خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍مارچ 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭… اگرمجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کھائیں گے تو بھی مَیں اسامہ کے لشکر کے متعلق رسول اللہﷺ کے جاری فیصلے کو نافذ کرکے رہوں گا
٭… حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ایک بہت بڑا کام انتخابِ خلافت کے وقت امتِ مسلمہ کو اتفاق و اتحاد کی لڑی میں پِرونا ہے
٭…حضرت ابوبکر صدیقؓ کو خلافت کے بعد درپیش مشکلات کا اجمالی تذکرہ
٭… دنیا کے فکرانگیز حالات، امتِ مسلمہ کو اس جنگ سے سبق حاصل کرتے ہوئے اکائی حاصل کرنے کی تلقین
٭… اسیرِ راہِ مولیٰ مکرم محمود اقبال ہاشمی صاحب آف لاہور کی والدہ محترمہ سیدہ قیصرہ ظفر ہاشمی صاحبہ کی وفات پر ان کا ذکر ِخیراور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍مارچ 2022ء بمطابق 11؍امان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے مورخہ 11؍مارچ 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت فیروز عالم صاحب کے حصے میں آئی۔ تشہد،تعوذاور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےفرمایا:

حضرت ابوبکرؓ کوخلافت کےبعد جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اُن کا ذکر ہورہا تھا۔ ان میں سے پہلی مشکل جو بیان کی گئی تھی وہ آنحضرتﷺ کی وفات کا غم تھا۔ یہ پہلا نازک اور ہولناک مرحلہ تھا جب سارےصحابہ مارے غم کے دیوانے ہورہے تھے۔ حضرت عمرؓ تو تلوار لےکر کھڑے ہوگئے تھے کہ اگر کسی نےکہا کہ محمدﷺ وفات پاگئے ہیں تو مَیں اس کا سر تن سے جدا کردوں گا۔ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ جو شخص محمدرسول اللہﷺ کی عبادت کرتا تھا وہ سن لے کہ محمدؐ فوت ہوچکے ہیں اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے وہ خوش ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہوگا۔ باوجود اُس بےانتہا محبت کے جو آپؓ کو حضورﷺسے تھی آپؓ نے توحید ہی کا درس دیا۔ کمال ہمت اور حکمت سے صحابہ کی ڈھارس بندھائی۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ وہ خیالات جو آنحضرتﷺ کی زندگی کےبارے میں بعض صحابہ کےدل میں پیدا ہوگئے تھے (حضرت ابوبکرؓ نے) ایک عام جلسے میں قرآن شریف کی آیت کا حوالہ دے کر ان تمام خیالات کو دُور کردیا۔

دوسرا بڑا کام جو آپؓ نے انجام دیا وہ انتخابِ خلافت کے وقت امتِ مسلمہ کو اتفاق و اتحاد کی لڑی میں پِرونا ہے۔ نبی اکرمﷺ کی وفات سےجو دوسرا بڑا خدشہ پیدا ہوا وہ سقیفہ بنو ساعدہ میں انصار کا اجتماع تھا۔ انصارکسی طور سے بھی مہاجرین میں سے خلیفہ تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ اس نازک موقعے پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکرؓ کی زبان میں وہ تاثیر پیداکی کہ انتشار و اختلاف محبت و اتحاد میں بدل گیا۔

تیسرا بڑا معاملہ جسے آپؓ نے فوری سنبھالا وہ اسامہؓ کے لشکر کی روانگی کا معاملہ تھا۔ یہ لشکر شام کی سرحد پر رومیوں سے لڑائی کےلیے رسول اللہﷺ نے تیار کیا تھا۔اس لشکر کی قیادت حضرت اسامہؓ کے سپرد فرماتے ہوئے حضورﷺ نے حضرت اسامہ کو تفصیلی ہدایات بھی دی تھیں۔ اسی طرح آپؐ نے اپنے دستِ مبارک سے ایک جھنڈا بھی باندھا تھا۔ اس لشکر میں حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ سمیت اکابر صحابہ شامل تھے۔ جب کچھ لوگوں نے اس طور سے باتیں کیں کہ یہ لڑکا اکابر مہاجرین صحابہ پر امیر بنایا جا رہا ہےتورسول اللہﷺ سخت ناراض ہوئے۔ حضرت اسامہ ؓ لشکر لےکر روانہ ہوئے تو حضورﷺ اپنی آخری بیماری میں مبتلا تھے۔ حضورِاکرمﷺ کی وفات پر یہ لشکر جُرف یا ذی خشب مقام سے واپس مدینہ آگیا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرلی گئی تو آپؓ نے حکم دیا کہ اسامہ کی مہم پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔ اسامہ کے لشکر میں سے کوئی شخص مدینےمیں باقی نہ رہے۔ اس لشکر کی تعداد تین ہزاربیان کی جاتی ہے اور ایک دوسری روایت میں سات سَوکی تعدادکا بھی ذکر ملتاہے۔ حضورﷺ کی وفات پر جہاں عرب قبائل میں فتنۂ ارتداد پھیل رہا تھاوہیں یہودونصاریٰ بھی اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے تھے۔ان حالات میں حضرت ابوبکرؓ کواس لشکر کی روانگی روک لینے کا مشورہ دیا گیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے خدا کی قسم کھاکرفرمایا کہ اگرمجھے یقین ہو کہ درندے مجھے نوچ کھائیں گے تو بھی مَیں اسامہ کے لشکر کے متعلق رسول اللہﷺ کے جاری فیصلے کو نافذ کرکے رہوں گا۔
حضرت مصلح موعودؓ لشکرِ اسامہ کی روانگی کے پس منظر میں فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کورسول کریمﷺ نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اسے روک لے؟ خدا کی قسم! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور کتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پِھریں تب بھی مَیں اس لشکر کو نہیں روکوں گا…یہ جرأت اور دلیری حضرت ابوبکرؓ میں اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ خدا نے فرمایا ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ۔ جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جائے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہوجاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہﷺ کے تعلق کے نتیجے میں آپؐ کے ماننے والے بھی اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ کے مصداق بن گئے۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ جیش اسامہ کی روانگی کی بابت ’سِرّ الخلافة‘ میں فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کا وصال ہوا اور یہ خبر مکّہ اور وہاں کے گورنر عتاب بن اسید کو پہنچی تو عتاب چھپ گیا اور مکّہ لرز اٹھا۔ قریب تھا کہ اس کے باشندے مرتد ہوجاتے۔

ایسے حالات میں لوگوں نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کو لشکر اسامہ کی روانگی سے روک لیں یا اگر لشکرروانہ کریں تو اسامہ سے بڑی عمر کے کسی شخص کو امیر مقرر فرمائیں۔ حضرت عمرؓ نے جب یہ بات حضرت ابوبکرؓ سے کہی تو آپؓ نے عمرؓ کی داڑھی کو پکڑا اور کہا کہ اے ابنِ خطاب! تیری ماں تجھے کھوئے رسول اللہﷺ نے اسے امیر مقرر کیا ہے اور تم مجھے کہتے ہو کہ مَیں اسے امارت سے ہٹا دوں۔

اس لشکر کی روانگی کا منظر بھی بہت حیرت انگیز تھا۔ اس وقت حضرت اسامہ سوار تھے جبکہ حضرت ابوبکرؓ پیدل چل رہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سے کہا کہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو حضرت عمرؓ کو میرے کاموں میں معاونت کے لیے چھوڑ دیں، حضرت اسامہؓ نے اجازت دے دی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ جب بھی حضرت اسامہ سے ملتے تو کہتے اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاالْاَمِیْرُ۔

حضرت ابوبکرؓ نے لشکرِ اسامہ کی روانگی کے وقت خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ مَیں تمہیں دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں: تم خیانت نہ کرنا، مالِ غنیمت سے چوری نہ کرنا، بدعہدی نہ کرنا، مثلہ نہ کرنا، کسی چھوٹے بچے، بوڑھے اور عورت کو قتل نہ کرنا، کسی پھل داردرخت کو نہ کاٹنا، کسی بکری، گائے اور اونٹ کو کھانےکے سوا ذبح نہ کرنا، گرجوں کے لیے وقف راہبوں کو چھوڑ دینا، اگر کوئی تمہیں کچھ کھانے کے لیے پیش کرےتو بسم اللہ پڑھ کر کھا لینا۔ ایسے لوگ جو درمیان سے اپنے بال صاف کیے ہوں اور چاروں طرف پٹیوں کے رنگ میں بال ہوں انہیں مت چھوڑنا۔ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکسانے والےاور جنگ میں شریک ہونے والے لوگ تھے۔

حضرت ابوبکرؓ نے حضرت اسامہؓ سےفرمایا کہ رسول اللہﷺ نے جو تمہیں کرنے کا حکم دیا تھا وہ سب ضرور کرنا۔ یہ لشکر ربیع الاول کے آخر میں روانہ ہوا اور بیس راتوں کےسفرکےبعد اہلِ اُبْنیٰ پر اچانک حملہ کرکے ان سے گذشتہ مظالم کا بدلہ لینے میں کامیاب رہا۔ بہت سا مالِ غنیمت حاصل کرکے جب حضرت اسامہؓ واپس مدینے پہنچےتو حضرت ابوبکرؓ مہاجرین اور اہلِ مدینہ کے ساتھ ان سے ملنے کےلیے باہر نکلے۔
لشکرِ اسامہ کی روانگی کے بہت سے دُور رس اثرات ظاہر ہوئے۔ تمام لوگوں نے جان لیا کہ خلیفہ کا فیصلہ کتنا بروقت اور مفید تھا۔ قبائلِ عرب پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔ عرب کی سرحدوں پر نظریں لگائے غیرملکیوں پر مسلمانوں کا رعب طاری ہوگیا۔

مشہور برطانوی مستشرق سرتھامس واکر آرنلڈ لکھتا ہے کہ یہ ان شان دار مہمات میں سے پہلی مہم تھی جس کے ذریعےمسلمان شام، ایران اور شمالی افریقہ پر قابض ہوئے اور قدیم فارسی سلطنت کو ختم کیا اور رومی سلطنت کے پنجے سے اس کے بہترین صوبوں کو آزاد کرالیا۔

ایک چیلنج جو حضرت ابوبکرؓ کو پیش آیا وہ مانعین اور منکرینِ زکوٰة کا فتنہ تھا۔ ارتداد کی مختلف شکلوں میں ایک شکل یہ تھی کہ لوگ اسلام پر تو قائم رہے لیکن زکوٰة کی فرضیت اور اسےخلیفہ کو دینے کے وجوب سے انکار کیا۔ کبار صحابہ سے مشورے کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ واللہ! اگر منکرینِ زکوٰة ایک رسّی دینے سے بھی انکار کریں گے جسےوہ حضورﷺ کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھےتو بھی مَیں ان سے جنگ کروں گا۔

منکرینِ زکوٰة کے رویّے، ان کے ساتھ جنگ اور اس کے نتائج کا ذکرآئندہ بیان کرنے کا ارشاد فرمانے کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا:آج پھر مَیں دنیا کے موجودہ حالات کے متعلق دعا کا کہنا چاہتا ہوں۔ خدا دونوں طرف کی حکومتوں کو عقل دے اور یہ لوگ انسانیت کا خون کرنے سے باز آجائیں۔ مسلمانوں کو بھی اس جنگ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ کس طرح یہ لوگ ایک ہوگئے ہیں۔ کم از کم مسلمان یہ اکائی کا ہی سبق ان سے سیکھ لیں۔ خداتعالیٰ مسلمانوں پر بھی رحم کرے اور یہ لوگ زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں۔

خطبے کے آخر میں حضورِانورنےمحترمہ سیّدہ قیصرہ ظفر ہاشمی صاحبہ اہلیہ ظفر اقبال ہاشمی صاحب لاہور کاذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ مرحومہ جماعتی خدمات بجالانے والی، صوم و صلوٰة کی پابند، دعاگو، مہمان نواز، بڑی صابرہ شاکرہ خاتون تھیں۔ پسماندگان میں خاوند کے علاوہ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔ مرحومہ کے ایک بیٹے محمود اقبال ہاشمی صاحب کیمپ جیل لاہور میں اسیرِ راہِ مولیٰ ہیں۔ محمود اقبال صاحب اور ان کے تین ساتھیوں کےخلاف جون 2019ء میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ ان کی ضمانت بھی ہوگئی تھی لیکن پھر اگست 2021ء میں ضمانت مسترد ہونے پر دوبارہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔ حضورِانور نےمرحومہ کی مغفرت اور بلندی درجات کے لیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button