الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم غلام سرور وڑائچ صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 7؍اکتوبر2013ء میں شامل اشاعت ایک مضمون میں مکرم بشارت احمد وڑائچ صاحب نے اپنے برادراکبر محترم غلام سرور وڑائچ صاحب ابن محترم چودھری عنایت اللہ وڑائچ صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جو اوپن ہارٹ سرجری کےچند روز بعد یکم ستمبر 2009ء کو بعمر 61 سال وفات پاگئے۔مرحوم اور اُن کے والد، دونوں کو جماعت احمدیہ قلعہ کالروالہ ضلع سیالکوٹ کے صدر کے طور پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔
1903ء میں قلعہ کالروالہ (سابق قلعہ صوبہ سنگھ)کی مسجد اہل حدیث کے خطیب حضرت حکیم مولوی فضل کریم صاحبؓ کو حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کی خبر ہوئی تو وہ اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر قادیان چلے گئے۔ وہاں حضورعلیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوکر چند دن قیام کیا اور پھر جب واپس گاؤں تشریف لائے تو وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپؓ نے خطبہ جمعہ میں مسیح موعود کی بعثت کے متعلق احباب کو بتایا اور بیعت کرنے کی دعوت دی جس پر اکثر احباب نے ناگواری کا اظہار کیا لیکن حضرت چودھری پیرمحمد صاحبؓ اور اُن کے بارہ سالہ بیٹے عبداللہ خان صاحب نے کھڑے ہوکر بیعت کا اقرار کیا۔
چند دن بعد گاؤں کے چودھری عمردین صاحب کی ایک قیمتی گھوڑی چوری ہوگئی۔ چودھری صاحب کو تحقیق سے پتہ چلا کہ گھوڑی امرتسر لے جائی گئی ہے۔ چنانچہ برادری کے دس پندرہ بزرگ گھوڑیوں پر سوار ہوکر امرتسر روانہ ہوئے اور وہاں کے ایک ڈیرے سے گھوڑی برآمد کرلی۔ پھر اُن سب نے مشترکہ طور پر پروگرام بنایا کہ مولوی فضل کریم صاحب نے جس امام مہدی کا قادیان میں آنا بتایا تھا، اتنی قریب آکر وہاں بھی جانا چاہیے۔چنانچہ یہ قافلہ قادیان پہنچا تو حضورعلیہ السلام کی قوّتِ قدسیہ کا اسیر ہوکر بیعت کرکے واپس آیا۔ گاؤں میں ان احباب نے جب اپنے قبولِ احمدیت کی خبر دی تو بہت سے سعید فطرت احباب کو بھی قادیان جاکر دستی بیعت کی توفیق ملی جن کی تعداد بتیس ہے۔ (البدر 26؍جون 1903ء)
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ ہمارے دادا حضرت چودھری سردار خان صاحبؓ کو ستمبر 1907ء میں بذریعہ خط بیعت کی توفیق ملی۔ مکرم غلام سرور صاحب 15؍مئی 1948ء کو قلعہ کالروالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ مجھ سے ڈیڑھ سال بڑے تھے۔ مقامی سکول صرف ایک برآمدے پر مشتمل تھا۔ اکثر کلاسیں درختوں کے نیچے لگتیں۔ بارش میں سکول بند ہوجاتا۔ جب بھائی مڈل کے امتحان میں فیل ہوئے تو ہمارے والد صاحب نے ہم دونوں بھائیوں کو تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں میں آٹھویں کلاس میں داخل کروادیا۔ سکول تین میل دُور تھا لیکن اس کا معیار نہایت اعلیٰ تھا اور میٹرک کا نتیجہ عام طور پر سوفیصد ہوتا تھا۔ غالباً 1961ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحبؒ نے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ جناب حسنات احمد صاحب کے ہمراہ تشریف لاکر تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کا سنگ بنیاد رکھا اور ایک سال سے کم عرصے میں کالج اور ہوسٹل کی عمارات اور پرنسپل کی رہائشگاہ تیار ہوگئے۔ محترم عبدالسلام اختر صاحب پہلے پرنسپل تعینات ہوئے۔ عمدہ پڑھائی کے علاوہ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی کالج نے خوب شہرت حاصل کی۔ جون 1965ء میں ہم دونوں بھائی میٹرک میں پاس ہوئے تو مکرم غلام سرور صاحب نے جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ کی درخواست دی لیکن جنگ کی وجہ سے داخلے ملتوی ہوگئے تو ہم دونوں بھائی گھٹیالیاں کے کالج میں داخل ہوگئے۔ F.Aکے امتحان میں بھائی کی دو مضامین میں کمپارٹ آگئی لیکن مَیں نے ربوہ جاکر کالج کے تیسرے سال میں داخلہ لے لیا۔
مکرم غلام سرور صاحب نے ایف اے پاس کرکے سیالکوٹ میں ایک انسٹیٹیوٹ سے ٹائپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی اور بطور کلرک پسرور کے ایک ہائی سکول میں ملازمت کرلی۔ دورانِ ملازمت انہوں نے PTC اور پھر CT کا کورس بھی کرلیا اور گورنمنٹ مڈل سکول گھنوکے ججّہ میں بطور ٹیچر کام شروع کردیا اور پھر قریباً تیس سال کی ملازمت کے بعد یہیں سے ریٹائرمنٹ لی۔ آپ نے ملازمت بہت ایمانداری اور اخلاص سے کی جس کی وجہ سے علاقے بھر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے۔ گو آپ زندگی وقف نہ کرسکے لیکن عملاً ایک واقف زندگی کے طور پر جماعت کی خدمت کا جذبہ آپ میں موجود تھا۔ بچپن سے ہی نماز باجماعت کے پابند تھے۔ بعد میں تہجد اور چاشت کے نوافل بھی باقاعدگی سے ادا کرنے لگے۔ قرآن کریم کی تلاوت ترجمہ کے ساتھ کرتے۔ دس سال سے زیادہ عرصہ بطور قائد خدام الاحمدیہ خدمت کرتے رہے۔ بارہا اجتماع وغیرہ پر ربوہ کا سائیکل سفر بھی کیا۔ بطور صدر جماعت آپ کو دو ادوار میں خدمت کا موقع ملا۔ پہلا دَور پندرہ سال پر محیط تھا جبکہ کچھ وقفے کے بعد دوبارہ صدر منتخب ہوئے اور تاوفات یہ ذمہ داری نبھائی۔ مجلس انصاراللہ میں بھی خدمت کرتے رہے۔ زیادہ وقت مسجد میں گزرتا لیکن ساری مصروفیات کے باوجود زمیندارہ بھی کرتے۔ خلافت خامسہ میں وصیت کرنے کی تحریک ہوئی تو آپ نے بھی وصیت کرلی۔ چندہ جات کی ادائیگی میں بہت باقاعدہ تھے۔ مہمان نوازی میں بہت خوشی محسوس کرتے اور اس خوبی میں آپ کی اہلیہ بھی برابر کی شریک رہیں۔ آپ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا لیکن وہ جلد ہی وفات پاگیا۔ پھر آپ نے دوسری شادی بھی کی لیکن وہ زیادہ دیر نہ چل سکی۔ بچوں کی کمی کو آپ نے اپنے عزیزوں کے بچوں سے بہت زیادہ پیار کی صورت میں پورا کیا۔
………٭………٭………٭………
محترم محمد نواز صاحب شہید
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 8؍اکتوبر2013ء میں مکرمہ ش۔عزیز صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے بہنوئی اور خالہ زاد بھائی مکرم محمد نواز صاحب کا ذکرخیر کیا ہے جنہیں 11؍ستمبر 2012ء کو ڈیوٹی پر جاتے ہوئے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ مرحوم محکمہ پولیس میں ملازم تھے اور تھانہ پیرآباد میں متعین تھے۔ اس علاقے میں اُس دَور میں یکے بعد دیگرے کئی احمدی شہید کیے گئے۔ شہیدمرحوم کو بھی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ بہت نڈر تھے۔ ایک بار رات کو جماعت میں سیکیورٹی ڈیوٹی دے رہے تھے کہ کسی نے آپ پر گولی چلادی جو آپ کی ٹانگ میں لگی۔ کافی خون ضائع ہوا۔ لیکن آپ حوصلہ مند رہے اور کپڑا باندھ کر خون روکا۔ خدا نے فضل کیا اور زخم جلدی ٹھیک ہوگیا۔ مسجد کے ساتھ ہی آپ کا گھر تھا اس لیے ہر کام میں پیش پیش رہتے۔ کسی مربی سلسلہ کو لانا ہوتا تو خود اپنی گاڑی میں لے کر آتے۔ حضورانور کا خطبہ باقاعدگی سے سنتے اور دوسروں کو بھی ساتھ بٹھالیتے۔ کہا کرتے تھے کہ خاندان میں حافظ قرآن اور شہید ضرور ہونا چاہیے۔ شہادت کو بہت بڑا رتبہ بتاتے تھے۔ آپ کے جنازے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ حضورانور نے ایک خطبہ جمعہ میں آپ کا ذکرخیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
شہید مرحوم نہ صرف ظاہری طور پر خوبصورت تھے بلکہ اس سے کہیں زیادہ خوب سیرت، نڈر، نیک دل اور انسانیت کا درد رکھنے والے تھے۔ ہر انسان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے۔ خاندان میں، مقامی جماعت میں یا اپنے علاقے میں کسی کا کوئی مسئلہ ہو تو آپ جان جوکھوں میں ڈال کر اُس کی مدد کرتے۔ اپنے کام کا حرج کرکے دوسروں کی بچیوں کی شادی میں جہیز تیار کرنے اور دیگر انتظامات کرنے میں وقت صَرف کرتے۔ آپ کی شہادت کی اطلاع جب تھانے میں پہنچی تو وہاں موجود قیدی بھی رونے لگے۔
آپ اپنے خاندان کے بڑے بیٹے تھے۔ اپنے والدین کا بہت خیال رکھتے۔ والد کی وفات کے بعد اُن کا ذکر کرتے تو آنکھیں نم ہوجاتیں۔ اپنی والدہ کو اپنے پاس رکھتے اور اگر وہ پنجاب وغیرہ جاتیں تو روزانہ اُن کے ساتھ فون پر رابطہ کرتے۔ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ یا سسرال میں ہر کسی کے ساتھ وہ ایسا سلوک کرتے کہ مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ وہ میرے بہنوئی ہیں بلکہ مخلص بھائی کی طرح ہی لگتے۔ہر کوئی اپنا مسئلہ اُن کو بتاتا اور وہ کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے۔ گاؤں سے کوئی لڑکا آتا تو اُس کو پیسے بھی دیتے اور ساتھ جاکر کام تلاش کرنے میں مدد کرتے۔درجنوں لڑکوں نے یہ اظہار کیا۔
ہمارا گھر شہید مرحوم کے گھر کے قریب ہی تھا۔ میری جڑواں بیٹیاں ہوئیں جو زیادہ تر بیمار رہتی تھیں تو آپ نے اُنہیں پالنے میں میری بہت مدد کی۔بارہا اپنی جیب سے اُن کا علاج کروایا۔ ایک شفیق باپ اور پیار کرنے والی ماں کی طرح ہمارا خیال رکھتے تھے۔ میری بہن کے ہاں پہلے تین بیٹیاں پیدا ہوئیں تو وہ کافی پریشان رہتی تھیں لیکن شہید مرحوم اُن کو حوصلہ دیتے اور بچیوں کا بہت خیال رکھتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کو دو بیٹوں سے نوازا تو انہوں نے بچوں اور بچیوں میں کبھی فرق نہیں کیا۔ سب کو تعلیم دلوانے میں بہت دلچسپی لی۔ کئی دیگر غریب بچوں کے تعلیمی اخراجات میں بھی مدد کرتے۔
………٭………٭………٭………
ہیرا ’’کوہ نُور‘‘
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 7؍ستمبر2013ء میں دنیا کے سب سے بڑے اور قیمتی ہیرے کوہ نور کے حوالے سے منفرد معلومات شامل اشاعت ہیں۔
کوہ نُور ہیرا بیجاپور (گولکنڈہ۔ دکن) کی کوئلے کی کان سے اندازاً 1273ء میں نکالا گیا تھا۔ اس کا وزن پاؤ بھر کے قریب تھا۔ کئی صدیوں تک یہ ناتراشیدہ حالت میں پڑا رہا۔ آخر مختلف ہاتھوں سے ہوتا ہوا یہ شاہ جہاں کے پاس پہنچا۔ 1628ء میں شاہ جہاں نے اس کو ترشواکر اس کے تین ٹکڑے کروائے۔ ایک کا نام کوہ نُور، دوسرے کا کوہ طُور رکھا۔ تیسرے ٹکڑے کے نام کا علم نہیں۔ شاہ جہاں نےاپنے تخت طاؤس کے گرد موتیوں اور سونے کے دو مور بنوائے اور اُن کی چھاتیوں میں کوہ نُور اور کوہ طُور جڑوادیے۔
1839ء میں نادرشاہ نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور تخت طاؤس کو ہمراہ لے گیا۔ اُس کی وفات پر یہ ہیرا اُس کے سپہ سالار احمد شاہ ابدالی کے ہاتھ آیا اور وہ اسے لے کر کابل چلاگیا۔ پھر یہ ہیرا شاہ شجاع کے ساتھ پنجاب آیا۔ وہ اسے نہایت حفاظت سے اپنی پگڑی میں چھپاکر رکھتا تھا۔ جب رنجیت سنگھ کو یہ معلوم ہوا تو اُس نے بھائی بندی کا دھوکا دے کرپگڑیاں بدلوانے کے بہانے اُس سے پگڑی سمیت یہ ہیرا لے لیا۔
1850ء میں انگریزوں نے راجہ رنجیت سنگھ کے جانشین دلیپ سنگھ کو معزول کرکے پنجاب کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اُس کا کُل مال و اسباب بھی ضبط کرلیا جس میں کوہ نُور بھی شامل تھا۔ گورنرجنرل لارڈ ڈلہوزی نے یہ ہیرا ملکہ وکٹوریہ کو تحفۃً بھیج دیا جہاں اس کو تراش کر شاہی تاج میں لگادیا گیا۔ کوہ طُور ایک بار گمشدگی کے بعد اتفاق سے مل بھی گیا۔ تیسرا ٹکڑا تلاش کے بعد شاہ ایران کے خزانے سے ملا اور یوں یہ ہیرا تو مکمل ہوگیا لیکن اس کا وزن ابتدائی وزن سے چار گنا کم ہے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 13؍نومبر 2013ء میں مکرم انور ندیم علوی صاحب کی درج ذیل نظم شامل اشاعت ہے :
صبح کرتا ہوں ، شام کرتا ہوں
یاد اُن کو مدام کرتا ہوں
شعر کہتا ہوں آپ کی خاطر
دل ہے مسرور کام کرتا ہوں
چاند ، خوشبو ، صبا کے جھونکوں سے
دل کی باتیں تمام کرتا ہوں
چشمِ ساقی! تری عنایت سے
میکدہ اپنے نام کرتا ہوں
پیار انساں سے ، عبادت ہے
اپنا مسلک مَیں عام کرتا ہوں
صرف دل ہی نہیں ندیمؔ! مَیں تو
زندگی اُن کے نام کرتا ہوں