آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کی سیاسی بصیرت کے عدیم المثال اور بے نظیر نمونے (قسط دوم۔ آخری)
ملکی تقسیم اور گورنروں کا تقرر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ انتظام کا ایک پہلو وہ ملکی تقسیم ہے جس سے سلطنت داخلی طور پر مستحکم ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بعض علاقے بذریعہ فتح اسلام زیرنگیں ہوئے اور بعض معاہدے کے تحت قبضے میں آئے۔ جو علاقے فتح کے ذریعے قبضے میں آئے، وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گورنر مقرر کیے۔ مثلاً حجاز اور نجد کے صوبے کا گورنر انہیں بنایا جن کا صدر مقام مکہ تھا اور جو علاقے صلح نامے کے ذریعے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے، ان کے حکمران وہیں کے امرا رہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے ہوں۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی حکومت کا انتظام چلانے کے لیے مختلف اوقات میں عامل (گورنر) مقرر کیے۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں چونکہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم وفراست کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امرا کے انتخاب میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی کا ایک اہم جزویہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمتِ عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ یقیناً اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کے سپرد کیا کرو اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت کرو تو انصاف کے ساتھ حکومت کرو۔ (النساء: 59)
اسی لیے حکمران کی اطاعت اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کے بعد ہے۔ یہی وجہ ہے جس جگہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم واضح موجود نہ ہو، وہاں حکمران کو اجتہاد کے اصول پر قانون سازی کا اختیار دیاگیاہے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت معاذ بن جبلؓ کویمن کاگورنر بنایا تو ان کورخصت کرنے سے پہلے پوچھا کہ تم لوگوں کے معاملات میں فیصلہ کس طرح کروگے؟ انہوں نے جواب دیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے پوچھا کہ اگر وہاں نہ پاؤتوکیاکروگے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے پوچھا کہ اگر وہاں بھی تم نہ پاؤتوکیا کرو گے؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ تب رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیہ)
خارجہ پالیسی کا قیام
خارجہ پالیسی کے لیے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امنِ عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ ہوپاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کمزور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھےکیوں کہ صحابہٴ کرامؓ نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔
اسلام کی خارجہ پالیسی کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پُر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں، ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔
باہمی تعلقات ہمیشہ اعتماد پر استوار ہوتے ہیں۔ اور اعتماد ایفائے عہد سے قائم ہوتا ہے۔ ورنہ جب پلڑا بھاری ہو تو کسی موقع یا بہانے سے عہد توڑ دیے جاتے ہیں۔ آج بھی بعض ممالک یک طرفہ طور پر کسی بھی بین الاقوامی معاہد ے سے نکل جانا معمولی بات سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ عہد و پیمان کے قرآن و حدیث نہ ہونے کا اعلان کر کے اس سے پھر جانا جائز قرار دیتے ہیں۔ بعض معاہدہ کر کے پھر اپنے مفاد میں اس کے خلاف قانون بنا کر معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ مگر آنحضورؐ نے اس بات کو اپنی خارجہ حکمت عملی کا بنیادی پتھر بنایا کہ کسی صورت میں بھی عہد و پیمان کو نہ توڑا جائے۔ ہر عہد پورا کیا جائے گا اور اگر کوئی فریق اپنے عہد سے پھرا تو اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی ہو گی۔
سیرت نبوی کے بحر ذخَّار سے چند اَور مثالیں پیش خدمت ہیں۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین مکّہ کی طرف سے ایک یہ شرط رکھی گئی تھی کہ مکّہ سے جو شخص بھی مسلمان ہو کر مدینہ جائے گا وہ اہل مکّہ کے مطالبہ پر واپس کر دیا جائے گا۔ اس شرط پر باہم سخت اختلاف ہوا اور ابھی اس شرط پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا تھا اور نہ تحریر مکمل ہوئی تھی کہ عین اس موقع پر قریش مکّہ کے سفیر سہیل بن عمر و کا لڑکا ابو جندل بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑا ہوا، گرتے پڑتے کسی طرح اس مجلس میں آپہنچا اور رسولِ خداصلی اللہ علیہ وسلم سے فر یادی ہوا کہ مجھے واپس نہ کیا جائے۔ تمام مسلمان یہ دردناک منظر دیکھ کر تڑپ اُٹھے۔ جذبات کا ایک عجیب عالم تھا۔ امتحان کا ایک کڑا موقع تھا۔ معاہدہ ابھی پوری طرح طے بھی نہیں ہوا تھا، لیکن کفار مکّہ کا اصرار تھا کہ شرط کو تسلیم کیا جائے اور اس کی فوری تعمیل ہو اور دوسری طرف ایک مظلوم بھائی نہایت درد انگیز انداز میں اپنے زخم دکھا دکھا کر فر یاد کر رہا تھا کہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں مجھے ان ظالموں کی طرف واپس نہ لوٹایاجائے۔
اس نازک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عظمت کے ساتھ ایفائے عہد کی حقیقی رُوح کو سر بلند رکھا۔ آپؐ نے ابوجندل کو واپس مکہ جانے کی ہدایت فرمائی اور دردمندانہ الفاظ میں فر مایا: ’’اے ابو جندل ! صبر سے کام لو۔ اور خدا کی طرف نظر رکھو۔ خدا تمہارے لیےاور تمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لیے ضرور کوئی راستہ کھولےگا۔ لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکّہ کے ساتھ معاہدہ کی زبانی بات ہو چکی ہےاور ہم اس معاہدے کے خلاف کوئی قدم نہیں اُ ٹھا سکتے۔ ہم بد عہدی نہیں کر سکتے۔ ‘‘
اس کے برعکس ہمیں تاریخ میں اسی واقعہ کے حوالے سے آپ کی سیاسی بصیرت کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسی معاہدے کے بعد جب چند خواتین ہجرت کرکے مکہ سے مدینہ پہنچیں جن میں ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط بھی تھیں جن کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ انہیں ہمارے سپرد کیا جائے تاکہ واپس لے جائیں لیکن اس بارے میں واضح احکام خداوندی کے ماتحت انہیں واپس نہیں کیا گیا بلکہ کفار مکہ کا مطالبہ یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ صلح حدیبیہ کی تمام شرائط میں کوئی شرط بھی عورتوں کے حوالے سے نہیں تھی۔
(ماخوذ ازبخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الحدیبیہ بحوالہ حدیقۃ الصالحین حدیث 701صفحہ 665۔ ماخوذازسیرت خاتم النبیینؐ صفحہ767تا773)
اہل نجران سے امن معاہدہ
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بطور سربراہ مملکت آپ کی سیاسی بصیرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپؐ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپؐ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی(جو نجران میں آئے تھے) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کے گرجے ان کے عبادت خانے، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہر وں میں ہو ں یا پہاڑوں میں ہوں یا جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہو گی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں۔ پھر آگے ہے کہ اسی طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں (یعنی نصاریٰ کو) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے۔ ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے۔ اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے۔ ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی۔ نہ سرائے بنائی جائیں گی نہ وہاں کسی کوٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا۔ علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہو گی تو اسے مکمل آزادی ہو گی کہ وہ اپنے طو رپر عبادت کرے۔ اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کرمسائل پوچھنا چاہے تو جائے۔ گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپؐ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہو گا اور نہ احسان ہو گا بلکہ اس معاہدے کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہو گی کہ اس طرح کے سوشل تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں۔ ‘‘
(ملخص سیاسی وثیقہ جات از عہد نبوی تا خلافت راشدہ از ڈاکٹر محمد حمید اللہ صفحہ 108تا112، خطبہ جمعہ فرمودہ10؍ مارچ 2006ء )
چوکیوں کا قیام اور قافلوں کی حفاظت کا انتظام
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک خطبہ جمعہ میں اس حوالے سے مثال دیتے ہوئے فرمایا: ’’پھر سریہ سِیْفُ الْبَحْرہے۔ یہ وہ ساری جنگیں ہیں جن کی فوجوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شامل نہیں ہوتے تھے۔ یہ سریہ ہیں۔ یہ سریہ آٹھ ہجری میں ساحل سمندر کی طرف روانہ ہوا جہاں بنو جُہَیْنَہ کا ایک قبیلہ آباد تھا۔ اس سریہ کو جَیْشُ الْخَبَطْ بھی کہا جاتا ہے۔ اس نام کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ خوراک کی کمی کے باعث صحابہ ایسے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے جنہیں خَبَطْ کہا جاتا تھا۔ خَبَطْ کے ایک معنی پتے جھاڑنے کے بھی ہے۔ اس سریہ کا ذکر صحیح بخاری میں ہے اور وہ اس طرح بیان ہوا ہے۔ حضرت جابرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھیجا۔ ہم تین سو سوار تھے۔ ہمارے امیر حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ تھے۔ قریش کے تجارتی قافلے کی نگرانی میں بیٹھ گئے۔ یہاں کوئی جنگ کا ارادہ نہیں تھا۔ قریش کے قافلے کی نگرانی کرنی تھی۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ اس سریہ سِیْفُ البحر کے ضمن میں اپنی شرح میں لکھتے ہیں سِیف البحر یعنی وہی جس کو خبط بھی کہتے ہیں کہ مذکورہ بالا غزوہ ان غزوات میں سے ہے جن میں کسی سے جنگ کرنا مقصودنہیں تھا بلکہ اس غزوہ میں شامل لوگ قافلہ تجارت کی حفاظت کی غرض سے بھیجے گئے تھے۔ یہ مہم بقول ابن سعد تین سو مہاجر و انصار پر مشتمل تھی۔ حضرت ابوعبیدہ بن جَرَّاحؓ اس کے امیر تھے اور غزوہ سِیف البحر کے نام سے مشہور ہے۔ یہاں بحیرہ قلزم کے قریب کاروان چلتے تھے تو کاروانی راستہ کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی۔ قافلوں کا جو رستہ چلتا تھا ان کے قریب بحیرہ قلزم کے کنارے ایک حفاظتی چوکی قائم کی گئی تھی اس لیے غزوۂ سیف البحر سے موسوم ہے۔ یہ فوج بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ وہاں ایک چوکی قائم کی جائے جو حفاظت کی غرض سے ہو اور آگے پتہ لگے گا کہ حفاظت کس کی کرنی تھی۔ سِیْف کے معنی ساحل کے ہیں۔ ابنِ سعدنے سریۃالخَبْط کے عنوان سے اس کا مختصر ذکر کیا ہے۔ خَبْط کے معنی ہیں درخت کے پتے۔ زادِ راہ ختم ہونے کی وجہ سے مجاہدین کو پتے کھانے پڑے تھے۔ ابن سعدنے تاریخ وقوع رجب آٹھ ہجری بتائی ہے اور یہ زمانہ ھُدنہ یعنی صلح حدیبیہ کا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دور اندیشی سے کام لیا اور بطور احتیاط مذکورہ بالا حفاظتی دستہ علاقہ سِیف البحر میں بھیجا تھا۔ جو چوکی قائم کروائی گئی تھی وہاں حفاظتی دستہ کے طور پہ بھیجا تا شام سے آنے والے قریشی قافلے سے تعرض نہ ہو، شام سے جو قریش کا تجارتی قافلہ آ رہا تھا اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہ ہو اور قریش کے ہاتھ میں نقض معاہدہ کا کوئی بہانہ نہ مل جائے۔ صلح حدیبیہ ہو چکی تھی۔ اب یہ تھا کہ یہ نہ ہو وہاں کوئی ان کو چھیڑ دے اور قریش بہانہ بنا دیں کہ دیکھو مسلمانوں نے ہم پر حملہ کیا اس لیے حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہو گیا۔ تو اس لیے آپؐ نے وہ بھیجا تھا۔ وہاں چوکی قائم کر دی تا کہ قریش کے اس قافلے کی حفاظت کرے اور کوئی بہانہ نہ ملے۔ پھر لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا جگہ بقول ابنِ سعد مدینہ سے پانچ دن کی مسافت پر ہے۔ ‘‘(ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوہ سیف البحر جلد 9 صفحہ 239 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ، الفضل انٹرنیشنل 23؍اکتوبر2020ءصفحہ5)
خارجہ پالیسی کے دیگر اصول
سیاست کے میدان میں خارجہ پالیسی ایک بہت اہم میدان ہوتا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست خارجہ کا بہت بڑا اصول تبلیغ اسلام کرنا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے آپؐ نے دو طریقے اختیار فرمائے
1۔ دعوتی خطوط
2۔ تبلیغ کی راہ میں حائل ہونے والوں کا انتظام
شاہان مملکت کو خطوط
جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایااس وقت حجاز میں قبائلی نظام تھا۔ جس میں مرکزیت کا تصور بھی نہ تھا۔ صرف دو پڑوسی سلطنتیں ایران اور روم تھیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اندرون ملک کے استحکام کے بعد بیرون ملک دعوتی خطوط لکھنے شروع کیے۔ آپ کا طریق کار یہ تھا کہ اپنا خط ایک سفیر کو دے کر روانہ فرماتے اور مکتوب الیہ کے رد عمل کا انتظار کرتے۔
ان سفراء کے انتخاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلیت وشخصیت کے ساتھ زبان د انی اور زبان آوری کابھی خصوصی لحاظ رکھا۔
صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرتؐ کو تلوار کے جہاد سے کسی قدر فرصت ملی تو آپؐ نے مختلف حکومتوں کے فرمانروائوں کی طرف تبلیغی خطوط بھجوانے کی تجویز کی تاکہ اُن کے ذریعہ اُن کی رعایا تک اسلام کا پیغام پہنچایا جاسکے۔ آنحضورؐ کے یہ تاریخی خطوط اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ کوخدا تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان تھااور آپ توکل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے۔ ایران وروم کی حکومتوں کو ایک عرب کا خط لکھ کراپنی اطاعت کی طرف بلانا یقیناً ایک ایسا کارنامہ تھا جو آپؐ کی غیر معمولی شجاعت کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’آنحضرتﷺ نے خود اپنے ہاتھ سے بعد نزول اس آیت کے
قُلْ یٰٓاَ یُّھَاالنَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(الاعراف: 159)
دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف دعوتِ اسلام کے خط لکھے تھے کسی اور نبی نے غیر قوموں کے بادشاہوں کی طرف دعوتِ دین کے ہرگز خط نہیں لکھے کیونکہ وہ دوسری قوموں کی دعوت کےلیے مامور نہ تھے یہ عام دعوت کی تحریک آنحضرتﷺ کے ہاتھ سے ہی شروع ہوئی او رمسیح موعود کے زمانہ میں اور اُس کے ہاتھ سے کمال تک پہنچی۔ ‘‘(چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 77)
صحابہؓ نے آنحضورؐ کو مشورہ دیا کہ دنیوی حکمرانوں کا یہ دستور ہے کہ وہ مہر شدہ خط کے بغیر کسی اَور خط کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ اس پر آپؐ نے چاندی کی ایک انگوٹھی تیار کروائی جس پر مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ کندہ کروائے۔
(صحیح البخاری کتاب العلم )
آنحضرتؐ کا ایک خط مقوقس والیٔ مصر کے نام تھا جو قیصر کے ماتحت مصر اور اسکندریہ کا والی یعنی موروثی حاکم تھا اور قیصر کی طرح مسیحی مذہب کا پَیرو تھا۔ اس کا ذاتی نام جُریح بن مینا تھا اور وہ اور اس کی رعایا قبطی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ آنحضرتؐ نے مصر کے والی مقوقس کو جو خط تحریر کیا تھا اُس کی خاص اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ کئی سوسال تک پردۂ اخفا میں مستور رہنے کے بعد 1858ء میں بعض فرانسیسی سیاحوں کو مصر کی ایک خانقاہ میں ملا تھا۔ اس خط کا عکس بھی شائع ہوچکا ہے۔ یہ خط آپؐ نے اپنے ایک بدری صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھجوایا۔ اس خط کا اردو ترجمہ یہ ہے: ’’مَیں اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں جو بےمانگے رحم کرنے والاا ور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے۔ یہ خط محمدؐ خدا کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے قبطیوں کے رئیس مقوقس کے نام ہے۔ سلامتی ہو اُس شخص پر جو ہدایت کو قبول کرتا ہے اس کے بعد اے والیٔ مصر! مَیں آپ کو اسلام کی ہدایت کی طرف بلاتا ہوں۔ مسلمان ہوکر خدا کی سلامتی کو قبول کیجئے کہ اب صرف یہی نجات کا رستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دوہرا اجر دے گا، لیکن اگر آپ نے روگردانی کی تو (علاوہ خود آپ کے اپنے گناہ کے ) قبطیوں کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہوگا۔ اور اے اہلِ کتاب اِس کلمہ کی طر ف تو آجائو جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی صورت میں خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں اور خدا کو چھوڑ کر اپنے میں سے ہی کسی کو اپنا آقا اور حاجت روا نہ گردانیں۔ پھر اگر ان لوگوں نے رُوگردانی کی تو اُن سے کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو بہرحال خدائے واحد کے فرمانبردار بندے ہیں۔ ‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ818تا819)
مخالف سفیروں کے ساتھ سلوک
’’گو عام طور پر اس زمانہ میں بھی سفیروں کو امان حاصل ہوتی تھی، جیسا کہ صلح حدیبیہ کے بعد بھیجے جانے والے تمام سفیروں کی باحفاظت واپسی سے ظاہر ہے، تاہم مختلف مواقع پر سفیروں کے ساتھ غلط اور ہتک آمیز سلوک بلکہ ان کا قتل تک بھی تاریخ میں محفوظ ہے۔ خود آپؐ کے سفیروں میں سے بھی ایک کو شہید کر دیا گیا تھا۔ ( ابن سعد، طبقات الکبیر، جلد5 صفحہ 260) آنحضورؐ نے نہ صرف سفیروں کو امان مہیا فرمائی بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کو انتہا تک پہنچایا۔ دوست ممالک کے سفیروں کے ساتھ حسن سلوک تو عام ہے، اصل حقیقت مخالف فریق کے سفیر کے ساتھ سلوک سے عیاں ہوتی ہے۔ خصوصاً تب، جبکہ اس کا پیغام ہتک آمیز ہو۔ اس لیے اس کی چند مثالیں پیش ہیں۔
مذہبی مخالفین کے سفیروں میں سے ایک وفد اہل نجران کا تھا جن سے سخت مذہبی مباحثہ کے بعد بات مباہلہ تک پہنچی۔ ان سفراء کو آپؐ نے اپنے پاس اپنی مسجد میں ٹھہرایا۔ ان کی مہمان نوازی کی۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی عبادت کے لیے کھڑے ہوئے تو آپؐ نے ان کو مسجد نبوی ہی میں مسیحی طریق پر عبادت کرنے دی۔ (ابن کثیر، البدایہ و النہایۃ، جلد7صفحہ271)
سفیروں کی طرف سے توہین آمیز اور نہایت غلط رویہ حدیبیہ کے موقع پر مکہ کے مختلف سفیروں نے روا رکھا۔ آپؐ کے سامنے نہ صرف صحابہؓ کو ڈانٹا بلکہ ان کی وفاداری پر سوال اٹھایا، ان کو طعنے دیے، بار بار آپؐ کی داڑھی کو پکڑا۔ ایک موقع پر حضرت ابو بکرؓ جیسے حلیم طبع اور نرم انسان بھی غصہ میں آ گئے۔ تاہم آپؐ نے کسی قسم کی برہمی یا ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ ان کی تمام شرائط تسلیم فرمائیں اور ان کی عزت کی۔
(طبری، تاریخ الرسل و الملوک، جلد2صفحہ 626تا 627)
سب سے عجیب واقعہ ایرانی قاصدوں کا ہے۔ کسریٰ نے آپؐ کا خط پھاڑ کر یمن کے فارسی عامل باذان کو حکم دیا کہ آپؐ کو گرفتار کر کے اس کے سامنے پیش کیا جائے۔ فارس کی سلطنت کے رعب اور دبدبہ کا یہ عالم تھا کہ یمن سے محض دو آدمی مدینہ بھیجے گئے کہ آپؐ کو گرفتار کر کے لائیں۔ ایرانیوں کو علم تھا کہ دو ہی کافی ہیں اور کسی میں یہ ہمت نہیں ہو گی کہ سینکڑوں کلومیٹر کے فاصلہ پر بھی ان کے کام میں رکاوٹ بن سکے۔ ان قاصدوں نے مدینہ پہنچ کر آپؐ کو کسریٰ کا پیغام پہنچایا اور کہا کہ ہمارے ساتھ چلیں تو باذان کسریٰ سے سفارش کرے گا اور اگر آپؐ نے بات نہ مانی تو آپؐ کو علم ہی ہے کہ کسریٰ آپؐ کو اور آپؐ کی قوم کو تباہ کر دے گا۔ اس ہتک آمیز پیغام کے جواب میں آپؐ نے نہایت تحمل سے فرمایا کہ کل آنا۔ اگلے روز فرمایا میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا ہے۔ یہ تو ان کے پیغام کا جواب تھا۔ لیکن جہاں تک سلوک کا تعلق ہے تو آپؐ نے ان میں سے ایک کو سونے چاندی کا ایک برتن عنایت فرمایا!(طبری، تاریخ الامم و الملوک، جلد2 صفحہ 656) آج بھی ایسا واقعہ ہو تو غیرت، عزت، یا کسی اور بہانے سے سفیر کو بےعزت کرنے کی کوشش کی جائے، کم از کم اسے تحفہ دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن آپؐ کا معیار ہی الگ تھا۔ ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 27؍اکتوبر2020ءصفحہ48)
اس کے علاوہ خارجہ سیاست میں آپ نے تالیف قلبی کو بھی ملحوظ نظر رکھا اور زکوۃ کوتالیف قلبی کے لیے استعمال کیا۔ یہ رعایت اس لیے تھی کہ اسلام دل میں گھر کرلے گا تو جہاد بھی ہوگا اور زکوۃ کی ادائیگی بھی۔ غرض قرآن نے عملی سیاسیات کی جو اہم ودوررس تعلیم دی اور حکمران کو جو صوابدید کا حق دیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پوری طرح نظر آتا ہے۔
آپؐ کی سیاست کا سب سے عظیم شاہکار فتح مکہ ہے جو آپ کی دس سالہ مدنی سیاست کا وہ عظیم نتیجہ تھا جس کی بنیاد صلح حدیبیہ کوبنایاگیا تھا۔ اس میں بھی تالیف قلبی کا پہلو تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بطور سیاستدان وحکمران عظیم مقنن اور منتظم ومدبر تھے۔ آپؐ نے آنے والوں کے لیے قابل اتباع نمونہ عمل چھوڑا۔ آپؐ نے قرآن کی بیان کردہ سیاست کو عملی سیاست بنایااور آپ کے قائم کردہ اصول سیاست آج بھی اس معاشرہ کو اس عروج کی بلندی پر پہنچا سکتے ہیں۔
خلفا ئے راشدین کی سیاسی بصیرت
جس طرح ہم نے اوپر سیرت النبیؐ کے حوالے سے آنحضرتؐ کی سیاسی بصیرت کے چند واقعات ملاحظہ کیے ہیں اسی طرح ذیل میں خلفائے راشدین کی سیاسی بصیرت کے چند نمونے پیش کرنا چاہوں گی۔ صحابہ رضوان اللہ عنہم کی سیاسی بصیرت کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بار گراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہو سکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی۔ ‘‘
(الحکم جلد 5نمبر5مورخہ 10؍فروری 1901ء صفحہ1-2 بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد 2صفحہ246)
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ سے مشورہ کرتے تھے اور عام اور خاص معاملات ان کے سپرد کرتے، خاص طور پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کو دوسروں کی نسبت خصوصیت دیتے۔ یہاں تک کہ وہ عرب جو قیصر اور کسریٰ اور نجاشی کی سلطنتوں اور ان کے حالات سے واقف تھے، وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاوزیر یا مشیر خاص کہا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے اس پہلو کو جس کا تعلق عام معاملات سے ہے، قرآن پاک نے مشورے کے اصول سے واضح کیا۔
وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ (آل عمران: 160)
اور (ہر) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر۔ پس جب تُو (کوئی) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر توکل کر۔ یقیناً اللہ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور استقامتِ صدیقی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرامؓ اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے، یہاں تک کہ حضرت عمرؓ جیسے مضبوط قوت و جسم کے مالک اور بہادر بھی اس اعلان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ہاتھ میں بےنیام تلوار لے کر یہ کہنے لگے کہ جس شخص کو میں نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ اس موقع پر بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی فطری بصیرت اور اصابتِ رائے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ’’لوگو! سنو! جو لوگ تم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں اورجولوگ اللہ پاک کی عبادت کرتے تھے تو یاد رکھو! اللہ زندہ ہے اور اللہ کی ذات کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ ‘‘اس کے بعد قرآن پاک کی آیات تلاوت فرما کر اپنی بات کو مزید مؤثر کردیا۔ یہ خطبہ اور اس میں تلاوت کی گئی آیات سنتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتنا حوصلہ ملا کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم فرمانے لگےکہ یوں معلوم ہوتاہے کہ قرآن پاک کی یہ آیت ابھی نازل ہورہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے اتنے جان لیواحادثے کے بعد بھی اتنے بلند حوصلے اور عزائم کا اعادہ کوئی حلیم طبع اور صابر انسان ہی کر سکتاہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت کی قیادت سنبھالنے کا حق دار ہے۔
اسلامی حکومت کی خصوصیات
اسی طرح ایک جگہ اسلامی نظام حکومت کو بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’اسلام ہی ہے جس نے ملکی حقوق بھی قائم کیے ہیں۔ اسلام کے نزدیک ہر فرد کی خوراک، رہائش اور لباس کی ذمہ دار حکومت ہے اور اسلام نے ہی سب سے پہلے اس اصول کو جاری کیا ہے۔ اب دوسری حکومتیں بھی اس کی نقل کر رہی ہیں مگر پورے طور پر نہیں۔ بیمے کیے جا رہے ہیں۔ فیملی پنشنیں دی جا رہی ہیں۔ مگر یہ کہ جوانی اور بڑھاپے دونوں میں خوراک اور لباس کی ذمہ وار حکومت ہوتی ہے یہ اصول اسلام سے پہلے کسی مذہب نے پیش نہیں کیا۔ دنیاوی حکومتوں کی مردم شماریاں اس لئے ہوتی ہیں تا ٹیکس لیے جائیں یا فوجی بھرتی کے متعلق یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت کتنے نوجوان مل سکتے ہیں۔ مگر اسلامی حکومت میں سب سے پہلی مردم شماری جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کروائی گئی تھی وہ اس لئے کروائی گئی تھی تا کہ تمام لوگوں کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے اس لئے نہیں کہ ٹیکس لگایا جائے یا یہ معلوم کیا جائے کہ ضرورت کے وقت فوج کے لئے کتنے نوجوان مل سکیں گے بلکہ وہ مردم شماری محض اس لئے تھی کہ تا ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک مردم شماری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوئی تھی مگر اس وقت ابھی مسلمانوں کو حکومت حاصل نہیں ہوئی تھی اس لئے اس مردم شماری کا مقصد محض مسلمانوں کی تعداد معلوم کرنا تھی۔ جو مردم شماری اسلامی حکومت کے زمانہ میں سب سے پہلے ہوئی وہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی اور اس لئے ہوئی تا کہ ہر فرد کو کھانا اور کپڑا مہیا کیا جائے۔ یہ کتنی بڑی اہم چیز ہے جس سے تمام دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے۔ صرف یہ کہہ دینا کہ درخواست دے دو اس پر غور کیا جائے گا اسے ہر انسان کی غیرت برداشت نہیں کر سکتی’’ کہ درخواستیں منگوائی جائیں پھر غور کیا جائے۔ ‘‘اس لئے اسلام نے یہ اصول مقرر کیا ہے کہ کھانا اور کپڑا حکومت کے ذمہ ہے اور یہ ہر امیر اور غریب کو دیا جائے گا خواہ وہ کروڑ پتی ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ آگے کسی اَور کو ہی کیوں نہ دے دے تا کہ کسی کو یہ محسوس نہ ہو کہ اسے ادنیٰ خیال کیا جاتا ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد10صفحہ308)
ہر محاذ پر قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت سے فتح حاصل کی
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’آرمینیاکی مصالحت کے بارے میں لکھا ہے کہ آذربائیجان کی فتح کے بعد بُکَیر بن عبداللہ آرمینیا کی طرف بڑھے۔ ان کی امداد کے لیے حضرت عمرؓ نے ایک لشکر سُرَاقَہ بن مالِک بن عَمرو کی سرکردگی میں بھجوایا اور اس مہم میں سپہ سالار اعلیٰ بھی سُرَاقَہ کو مقرر کیا اور ہراول دستوں کی کمان عبدالرحمٰن بن رَبِیْعَہ کو دی۔ ایک بازو کا افسر حُذَیْفَہ بن اُسَیْدغِفَارِی کو بنایا اور یہ حکم دیا کہ جب یہ لشکر بُکیر بن عبداللہ کے لشکر سے جوآرمینیا کی طرف روانہ تھا جا ملے تو دوسرے بازو کی کمان بکیر بن عبداللہ کے سپرد کی جائے۔ یہ لشکر روانہ ہوا اور ہراول دستوں کے افسر عبدالرحمٰن بن رَبِیعہ سرعت سے نقل و حرکت کرتے ہوئے بُکیر بن عبداللہ کے لشکر سے آگے نکل کر بَابْ مقام کے قریب جا پہنچے جہاں شَہْرَبَرَازْ حاکم ِآرمینیامقیم تھا۔ یہ شخص ایرانی تھا۔ اس نے خط لکھ کر عبدالرحمٰن سے امان حاصل کی اور عبدالرحمٰن کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایرانی تھا اور آرمینیوں سے اسے نفرت تھی۔ اس نے عبدالرحمٰن کے پاس صلح کی پیشکش کی اور کہا کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے۔ میں حسب ضرورت فوجی امداد دیا کروں گا۔ یہاں یہ ایک اَور طرز کا معاہدہ ہو رہا ہے۔ خود آگیا ہے۔ صلح کر لی تو جزیہ نہ لیا جائے۔ میں مدد کرتا ہوں، فوجی مدد کروں گا۔ سراقہ نے یہ تجویز منظور کر لی اور بغیر جنگ کے آرمینیا پر قبضہ ہو گیا۔ حضرت عمرؓ کی خدمت میں جب اس قسم کی صلح کی رپورٹ کی گئی تو نہ صرف یہ کہ آپ نے اسے منظور کر لیا بلکہ بڑی مسرت اور پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ ‘‘(الفضل انٹرنیشنل 17؍ستمبر2021ء صفحہ6)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں لڑی جانے والی جنگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ان میں سے ایک جنگ جنگِ جُنْدَی سَابُوْرہے۔ جب حضرت ابو سَبْرَہ بن رُھْم سَاسَانیبستیوں کی فتح سے فارغ ہوئے تو آپ لشکر کے ساتھ آگے بڑھے اور جُنْدَی سَابُوْرمیں پڑاؤ کیا۔ جندی سابور خوزستان کا ایک شہر تھا۔ بہرحال ان دشمنوں کے ساتھ صبح شام جنگی معرکے ہوتے رہے لیکن یہ اپنی جگہ ڈٹے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی طرف سے کسی نے امان دینے کی پیشکش کردی۔ دشمن فصیل میں تھا۔ جب موقع ملتا تھا نکل کے حملہ کرتا تھا۔ تو جب ایک عام مسلمان نے پیشکش کی تو انہوں نے فوراً فصیل کے دروازے کھول دیے۔ جانور باہر نکل پڑے، بازار کھل گئے اور لوگ اِدھر اُدھر نظر آنے لگے۔ مسلمانوں نے ان سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں امان دے دی ہے اور ہم نے اسے قبول کر لیا ہے۔ ہم جزیہ دیں گے اور آپ ہماری حفاظت کریں گے۔ مسلمانوں نے کہا ہم نے تو ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جھوٹ نہیں کہہ رہے۔ پھر مسلمانوں نے آپس میں ایک دوسرے سے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ مِکْنَفْ نامی ایک غلام نے یہ کیا ہے۔ جب اس کے متعلق حضرت عمرؓ سے استفسار کیا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے وفاداری کو بڑی اہمیت دی ہے۔ تم وفا دار نہیں ہو سکتے جب تک اس عہد کو پورا نہ کرو جو عہد کر لیا۔ چاہے غلام نے کیا اس کو پورا کرو۔ جب تک تم شک میں ہو انہیں مہلت د و اور ان کے ساتھ وفاداری کرو۔ چنانچہ مسلمانوں نے عہد و پیمان کی تصدیق کی اور واپس لَوٹ آئے۔ (ماخوذ از سیرت امیر المومنین عمر بن خطاب از الصلابی صفحہ 425 دارالمعرفہ بیروت 2007ء)
(ماخوذ از سیدنا عمر بن خطاب، شخصیت کارنامے صفحہ 689 مکتبہ الفرقان خان گڑھ پاکستان) (معجم البلدان جلد2 صفحہ198)
یہ معرکہ خوزستان کی فتوحات کا خاتمہ تھا۔ (مقالہ ’تاریخ اسلام بعہد حضرت عمررضی اللہ عنہ‘ از مکرم سید میرمحمود احمد صاحب ناصر، صفحہ 135)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس طرح کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا ہے کہ ’’حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک حبشی غلام نے ایک قوم سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ فلاں فلاں رعایتیں تمہیں دی جائیں گی۔ جب اسلامی فوج گئی تو اس قوم نے کہا ہم سے تو یہ معاہدہ ہے۔ فوج کے افسر اعلیٰ نے اس معاہدہ کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل کی تو بات حضرت عمرؓ کے پاس گئی۔ انہوں نے فرمایا مسلمان کی بات جھوٹی نہ ہونی چاہئے خواہ غلام ہی کی ہو۔ ‘‘
(بعض ضروری امور، انوار العلوم جلد12 صفحہ405)
…حضرت عمرؓ کو جب یہ خط مِلا تو آپؓ نے فرمایا کہ آئندہ کے لیے یہ اعلان کردو کہ کمانڈر اِنچیف کے بغیر کوئی معا ہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو مَیں اس کو جھو ٹا کردوں۔ اب وہ حبشی جو معاہدہ کر چکا ہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا۔ ہاں آئندہ کے لیے اعلان کردو کہ سوائے کمانڈر اِنچیف کے اَور کوئی کسی قوم سے معا ہدہ نہیں کر سکتا۔ (ماخوذ از انوار العلوم جلد 24صفحہ293۔294)‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ20؍اگست2021ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل10؍ستمبر2021ءصفحہ5)
اگر ہم اسلامی تاریخ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں لاتعداد ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جنہیں ضبط تحریر میں لایا جائے تو کئی مضامین تیار ہوسکتے ہیں۔ خاکسار حسب توفیق اس بحر ذخار سے چند انمول موتی ہی چن پائی ہے۔ خدا کرے کہ ہم آپؐ کی سیرت پر عمل کرنے والے اور اس کے تمام پہلوئوں کو اپنانے والے ہوں۔ آمین۔ ثم آمین۔
٭…٭…٭