عائلی زندگی میں مسائل کے اسباب
اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرےسے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پا سکتے ہو
عورت کے مال اور جائیداد پر نظر
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’لڑکوں کی ایک خاص تعداد ہے جو پاکستان، ہندوستان وغیرہ سے شادی ہو کر ان ملکوں میں آتے ہیں اور یہاں آکر جب کاغذات پکے ہوجاتے ہیں تو لڑکی سے نباہ نہ کرنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دیتے ہیں، اس پر ظلم اور زیادتیاں شروع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا (النساء: 20)
کہ ان سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو اگر تم انہیں ناپسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا تقاضا یہی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں، نیک سلوک کریں، ایک دوسرے کو سمجھیں، اللہ کا تقویٰ اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرےسے حسن سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پا سکتے ہو کیونکہ تمہیں غیب کا علم نہیں اللہ تعالیٰ غیب کا علم رکھتا ہے اور سب قدرتوں کا مالک ہے۔ وہ تمہارے لئے اس میں بھلائی اور خیر پیدا کر دے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مجھے ایک لڑکے کے بارے میں پتہ چلا کہ اس کا اپنی بیوی سے نیک سلوک نہیں ہے، بلکہ بڑی بداخلاقی سے پیش آتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن وہ مجھے راستے میں مل گیا، میں نے اس کو اس آیت کی روشنی میں سمجھایا۔ وہ وہاں سے سیدھا اپنے گھر گیا اور اپنی بیوی کو کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں نے تمہارے سے بڑا دشمنوں والا سلوک کیا ہے لیکن آج حضرت مولانانورالدین صاحبؓ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں، میں اب تم سے حسن سلوک کروں گا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد سے اللہ تعالیٰ نے اس کو انعامات سے نوازا اور اس کے ہاں چار بڑے خوبصورت بیٹے پیدا ہوئے اور ہنسی خوشی رہنے لگے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کے حکم کے مطابق عمل کرو تواللہ تعالیٰ یہ انعامات دیتا ہے۔
پس جو لڑکے پاکستان وغیرہ ملکوں سے یہاں آ کر پھر چند روز بعد اپنی بیویوں کو چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں ہے یا بعض لڑکے پاکستان سے اپنے ماں باپ کے کہنے پر یہاں لڑکیاں لے آتے ہیں اور بعد میں جب یہ کہتے ہیں کہ ہمیں پسند نہیں آئی ہم نے ماں باپ کے کہنے پر مجبوری سے یہ شادی کر لی تھی تو وہ ذرا اپنے جائزے لیں۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ لڑکے جن کی وجہ سے مسائل کھڑے ہوتے ہیں دو قسم کے ہیں، ایک تو یہاں کے رہنے والے، شادی کرکے لائے اور یہ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ کچھ عرصہ دیکھیں گے، طبیعت ملتی ہے کہ نہیں ملتی، کیونکہ یہاں کے ماحول میں یہی سوچ ہو گئی ہے کہ پہلے دیکھو طبیعت ملتی ہے کہ نہیں اور اگر طبیعت نہیں ملتی تو ٹھوکر مار کے گھر سے نکال دو اور یہ لوگ پھر فوری طور پر یہاں اپنی شادیاں اور نکاح رجسٹر بھی نہیں کراتے کہ لڑکی کو کوئی قانونی تحفظات حاصل نہ ہو جائیں اور یہاں رہ کر ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کر سکے اور ایسے معاملات میں والدین بھی برابر کے قصور وار ہوتے ہیں۔ بہرحال پھر جماعت ایسی بچیوں کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے لیکن ان کے یہ عمل ظاہر کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ کسی طرح بھی جماعت میں رہنے کے حقدار نہیں ہیں۔ دوسری قسم کے لڑکے وہ ہیں جو باہر سے آکر یہاں کی لڑکیوں سے شادیاں کرتے ہیں اور فوری طور پر نکاح رجسٹر کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب نکاح رجسٹر ہو جائے اور ان کو ویزا وغیرہ مل جائے تو پھر ان کو لڑکیوں میں برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر علیحدگی اور اپنی مرضی کی شادی۔ تو یہ دونوں قسم کے لوگ تقویٰ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اپنی جانوں پر ظلم نہ کریں، جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش نہ کریں اور تقویٰ پر قائم ہوں، تقویٰ پر قدم ماریں، تقویٰ پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ظلم کرنے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان پر بھی ایک بالا ہستی ہے جو بہت طاقتور ہے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍نومبر2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح، لندن مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ 111تا113)