الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے مخالفین کا انجام
ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کینیڈا کے جنوری، فروری اور مارچ 2011ء کے شماروں میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض مخالفین کے عبرتناک انجام کا تذکرہ مکرم مولانا فضل الٰہی انوری صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔ بعض مخالفین جن کا تذکرہ قبل ازیں ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع نہیں ہوا تھا، وہ ذیل میں ہدیۂ قارئین
مولوی محمد حسین بٹالوی کا انجام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا مخالف جو آپؑ کے دعویٔ ماموریت کے ساتھ ہی مخالفت میں کھڑا ہوگیا اور جس نے آپؑ کے سلسلہ کو مٹانے کے لئے سردھڑ کی بازی لگادی وہ بٹالہ کا رہنے والا مولوی محمد حسین تھا۔ اس نے آپؑ کے خلاف کفر کا فتویٰ تیار کرکے پہلے اس پر مولوی نذیر حسین دہلوی کے تصدیقی دستخط کروائے اور پھر سارے ملک میں پھر کر اُس فتویٰ پر دو صد علماء کی گواہیاں حاصل کیں اور اسے اخبار میں نشر کیا جس کے نتیجہ میں حضورؑ کے خلاف سارے ملک میں مخالفت کی آگ بھڑک اُٹھی۔ اس فتویٰ سے متعلق حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’اس ظالم نے بھی وہ فتنہ برپا کیا کہ جس کی اسلامی تاریخ میں گزشتہ علماء کی زندگی میں کوئی نظیر ملنی مشکل ہے۔… ایسا طوفان فتنہ کا اٹھا کہ گویا ایک زلزلہ آیا جس سے آج تک ہزاروں خدا کے نیک بندے اور دین اسلام کے عالم اور فاضل اور متقی، کافر اور جہنم ابدی کے سزاوار سمجھے جاتے ہیں‘‘۔
مولوی محمد حسین نے عیسائی پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے حضورعلیہ السلام کے خلاف قتل عمد کے جھوٹے دعویٰ کی تصدیق میں عدالت میں بیان بھی دیا اور پھر ڈپٹی انسپکٹر محمد بخش کی طرف سے حضورؑ پر بنائے جانے والے مقدمہ کے وقت بھی اُس نے عدالت میں حضورؑ کی ایسی تحریریں پیش کیں جن سے ثابت ہو کہ یہ تحریریں امن عامہ کے لئے خطرہ ہیں۔ اگرچہ عدالت نے ہر دو موقع پر اُس کی گواہی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی بلکہ اُلٹا اس سے اس بات پر دستخط کروائے کہ وہ آئندہ حضورؑ کے بارہ میں خلافِ تہذیب کوئی بات نہیں لکھے گا اور اس طرح اس نے اپنے ہی فتویٰ کو واپس لے لیا جس میں آپؑ کو کافر، دجّال اور کذّاب کہا گیا تھا۔
مولوی محمد حسین نے بٹالہ آنے والی ہر گاڑی کی آمد کے وقت ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر اُن لوگوں کو بہکانا اپنا وطیرہ بنالیا تھا جو حضور علیہ السلام کے دعویٰ کی تحقیق کے لئے قادیان جانا چاہتے تھے۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ حضورؑ کا سلسلہ تو بدستور ترقی کرتا چلا گیا جبکہ مولوی محمد حسین کی اپنی اولاد بھی اُسے چھوڑ گئی۔ چنانچہ مولوی صاحب نے اپنے رسالہ ’’اشاعۃالسنۃ‘‘ میں لکھا کہ ’’میرے لڑکوں کی سفاہت، درجہ فسق کو کامل کرکے درجہ کفر تک پہنچ گئی ہے اور تحصیل علوم دینی سے ان کے انکار اور فسق و فجور پر سالہا سال سے اُن کے اصرار کرنے سے کوئی صورت اُن کی رشد و ہدایت کی نظر نہیں آتی‘‘۔ اسی حوالہ سے مزید لکھتے ہیں کہ ’’ان سب میں سے اوّل درجہ کا متکبّر اور میری اطاعت سے سرکش نمبر اوّل عبدالسلام ہے۔ اور سب سے بڑھ کر بدچلنی اختیار کرنے والا اور مجھے جانی و مالی ایذا دینے والا نمبر چہارم و پنجم ہے۔… بعض ایسے بھی ہیں جو قانونی جرائم کے مرتکب ہوچکے ہیں اور ان کے مقدمات کی مثلیں عدالت میں موجود ہیں۔ اور بعض میری جان کو نقصان پہنچانے کا ارادہ بھی ظاہر کرچکے ہیں۔‘‘
اسی طرح اپنی لڑکیوں کے بارہ میں لکھتے ہیں ’’پانچ بلکہ سات لڑکوں کے علاوہ میری تین جوان لڑکیاں صاحب ِ اولاد ہیں۔ یہ جب تک صغیر سن رہیں، میری اطاعت میں رہیں اور جب جوان ہوئیں اور ان کی شادی ہوگئی تو تینوں بحکم اپنے شوہروں کے جو میرے مخالف ہیں، میری اطاعت سے فارغ ہوگئیں‘‘۔
حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی قسم کے بدقسمت مخالفین کی نسبت فرمایا ہے:
اے پئے تکفیر ما بستہ کمر
خانہ اَت ویراں تو در فکرے دگر
یعنی اے بدقسمت انسان جو میری تکفیر پر کمربستہ ہے۔ تیرا اپنا گھر ویران ہوگیا ہے اور تجھے دوسروں کی فکر پڑی ہوئی ہے۔
مجسٹریٹ لالہ چندولال کا انجام
لیکھرام کی ہلاکت کی پیشگوئی پوری ہوئی تو آریہ قوم نے دل سے اس نشان کی عظمت محسوس کی۔ اس لئے وہ اس کیس کو عدالت میں تو نہ لے گئے مگر اپنی اس خفّت کابدلہ لینے کے لئے جذبۂ انتقام سے بھر گئے۔ چنانچہ جب مولوی کرم دین جہلمی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ازالۂ حیثیت عرفی کا مقدمہ بنایا تو دو آریہ مجسٹریٹوں نے آپؑ کے خلاف اپنے بغض و کینہ کا ہر طرح سے اظہار کیا اور دونوں خدا کی قہری تجلّیات کا نشانہ بنے۔ ان میں سے پہلا ضلع گورداسپور کا مجسٹریٹ لالہ چندولال تھا جس کا رویّہ شروع سے ہی اس قدر متعصّبانہ تھا کہ حضورؑ کے وکلاء کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے پاس انتقالِ مقدمہ کی درخواست دینی پڑی۔ یہ درخواست ردّ ہوئی تو چیف کورٹ میں اپیل کی گئی لیکن وہاں بھی درخواست مسترد ہوگئی اور مقدمہ بدستور لالہ چندولال کے پاس ہی رہا۔ اس دوران گورداسپور کے آریوں نے لالہ چندولال سے مل کر ایک مکروہ منصوبہ تیار کیا اور حضورؑ کے متعلق اُسے کہا کہ یہ شخص لیکھرام کا قاتل ہے اور اب وہ تمہارے ہاتھ کا شکار ہے اور ساری قوم کی نظر تم پر ہے۔ لالہ چندولال نے بھی اُن سے وعدہ کرلیا کہ وہ پہلی پیشی پر ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آئے گا یعنی اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کئے گرفتار کرلے گا۔ اس ناپاک سازش کی اطلاع کسی طرح حضور علیہ السلام کے مخلص مرید حضرت محمد اسماعیل خان صاحبؓ کو بھی ہوگئی جنہوں نے حضرت مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سے یہ ذکر کردیا۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ ساری روئیداد خدمت اقدسؑ میں سنائی۔ آپؑ اُس وقت لیٹے ہوئے تھے۔ جونہی آپؑ نے اپنے بارہ میں آریوں کی طرف سے کہا گیا لفظ شکار سُنا تو آپؑ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور چہرۂ مبارک سُرخ ہوگیا۔ اور بلند آواز میں فرمایا: ’’مَیں اُس کا شکار ہوں؟ مَیں شکار نہیں ہوں۔ مَیں شیر ہوں اور شیر بھی خدا کا شیر۔ وہ خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے!‘‘۔ حضورؑ نے ’’خدا کا شیر‘‘ کے الفاظ کئی بار دہرائے۔ پھر یہ خاص کیفیت جاتی رہی تو آپؑ نے فرمایا: ’’مَیں کیا کروں؟ مَیں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ مَیں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہننے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں، مَیں تجھے ذلّت سے بچاؤں گا اور عزّت کے ساتھ بری کروں گا۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کو امکانی ذلّت سے بچانے کی یہ تدبیر فرمائی کہ اس مجلس کے کچھ دیر بعد آپؑ کو اچانک خون کی قَے ہوئی۔ اس پر مقامی ہسپتال کے سول سرجن (انگریز) ڈاکٹر ایس پی مور نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ اس عمر میں خون کی قَے آنا خطرناک ہے اور سرٹیفیکیٹ دیا کہ آپؑ ایک ماہ کے لئے کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد حضورؑ پیشی سے قبل ہی قادیان روانہ ہوگئے۔ اگلے روز مجسٹریٹ نے ڈاکٹری سرٹیفکیٹ دیکھا تو سٹپٹاکر رہ گیا اور عدالتی کارروائی مؤخر کرنے پر مجبور ہوگیا۔ بعد میں اُسی سِول سرجن نے قادیان جاکر بھی حضورؑ کا معائنہ کیا اور آپؑ کی عمومی حالت کے پیش نظر مزید چھ ہفتہ کے لئے آرام کی ہدایت کی اور اتنے عرصہ کے لئے سفر کے ناقابل ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک طرف اپنے مامور کو ہر ذلّت سے بچانے کی بشارتیں دیں تو دوسری طرف بھی اپنا جلالی ہاتھ دکھانا شروع کردیا۔ چنانچہ دورانِ مقدمہ چند غیرازجماعت معززّین نے جب آپؑ کی خدمت میں ازراہ ہمدردی کہا کہ چندولال کا ارادہ آپؑ کو قید کرنے کا معلوم ہوتا ہے تو آپ ؑ نے فرمایا ’’مَیں تو چندولال کو عدالت کی کرسی پر نہیں دیکھتا‘‘۔
اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ گورداسپور جیل میں کسی مجرم کو پھانسی لگنی تھی۔ ڈپٹی کمشنر کی طرف سے چندولال کی ڈیوٹی اس موقع پر لگائی گئی تو اُس نے عذر کیا کہ وہ اتنا رقیق القلب ہے کہ کسی مجرم کو پھانسی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس پر یہ ڈیوٹی کسی دوسرے مجسٹریٹ کے سپرد کردی گئی اور ڈپٹی کمشنر نے چندولال کے بارہ میں حکّام بالا کو رپورٹ بھجوائی کہ یہ اس قابل نہیں کہ اسے فوجداری اختیارات تفویض کئے جائیں۔ چنانچہ چندولال اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ سے معزول ہوکر عام جج بناکر ملتان بھجوادیا گیا۔ بعد میں وہ اسی صدمہ کی وجہ سے پاگل ہوگیا اور اسی حالت میں راہی ملک عدم ہوا۔
مہتہ آتمارام کا انجام
لالہ چندولال کی جگہ آنے والے آریہ مجسٹریٹ مہتہ آتمارام نے بھی آتے ہی اوچھے ہتھیار استعمال کرنے شروع کردیئے۔ پہلے اُس نے حضورؑ کو کرسی دینے سے انکار کیا بلکہ بعض اوقات شدید پیاس کے باوجود بھی آپؑ کو پانی پینے کی اجازت نہ دی۔ پھر سماعت کی تاریخیں اتنی قریب قریب دینی شروع کردیں کہ حضورؑ کو وسط اگست 1904ء سے تا اختتام مقدمہ گورداسپور میں ہی قیام کرنا پڑا۔ علاوہ ازیں اُس نے عدالت کا ایک افسوسناک مظاہرہ یوں کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے حق میں جانے والی ایک فیصلہ کُن شہادت کو طلب کرنے سے بھی انکار کردیا۔
بالآخر مہتہ آتمارام نے 8؍اکتوبر 1905ء کے دن کا آخری وقت فیصلہ سنانے کے لئے مقرر کیا۔ یہ ہفتہ کا آخری دن تھا اور اگلے روز چھٹی تھی۔ اُس کا ارادہ تھا کہ آپؑ کو جرمانہ کی سزا سنائے اور چونکہ فوری طور پر ادائیگی ممکن نہیں ہوسکے گی اس لئے عدم ادائیگی جرمانہ کی صورت میں وہ حضورؑ کو کم از کم دو راتیں اور ایک دن قید میں رکھ سکے گا۔ اسی لئے اُس نے فیصلہ سنانے والے دن پولیس کا اچھا خاصہ انتظام کررکھا تھا اور سپاہی کمرۂ عدالت کے اندر بھی متعین تھے۔ مگر اُس کی یہ ساری تدبیر اس طرح خاک میں مل گئی کہ جرمانہ کی رقم مبلغ سات صد روپے صرف ایک دن پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے احتیاطاً بھجوادیئے تھے جنہیں حضورؑ کے وکیل خواجہ کمال الدین صاحب نے اُسی وقت گن کر عدالت کی میز پر رکھ دیا۔ نوٹ دیکھ کر آتمارام کا رنگ فق ہوگیا اور وہ کھسیانوں کی طرح نوٹوں کو اُلٹنے پلٹنے لگا۔ پھر اچانک بولا کہ ان نوٹوں پر تو کراچی اور مدراس لکھا ہے اس لئے یہ قابل قبول نہیں۔ خواجہ صاحب اُس کی نیت بھانپ گئے اور کہا کہ آپ لکھ دیں کہ سات سو روپے کے کرنسی نوٹ پیش کئے گئے مگر اِس وجہ سے عدالت نے قبول نہیں کئے۔
آتمارام کو علم تھا کہ اُس کا یہ حربہ کارگر نہیں ہوسکے گا کیونکہ حکومت اپنی عملداری کی حدود میں اپنے نوٹوں کا انکار نہ کرسکتی تھی۔ چنانچہ چاروناچار اُسے وہ نوٹ قبول کرنے پڑے اور اُس کا منصوبہ خاک میں مل گیا۔
آتمارام کے فیصلہ کے خلاف امرتسر کی سیشن کورٹ میں اپیل داخل کی گئی جس پر عدالت عالیہ نے ماتحت عدالت کی طرف سے عائد کردہ تمام الزامات کالعدم کرکے جرمانہ کی تمام رقم واپس کئے جانے کا حکم صادر کیا۔ تاہم آتمارام کو اپنے کئے کی سزا مل گئی۔
جن دنوں وہ اپنا فیصلہ لکھنے والا تھا، اُن دنوں حضور علیہ السلام کو کشفاً دکھایا گیا تھا کہ اُس کی اولاد پر کوئی آفت آنے والی ہے۔ چنانچہ آپؑ نے دیکھا کہ ایک شیر آیا ہے اور وہ آتمارام کے دو لڑکے اٹھاکر لے گیا ہے۔ خدا کی قہری تقدیر یوں ظاہر ہوئی کہ اُس کے دو نوںجوان بیٹے (اُس کے فیصلہ سنائے جانے سے قبل ہی) یکے بعد دیگرے طاعون سے ہلاک ہوگئے۔ چنانچہ حضورؑ نے اس مقدمہ کے ضمن میں ایک جگہ رقم فرمایا کہ ’’ڈویژنل جج کی عدالت سے عزت کے ساتھ مَیں بری کیا گیا اور میرا جرمانہ واپس ہوا مگر آتمارام کے دو بیٹے واپس نہ آئے۔‘‘
حضورؑ نے مزید فرمایا کہ ’’افسوس کہ میرے مخالفوں کو باوجود اس قدر متواتر نامرادیوں کے میری نسبت کسی وقت محسوس نہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ درپردہ ایک ہاتھ ہے جو اُن کے ہر حملے سے اس کو بچاتا ہے۔‘‘
کئی سال بعد جب ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ دہلی تشریف لے جارہے تھے تو آپؓکو لدھیانہ ریلوے سٹیشن پر آتمارام ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دعا کریں کہ اللہ مجھے صبر کی توفیق دے، مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ مَیں ڈرتا ہوں کہ مَیں کہیں پاگل نہ ہوجاؤں۔ نیز اب میرا ایک اَور بیٹا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُسے اور مجھے دونوں کو تباہی سے بچائے۔
اس ایمان افروز مضمون کا سلسلہ آئندہ شمارہ کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں جاری رہے گا۔ انشاء
جماعت احمدیہ امریکہ کے ماہنامہ ’’النور‘‘ مارچ 2011ء میں مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک طویل نظم شامل اشاعت ہے جو اُس حدیث مبارکہ کے تناظر میں کہی گئی ہے کہ جب تم مہدی کا زمانہ پاؤ تو اُسے میرا سلام کہنا۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
پیارے امامؑ! شوقِ لقا کا سلام لو
مہدی مرے ، رسولِ خدا کا سلام لو
ہم آگئے ہیں دشت و جبل روندتے ہوئے
ہر مصلحت بہ بانگِ دُہل روندتے ہوئے
حسرت لئے ہوئے کئی نسلیں گزر گئیں
افسوس تیری دید کی چاہت میں مر گئیں
ہم خوش نصیب ہیں یہ زمانہ ہمیں ملا
قدموں کو تیرے چھُو کے خزانہ ہمیں ملا
تم نے خزانے آکے لُٹائے کئی ہزار
اتنے نشاں دکھائے کہ جن کا نہیں شمار
جَاءَ الْمسیح کی آئی صدا آسمان سے
چھُو کر زمیں کو گونج اُٹھی ہر مکان سے
اپنی گلی کے ایک گدا کا سلام لو
مہدی مرے ، رسولِ خدا کا سلام لو