حج کرنا مشروط بشرائط ہے
حج کا مانع صرف زادِ راہ نہیں اَور بہت سے امو رہیں جو عنداللہ حج نہ کرنے کے لئے عذر صحیح ہیں۔ چنانچہ ان میں سے صحت کی حالت میں کچھ نقصان ہونا ہے۔ اور نیز ان میں سے وہ صورت ہے کہ جب راہ میں یا خود مکہ میں امن کی صورت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا (اٰل عمران:۹۸) عجیب حالت ہے کہ ایک طرف بداندیش علماء مکہ سے فتویٰ لاتے ہیں کہ یہ شخص کافر ہے اور پھر کہتے ہیں کہ حج کے لئے جاؤ۔ اور خود جانتے ہیں کہ جبکہ مکہ والوں نے کفر کا فتویٰ دے دیا تو اب مکہ فتنہ سے خالی نہیں اور خدا فرماتا ہے کہ جہاں فتنہ ہواس جگہ جانے سے پرہیز کرو۔ سو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ کیسا اعتراض ہے۔ ان لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ فتنہ کے دنوں میں آنحضرتﷺ نے کبھی حج نہیں کیا اور حدیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ فتنہ کے مقامات میں جانے سے پرہیز کرو… وَلَا تُلۡقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمۡ اِلَی التَّہۡلُکَۃِ (البقرۃ:۱۹۶) پس ہم گناہ گار ہوں گے اگر دیدہ ودانستہ تہلکہ کی طرف قدم اٹھائیں گے اور حج کو جائیں گے اور خدا کے حکم کے برخلاف قدم اٹھانا معصیت ہے۔ حج کرنا مشروط بشرائط ہے مگر فتنہ اور تہلکہ سے بچنے کے لئے قطعی حکم ہے جس کے ساتھ کوئی شرط نہیں۔ اب خود سوچ لو کہ کیا ہم قرآن کے قطعی حکم کی پیروی کریں یا اس حکم کی جس کی شرط موجود ہے۔ باوجود تحقق شرط کے پیروی اختیار کریں۔
(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد۱۴صفحہ۴۱۵۔۴۱۶)