کو دودھ پلایا تھا۔ اس کا اصل نام زیب النساء بیگم تھا۔ مختلف ادوار میں مخالفین کے ہاتھوں ناگفتہ حالت میں رہنے کے بعد1903ء میں مسلمانوں کو واگذار کر دی گئی تھی، یہ مسجد لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم 1 کی دیوار کے ساتھ باہر کی جانب ہے

( نقوش لاہور نمبر، ایڈیٹر، پبلشر، پرنٹر محمد طفیل، نقوش پریس لاہور، ادارہ فروغ اردو ایبک روڈ لاہور)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر تاریخ احمدیت میں ملتا ہے یہ لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی سامنے ہوا تھا۔ اس واقعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یوں بیان فرمایا ہے:

’’حضرت صاحب دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ غالباً 1904ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق احمدیہ جماعت لاہور کو اطلاع ملی کہ حضور فلاں گاڑی پرلاہور پہنچ رہے ہیں۔ ہم لوگ حضور کی پیشوائی کے لئے ریلوے اسٹیشن پر گئے۔ اُن دنوں دو گھوڑا فٹن گاڑی کا بہت رواج تھا۔ ہم نے فٹن تیار کر دی۔ جب حضور سوار ہوئے تو ہم نوجوانوں نے جیسا کہ عام رواج تھا (یہ اخلاص و وفا کا نمونہ ہے) یہ دیکھ کے گھوڑے کھلوائے اور فٹن کو خود کھینچنا چاہا۔ (ان لوگوں نے بگھی سے گھوڑے علیحدہ کئے اور کوشش کی کہ خود کھینچیں۔ ) حضور نے ہمارے اس فعل کو دیکھ کر فرمایا کہ ہم انسانوں کو ترقی دے کر اعلیٰ مدارج کے انسان بنانے آئے ہیں۔ نہ کہ برعکس اس کے انسانوں کو گرا کر حیوان بناتے ہیں کہ وہ گاڑی کھینچنے کا کام دیں۔ (مفہوم یہ تھا، الفاظ شاید کم و بیش ہوں۔ ) خیر ہم خدام نے فوراً اپنے فعل کو ترک کر دیا اور گھوڑے گاڑی لے کر چل دئیے۔ گھوڑے آگے لگائے اور وہ اُن کو لے کر چل دئیے۔ …۔

(رجسٹر روایات صحابہ(غیر مطبوعہ)رجسٹر نمبر 1صفحہ نمبر 10روایت حضرت صاحب دین صاحبؓ )‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ4؍مئی2012ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل25؍مئی2012ءصفحہ6)

حضرت مصلح موعود کی لاہور ریلوے اسٹیشن پر آمد

منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد لاہور ریلوے اسٹیشن پر حضرت مصلح موعود کی تشریف آوری ابتداء 1915 میں پہلے چھ روزہ دورہ لاہور سے ہوئی تھی۔ 12؍ جولائی کو احبابِ لاہور نے ریلوے اسٹیشن پر حضور کو الوداع کیا تھا۔ اس کے بعد تاریخ احمدیت میں بہت سارے سفروں کا ذکر ملتا ہے کہ حضور لاہور ریلوے اسٹیشن پر تشریف لاتے اور یہاں سے دیگر شہروں کو روانہ ہوتے رہے.

(الفضل انٹرنیشنل 16-22 فروری 2021،صفحہ 38)

امن کے دنوں میں جب سے ربوہ میں جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے منعقد ہوا کرتے تھے، تب سے لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر 2 اور4 سے احمدیوں کی بھری ٹرینیں ربوہ کے لیے روانہ ہوا کرتی تھیں، بسا اوقات رش ہونے پر مزید نئی بوگیاں بھی لگا دی جاتی تھیں۔ اس دَور کے کچھ ایسے ہی سفروں کے مناظر احباب جماعت لاہور کے بزرگوں کے ذہن کےگوشوں میں موجود ہیں۔ 1991 کے صدسالہ جلسہ قادیان کے موقع پر لاہور کے احباب کو پلیٹ فارم نمبر1 پر تاریخی ڈیوٹیاں ادا کرنے اور خدمت خلق کرنے کی توفیق ملی تھی…

ہزاروں کی تعداد میں مسافر روزانہ سفر کرتے ہیں، آنے اور جانے والے مسافروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ پلیٹ فارم نمبر دو اور چار پر کراچی سے آنے اور جانے والی گاڑیوں کے اوقات میں وہاں گہما گہمی اور شور شرابا معمول سے زیادہ نظر آتا ہے کیونکہ کراچی سے پشاور تک کے مسافر اس ٹرین میں سوار ہوتے ہیں، لمبا سفر اور بوگیاں تک بک کرائی ہوتی ہیں اور اس ماحول میں بوگی کے اندر چڑھنے اور اترنے والوں کی کشمکش کا اپنا ہی رنگ اورانداز ہوتا ہے، دوسرے مسافر ان مناظر سے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جن کے ساتھ سامان کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی ایک فوج ہوتی ہےان کی حالت بہت دیدنی ہوتی ہے، بیک وقت سامان اور بچوں کو سنبھالتے سنبھالتے ان کی اپنی حالت پتلی ہو چکی ہوتی ہے۔ گرما گرم چائے، ناشتہ، سموسے اور پکوڑوں کی آوازیں اور لال رنگ کی پگڑیاں اور قمیص پہنے ’’قلی‘‘ریلوے اسٹیشن کے کلچرکا ایک اہم حصہ ہیں،جوناقابل یقین حد تک زیادہ سامان سروں پر اٹھائے پلیٹ فارموں پر آتے جاتے مسافروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوتے ہیں۔ ’’قلی کلچر‘‘آج ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکا ہے، لمبے سفر کے لیے جو ٹکٹ آپ کو افسر کی توسط سے نہ مل سکتی ہو وہ اس قلی بادشاہ کے ذریعے ممکن ہو سکتی ہے۔ لاہور ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی جو مناظر آج دیکھنے کو ملتے ہیں وہ ساٹھ، ستر کی دہائی سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک وہ بھی وقت تھا جب اسٹیشن سے باہر نکلیں تو سامنے درجنوں تانگے کھڑے ہوتے تھے، اور اس وقت ’’سالم‘‘تانگا ہی کروانا پڑتا تھا، کبھی کبھی دو تین’’سالم تانگے‘‘کروانے پڑتے تھے۔ اسٹیشن سے نکلتے ہی سامنے ایک برگد کا بہت بڑا تناور درخت ہوا کرتا تھا اس کے سامنے لال رنگ کی اومنی بسیں کھڑی ہوتی تھیں۔ اس سے پہلے ساٹھ کی دہائی کے اختتام تک ڈبل ڈیکر بسیں بھی چلا کرتی تھیں۔

وقت بدلا تو تانگوں کی جگہ رکشوں اور ٹیکسیوں نے لے لی، لوگوں کی مالی حالت اچھی ہونے کے ساتھ ساتھ پھر چمکدار قیمتی گاڑیوں اور کاروانیں پھر وقت بدلا تو رکشے اور ٹیکسی سٹینڈ بن گئے۔

لاہور کا اس تاریخی ریلوے اسٹیشن اب ایک ثقافت کا رنگ اختیار کر چکا ہے۔ اسٹیشن پر قومی اور اسلامی دنوں کے مواقع پر ایسی سجاوٹ کی جاتی ہے کہ ایک جشن کا سا سماں ہوتا ہے اور اہالیان لاہور فیملی کے ساتھ جوق در جوق ان کو دیکھنے آتے ہیں۔ پاک و ہند کی متعدد اہم تحریکوں میں اس نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ تحقیق و تاریخ دانوں نے بھگت سنگھ کی تحریک کے حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ سائمن کمیشن کے خلاف احتجاج کے دوران لاہور کے ریلوے اسٹیشن کے سامنے لالہ لجپت رائے زخمی ہو کر ہلاک ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں بھگت سنگھ کی تحریک شروع ہوئی تھی۔

بانی پاکستان محمد علی جناح1940ءمیں جب لاہور کے تاریخی جلسہ میں شرکت کے لیے لاہور پہنچے تو اسی ریلوے اسٹیشن پر ان کا تاریخی استقبال کیا گیا تھا۔

1947ءمیں ہند کی تقسیم کے وقت انسانوں کے خون کی جو ہولی کھیلی گئی تھی اس میں لاہور کا اسٹیشن ناقابل بیان مناظر کا گواہ ہےجب انسانی خون اور لاشوں سے بھری مہاجر ٹرینیں یہاں پہنچتی تھیں اوریہیں سے روانہ ہوتی تھیں۔

1950ءکی دہائی میں لاہور کے اسٹیشن کو عارضی طور پر بھوانی جنکشن کا نام دےکر ہالی ووڈ فلم کی برصغیر کی سیاست کےبارے فلمی شوٹنگ پلیٹ فارم نمبردو اور چار پر ہوئی جس میں ہزار سے زائد پاکستانیوں نے بھی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ریلوے اسٹیشن لاہور پر سب سے بڑی فلمی شوٹنگ تھی۔

یہ حقیقت ہے کہ لاہور کا ریلوے اسٹیشن پاکستان بننے سے پہلے اور بعد کی سیاسی، سماجی اور مذہبی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور ملکی تجارت او رملک بھر میں سامان کی ترسیل میں ایک اہم معاشی ستون کا کردار ادا کر رہا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button