فضائلِ قرآنِ مجید
جمال و حُسنِ قرآں نورِ جانِ ہر مُسلماں ہے
قمر ہے چاند اَوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے
نظیر اُس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا
بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلامِ پاک رحماں ہے
بہارِ جاوداں پیدا ہے اُس کی ہر عبارت میں
نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اُس سا کوئی بُستاں ہے
کلامِ پاکِ یَزْداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز
اگر لُؤلُوئے عُمّاں ہے وگر لعلِ بدخشاں ہے
خدا کے قول سے قولِ بشر کیونکر برابر ہو
وہاں قدرت یہاں درماندگی فرقِ نمایاں ہے
ملائک جس کی حضرت میں کریں اقرارِ لاعلمی
سخن میں اُس کے ہمتائی، کہاں مقدورِ انساں ہے
بنا سکتا نہیں اِک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز
تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اُس پہ آساں ہے
ارے لوگو کرو کچھ پاس شانِ کبریائی کا
زباں کو تھام لو اب بھی اگر کچھ بُوئے ایماں ہے
خُدا سے غیر کو ہمتا بنانا سخت کفراں ہے
خدا سے کچھ ڈرو یارو، یہ کیسا کِذب و بہتاں ہے؟
اگر اِقرار ہے تم کو خُدا کی ذاتِ واحد کا
تو پھر کیوں اِس قدر دل میں تمہارے شرک پنہاں ہے
یہ کیسے پڑ گئے دل پر تمہارے جہل کے پردے
خطا کرتے ہو باز آؤ اگر کچھ خوفِ یزداں ہے
ہمیں کچھ کِیں نہیں بھائیو! نصیحت ہے غریبانہ
کوئی جو پاک دل ہووے دل و جاں اُس پہ قرباں ہے
(براہینِ احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۱۸۲ ۔مطبوعہ ۱۸۸۲ء )