حاصل مطالعہ

حفیظ جالندھری کی کرشن بھکتی

غوث سیوانی،نئی دہلی،اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:’’حفیظ [جالندھری]کوجہاں شاہنامہ اسلام کے لئے جانا جاتا ہے وہیں دوسری طرف انھیں ان کی کرشن بھکتی کے لئے بھی جاناجاتا ہے۔انہوں نے کرشن جی کے تعلق سے کم از کم دونظمیں لکھی ہیں،اور ایک نظم سے تو ایسا لگتاہے کہ وہ کرشن جی کو پیغمبرمانتے تھے۔

’’…انہوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان ’’کرشن کنھیا‘‘ہے۔نظم کا آغازیوں ہوتاہے:

اے دیکھنے والو اس حسن کو دیکھواس راز کو سمجھو

یہ نقش خیالی یہ فکرت عالی یہ پیکر تنویر یہ کرشن کی تصویر

معنی ہے کہ صورت صنعت ہے کہ فطرت

ظاہر ہے کہ مستور نزدیک ہے یا دور یہ نار ہے یا نور

دنیا سے نرالا یہ بانسری والا گوکل کا گوالا

ہے سحر کہ اعجاز کھلتا ہی نہیں راز

کیا شان ہے واللہ کیا آن ہے واللہ

حیران ہوں کیا ہے اک شان خدا ہے

’’… کرشن جی کا تصور جب بھی آتاہے،بانسری کے بغیرنہیں آتا اور یہ بانسری بھی غضب کی ہے جوعشق وعرفان کے بڑے بڑے بڑے راز کھولتی ہے۔ مدہوش کرتی ہے اور عقل وخرد سے بےگانہ بھی کرتی ہے۔ملاحظہ ہو:

بنسی میں جو لے ہے نشہ ہے نہ مے ہے کچھ اَور ہی شے ہے

اک روح ہے رقصاں اک کیف ہے لرزاں

’’…حفیظ جالندھری نے کرشن جی کے تعلق سے ایک دوسری نظم بھی لکھی ہے۔ اس نظم کا عنوان ہے’’کرشن بنسری‘‘۔نظم کے ابتدائی مصرعے یوں ہیں:

بنسری بجائے جا کاہن مرلی والے نندکے لال

بنسری بجائے جا بنسری بجائے جا

’’… اس نظم میں ایک لفظ ’’کاہن‘‘استعمال ہواہے۔اس بارے میں تھوڑی وضاحت ضروری ہے۔ علماءاسلام کا ماننا رہا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین پربہت سے انبیاءکرام تشریف لائے اور آسمانی کتابیں بھی اس دھرتی پر اتریں۔ایسے میں امکان اس بات کا بھی ہے کہ ہندوؤں کی قابل احترام شخصیات میں سے بعض انبیاء،اولیاء، صالحین یا ان کی اولاد سے ہوں۔

کرشن جی کے تعلق سے بھی بعض لوگوں کو لگتاہے کہ وہ ہندوستان میں تشریف لانے والے پیغمبروں میں سے ہوسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے جو کسی ’’تاریخ ہمدان‘‘نامی کتاب میں مذکورہے۔مبینہ حدیث اس طرح ہے:کَانَ فِی الھندِ نبیّا۔ اَسْوَد اللّونِ۔اِسْمُہ کاھِنًا(بحوالہ تاریخ ہمدان دیلمی باب الکاف)۔یعنی ہندوستان میں ایک نبی تھا جس کا رنگ کالا تھا۔اور اس کا نام کاہن تھا۔

اس سے قطع نظر کہ یہ حدیث،درست ہے یا نہیں؟البتہ ایک طبقے میں مشہورہے اور لگتاہے کہ یہیں سے حفیظ نے ’’کاہن‘‘ کا لفظ لیا ہے۔نظم میں’’کرشن‘‘کا معرب ’’کاہن‘‘استعمال ہواہے۔ پنجاب کے ایک صوفی گزرے ہیں خواجہ غلام فریدجن کی قبرچاچڑاں شریف(پاکستان) میں واقع ہے،کے بارے میں کہاجاتاہے کہ رام چندر جی اور کرشن جی کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں فرمایاتھا کہ تمام اوتاراور رشّی لوگ اپنے اپنے وقت کے پیغمبر اورنبی تھے‘‘۔

حوالہ:https:www.urdu.awazthevoice.inopinion-newskrishna-bhakti-the-author-of-shahnameh-islam-6112.html

آجا میرے کالے !

محترم غوث سیوانی صاحب نے حفیظؔ جالندھری کی جس نظم ’’کرشن کنہیا‘‘کا ذکر کیا ہے،اس کا ایک بند کچھ یوں ہے ؎

دربار میں تنہا

لاچار ہے کرشنا

آشیام ادھر آ

سب اہل خصومت

ہیں درپئے عزت

یہ راج دلارے

بزدل ہوئے سارے

پروانہ ہو تاراج

بیکس کی رہے لاج

آجا میرے کالے

بھارت کے اجالے

دامن میں چھپا لے‘‘

مزید فریاد کناں ہوتے یوں لب کشائی کرتے ہیں؎

طوفان ہیں خاموش

موجوں میں نہیں جوش

لو تجھ سے لگی ہے

حسرت ہی یہی ہے

اے ہند کے راجہ

اک بار پھر آجا

دکھ درد مٹا جا!

(حوالہ: کلیات حفیظ جالندھری۔مرتبہ خواجہ محمد زکریا۔مطبع فرید بک ڈپو پرائیویٹ لمیٹڈ۔ نیو دہلی۔ سن اشاعت ۲۰۰۸۔ صفحات ۸۷ و ۸۸ )

ہندو روایات کے مطابق آخری زمانہ ’’کلجگ‘‘ میں کرشن جی کا ظہور ثانی ایک ’’کلنکی اوتار‘‘کی صورت میں سرزمین ہند میں بتایا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ کرشنا کا مطلب کالا ہوتاہے۔ ان کی آمد سے دنیا میں باطل کی قوت زائل ہوکراس کا چہرہ سیاہ پڑ گیا تھا اس لئے آپ کرشنا کہلائے۔ ممکن ہے کہ اپنی سانولی سلونی رنگت کی بنا پربھی کرشنا کے نام سے موسوم ہو گئے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

شاہنامہ اسلام اور قومی ترانہ پاکستان کے خالق جناب ابوالاثر حفیظ جالندھری اجالوں کی امید میں آخری زمانہ کے اسی کلنکی اوتار کو ’’آجا میرے کالے‘‘ کی التجا کرکے پکار رہے تھے تا کہ ہند کا یہ راجہ ایک بار پھر لوٹ کر آجائے اوراس بیکس کے دکھ درد مٹا کراس کی لاج رکھ لے۔

افسوس کہ

غبارے بنا کر فضا میں اڑانا،

مرے شعر کا شعبدہ ہے پرانا

کا اعتراف کرکے حفیظ ؔ خود اپنا بھانڈہ پھوڑتے نظر آتے ہیں کہ وہ کرشن جی کے انتظار میں کتنے مخلص تھے۔اسلم انصاری کے دوشعر یاد آرہے ہیں ؎

وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا

تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

یا ہمیں کو نہ ملا اس کی حقیقت کا سراغ

یا سرِ پردۂ عالم میں کوئی تھا بھی نہیں

(مرسلہ:ڈاکٹر طارق مرزا۔آسٹریلیا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button