محرم کی کہانی
دادی جان: وہ رہا چاند!چلیں سب دعا کرلیں!
گڑیا، احمد اورمحمود نے ہاتھ اٹھا لیےاور دعا کے بعد تینوں نےکہا: دادی جان نیا سال مبارک ہو!
دادی جان: خیر مبارک!آپ سب کو بھی سالِ نو مبارک ہو!
گڑیا: دادی جان اب محرم کا مہینہ شروع ہوا ہے ناں!
دادی جان: جی ہاں یہ محرّم الحرام کا مہینہ ہے!
احمد: دادی جان یہ محرم کے ساتھ حرام کیوں کہا آپ نے!
دادی جان: چلیں اندر چلیں۔ پھر بات کرتے ہیں۔
اندر آنے کے بعد دادی جان نے کہا: ابھی ذی الحجة کا مہینہ ختم ہوا ہے ناں! جس میں مسلمان حج کرتے ہیں۔اس زمانہ میں مسلمان لمبے لمبے سفر کر کے حج کرنے جاتے تھے۔ حج کے زمانے میں امن قائم رکھنے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے چار مہینے حرمت والے ٹھہرائے ہیں۔ ان میں سے تین مہینے حج کے موسم کے ہوتے ہیں ذی القعدہ، ذی الحجة اور محرم۔ اسی لیے محرم کی حرمت کی وجہ سے اِسے حرام کہا جاتا ہے۔
گڑیا: محرم کے مہینہ میں ہی حضرت حسینؓ کو شہید کیا گیا تھا ناں!
دادی جان نے کہا: جی ہاں! گڑیا بیٹا!! یہی وہ مہینہ ہے جس کی دس تاریخ کو حضرت امام حسینؓکو شہید کیا گیا تھا۔
احمد: دادی جان ہمیں آپ نے ان کے بارے میں بتایا تھا لیکن کیا آج دوبارہ بتائیں گی۔
دادی جان: کیوں نہیں بیٹا! حضرت حسن اور حسینؓ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کے بیٹے تھے۔ رسول اللہﷺ کو ان دونوں سے بہت پیار اور محبت تھی۔ اسی لیے آپؐ نے فرمایا تھا کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا تھا کہ جو ان دونوں سے محبت رکھتا ہے تو گویا مجھ سے محبت رکھتا ہے۔
گڑیا: جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھتے ہوئے سجدے میں جاتے تھے تو پیارے پیارے حسن اور حسینؓ اپنے نانا حضرت محمدﷺ کی کمر پر چڑھ جاتے تھے۔ آپؐ اس وقت تک سجدے میں رہتے جب تک وہ دونوں آپ کی کمر سے اتر نہ جاتے!
دادی جان: شاباش بیٹا! آپ نے صحیح کہا ہے۔ محرم کا مہینہ تاریخ اسلام کا ایک تاریک باب ہے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد حضرت حسنؓ نے مسلمانوں سے بیعت لی۔ لیکن پھر حضرت امیر معاویہؓ سے صلح کرتے ہوئے آپ نے خلافت سے علیحدگی اختیار کرلی اورمدینہ آگئے۔ اور پھر بعض روایات کے مطابق زہر دیے جانے کی وجہ سے آپ کی شہادت ہو گئی۔ جب حضرت امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یزید نے مسلمانوں سے زبردستی بیعت لینی شروع کی تو حضرت امام حسینؓ نےاس زبردستی کی بیعت سے انکار کیا۔ آپ خود حکومت نہیں چاہتے تھے بلکہ حق کو قائم کرنا چاہتے تھے۔ کوفہ کے رہنے والوں نے حضرت حسینؓ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ہزاروں کی تعدادمیں آپ کو خطوط لکھےتو آپؓ ستّر یا بہتر افراد کے ساتھ مدینہ سے کوفہ کی طرف چل پڑے۔ جس میں آپ کا اپنا خاندان بھی شامل تھا۔
احمد: یہ کوفہ کیا ہے؟
دادی جان: کوفہ عراق کا ایک شہر ہے جسے حضرت علیؓ نے دارالخلافہ بنایا تھا۔ اور یہیں آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسینؓ جب عراق کے ایک میدان میں پہنچےتو یزید کی فوج نے ان کا راستہ روک لیا۔ اس میدان کو میدانِ کربلا کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے بے انتہا ظلم کیا۔ میدان کربلا میں ان ظالموں نے آپؓ کے قافلے کا پانی تک بند کر دیا تھا، چھوٹے چھوٹے بچے بھی پیاس سے تڑپتے تھے۔حضرت امام حسینؓ نے فوج سے کہا کہ انہیں یزید سے ملنے دیں یا واپس جانے دیں یا ان کو اسلامی فوجوں میں جا کر جہاد کرنے دیں۔ کوفہ والے بھی فوج کو دیکھ کر ڈر گئے اور حضرت حسینؓ کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ حضرت حسینؓ کے معمولی تعداد کے قافلے نے اس موقع پر چاروناچار بھرپور مقابلہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک بڑے لشکر کے مقابل یہ چھوٹا قافلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ اور حضرت امام حسینؓ بھی لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ انہوں نے یہیں بس نہ کی۔ بلکہ دس گھڑ سوار وں نے اپنے گھوڑوں سے آپؓ کی نعش کو پامال کیایہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چُور چُور کر دیا۔ اس لڑائی میں حضرت امام حسینؓ کے جسم پر تیروں کے پینتالیس زخم تھے۔ بعض روایات کے مطابق تینتیس زخم نیزے کے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے۔ پھر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ حضرت امام حسینؓ کا سر کاٹ کر، جسم سے علیحدہ کر کے کوفہ میں نصب کر دیا۔ اور پھر یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا۔ اب جنہوں نے انہیں شہید کیا اور ان کے مبارک جسم کے ساتھ ایسا وحشیوں والا سلوک کیا، گووہ مسلمان ہی تھے لیکن ان میں ایمان کی بہت کمی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کو اپنے نواسے بہت پیارے تھے۔ ان کے چہرے کو کئی بار آپﷺ نے چوما تھا۔ لیکن ظالموں نے آپؓ کے ساتھ ایسا سلوک کیا۔
دادی جان نے تھوڑا رک کر کہا کہ ’’وفا‘‘ انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ وفا کہتے ہیں وعدے کو پورا کرنا، عہد کو نبھانا۔ لیکن کوفہ والوں نے اپنا عہد نہیں نبھایا جو انہوں نے اپنے خطوط میں کیا تھا۔ ایک مومن تو اپنے عہد سے نہیں پھرتا۔ اس عہد شکنی کی وجہ سے اسلام کو بہت بڑا نقصان پہنچا اور مسلمانوں کی حالت اور قوت کمزور ہونا شروع ہو گئی۔ رسول اللہ ﷺ کے پیارے نواسے کو بے دردی سے شہید کردیا گیا۔ قافلے میں آپﷺ کے خاندان کے افراد بھی شامل تھے جنہیں پیاسا رکھا گیا اور کئی افراد شہید بھی ہوگئے۔
حضرت مسیح موعودؑ حضرت امام حسینؓ اور محرم کی یہ کہانی بچوں کو سناتے تھے۔ اس کو سن کر ہمارے دلوں میں آپؐ اور آپؐ کی آل کے لیے مزید محبت اور عزت پید ا ہوتی ہے۔
احمد: دادی جان کیا ہم ان گندے لوگوں کو برا کہہ سکتے ہیں۔
دادی جان: بچو! محرم یہ سبق نہیں دیتا کہ انہیں برا بھلا کہنے میں وقت ضائع کیا جائے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگرمحرم کا مہینہ ہمیں کوئی سبق دیتا ہے تو یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہیں۔اور یزیدی صفت لوگوں کے سامنے استقامت دکھاتے ہوئے ہمیشہ ڈٹے رہیں۔(ماخوذ از خطبہ جمعہ 10؍ دسمبر 2010ء)
احمد: جزاکم اللہ تعالیٰ۔ لیکن ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
دادی جان: ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایسی استقامت عطا فرمائے۔ ہمیں اپنے عہد پورے کرنے والا بنائے۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں درود پڑھنا چاہیے جس میں آپ ﷺ اور آپ کی آل کے لیے دعا شامل ہے۔ چلیں اب ہم سب مل کر درود پڑھتے ہیں ۔