جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں
کوئی شخص عدالت میں جاتا ہے تو دو آنے لے کر جھوٹی گواہی دے دینے میں ذرا شرم و حیا نہیں کرتا۔ کیا وکلاء قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ سارے کےسارے گواہ سچے پیش کرتے ہیں۔ آج دنیا کی حالت بہت نازک ہوگئی ہے۔ جس پہلو اور رنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں۔ جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں جھوٹے اسناد بنا لئے جاتے ہیں۔ کوئی امر بیان کریں گے تو سچ کا پہلو بچا کر بولیں گے۔ اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے؟ اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیز کرو فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ(الحج: 31) بُت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملایا ہے۔ جیسا احمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سر جھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کو بُت بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بُت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتا ہے۔ جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہوجاوے گی۔ کیسی خرابی آکر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو۔ اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑ دیں اس کے بغیر گذارہ نہیں ہوسکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پر اپنا مدار سمجھتے ہیں مگر میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتا ہے۔ بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔
(ملفوظات جلد8صفحہ 349-350، ایڈیشن 1984ء)
یقیناً یاد رکھو جھوٹ جیسی کوئی منحوس چیز نہیں۔ عام طور پر دنیا دار کہتے ہیں کہ سچ بولنے والے گرفتار ہوجاتے ہیں مگر میں کیونکر اس کو باور کروں؟ … اللہ تعالیٰ تو آپ سچائی کا حامی اور مددگار ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ راستباز کو سزادے؟ اگر ایسا ہو تو دنیا میں پھر کوئی شخص سچ بولنے کی جراٴت نہ کرے اور خدا تعالیٰ پر سے ہی اعتقاد اٹھ جاوے۔ راستباز تو زندہ ہی مرجاویں۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 351-352، ایڈیشن 1984ء)