احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت
(خطاب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ مئی 1926ء)
نوٹ: مبلغ امریکہ حضرت مولوی محمد دین صاحب کی کامیاب مراجعت پر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ان کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا۔ اس موقع پر حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے حسب ذیل تقریر فرمائی:
مَیں اس انتظام دعوت سے پہلے کہہ رہا تھا کہ نہ صرف جس کو مدعو کیا جائے اس کی بیوی کو بھی بلانا چاہئے بلکہ جیسا کہ اسلامی طریق ہے درمیان میں پردہ ڈال کر دوسری طرف مدعو کرنے والی عورتیں بھی بیٹھی ہوں۔ہمارے ہاں پنجابی دعوت کا یہ طریق ہے کہ مہمان بیٹھا کھاتا ہے اور میزبان ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس کی طرف دیکھ رہا ہوتا ہے مگر اسلامی طریق یہ ہے کہ میزبان بھی کھاتا ہے۔
میں پچھلے دنوں سے جس کی تاریخ یورپ کے سفرسے بعد کی نہیں بلکہ پہلے کی ہے یہ سمجھ رہا تھا اور میں نے اس کا اس مضمون میں ذکر بھی کیا تھا جو یورپ جانے کے وقت لکھا تھا کہ اسلام پر حملہ کرنے والا اہل مغرب کا مذہب نہیں بلکہ ان کا تمدن ہے۔ اس تمدن نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ بعض بری باتیں بھی اچھی اور اچھی باتیں بری ہوگئی ہیں۔ گو ہمارے مذہب نے سب اچھی باتیں بیان کی ہیں۔ مگر چونکہ مسلمانی در کتاب والا معاملہ ہے مسلمان کا ان باتوں پر عمل نہیں۔ وہ کتابوں میں بند پڑی ہیں اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہم میں پائی جاتی ہیں اور نہ لوگ یہ بات ماننے کے لئے تیار ہیں۔ ورنہ ہماری مثال آریوں کی طرح ہوگی جو ہر ایجاد کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ اس کا ذکر وید میں موجود ہے۔ اگر ہم بھی یورپ والوں سے کہیں کہ اچھی باتیں ہمارے مذہب میں موجود ہیں تو وہ ہم پر ہنسیں گے جب تک کہ ہم ان باتوں پر عمل کر کے نہ دکھائیں۔ میں نے بتایا تھا کہ یورپین تمدن کی وہ باتیں جو قرآن کریم اور حدیث کے ماتحت نہیں ان کو تو ردّ کر دینا چاہئے لیکن جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں انہیں اختیار کر لینا چاہئے۔ مگر اس طرف توجہ نہ ہوئی اور اس بارے میں اتنی روک مردوں کی طرف سے نہیں ہے جتنی عورتوں کی طرف سے ہے۔ عورتوں میں اتنی دلیری نہیں ہے کہ وہ پرانی رسموں اور رواجوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔ اگرچہ ہم اس وقت پورے طور پر اس بات کا فیصلہ نہ کر سکیں کہ عورتوں کو کس حد تک مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے مگر یہ موٹی بات ہے کہ اسلام نے مردوں عورتوں کا اتحاد ایک حد تک ضروری قرار دیا ہے۔ اسلام نے مرد عورت کا ایک حد تک ملنا منع رکھا ہے مگر ضرورتوں کے موقع پر ایک حد تک ملنا جائز بھی رکھا ہے۔ حدیث میں آتا ہے اگر مرد سوار ہو اور عورت پیدل جارہی ہو تو عورت کو اپنے پیچھے سوار کر لے۔ جب ایک مرد ایک عورت کو اس طرح سوار کر کے گھر پہنچا سکتا ہے تو قومی اور مذہبی کاموں میں کیوں مرد و عورت مل کر کام نہیں کر سکتے۔ وہ وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب مرد و عورتیں مل کر کام کریں گے۔ معلوم نہیں ہماری زندگی میں آتا ہے یا بعد میں مگر آئے گا ضرور۔ البتہ ڈر ہے تو اس بات کا کہ عورتوں کو اسلام نے جو آزادی دی ہے وہ نہ دینے کی وجہ سے وہ حدود بھی نہ ٹوٹ جائیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔
ماسٹر محمد دین صاحب نے اپنی تقریر میں ایک نکتہ بیان کیا ہے۔ اور وہ یہ کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ اگلے جہاں کی جنت تو الگ رہی اس دنیا کی جنت بھی ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ تعلیم و تربیت کا جس قدر اثر بچہ پر ہوتا ہے اتنا اور کسی چیز کا نہیں ہوتا اور یہ ماں کے سپرد ہوتی ہے۔ ہمیں تعلیم و تربیت میں جس قدر مشکلات درپیش ہیں ان میں عورتوں کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ عورتیں کہتی ہیں ہمیں پیچھے رکھا ہؤا ہے ہمیں کوئی کام نہیں دیا جاتا۔ میں کسی پر الزام نہیں لگاتا۔ مگر اس ظلم کی وجہ سے جو متواتر عورتوں پر ہوتا چلا آیا ہے اور وہ گری ہوئی ہیں میں یہ کہنے سے بھی باز نہیں رہ سکتا تھا کہ وہ خود بھی ہمت نہیں کرتیں کہ ہمارا ہاتھ بٹائیں۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتوں کےلئے کوئی باہر کا کام کرنا یا ملازمت کرنا ناجائز ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ عورتوں کے کثیر حصہ کا کام گھر میں ہی ہے۔ یورپ میں جہاں اتنی آزادی اور اتنی تعلیم ہے وہاں بھی نوے فیصدی عورتیں گھروں میں کام کرتی ہیںکیونکہ یہ ناممکن ہے کہ عورتیں کثرت سے مردوں کی طرح کاروبار میں حصہ لے سکیں جب تک یہ فیصلہ نہ ہوجائے کہ نہ ان کی شادی ہوگی اور نہ بچے جنیں گی۔
پس جب یورپ کی عورتیں انتہائی تعلیم پا کر بھی زیادہ تر گھر ہی میں کام کرتی ہیں تو معلوم ہوا عورتوں کی تعلیم کا جزو اعظم تربیت اولاد اور گھر کا کام ہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچوں کے کپڑے سینا اور پہنانا ہی عورتوں کا کام ہے بلکہ بچوں کو تعلیم دینا بھی ان کا فرض ہے۔ اور اس کے لئے ان کا خود تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بچہ کی مذہبی تعلیم، امور خانہ داری کا انتظام یعنی حساب کتاب رکھنا، صحت کا خیال رکھنا، خوراک کے متعلق ضروری معلومات ہونا، اوقات کی پابندی کا خیال رکھنا، یہ جاننا کہ سونے جاگنے ، اندھیرے روشنی وغیرہ کا صحت پر کیا اثر ہوتا ہے کیونکہ عورت نے بچہ کے متعلق ان باتوں کو اس وقت کرنا ہے جس وقت کے اثرات ساری عمر کی کوششوں سے دور نہیں کئے جاسکتے۔ مگر ہماری عورتیں ابھی ان باتوں کے متعلق کچھ نہیں جانتیں۔ اس کے لئے سب سے پہلی چیز جو ضروری ہے وہ تعلیم یافتہ عورتوں کا میسّر آنا ہے۔ اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ پہلے استاد عورتیں میسّر آجائیں۔ مردوں کے ذریعہ لڑکیوں کو ایک عرصہ تک تو تعلیم دی جاسکتی ہے زیادہ عمر تک نہیں دی جاسکتی کیونکہ قدرتی طور پر اور رسم ورواج کے لحاظ سے لڑکی جب جوانی کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس میں ایک حد تک حیا پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے جسے یورپ میں ضروری نہیں سمجھا جاتا لیکن ہم اسے نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اب ادھر لڑکی میں اس کا پیدا ہونا ضروری ہوتا ہے اور ادھر مرد اُستاد اسے پڑھانے والا ہو تو اس کے جذبات اور احساسات دب جائیں گے۔ کیونکہ وہ اس عمر کی اُمنگیں اور جذبات کا اظہار نہ کر سکے گی جو عورت اُستاد ہونے پر اس کے سامنے کر سکتی تھی۔ ہمیں لڑکیوں کے لئے ایسے اُستادوں کی ضرورت ہے جو موقع اور محل پر سنجیدگی اور متانت سے بھی کام لیتے ہوں لیکن انہیں ہنسی بھی آسکتی ہو۔ کھیل کھود میں بھی اپنے شاگردوں میں حصہ لے سکیں اور ان میں خوش طبعی پیدا کر سکیں۔ یہ باتیں ہم مردوں کے ذریعہ لڑکیوں میں پیدا نہیں کر سکتے کیونکہ مردوں کے ذریعہ یا تو ان میں وہ باتیں پیدا ہوجائیں گی جنہیں ہم پیدا نہیں کرنا چاہتے اور جن کے پیدا کرنے کی اسلام اجازت نہیں دیتا یا وہ مردہ ہوجائیں گی۔ ان میں زندگی کی روح باقی نہ رہے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ لڑکیوں کے لئے عورتیں اُستاد مہیا کی جائیں۔
جن عورتوں کی پڑھائی کا علیحدہ انتظام کیا گیا ہے وہ دراصل اُستانیاں ہیں نہ کہ طالبات۔ ان میں زیادہ شادی شدہ ہیں اور تھوڑی بِن بیاہی ہیں۔ پھر زیادہ وہ ہیں جو پہلے ہی تعلیم یافتہ ہیں اور تھوڑی ایسی ہیں جو کم علم رکھتی ہیں۔ ان سے ہم اُمید رکھتے ہیں کہ جو اپنے گھروں میں رہنے والی ہوں گی وہ بھی وقت دیں گی اور سکول میں لڑکیوں کو پڑھائیں گی تاکہ لڑکیوں میں تعلیم بڑھے۔
دنیا میں یہ عجیب بات ہے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کسی چیز کا منبع وسیع ہوتا ہے مگر علم میں یہ بات ہے کہ منبع چھوٹا ہوتا ہے اور آگے جا کر زیادہ وسعت ہوجاتی ہے۔ اُستاد سے لڑکا زیادہ علم رکھتا ہے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ شاگرد کو استاد سے ورثہ میں تجربہ اورعقل بھی ملتی ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں بیشک یہ عورتیں ایسی نہ ہوں گی جنہیں ہم مکمل اُستانیاں بناسکیں مگر ان سے جو تعلیم پائیں گی وہ ان سے اعلیٰ ہوں گی۔ پھر ان سے جو تعلیم پائیں گی وہ ان سے اعلیٰ ہوں گی۔ یہی یورپ میں ہؤا اور یہی یہاں بھی ہوسکتا ہے۔ ہم سکول میں بھی مرد مدرّس رکھ کر تعلیم دلا سکتے ہیں مگر اس طرح ایسی کامیابی کی امید نہیں ہوسکتی جیسی اس صورت میں ہے کہ مردوں کے ذریعہ استانیاں تیار کی جائیں اور وہ آگے لڑکیوں کو پڑھائیں تاکہ وہ اپنی شاگردوں سے ہنس کھیل بھی سکیں۔ تربیت تب ہی عمدگی سے ہوسکتی ہے جبکہ استاد شاگرد آپس میں کھیل بھی سکیں، مرد یہ نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر یہ استانیاں کام کی ہوجائیں تو یہ لڑکیوں سے مل کر رہ سکیں گی جو لڑکیوں کی استاد بھی ہوں گی اور ہمجولی بھی۔ لڑکیاں ان سے کُھل کر باتیں بھی کر سکیں گی اور ان کے رنگ میں رنگین ہوجائیں گی۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو یہ استانیاں تیار ہو کر ہماری جماعت کی تعلیم مکمل ہوسکے گی۔ ہم پر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ذمہ داریاں ہیں۔ دوسرے لوگ یا تو جہالت پسند کرتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم ہی نہ دلائی جائے یا پھر یورپ کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم جہالت کو پسند نہیں کر سکتے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر حکمت کی بات مومن کی گم شدہ چیز ہے جہاں پائے لے لے۔ (ابن ماجہ ابواب الزھد باب الحکمة مطبوعہ قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)مگر دوسری طرف ہم یورپ کی نقل بھی نہیں کر سکتے اس وجہ سے ہمیں نیا طریق اختیار کرنا ہے۔ نیا اس لئے کہ اب تک جاری نہیں ورنہ اسلام میں تو موجود ہے۔ اب ہم نے جو کوشش شروع کی ہے وہ اگرچہ بہت چھوٹے پیمانہ پر ہے لیکن ہر بات ابتداء میں چھوٹی معلوم ہوتی ہے اور اپنے وقت پر اس کا نتیجہ نکلتا ہے۔ یہی مدرسہ احمدیہ جو اس حد تک ترقی کر گیا ہے اس کے متعلق کئی دفعہ بعض لوگوں نے چاہا کہ اسے توڑ دیا جائے۔ مگر جو توڑنے والے تھے وہ آج خود زبان حال سے کہہ رہے ہیں۔ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ (الحجر:3)کاش ! ہم ایسا ہی کرتے۔غیر مبائعین کی طرف سے آواز آرہی ہے کہ مولوی نہیں ہیں اس کے لئے کوئی انتظام ہونا چاہئے۔ خواتین کی تعلیم کے متعلق جو کوشش کی گئی ہے وہ ابتدائی حالت میں ہے اور ہم اس کو کافی نہیں سمجھتے لیکن ابتدائی کام اس طرح شروع نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بالکل رہ جاتا ہے۔ اگر تعلیم کا کام اسی طرح جاری رہا تو انشاء اللہ تعالیٰ دو تین سال میں ایسی استانیاں تیار ہوجائیں گی کہ ہم مڈل تک لڑکیوں کا سکول جاری کر سکیں گے۔ پھر مڈل تک تعلیم یافتہ لڑکیوں کو پڑھا کر انٹرنس تک کے لئے اُستانیاں تیار کر سکیں گی۔ پھر ان سے لے کر اور اعلیٰ تعلیم دلا سکیں گے۔ ابھی ہمیں ایسی اُستانیوں کی بھی ضرورت ہے جو لڑکیوں کو نرسنگ اور ڈاکٹری کی تعلیم دے سکیں اس کے لئے چودھری غلام محمد صاحب نے اپنی لڑکی کو ڈاکٹری سکول میں داخل کر کے اچھی بنیاد رکھ دی ہے۔ آگے لڑکی کو بھی اس کام کو پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ توفیق دے تو ہمیں بنی بنائی لیڈی ڈاکٹر مل جائے گی۔
یہ کام ابتداء ہے اگر یہ کام جاری رہا اور اگر عورتوں نے ہمت کی تو بہت کچھ کامیابی ہوسکتی ہے اور خدا تعالیٰ بھی ان کی مدد کرے گا۔
یہی ایڈریس جو اس وقت پیش کیا گیا ہے۔ لجنہ کی سیکرٹری نے جو میری بیوی ہیں بہت کوشش کی کہ میں اس کو دیکھ کر اصلاح کردوں۔ لیکن میں نے کہا میں ایک لفظ کی بھی اس میں کمی بیشی نہ کروں گا۔ میں نے کہا تم سمجھتی ہو اگر تمہارے لکھے ہوئے ایڈریس میں کوئی غلطی ہوئی تو لوگ تمہیں جاہل کہیں گے مگر مرد بھی غلطیاں کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں پھر تمہیں کیا خوف ہے۔ وہ ناراض بھی ہوئیں مگر میں نے ان کے مضمون میں دخل نہ دیا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ اس طرح امداد دینا عورتوں میں بزدلی پیدا کرنا ہے۔ عورتیں تبھی کام کر سکتی ہیں جب وہ جرأت اور دلیری سے کام لیں۔ مجھےسب سے بڑی تعلیم جو حضرت خلیفة المسیح الاول نے دی وہ یہی تھی کہ جب میں پڑھتے ہوئے کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے میاں آگے چلو اس سوال کے متعلق گھر جا کر خود سوچنا۔ گویا آپ مجھے کوئی سوال نہیں کرنے دیتے تھے۔ حافظ روشن علی صاحب کی عادت تھی کہ سوال کیا کرتے تھے اور انہیں جواب بھی دیتے تھے مگر مجھے جواب نہ دیتے۔ اور بعض اوقات تو میرے سوال کرنے پر حافظ صاحب پر ناراض بھی ہوتے کہ تم نے اسے بھی سوال کرنے کی عادت ڈال دی ہے۔ عورتیں کہتی ہیں تم ہمیں تعلیم نہیں دیتے اس لئے ہم علم میں پیچھے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں ہمیں کس نے تعلیم دی۔ خدا تعالیٰ نے علم اکٹھا کر کے مردوں کے پاس نہیں بھیج دیا تھا کہ مردوں نے سارے کا سارا خود لے لیا اور عورتوں کو اس میں حصہ نہ دیا۔ مردوں نے خود کوشش کر کے سیکھا انہیں آگیا۔ تم بھی کوشش کرو اور سیکھو۔ اور اصل بات تو یہ ہے جس قدر مردوں کو علم سیکھنے میں بیرونی مدد مل سکتی تھی اس سے زیادہ عورتوں کو مل سکتی ہے کیونکہ مرد انہیں سکھانے کے لئے تیار ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتیں جرأت سے کام لیں۔ مضمون لکھنے تقریر کرنے کی کوشش کریں۔ زیادہ سےزیادہ یہی ہوگا کہ لوگ ان کے مضمون پڑھ کر یا تقریر سن کر ان کی غلطیوں پر ہنسیں گے مگر ایسے چند ہی لوگ ہوں گے۔ زیادہ تر وہی ہوں گے جو ان کی جدوجہد کو دیکھ کر محسوس کریں گے کہ وہ قابل عزت ہیں۔ یہ بہترین نصیحت ہے جو میں ممبرات لجنہ کو کر سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہتا ہوں کہ وہ ممبر بڑھانے کی کوشش کریں۔ لجنہ نے ابھی تک اس کے متعلق کچھ نہیں کیا۔ یہی ضروری نہیں کہ جو پڑھی لکھی عورتیں ہوں انہی کو ممبر بنایا جائے بلکہ جو سنجیدگی سے بات کر سکتی اور سن سکتی ہیں خواہ وہ ایک لفظ بھی نہ جانتی ہوں ان کو بھی ممبر بنایا جائے۔ اعلیٰ کام ہمیشہ تعاون سے ہوتے ہیں۔ پس دوسری عورتوں کو بھی لجنہ میں شامل کرنا چاہئے۔ آج اگر لجنہ کی ممبرات پچاس ساٹھ عورتیں ہوتیں تو ان پر بھی کئی قسم کے نیک اثرات ہوتے۔
اب چونکہ مغرب کی اذان ہوگئی ہے اور میرا گلا بیٹھا ہوا ہے اس لئے میں اس دعا پرتقریر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے اس حصہ کو بھی ترقی کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس پر اپنا فضل نازل کرے جو مستورات کا حصہ ہے۔ آمین(الفضل ۱۵؍مئی ۱۹۲۶ء)