تقریر جلسہ سالانہ

خلافت : خوف کو امن میں بدلنے کی ضمانت

(عطاء المجیب راشد۔ امام مسجد فضل لندن)

تقریر جلسہ سالانہ جرمنی 2022ء

أشهد أن لا إله إلا اللّٰه وحده لا شريك له و أشهد أنَّ محمداً عبده ورسولُه

اما بعد فأعوذ باللّٰہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

سامعین کرام! میری آج کی تقریر کا موضوع ہے

’’ خلافت: خوف کو امن میں بدلنے کی ضمانت ‘‘

اس موضوع کی بنیاد اس آیت کریمہ پر ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۵۶﴾

یہ سورۃ النور کی آیت نمبر 56 ہے۔ اس کا اردو ترجمہ اس طرح ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:’’ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لئے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اُس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ ‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع فرماتے ہیں:اس آیت کو آیتِ استخلاف کہا جاتا ہے۔ اس میں یہ بات ظاہر فرمائی گئی ہےکہ جس طرح خدا نے پہلے انبیاء کے بعد خلافت کا سلسلہ جاری فرمایا تھا اسی طرح آنحضور ﷺکے بعد بھی جاری فرمائے گا اور وہ خلافت نبی کے نور کو لے کر آگے بڑھے گی۔ اور ہر دفعہ جب کوئی خلیفہ گزرے گا تو جماعت کو ایک خوف کا سامنا کرنا پڑے گا جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خلافت کی برکت سے امن میں بدل جائے گا۔ پس سچی خلافت کی نشانی یہ ہے کہ وہ مومنوں کی جماعت کو بد امنی سے امن کی طرف لے آئے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’الوصیت‘‘ میں یہی فرمایا ہےکہ ایک نبی یا خلیفہ کے گزرنے کے بعد وقتی طور پر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب دشمن اس نور کو بجھا دے گا لیکن آیت استخلاف میں قطعی وعدہ ہے کہ دشمن ہر دفعہ ناکام رہے گا۔(نوٹ از خلیفۃ المسیح الرابعرح)

سامعین کرام !اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کے تین مقدس اور غیر متبدل وعدوں کا ذکر ہے اور ہر بار لامِ تاکید اور نونِ ثقیلہ کی تکرار سے انہیں حتمی اور یقینی بتایا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا مومنوں سے حتمی وعدہ ہے کہ:

1)ایمان لانے والی اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والی جماعت کے لئے یہ حتمی وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس جماعت کو خلافت کی عظیم نعمت سے نوازے گا۔

2)اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی اس آیت میں مذکور ہے کہ نعمت ِخلافت کی برکت سے اللہ تعالیٰ اُس جماعت کو دینی لحاظ سے مضبوطی اور تمکنت عطا فرمائے گا۔

3)اللہ تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ ان عظیم الشان نعمتوں کی بر کت سے ایک تیسرا انعام اس جماعتِ مومنین کو یہ عطا ہوگا کہ جب بھی انہیں کسی وجہ سے حالتِ خوف سے گزرنا پڑے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کو حالت ِامن میں بدل دیگا۔

خلافت کی حقیقت اور نوعیت

خلافت کی حقیقت اور نوعیت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓفرماتے ہیں:

’’انبیاء کو تو عصمت ِ کبریٰ حاصل ہوتی ہے۔ لیکن خلفاء کو عصمت صغریٰ حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی ایسی اہم غلطی نہیں ہونے دیتا جو جماعت کے لئے تباہی کا موجب ہو۔ ان کے فیصلوں میں جزئی اور معمولی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر انجام کار نتیجہ یہی ہوگا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو گا اور اس کے مخالفوں کو شکست ہوگی۔گویا بوجہ اس کے کہ ان کو عصمت ِصغریٰ حاصل ہوگی خدا تعالیٰ کی پالیسی بھی وہی ہوگی جو ان کی ہوگی۔ بیشک بولنے والے وہ ہوں گے۔زبانیں انہی کی حرکت کریں گے۔ ہاتھ انہی کے چلیں گی۔ دماغ انہیں کا کام کرے گا۔مگر ان سب کے پیچھے خدا تعالیٰ کا اپنا ہاتھ ہوگا۔ان سے جزئیا ت میں معمولی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔بعض دفعہ ان کے مشیر بھی ان کو غلط مشورہ دے سکتے ہیں لیکن ان درمیانی روکوں سے گزر کر کامیابی انہی کو حاصل ہوگی۔ اور جب تمام کڑیاں مل کر زنجیر بنے گی تو وہ صحیح ہوگی اور ایسی مضبوط ہوگی کہ کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکے گی۔‘‘(تفسیر کبیر جلد 6، صفحہ 377)

ایک بہت اہم نکتہ

سامعین کرام! آیتِ استخلاف کے حوالہ سے حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں ایک اہم نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’پانچویں علامت اللہ تعالی نے یہ بتائی ہے کہ: وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا یعنی جب بھی قومی طور پر اسلامی خلافت کے لئےکوئی خوف پیدا ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں نورِ ایمان باقی ہوگا۔ اللہ تعالی اس خوف کے بعد ضرور ایسے سامان پیدا کر دیگاکہ جن سے مسلمانوں کا خوف امن سے بدل جائے گا۔‘‘

آپ نے مزید وضاحت فرمائی کہ:’’بیشک خوف کا امن سے بدل جانا بھی بڑی نعمت ہے۔ لیکن اس آیت میں اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا کہ :وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا کہ جو بھی خوف پیدا ہوگا اسے امن میں بدل دیا جائے گا۔ بلکہ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا فرمایا ہے۔ کہ جو خوف اُن کے دل میں پیدا ہوگا اور جس چیز سے وہ ڈریں گے، اللہ تعالی اسے دور کر دیگا۔ اور اس کی جگہ امن پیدا کر دیگا۔ پس وعدہ یہ نہیں کہ زید اور بکر کے نزدیک جو بھی ڈرنے والی بات ہو وہ خلفاء کو پیش نہیں آئےگی۔ بلکہ وعدہ یہ ہے کہ جس چیزسے وہ ڈریں گے۔ اللہ تعالیٰ اسے ضرور دور کردیگا۔ اور ان کے خوف کو امن سے بدل دیگا۔

مثال کے طور پر یوں سمجھ لو کہ سانپ بظاہر ایک بڑی خوفناک چیز ہے مگر کئی لوگ ہیں جو سانپ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے سانپ کا خوف کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ اسی طرح فقر ایک بڑی خوف والی چیز ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ چنانچہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:الفقر فخری کہ فقر میرے لئے ذلت کا موجب نہیں بلکہ فخر کا موجب ہے۔

اب اگر کسی کے ذہن میں یہ بات ہو کہ کھانے کے لئے اگر ایک وقت کی روٹی بھی نہ ملے تو بڑی ذلت کی بات ہوتی ہے، تو کیا اس کے اس خیال کی وجہ سےہم یہ مان لیں گے کہ نعوذ باللہ رسول کریمﷺ کی بھی ذلّت ہوئی؟

جو شخص فقرکو اپنی عزّت کا موجب سمجھتا ہے۔ جو شخص چیتھڑوں کو قیمتی لباس سے زیادہ بہتر چیز سمجھتا ہےاور جو شخص دنیوی مال و متاع کو نجاست کی طرح حقیر سمجھتا ہے اس کے لئے فقر کا خوف بالکل بے معنی ہے۔

پس خدا تعالی نے یہ نہیں فرمایا ہے: وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا بلکہ فرمایاہے: وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا کوئی ایسی خوف والی بات پیدا نہیں ہو گی جس سے وہ ڈرتے ہونگے۔

اس فرق کو مدنظر رکھ کردیکھو تو معلوم ہوگا کہ خلفاء پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس سے انہوں نے خوف کھایا ہو اور اگر آئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے امن سے بدل دیا۔ ‘‘(تفسیر کبیر۔ جلد 6، صفحہ 377، 378)

خلاصہ کے طور پر آپ نے مزید فرمایا:’’اصل وعدہ اس آیت میں اُسی خوف کے متعلق ہے جس کو وہ خوف قرار دیں اور وہ بجائے کسی اور بات کے ہمیشہ اس ایک بات سے ہی ڈرتے تھےکہ امت محمدیہ میں گمراہی اور ضلالت نہ آجائے۔سو خدا کے فضل سے امتِ محمدیہ ایسی ضلالت سے محفوظ رہی اور باوجود بڑے بڑے فتنوں کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی وفات کے بعد اس کی ہدایت کے سامان ہوتے رہے۔ ‘‘(تفسیر کبیر۔ جلد ششم، صفحہ 381)

واقعات کی دنیا میں

سامعینِ کرام!آیت استخلاف میں مذکور چند اہم اور بنیادی امور کے ذکر کے بعد اب ہم واقعاتی لحاظ سے اس بات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ کس طرح خلافت کا آسمانی نظام الٰہی جماعتوں پر آنے والے خوف کےمواقع کو امن و سکون میں بدل دیتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ واقعات، الٰہی جماعتوں کی ترقی کا موجب بن جاتے ہیں۔

خلافت کی نعمت کا آغاز رسول اکرمﷺ کے وصال کے فورًا بعد ہوا جب کہ صحابہ اس اندوہناک سانحہ کی وجہ سے سخت نڈھال تھے۔حضرت عمرؓ غم میں ڈوبے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ جو شخص کہے گا کہ رسولِ خدا فوت ہو گئے ہیں، میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت ابوبکرصدیقؓ کو توفیق دی اور وہ سامنے آئے اور آیت:’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوۡلٌ‘‘کی تلاوت کی جس سے صحابہ کو یقین ہوگیا کہ وصالِ نبوی ہو چکا ہے۔ جذبات میں ٹھہراؤ پیدا ہوا اور صحابہ نے مشورہ کے بعد حضرت ابو بکرؓ کو خلیفہ تسلیم کر لیا۔ خوف کی حالت امن میں بدل گئی اور خلافتِ راشدہ کا بابرکت نظام شروع ہوا جس نے مسلمانوں میں یک جہتی، امن اور اتحاد پیدا کیا اور مسلمان ترقی کی شاہراہ پر آگے سے آگے بڑھنے لگے۔ خلافتِ راشدہ کے دوران ہر خلیفہ کی وفات پر خوف اور حزن کے بادل چھاتے رہے اور ہر دفعہ وعدۂ الٰہی کے مطابق نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد خوف کی ہر حالت امن میں بدلتی رہی۔

ہمارے اس دورِ آخرین میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حقیقی خلافت کا احیاء اور قیام ہوا۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ’’الوصیت‘‘ میں ذکر فرمایا تھا کہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے۔نبی کی وفات پر قدرتِ ثانیہ خلافت کی صورت میں آتی ہے اور اللہ تعالیٰ گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بڑی شان سے پورا ہوا اور ساری کی ساری جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے ہاتھ پر جمع ہو گئی اور بلا استثناء سب نے بیعت میں شمولیت کی جیسا کہ انجمن کے اعلان میں بھی یہ الفاظ تھے کہ کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی حضرت خلیفہ اوّل کو مسیح پاک کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا، خوف کے بادل چھٹ گئے اور احمدیت کا قافلہ ترقی کی منازل کی طرف بڑھنے لگا!

حضرت مسیح موعودؑ نے الوصیت میں واضح طور پر تحریر فرمایا ہے کہ خلافت دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا۔ حضرت خلیۃ المسیح الاوّلؓ کے وصال پر خوف کا موقع اس وقت پیدا ہوا جب چند سرکردہ مگر نادان لوگوں نے خلافت کی نعمت سے منہ موڑا۔ لیکن وہی ہوا جس کا وعدہ حضرت مسیح موعودؑ نے دیا تھا۔جماعت کی غالب اکثریت نے خدائی تصرف سے انجمن کی بجائے خلافت کے حق میں رائے دی اور اللہ تعالی کے فضل سے ایک بار پھر جماعت میں خلافت کا نظام مستحکم بنیادوں پر قائم ہو گیا۔ اور یہ سلسلہ حضرت مصلح موعودؓ کی بابرکت قیادت میں اللہ تعالی کے فضل سے نصف صدی سے زائد عرصہ تک آگے سے آگے بڑھتا گیا۔

الٰہی سلسلوں کے دشمنوں اور حاسدوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی لیکن خدائی تقدیر کے مطابق پسپائی اور ہزیمت ہمیشہ ان کا مقدر ہوتی ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے اس سنہری دور میں جماعت کے اندر منافقین اپنی مفسدانہ سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ علاوہ ازیں جماعت کی روزافزوں ترقی دیکھ کر مخالفین بھی سرگرم عمل ہوگئے۔ مجلسِ احرار نے مخالفت کا عَلم بلند کیا اور قادیان کی مقدس بستی کے تقدّس کو پامال کرنے کی کوشش کی۔ جماعت کے لئے مسلسل خوف اور پریشانی کاباعث بنتے رہے۔ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں انہوں نے یہ نعرہ بھی بلند کیا کہ ہم مرکزِ احمدیت قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دم لیں گے۔ انہوں نے ہر طرح خوف کی فضا پیدا کی۔ اس کے جواب میں حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک خطبہ جمعہ میں بڑے جلال سے فرمایا کہ :’’خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دیگا۔۔۔ زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں‘‘(الفضل قادیان،30 مئی 1935)

خدا تعالیٰ کی قادرانہ تجلی سے احرار اپنے مقاصد میں کلیۃً ناکام و نامراد رہے اور جماعت کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان کی مفسدانہ چالوں سے محفوظ رکھا بلکہ امن و امان سے ساری دنیا میں اشاعتِ اسلام کی عالمگیر تدبیر تحریکِ جدید کی صورت میں عطا فرمائی۔ تحریکِ جدید کا شجرۂ طیبہ ساری دنیا پر سایہ فگن ہو گیا۔ دنیا کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچا اور گزشتہ ایک صدی میں اس کے شیریں اثمارہزاروں مسجدوں، مراکزِ تبلیغ، مدارس، جامعات، اخبارات اور ہسپتالوں کی صورت میں خلافتِ احمدیہ کے زیرِ سایہ دن رات خدمتِ انسانیت میں مصروف ہیں۔ کیا ہی حسین انتقام ہے مجلسِ احرار کے ظالمانہ عزائم کا اور کیا ہی ایمان افروز منظر نظر آتا ہے۔ آج تحریکِ جدید کے ذریعہ قریہ بہ قریہ اسلام کی تبلیغ اور انسانیت کی بے لوث خدمت ساری دنیا میں دن رات جاری ہے اور تیزی سے وسعت پذیر ہے۔ یہ سب نظام ِخلافت کے ثمرات ہیں۔

1947ءمیں جب قیام ِ پاکستان کے وقت جماعت کو اپنے مرکز قادیان دارالامان سے ہجرت کرنی پڑی تو احمدی مہاجرین کے لئے کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ خلافت کی برکت سے اور خلیفۂ وقت کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالی نے ایک وسیع و عریض مگر کلیۃً بنجر سرزمین حاصل کرنے اور اسے ایک خوش نما شہر میں تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ افرادِ جماعت کو بے سروسامانی میں قادیان سے نکلنا پڑا لیکن خلافت کی برکت سے ایک پُرامن مرکز مل گیا جو آج پاکستان کے خوشنما شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ خلافت کے ذریعہ خوف کے امن میں تبدیل ہونے کی کیا شاندار مثال ہے!

خلافت ثانیہ کے دوران 1953ءمیں جماعت کے خلاف حکومتی سطح پر ایک خطرناک مہم کی صورت میں ابتلا کی صورت پیدا ہوئی۔ اس موقع پرحکومتِ وقت نے کھلم کھلا سامنے آ کر جماعت اور خلیفۂ وقت پر پابندیاں لگانے کی جسارت کی۔ جماعت کی تاریخ میں یہ ایک بہت ہی خوفناک مرحلہ تھا جس نے ساری جماعت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس موقع پر بھی سچے وعدوں والے خدا نے جماعت کو اُس حالتِ خوف سے نکال کر امن کا حصار عطا فرمایا۔ اس موقع پر خلیفۂ وقت حضرت مصلح موعودؓ کا کردار ناقابل فراموش ہے۔

ہوا یہ کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ جھنگ نے 12 مارچ 1953ءکو جماعت کو نوٹس دیا کہ جماعت کے خلاف کارروائیوں کے بارہ میں کوئی بیان نہ جاری کیا جائے۔ اس عرصہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک پیغام میں جماعت کو بشارت اور تسلی دی کہ گھبراؤ نہیں، خدا میری مددکے لئے دوڑا چلا آرہا ہے۔ اس کے ردّ عمل میں گورنر پنجاب نے براہ راست حضرت مصلح موعودؓ کو نوٹس جاری کر دیا کہ آپ موجودہ صورتِ حال میں کسی قسم کا کوئی بیان جاری نہ کریں۔ اس موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے نہایت پُر جلال انداز میں گورنر کا پیغام لانے والے افسر کو فرمایا:

’’آپ اس وقت اکیلے مجھ سے ملنے آئے ہیں اور کوئی خطرہ محسوس کئے بغیر میرے پاس پہنچ گئے ہیں۔ اسی لئے کہ آپ کویقین ہے کہ گورنمنٹ آپ کی پشت پر ہے۔پھر اگر آپ کو یہ یقین ہے کہ گورنمنٹ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے حکومت آپ کی مدد کرے گی۔ تو کیا میں جو خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ ہوں، مجھے یقین نہیں ہونا چاہیئے کہ خدا میری مدد کرے گا۔‘‘

آپؓ نے بڑے جلال اور یقین سے فرمایا: ’’بےشک میری گردن آپ کے گورنر کے ہاتھ میں ہے لیکن آپ کے گورنر کی گردن میرے خدا کے ہاتھ میں ہے۔ آپ کے گورنر نے میرے ساتھ جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا۔اب میرا خدا اپنا ہاتھ دکھائے گا‘‘

سامعین کرام!

سنیئےاور غور سے سنیئےکہ خدائے ذوالجلال نے کس شان سے اپنی تجلی کا ظہور فرمایا۔ خلیفہ وقت کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ جاری ہوئے اور آپؓ کی کہی ہوئی بات چند دنوں کے اندر اندر ایسے حیرت انگیز طریق پر پوری ہوئی کہ ایک عالَم انگشت بدنداں رہ گیا۔ پاکستان کی مرکزی حکومت کے حکم سے مسٹر آئی آئی چندریگر کو جو اس وقت گورنر پنجاب تھے برطرف کر دیا گیا اور ان کی جگہ میاں امین الدین صاحب گورنر پنجاب مقرر ہوئے،جنہوں نے یکم مئی1953ءکو یہ ظالمانہ نوٹس واپس لے لیا۔ اور اس حقیقت پر ایک بار پھر مہر تصدیق ثبت ہو گئی کہ

جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں

ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رو بۂ زار و نزار

حضرات! 1965ءمیں حضرت مصلح موعودؓ کی رحلت جماعت کے لئے ایک عظیم زلزلہ تھی۔ ہر طرف خوف کے بادل چھا رہے تھے۔ اس مرحلہ پر بھی خدائے قادر و توانا نے اپنے وعدہ کے مطابق جماعت کے سر پر دستِ شفقت رکھا۔ مخالفین کی کوششوں کو خاک میں ملا دیا اور دنیا نے دیکھا کہ خلافتِ ثالثہ کے زیرِ سایہ جماعت کا قافلہ ہر پہلو سے بلندیوں کی طرف بڑھنے لگا۔ یہ دیکھ کر حکومتی سطح پر جماعت کی مخالفت کا طوفان اٹھا۔ 1974ءمیں قومی اسمبلی میں خلیفہ ثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کئی دن تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ ملاؤں کے ہاتھ کوئی بھی قابلِ اعتراض بات نہ آئی۔ لیکن دنیوی طاقت کے نشہ میں مغرور حاکمِ وقت کے ایما پر جماعت کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔ یہ وقت ساری جماعتِ احمدیہ عالمگیر کے لئے بہت نازک اور خطرناک تھا۔ اس خوف کے وقت خدائے قادر نےاپنے سچے وعدوں کے مطابق یہ چمکتا ہوا نشان دنیا کو دکھایا کہ ظالم اور جابر حاکمِ وقت اپنے جرموں کی پاداش میں پھانسی پر جھولتا نظر آیا اور کوئی کوشش بھی اسے عبرتناک انجام سے بچا نہ سکی۔یہ وہی حاکم تھا جس نے ایک موقع پر اپنی ترنگ میں یہ کہا تھا کہ میں جماعتِ احمدیہ کے ہاتھ میں کشکول پکڑوا دوں گا۔ دیکھو کہ اس تعلّی کا کیا نتیجہ نکلا۔ خود تو وہ نشانِ عبرت بن کر دنیا سے رخصت ہوا اور ہر آنے والی حکومت آج تک ہاتھوں میں کشکول پکڑےدر بدر ملکوں سے بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ فاعتبروا یا أولی الابصار!

اس جگہ میں یہ ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتِ احمدیہ کا اپنا ایک بیت المال ہے۔ جماعت کے افراد انفاق فی سبیل اللہ کرتے ہوئے دل کھول کر چندے دیتے ہیں اور جماعت کا یہ خزانہ ہمیشہ بھرا رہتا ہے۔ جماعت کی ساری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ 213 ممالک میں قائم کسی ایک جماعت ِ احمدیہ نے کبھی بھی ایک دھیلا تک کسی حکومت سے نہ مانگا اور نہ وصول کیا۔ جماعت کا خزانہ اللہ تعالی کے فضل سے ہمیشہ بھرا رہتا ہے!

1982ءمیں حضرت خلیفہ ثالثؒ کے وصال پر ایک بار پھر غم اور خوف کو خدائی تقدیر نے امن میں بدل دیا اور جماعت اپنی تاریخ کے ایک اور شاندار دور میں داخل ہوئی۔ خلافت رابعہ کا آغاز ہوا اور خلافت کے ساتھ وابستہ برکتوں کے دروازے کھل گئے لیکن ایک اور ظالم حاکم وقت نے ایک سفّاکانہ آرڈینینس 20 کے ذریعہ احمدیوں پر عرصۂ حیات تنگ کردیا۔ احمدیت سے وابستگی کا اعلان اور کسی پہلو سے یہ اظہار،یا اسلام کی تبلیغ ایک قابل تعزیر جرم قرار دے دیا گیا۔ اس ظالمانہ قانون کے بعد خلیفۂ وقت کے لئے ملک میں رہتے ہوئے اپنے دینی فرائض ادا کرنا ناممکن ہو گیا۔ سخت خوف اور فکر مندی کا وقت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس حالتِ خوف کو اپنے فضل سے ایک بار پھر امن میں بدل دیا۔ خلیفۂ وقت نے عاجزانہ دعاؤں اور مشوروں کے بعد پاکستان سے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ سخت نگرانی کی وجہ سے باہر جانا بظاہر ناممکن تھا لیکن دستِ قدرت نے خلیفہ وقت کو ہر طرف کڑی نگرانی کے باوجود فرشتوں کی حفاظت میں ملک چھوڑنے کی توفیق دے دی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی پاکستان سے انگلستان ہجرت میں ہجرت مدینہ کی جھلک نظر آتی ہے۔ قدم قدم پر خطرات منڈلا رہے تھے ہر طرف خوف چھایا ہوا تھا لیکن اللہ تعالی کی غالب قدرت نے سارا سفر امن و سلامتی کے ساتھ کروایا اور آپ خیریت سے لندن پہنچ گئے۔ ساری دنیا کے احمدیوں نے خوف کو امن میں بدلنے کا ایک اور ایمان افروز نظارہ دیکھا!

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا 21سالہ دورِ خلافت ایک تاریخی دور تھا۔ہر طرف ایک غیر معمولی جذبہ سے جماعتِ احمدیہ آگے سے آگے بڑھنے لگی۔ اس دور میں وقفِ نو کی بابرکت تحریک جاری ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو MTA کا عظیم ذریعۂ ابلاغ عطا کیا جس کے ذریعہ تبلیغ کا سلسلہ ساری دنیا پر محیط ہو گیا۔ یہ ساری عالم گیر ترقیات ایسی تھیں کہ دشمنانِ احمدیت کے دلوں میں خار بن کرکھٹکنے لگیں۔

پاکستان کی حکومت کی اشیرباد سے جماعت کی مخالفت تیز سے تیز تر ہونے لگی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے حکمرانِ وقت کو اس بارہ میں انتباہ کیا اور مباہلہ کا چیلنج بھی دیا۔جس کی کوئی پروا نہ کرتے ہوئے وہ اپنی روش پر قائم رہا۔ بلکہ یہ بھی کہا کہ میں احمدیت کے کینسر کو مٹا کر دم لوں گا۔ اس پر حضور رحمہ اللہ نے ایک خطبہ جمعہ کے دوران فرمایا:

’’جماعتِ احمدیہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے، ایک ولی رکھتی ہے۔ جماعت احمدیہ کا ایک مولا ہے اور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولا ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں۔ خدا کی قسم! جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا۔ خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام و نشان مٹا دئیے جائیں گےاور ہمیشہ دنیا تمہیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی‘‘(خطبہ جمعہ 14 دسمبر 1984)

اس اِنذار کے صرف چار سال کے اندر اندر، محفوظ ترین فوجی جہاز میں سفر کرتے ہوئے یہ آمر اپنے فوجی ساتھیوں کے ساتھ حادثہ کا شکار ہو گیا اس کا جسم خاک کا ڈھیر بن گیا۔ اللہ تعالیٰ کی غالب تقدیر نے اس کا نام و نشان صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔ خلیفۂ وقت کی زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی بات حرف بہ حرف پوری ہو گئی!

نئی خلافت کے آغاز کا وقت ہمیشہ ہی بہت خوف اور حزن کا وقت ہوتا ہے۔ مومنوں کے دل جانے والے کے غم سے رنجور ہوتے ہیں اورجماعت کی تاریخ گواہ ہےکہ جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو نیا خلیفہ عطا کرتا ہے تو امن و عافیت اور خوشی و مسرت اور شکر کی ناقابلِ بیان کیفیت ہوتی ہے۔ہر بار ایسا ہوتا رہا ہے خلافتِ خامسہ کے وقت تو یہ کیفیت بے مثال تھی۔ نہایت پر امن طور پر کارروائی ہوئی اور جب اس کا اعلان ہوا تو یوں لگا کہ رحمتِ باری تعالیٰ نےامن و سکون اور شاد مانی کی دولت عطا کردی ہے۔ خوشی کے آنسوؤں کا سیلاب بہہ نکلا اور جب حضور ایدہ اللہ تعالی نے بیعت لینے سے قبل یہ ارشاد فرمایا کہ احباب بیٹھ جائیں تو ا اسی لمحہ سارا عالَم احمدیت تعمیلِ ارشاد میں بیٹھ گیا۔ اطاعت کا یہ نمونہ اور تعمیلِ ارشاد کا یہ عالَم ساری دنیا کے لوگوں کے ذہنوں پر نقش ہو گیا!

’’امن کا سفیر ‘‘

حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے دنیا کے بے شمار ملکوں کے ایوانوں میں خود جا کر اسلام کی پُر امن تعلیمات کے بارہ میں بہت پُر اثر خطابات فرمائے۔ ان کی وجہ سے آپ کو ’’امن کے سفیر‘‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔ لا تعداد لوگوں نے اعتراف کیا ہے کہ حضور کی زبانِ مبارک سے اسلام کا تعارف سن کر آپ کی آواز ہمارے دل میں گھر کر گئی ہے اور ہمارے دل و دماغ اسلام کی تعلیم سے سرشار ہو گئے ہیں۔ صرف ایک اعتراف پیش کرتا ہوں:

2012ءمیں حضورِ انور نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حضورِ انور ایدہ اللہ تعالی کے خطاب میں شمولیت کے لئے آئے تھے،انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا :

’’ یہ شخض جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادو کا سا اثر رکھتے ہیں۔لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنے زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کےحوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دنوں کے اندر برپا ہو سکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ اب حضور کے خطاب نے اسلام کے بارہ میں میرے نکتۂ نظر کو کلیۃً تبدیل کر دیا ہے۔‘‘ (احمدیہ گزٹ کینیڈا، مئی 2018، صفحہ 20)

حضرات!خلافتِ خامسہ میں بھی جماعت کے لئے خوف اور پریشانی کے اوقات آئے لیکن قرآنی وعدہ کے مطابق ہر خوف امن مین تبدیل ہوتا رہا۔ اس کی ایک مثال بطور نمونہ پیش کرتا ہوں:

28مئی 2010ءکو لاہور میں جماعتِ احمدیہ کی دو مرکزی مساجد بیت الذکر اور بیت النور ماڈل ٹاؤن میں مخالفین نے عین جمعہ کے وقت خوفناک حملہ کیا جس کے نتیجہ میں 86 احمدیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ اس وحشت اور بربریت نے ایک دفعہ تو ساری عالمگیر جماعت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس جاں گداز موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس مومنانہ عزم اور محبت سے ساری جماعت کو اور بالخصوص شہادت پانے والوں کے پسماندگان کو حوصلہ، صبر اور دعاؤں کی نصیحت فرمائی وہ ایسا مرہم تھا جس نے ورثا کو اپنے قدموں پر کھڑا کر دیا۔ حضورِ انور نے ایک ایک شہید کے گھر میں براہِ راست فون کر کے سب افرادِ خاندان سے بات کی اور ان سے دلی تعزیت فرمائی۔ ایسی محبت اور پیار کی گفتگو فرمائی جس سے ان کے دل کناروں تک بھر گئے۔بعد ازاں شہداء کی فیملیز سے ایسی دلداری کا سلوک فرمایا جس کو وہ کبھی بھول نہیں سکتے۔ جماعت پر آنے والے خوف کے بعد امن میں تبدیل ہونے کی یہ مثال عدیم النظیر ہے!

حضرات! اللہ تعالیٰ کا بے حد کرم اور احسان ہے کہ ہمیں خلافتِ خامسہ کا کامیابیوں اور ترقیات سے بھر پور سنہری دور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی توفیق اور سعادت مل رہی ہے۔ آج خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے سوا دنیا میں کوئی قائد نظر نہیں آتا جس کو خدا نے مقرر کیا ہو، کوئی ایسا سربراہ نہیں جس کے سر پر خدا کا سایہ ہو۔ کوئی ایسا نہیں جس کو خدائی مدد اور نصرت کا عَلَم عطا کیا گیا ہو۔ کوئی نہیں جس کے قدموں میں خدائی اذن سے عالمگیر فتوحات بچھتی چلی جاتی ہیں۔

ہم یقینًا بہت خوش قسمت ہیں کہ ہم نے یہ بابرکت دورِ خلافت پایا جس میں خدائی تائید و نصرت اور قبولیتِ دعا کے اعجازی نشانات موسلادھار بارش کی طرح برستے چلتے جاتے ہیں اور احمدیت کی عالمگیر فتح کی منزلیں قریب سےقریب تر ہوتی جا رہی ہیں۔

جماعتِ احمدیہ کے لئے ایک فتح کے بعد دوسری فتح منتظر ہے اور ہمارے مخالفین کے نصیب میں ناکامی اور پھر ناکامی اور پھر ناکامی لکھی جا چکی ہے۔ ہم تو مسیح دوراں کی جماعت ہیں جس نے فرمایا تھا کہ میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں!

سامعینِ کرام!’’خلافت خوف کو امن میں بدلنے کی ضمانت ہے‘‘۔ اس بیان میں رتّی برابر بھی شک نہیں۔ خلافتِ احمدیہ کے ہر دور میں اللہ تعالی کی فعلی شہادت اس بات پر شاہدِناطق ہے۔ اللہ تعالیٰ جو سب طاقتوں کا مالک ہے وہ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس نعمتِ خدا وندی سے منسلک ہونے والی جماعت پر آنے والے، خوف کے سب حالات کو اپنی قادرانہ قدرت سے امن میں بدل دیتا ہے۔ یہ خدائی وعدہ ہمیشہ اور ہر دور میں پورا ہوتا رہا ہے۔ ہر خوف امن میں بدلتا رہا ہے۔ آج اس عظیم الشان جلسہ سالانہ میں ہزاروں کی تعداد میں احمدی موجود ہیں جو اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ ہم نے خلافت ِ احمدیہ کے بابرکت سایہ میں رہتے ہوئے، ہر حالتِ خوف کو ہمیشہ امن میں بدلتے ہوئے، اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ہم حلفًا یہ اعلان کرتےہیں کہ یہ خدائی وعدہ خلافت کے ہر دور میں بڑی شان سے پورا ہوتا رہا ہے اور آج بھی خلافتِ خامسہ کے مبارک دور میں بڑی شان سے پورا ہو رہا ہے۔ جماعت احمدیہ عالمگیر اس شان سے دنیا میں ہر طرف پھیلتی جا رہی ہے کہ اس کو دیکھ کر مخالفین کی ہر کوشش اپنی موت آپ مرتی جا رہی ہے۔ یہی خدائی تقدیر ہے جو ہمیشہ جاری و ساری رہے گی!

اختتامیہ

سامعین کرام! ہم سب پر خدائے ذوالمنن کا عظیم احسان اور کرم ہے کہ اس نے ہمیں خلافت کے خدّام میں شامل ہونے کا شرف عطا کیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم امانت کا امین بنایا ہے۔ ایک عظیم الشان انعام سے نوازا ہے جو آج دنیا میں کسی اور جماعت کو نصیب نہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ سعادت اپنے ساتھ عظیم ذمہ داریاں بھی لے کر آئی ہے۔ یہ انعام ہمیں اطاعت کی دعوت دیتا ہے۔ ایسی اطاعت کہ اپنا کچھ نہ رہے اور ہم میں سے ہر ایک پیارے آقا کے اشارے پر نثار ہونے کو بے تاب نظر آئے۔ یہ انعام ہمیں قربانی اور استقامت کے میدانوں کی طرف بلاتا ہے۔ وہ میدان جن میں قرون اولیٰ اور اس دورِ آخرین کے صحابہ کرامؓ کی عظیم الشان قربانیوں کی داستانیں رقم ہیں۔ ان داستانوں کو آج پھر زندہ کرنا ہمارا فرض ہے۔ مکّہ کی وادیوں میں گونجنے والی حضرت بلالؓ کی صدائے ’’اَحَدٌ اَحَدٌ‘‘ کی بازگشت کو دہرانا آج ہمارے ذمہ ہے۔

دیکھو اور سنو! کہ اُحد کے شہداء کی روحیں پکار پکار کر تمہیں دعوت دے رہی ہیں کہ جس طرح انہوں نے ہتھیلیوں پر رکھ کر، اپنی جان کے نذرانے پیش کئے تھے اور شمعِ رسالت پر آنچ نہ آنے دی۔ اسی طرح آج تم بھی پروا نہ وار شمعِ خلافت کا طواف کرو اور وقت آئے اور ضرورت پڑے تو فُزْتُ بِرَبِّ الکعبةکا نعرہ لگاتے ہوئے شہادت کی ابدی زندگی کے وارث بن جاؤ!

اے شمعِ خلافت کے پروانو! گوش بر آوازِ آقا بن جاؤ۔ حضرت مقدادؓ نے ایک اعلان کیا تھا اور صحابہ نے اس کے ایک ایک حرف کو سچ کر دکھایا تھا۔اسی طرح آج تم بھی اس بات کا عزم کرو کہ ہم سب شمع ِخلافت کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے۔ اور دشمنانِ احمدیت اُس وقت تک شمعِ خلافت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک ہماری لاشوں کو روند کر نہ جائیں۔ آئیے ہم خدا تعالی کو حاضر و ناظر جان کر ایک بار پھر یہ عہد کریں کہ ہمارے سر تو تن سے جدا ہو سکتے ہیں لیکن ہمارے جیتے جی کوئی اس شمع خلافت کی طرف بری نیت سے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ہر گز نہیں کر سکتا!

خدا کرے کہ ہم سب اس عہد کو پورا کرنے والے ہوں اور ہم سب کی طرف سے ہمیشہ ہمارے محبوب امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں۔ اللہ تعالیٰ حضورِ انور کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، لمبی اور فعال، مبارک زندگی عطا فرمائے اور ہم سب کا شمار خلافتِ احمدیہ کے جانثاروں میں ہو۔ آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button