کیا اسلام میں کسی ہیرو کا مجسمہ بنانا جائز ہے؟
سوال: مکرم انچارج صاحب بنگلہ ڈیسک نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں تحریر کیا کہ بنگلہ دیش میں قومی ہیروز کے مجسمے بنانے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ کیا اسلام میں کسی ہیرو کا مجسمہ بنانا جائز ہے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مورخہ 13؍دسمبر 2020ءمیں اس سوال کے جواب میں درج ذیل ہدایات فرمائیں:
جواب: قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام سے قبل انبیاء کے ادوار میں نیک مقصد کےلیے تصاویر اور مجسمہ سازی کا کام کیا جاتا تھا جیسا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ ایک فرقہ جن ان کے حسب منشاء ان کےلیے مجسمے بناتے تھے۔ (سورۃ سبا: 14) اسی طرح احادیث میں بھی آتا ہے کہ حضورﷺ کی بعثت سے قبل اہل کتاب کے پاس مختلف انبیاء کی تصاویر تھیں، جن میں آنحضورﷺ کی تصویر بھی تھی۔ (التاریخ الکبیرمؤلفہ ابو عبداللہ اسماعیل بن ابراھیم الجعفی القسم الاوّل من الجزء الاوّل صفحہ179)علاوہ ازیں بچوں کے کھیلنے کےلیے گڑیاں اور گڈے وغیرہ بھی ہوتے تھے، جیسا کہ حضرت عائشہؓ کی بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بچپن میں ان کے پاس بھی کھلونوں میں گڑیاں اور پروں والے گھوڑے تھے، جنہیں حضورﷺ نے بھی دیکھا اور آپ نے ان کے بارے میں کسی قسم کی ناپسندیدگی کا اظہار نہیں فرمایا۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی اللعب بالبنات)
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رکھنی بہت ضروری ہے کہ آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں چونکہ شرک اور بت پرستی اپنے انتہا کو پہنچی ہوئی تھی، اس لیے حضورﷺ نے ہر اس کام کو جس سے ہلکا سا بھی شرک اور بت پرستی کی طرف میلان ہو سکتا تھا، نہایت ناپسند فرمایا اور سختی سے اس کی حوصلہ شکنی فرمائی۔ چنانچہ گھر میں لٹکے ہوئے پردہ یا بیٹھنے والے گدیلے پر تصاویر دیکھ کر حضورﷺ نے سخت ناگواری کا اظہار فرمایا اور انہیں اتارنے اور پھاڑنے کا ارشاد فرمایا۔ (صحیح بخاری کتاب الادب باب ما یجوز من الغضب والشدۃ لامر اللّٰہ، کتاب بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمین والملائکۃ فی السماء)اسی طرح حضورﷺ نے اس زمانے کے مطابق مصوری کے ذریعہ بنائی جانے والی تصاویر کی سختی سے ممانعت فرمائی اور مصوری کے کام کو ناجائز اور مورد عذاب قرار دیا۔ (بخاری کتاب البیوع باب بیع التصاویر التی لیس فیھا روح)سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور حکم و عدل اپنے آقا و مطاع سیدنا حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے نقش پا پر چلتے ہوئے حضورﷺ کے نہایت پُرحکمت ارشاد إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کی روشنی میں اس مسئلہ کا یہ حل پیش فرمایا کہ جو کام کسی نیک مقصد کےلیے کیا جائےوہ جائز ہے لیکن وہی کام بغیر کسی نیک مقصدکے ناجائز ہو گا۔ چنانچہ حضور علیہ السلام نے تبلیغ اور پیغام حق پہنچانے کی خاطر ایک طرف اپنی تصویر کی اشاعت کی اجازت دی، جس پر اس زمانے کے نام نہاد ملاؤں نے اس نیک مقصد کی مخالفت کرتے ہوئے بُرے بُرے پیرایوں میں اسے بیان کیا اور اس کے خلاف دنیا کو بہکایا تو حضور علیہ السلام نے ان مخالفین کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر یہ لوگ تصویر کو اتنا ہی بُرا سمجھتے ہیں تو پھر شاہی تصویر والا روپیہ اور دونیاں اور چونیاں اپنے گھروں اور جیبوں سے باہر کیوں نہیں پھینک دیتے اور اسی طرح اپنی آنکھیں بھی کیوں نکلوا نہیں دیتے کیونکہ ان میں بھی تو اشیاء کا انعکاس ہوتا ہے۔ تو دوسری طرف حضور علیہ السلام نے اسی کام کو کسی جائز مقصد کے بغیر کرنے پرنہایت ناپسند فرمایا اور اسے بدعت قرار دیتے ہوئے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ اس مسئلہ کے ان دونوں پہلوؤں کوواضح کرتے ہوئے حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’ میں اس بات کا سخت مخالف ہوں کہ کوئی میری تصویر کھینچے اوراس کو بت پرستوں کی طرح اپنے پاس رکھے یا شائع کرے۔ میں نے ہر گز ایسا حکم نہیں دیا کہ کوئی ایسا کرے اور مجھ سے زیادہ بت پرستی اور تصویر پرستی کا کوئی دشمن نہیں ہوگا۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آجکل یورپ کے لوگ جس شخص کی تالیف کو دیکھنا چاہیں اوّل خواہشمند ہوتے ہیں کہ اُس کی تصویر دیکھیں کیونکہ یورپ کے ملک میں فراست کے علم کو بہت ترقی ہے۔ اور اکثر اُن کی محض تصویر کو دیکھ کر شناخت کرسکتے ہیں کہ ایسا مدعی صادق ہے یا کاذب۔ اور وہ لوگ بباعث ہزار ہا کوس کے فاصلہ کے مجھ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ میراچہرہ دیکھ سکتے ہیں لہٰذا اُس ملک کے اہل فراست بذریعہ تصویر میرے اندرونی حالات میں غور کرتے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جو انہوں نے یورپ یا امریکہ سے میری طرف چٹھیاں لکھی ہیں اور اپنی چٹھیوں میں تحریر کیا ہے کہ ہم نے آپ کی تصویر کو غور سے دیکھا اور علم فراست کے ذریعہ سے ہمیں ماننا پڑا کہ جس کی یہ تصویر ہے وہ کاذب نہیں ہے۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ365، 366)
اسی طرح فرمایا: ’’وَاِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات اور میرا مذہب یہ نہیں ہے کہ تصویر کی حرمت قطعی ہے۔ قرآن شریف سے ثابت ہے کہ فرقہ جنّ حضرت سلیمان کےلئے تصویریں بناتے تھے اور بنی اسرائیل کے پاس مدّت تک انبیاء کی تصویریں رہیں جن میں آنحضرتﷺ کی بھی تصویر تھی اور آنحضرتﷺ کو حضرت عائشہؓ کی تصویر ایک پارچہ ریشمی پر جبرائیل علیہ السلام نے دکھلائی تھی۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ365)
آپؑ مزید فرماتے ہیں: ’’افسوس کہ یہ لوگ ناحق خلاف معقول باتیں کرکے مخالفوں کو اسلام پرہنسی کا موقعہ دیتے ہیں۔ اسلام نے تمام لغو کام اور ایسے کام جو شرک کے موید ہیں حرام کئے ہیں نہ ایسے کام جو انسانی علم کو ترقی دیتے اور امراض کی شناخت کا ذریعہ ٹھیرتے اوراہلِ فراست کو ہدایت سے قریب کردیتے ہیں۔ لیکن باایں ہمہ میں ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میری جماعت کے لوگ بغیر ایسی ضرورت کے جو کہ مُضطر کرتی ہے وہ میرے فوٹو کو عام طور پر شائع کرنا اپنا کسب اور پیشہ بنالیں۔ کیونکہ اسی طرح رفتہ رفتہ بدعات پیدا ہو جاتی ہیں اور شرک تک پہنچتی ہیں اس لئے میں اپنی جماعت کو اس جگہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک اُن کےلئے ممکن ہو ایسے کاموں سے دست کش رہیں۔ بعض صاحبوں کے میں نے کارڈ دیکھے ہیں اور ان کی پشت کے کنارہ پر اپنی تصویر دیکھی ہے۔ میں ایسی اشاعت کا سخت مخالف ہوں اور میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص ہماری جماعت میں سے ایسے کام کا مرتکب ہو۔ ایک صحیح اور مفید غرض کےلئے کام کرنا اَور اَمر ہے اور ہندوؤں کی طرح جو اپنے بزرگوں کی تصویریں جابجا درو دیوار پر نصب کرتے ہیں یہ اَور بات ہے۔ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لغو کام منجر بشرک ہو جاتے ہیں اور بڑی بڑی خرابیاں ان سے پیدا ہوتی ہیں۔ ‘‘(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21صفحہ 367)
پس بنگلہ دیش میں بنائے جانے والے یہ مجسمے اگر کسی نیک مقصد کےلیے بنائے جا رہے ہیں جس سے علمی یا روحانی ترقی مقصود ہے تو پھر ان کے بنانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر صرف نمود و نمائش اور دکھاوے کےلیے بنائے جا رہے ہیں تو غلط اور ناجائز کام ہے۔