احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح
2008ء میں مسجداقصیٰ کی توسیع اس کی شرقی جانب ہوئی…جون 2015ء میں ایک بار پھرمسجداقصیٰ کی توسیع کافیصلہ کیاگیا…
چوتھی توسیع؛بعہدِمبارک خلافت خامسہ
اوراب خلافت خامسہ کے تاریخی دورمیں قادیان میں بھی متعددنئی عمارات، اور دفاتر بنانے کے ساتھ ساتھ پرانی عمارتوں کی توسیع اوربحالی کاکام بھی بہت وسیع پیمانے پراورانتہائی سرعت سے ہورہاہے۔ جس میں مسجداقصیٰ کی خوبصورت اور عالی شان توسیع بھی شامل ہے۔
قادیان کے ان امورکی نگرانی ہمارے امام ہمام کی ہدایات کے تابع محترم فاتح احمد ڈاہری صاحب وکیل تعمیل وتنفیذ برائے انڈیا، نیپال و بھوٹان فرماتے ہیں۔ فجزاہم اللہ احسن الجزاء
2008ء میں مسجداقصیٰ کی توسیع اس کی شرقی جانب اس طرح سے ہوئی کہ ڈپٹی شنکرداس کی حویلی سمیت شرقی جانب کی تعمیرات کوگراتے ہوئے تین منزلہ ایک خوبصورت عمارت تیارکرکے مسجداقصیٰ کے ساتھ شامل کردی گئی۔
پانچویں توسیع؛بعہدمبارک خلافت خامسہ
جون 2015ء میں ایک بار پھرمسجداقصیٰ کی توسیع کافیصلہ کیاگیا…
مسجداقصیٰ کون سی مسجدہے!
مسجد مبارک ہی حضرت مسیح موعود ؑکی مسجد اقصیٰ ہے
(حضرت میرمحمد اسماعیل صاحب کے قلم سے)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’مسجد اقصیٰ سےمراد مسیح موعود کی مسجد ہےجو قادیان میں واقع ہے۔ جس کی نسبت براہین احمدیہ میں خدا کا کلام یہ ہے۔
مُبَارِکٌ وَّمُبَارَکٌ وَّکُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ۔
یہ مبارک کا لفظ جو بصیغہ مفعول اور فاعل واقع ہوا۔ قرآن شریف کی آیت
بَارَکْنَا حَوْلَہٗ
کے مطابق ہے‘‘(اشتہارمنارۃ المسیح 1900ء)
اس حوالہ سے قطعی طور پر ثابت ہےکہ مسجد اقصیٰ اس مسجد کا نام ہےجسےمسجد مبارک کہتےہیں۔ اور جس کی بابت اللہ تعالیٰ کی یہ وحی موجود ہے۔
(1) مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا
(2) مبارک ومبارک وکل امرٍ مبارک یجعل فیہ
(3) بیت الذکر
(4) فِیْہِ بَرَکَاتٌ لِلنَّاسِ
اس وقت اس ساری تحریرکا یہ مطلب ہےکہ کسی غلطی کی وجہ سےبڑی مسجد کوجسےحضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے خود نہیں بنوایا تھابلکہ حضورؑ کے والد صاحب مرحوم نے بنوایا تھا اور جس کی بابت کوئی الہام حضور نے بیان نہیں فرمایا۔ لوگ مسجد اقصیٰ کہنے لگ گئے اور پھر یوں ہوا کہ اس مسجد کی پیشانی پر بھی’’مسجد اقصیٰ ‘‘ کا نام حال میں لکھوادیا گیا۔ چونکہ یہ ایک تاریخی غلطی ہے اور آئندہ کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہےاور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان اور آپ کی وحی کے صریح مخالف ہے اس لیے لازم ہے کہ مسجد اقصیٰ کا لفظ جامع مسجد کی پیشانی سے مٹادیاجائے تاکہ آئندہ آنے والوں کے لیے غلطی کا موجب نہ ہو۔
میری اس تجویز کے متعلق بعض اصحاب کا یہ خیال ہےکہ وہ مسجد بھی شعائر اللہ میں داخل ہے۔ میں مانتا ہوں بلکہ یہ بھی مانتا ہوں کہ قادیان کی ہراینٹ شعائر اللہ میں داخل ہے۔ اور دنیا کی ہر مسجد شعائر اللہ میں داخل ہے۔ مگر شعائر میں بھی آپس میں فرق ہوتاہے۔ یہاں شعائر کا سوا ل نہیں بلکہ نام کے صحیح یا غلط ہونے کا سوا ل ہے۔ یعنی یہ کہ حضور علیہ السلا م نے کس مسجد کو مسجد اقصیٰ کہا ہے۔ بڑی مسجد کویا مسجد مبارک کو۔ آپ حضور علیہ السلام کی تحریر میں کہیں بھی اس مسجد کا نام مسجد اقصیٰ نہ پائیںگے بلکہ اسے ہمیشہ بڑی مسجد یا جامع مسجد کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ غرض اس کی اصلاح ضروری ہے۔
دوسرا خیال یہ پیش کیا گیاہے کہ آخر کچھ مدت کے بعد دونوں مسجدیں آپس میں مل جائیں گی۔ اس لیے کوئی حرج نہیں کہ یہ نام اسی طرح لگا رہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میرے نزدیک یہ دونوں مسجدیں ہرگزہرگز نہیں ملیں گی۔ بلکہ ان کا ملانا خطرناک نتائج پید اکرے گا۔ وجہ یہ کہ بڑی مسجد مسجد مبارک کے مغرب کی طرف واقع ہے۔ اس لیے دونوں کے ملانے کے بعد اس طرح کا نقشہ ہو جائے گا۔
پھر کیاہوگا؟ یہ ہوگا کہ امام اور نمازی سب بڑی مسجد کے قبلہ کی طرف والےحصہ میں نماز پڑھا کریں گے۔اور مسجد مبارک والا حصہ یابالکل خالی رہےگا یا صفوں لوٹوں اور جوتیوں کے رکھنے کے لیےاستعما ل ہوگا۔کیونکہ وہ حصہ بالکل پیچھے اور جنوب مشرقی کونے میں ہوگا۔اور سوائے کثرتِ ہجوم یا جلسہ کے دنوں کے وہاں کوئی باجماعت نماز نہ ہوگی۔ اور خادم مسجد لوگوں کو بتایا کرے گا کہ یہاں سابق بیت الذکر یا مسجد مبارک ہوا کرتی تھی۔ پس خدا نہ کرے وہ دن آئے۔ کہ مسجد مبارک کو بڑی مسجد سے مدغم کیاجائے۔یا بلفظ دیگر مسجد مبارک کو مسجد مبارک رہنے سے ہی محروم کردیاجائے۔ہاں دونوں مسجدوں کی اپنےاپنے طورپرتوسیع ہو سکتی ہے۔
میرا اپنا عقیدہ تو یہ ہے کہ مسجد مبارک کا وہ حصہ جو حضور علیہ السلام نے خود بنایا ہے وہی ان انعامات کا مورد اوروہی برکات کا مرکز ہے۔ وہ حصہ جو 1906ء میں بعد میں شامل ہواباوجود اس کے کہ حضور نے اس میں نمازیں پڑھیں پھر بھی اس درجہ کو نہیں پہنچتا جو اصلی حصہ کو حاصل ہے کیونکہ جب امن اور برکت کی وحی نازل ہوئی تھی تو وہ حصہ اس وقت موجود نہ تھا۔ اور اسے بعد میں انجمن نے چندہ کرکےبنایاتھا۔ نہ کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے۔
پس اصلی چیز بیت الذکرہے اور باقی حصّہ اس کی فرع۔ اور غالباً یہ ہماری غلطی ہو گی کہ سب حصوں کی عظمت کو برابر سمجھا جائے۔یا دونوں مسجدوں کو یکساں خیال کرکےکسی کو کسی میں ملا کر وسیع کرلیاجائے۔ ہاں اگر ایسی وسعت کی ضرورت پڑےجس سے مسجد مبارک خطرہ میں ہوتو نئی جمعہ مسجد قادیان سےباہر بننی چاہیے۔ یا مسجد نور کو ہی حسب ضرورت بڑھایا جاسکتا ہے۔
(الفضل قادیان جلد 24 نمبر 69مؤرخہ 19ستمبر 1936ء صفحہ 9-10)
مسجداقصیٰ کونسی مسجدہے؟
اس امر کی تحقیق کے لیے کہ مسجد اقصیٰ کونسی ہے دوامور پرغورکرنا ضروری ہے :
1۔تعامل یعنی صحابۂ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم میں موجود ہونا اور ان کی تحریروں اور تقریروں میں اس کا ذکر آنا۔
2۔خودحضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریروں میں اس کا ذکر آنا۔
پس (اول)تعامل پرغورکرنےسے معلوم ہوتا ہے کہ النادر کالمعدوم کو چھوڑ کر تحریراً وتقریراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک بیک زبان یہی کہا جاتاہے کہ مسجداقصیٰ منارہ والی مسجدہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی شرعی مسئلہ کے متعلق جو بنیادی اصول ارشاد فرمائے ہیں ان میں ایک اہم مسئلہ تعامل کا بھی ہے۔جسے دوسرے لفظ میں تواتربھی کہتے ہیں۔قرآن کریم ہم تک محض تواتر کے ذریعہ پہنچا۔نمازیں ہم محض تواترکی بناپر پڑھتے ہیں۔اسی طرح اسلام کے دوسرے احکام جنہیں سنت کہتے ہیں ہمیں اسی تواتر کے ذریعہ ملے اوراسی تواتروتعامل کو اب بھی بنیادی اصول بنانا پڑےگا اور ہرمسئلہ کے متعلق النادرکالمعدوم کو چھوڑ کر اسی تواتر وتعامل پرنظرڈالی جائےگی کہ صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا اس بارہ میں تواتر وتعامل کیا ہے۔بفضل خداابھی ہم میں صحابہ موجود ہیں اور ان کا تعامل وتواتر بتلارہاہےکہ مسجداقصیٰ منارہ والی مسجدہے۔
(دوم)حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات سے بھی ظاہرہےکہ مسجداقصیٰ منارہ والی مسجد ہے۔ چنانچہ آپ تحریرفرماتےہیں:
1۔’’حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ مسجد اقصیٰ کے قریب مسیح کا نزول ہوگا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ وہ منارہ یہی مسجداقصیٰ کا منارہ ہے۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ب)
2۔’’اس مسجداقصیٰ کا منارہ اس لائق ہے کہ تمام میناروں سے اونچاہو۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ث حاشیہ)
3۔’’مسجدکی شرقی طرف جیسا کہ احادیثِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامنشاہےایک نہایت اونچامنارہ بنایاجائے۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ب)
4۔’’یہ منارہ اس لئے طیار کیاجاتاہے کہ تاحدیث کے موافق …وہ عظیم پیشگوئی پوری ہوجائےجس کا ذکر قرآن شریف کی اس آیت میں ہے کہ
سُبْحٰنَ الَّذِيْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِيْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ۔
(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ ث)
ان چارحوالوں کے بعد یہ دیکھنا چاہیےکہ منارہ کس مسجدمیں ہےاور کس مسجدکی شرقی جانب واقعہ ہے۔اگرمسجدمبارک کو مسجداقصیٰ ماناجائےتو(1)مسجد مبارک میں کوئی منارہ نہیں نہ شرق کی طرف نہ غرب کی طرف۔(2)۔بڑی مسجد والے منارہ کو مسجد مبارک کا منارہ مانا جائےتو بعیدازقیاس کے علاوہ پیشگوئی کے بھی خلاف ہے کیونکہ پیشگوئی کے رو سے منارہ کومسجدکی شرقی جانب ہونا چاہیے نہ کہ غربی جانب۔جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ احادیث کے منشاء کے ماتحت مسجد کی شرقی جانب ایک نہایت اونچامنارہ بنایاجائے لیکن یہ امرظاہر ہے کہ بڑی مسجد کا منارہ مسجدمبارک سے غرب کی طرف ہے اور جب منارہ بڑی مسجد کے شرق میں ہے تو لامحالہ بڑی مسجد ہی مسجد اقصیٰ ٹھہری گو اس کی بنیاد حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے والد صاحب مرحوم نے رکھی مگر حقیقتاً اس کی تکمیل حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ سے ہوئی جیسا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام خودتحریرفرماتے ہیں :
’’خداتعالیٰ کے فضل وکرم سے قادیان کی مسجد جو میرے والدصاحب مرحوم نے مختصرطورپردوبازاروں کے وسط میں ایک اونچی زمین پر بنائی تھی۔اب شوکت اسلام کیلئے بہت وسیع کی گئی اور بعض حصّہ عمارات کے اور بھی بنائے گئے ہیں…اب اس مسجد کی تکمیل کیلئے ایک اور تجویز قرارپائی ہے اور وہ یہ ہے کہ مسجد کی شرقی طرف جیساکہ احادیث رسول اللہ ﷺ کا منشاء ہے ایک نہایت اونچا مناربنایاجائے اور مَنارتین کاموں کیلئے مخصوص ہو۔‘‘(ضمیمہ خطبہ الہامیہ صفحہ الف،ب)
پس ظاہر ہے کہ ’’مسجد اقصیٰ سے مراد مسیح موعود کی مسجدہے جو قادیان میں واقعہ ہے‘‘سے یہی مسجد مراد ہے جس کی بنیاد آپ کے والد صاحب مرحوم نے رکھی اور جس کی توسیع وتکمیل آپ کے دست مبارک سے ہوئی کیونکہ منارہ کا وجود اس مسجد میں ہے نہ کہ مسجد مبارک میں۔
(باقی آئندہ)
٭…٭…٭