اَصْحَابُ الْحِجْرِ پہاڑوں کو تراش کر گھر بنانے والی قومِ ثمود
قرآن کریم نے حضرت صالح ؑکی قوم کو دو مختلف ناموں سے پکارا ہے۔ جس میں پہلا نام قوم ثمود ہے۔ دوسرا نام اصحاب الحجر ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم فرماتا ہے:وَلَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ وَاٰتَیۡنٰہُمۡ اٰیٰتِنَا فَکَانُوۡا عَنۡہَا مُعۡرِضِیۡنَ وَکَانُوۡا یَنۡحِتُوۡنَ مِنَ الۡجِبَالِ بُیُوۡتًا اٰمِنِیۡنَ فَاَخَذَتۡہُمُ الصَّیۡحَۃُ مُصۡبِحِیۡنَ فَمَاۤ اَغۡنٰی عَنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ۔(الحجر ۸۱-۸۵)ترجمہ : اور یقیناً حجر والوں نے بھی رسولوں کا انکار کیا اور ہم نے ان کو اپنے نشانات دیئے پھر وہ ان سے اعراض کرنے والے ہو گئے اور وہ پہاڑوں کو بےخطر تراش کر گھر بناتے تھے۔ پھر ان کو زلزلے نے صبح ہوتے ہی آن پکڑا پس جو کام وہ کرتے تھے ان کے کسی کام نہیں آیا۔
سنت ایزدی کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کو رشد و ہدایت کی ذمہ داری دے کر ان کی اقوام کی طرف مبعوث کیا۔ ان میں سےایک حضرت صالح علیہ السلام بھی تھے۔جوتقریباً دو ہزار سال قبل مسیح قوم ثمود کی طرف بھیجے گئے تھے۔ قرآن کریم نے قوم ثمود کو اصحاب الحجر کے نام سے بھی موسوم کیا ہے۔ حضرت صالح ؑکی قوم عرب کے شمال مغربی حصہ میں آباد تھی جسے موجودہ وقت میں بھی مدائنِ صالح کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔
قرآن کریم کے مطابق اس قو م کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے تھے اور اپنے اس فن تعمیر پر بہت اتراتے تھے۔ حضرت صالح ؑنےان کو توحید کی طرف بلایا مگر اس قوم کی طرف سے بت پرستی پر قائم رہنے، انبیاء کا استہزا کرنے، خدا تعالیٰ کی نشانیوں کی توہین کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے زلزلہ اور سخت بجلی و گرج چمک کاعذاب نازل کیا اور یہ قوم نیست و نابود ہو گئی۔ یوں مدائن صالح والی جگہ اسی وقت سے اللہ کے غضب و قہر کی عبرتناک نشانی بن گئی۔
موجودہ خدو خال
موجودہ دور میں مدائن صالح سعودی عرب کے انتظامی خطہ مدینة میں العلی میں واقع ہے جو کہ ظہور اسلام سے قبل کا ایک انسانی معاشرہ اور تہذیب ہے۔ اس قدیم شہر کی اکثر باقیات ’’سلطنت نباتین‘‘سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ جگہ سلطنت کی جنوبی طرف اور پترہ ( عربی میں البتراء ) جو کہ دارالحکومت تھا، کے بعد سب سے بڑی ہے۔ قدیم ’لحیان‘اور قدیم ’رومی‘بادشاہت کے قبضہ جات کے آثار، نباتین سلطنت سے قبل اور بعد کے بھی ملے ہیں۔ یاقوت الحموی زیر لفظ وادی القریٰ کے متعلق درج ہے:’’عاد…عرب جنوبی و مشرقی کے جو سواحل خلیج فارس کے ساتھ ساتھ عراق تک وسیع ہے، کے مالک تھے۔ثمود اس کے مقابل عرب مغربی و شمالی پر قابض تھے جس کا نام اس زمانہ میں وادی القریٰ تھا۔وادی القریٰ اس لیے کہتے تھے کہ اس عہد میں یہ وادی چھوٹی چھوٹی آبادیوں سے جابجا آباد تھی۔ ان آبادیوں کے سنگی کھنڈر اور آثار اسلام کے جغرافیہ دانوں نے دیکھے تھے۔‘‘(ترجمہ از معجم یاقوت لفظ وادی القریٰ صفحہ٣۴۵جلد ۵دار صادر بیروت)قرآن کریم نے سورة الفجر میں وادی سے اسی وادی القریٰ کو ہی مراد لیا ہے جیسا کہ فرمایا: وَثَمُوۡدَ الَّذِیۡنَ جَابُوا الصَّخۡرَ بِالۡوَادِ(الفجر)حجر یا مدائن صالح کے بارے میں ارض القرآن میں لکھا ہے کہ ثمود کے ملک کا دارالحکومت حجر تھا یہ شہر اس قدیم راستہ پر واقع ہے جو حجاز سے مقام کو جاتا ہے اس راستہ پر ثمود کا ایک دوسرا مقام فج الناقة ہے جس کو یونانیوں نے یہ تلفظ badncithلکھا ہے لیکن اصل شہر حجر ہی تھا اب اس شہر کو عموماً مدائن صالح کہتے ہیں۔ (تاریخ ارض القرآن جلد اول صفحہ۱۸۸ از سید سلیمان ندوی)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :’’حجر سے مراد وہ احاطہ یا قلعہ یا شہر ہوتا ہے جس کے گرد پتھروں کی دیوار ہو۔اصحاب الحجر سے مراد ثمود و قوم صالح کا شہر ہے۔ اسے حجر اس لیے کہتے ہیں کہ مضبوط فصیلوں کا شہر تھا۔اورجیسا کہ اگلی آیات سے ظاہر ہے پتھروں سے اس کی تعمیر میں بہت کام لیا گیا تھا۔‘‘(تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ ١٠٣)
سورۂ ھود کی تفسیر میں قوم ثمود کی تاریخ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’ثمود کا ذکر یونانی تاریخوں میں بھی آتا ہے۔ اور ان میں مسیحؑ کے زمانہ کے قریب ان کا ذکر ہے۔ اور انہوں نے ثمود کا مقام حجر بتایا ہے۔ جسے وہ اپنے رسم الخط میں اگرا کرکے لکھتے ہیں۔ اور ثمود کا نام ان کے جغرافیوں میں ثمودینی (THAMUDENI) آتا ہے۔ اور حجر کے پاس وہ ایک جگہ کا ذکر کرتے ہیں جسے عرب ان کے بیان کے مطابق فَجُّ النَّاقَہْ کہتے تھے۔بطیلموس جو ١۴٠ سال قبل مسیح ہوا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ حجر کے پاس ایک جگہ ہے جس کا نام (BADANTA) ہے۔ فتوح الشام کا مصنف ابواسماعیل لکھتا ہے ان ثمود املأٴُ الارض بین بصرٰی وعدن فلعلّھا کانت فی طریق ھجرتہا نحوالشمالکہ ثمود قوم بصریٰ (جو شام کا ایک شہر ہے) سے لے کر عدن تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور وہیں ان کی حکومت تھی۔ شاید کہ وہ اس وقت جنوب سے شمال کی طرف ہجرت کررہے تھے۔ یعنی حمیر اور سباء کی طاقت کے زمانہ میں جب ان کو ہجرت کرنی پڑی تو اس وقت ایسا ہوا۔ ان دونوں قبیلوں کی حکومت نے یمن میں طاقت پکڑی تھی اور ثمود کی حکومت احقاف کے جنوب میں تھی۔ انہوں نے جب ان کو نکالا تو یہ اوپر کی طرف نکلنے شروع ہوئے۔ پہلے حجاز پھر تہامہ اور پھر حجر میں چلے گئے۔ تمدنِ عرب والا کہتا ہے۔ کہ ولایخرج الحکم فی ذلک من التخمین یعنی یہ قیاسی بات ہے۔
درحقیقت عربوں کا خیال ہے کہ ثمود بھی عاد کی ایک شاخ ہے۔ اور انہی کی طرح یہ یمن میں رہتی تھی۔ جب حمیر کی حکومت ہوئی تو انہوں نے ان کو حجاز کی طرف نکال دیا۔ لیکن اس کی تصدیق اب تک کسی دلیل سے نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس قوم کے آثار اب تک جنوب میں نہیں ملے۔ حجر کو پرانے زمانہ سے مدائن صالح بھی کہتے ہیں۔ اور اس کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے زمانہ سے پہلے یہ نبطیوں کے ماتحت آچکا تھا۔ جنہیں انبات بھی کہتے ہیں۔ یہ لوگ بطرا کے رہنے والے تھے۔ جسے یونانی لوگ پیٹرا کہتے ہیں۔ چنانچہ اس جگہ کئی کتبے نبطی زبان کے ملے ہیں لیکن ان نبطی کتبوں کے ساتھ ساتھ بعض کتبے یمنی زبان میں بھی ملے ہیں۔ ان کتبوں کو مستشرقین کا گروہ ثمود یہ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ یعنی ثمود قوم کے کتبے۔ اس تحقیق سے عرب جغرافیہ نویسوں کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے۔ کہ ثمود قوم جنوب سے ہجرت کرکے شمال کی طرف آئی تھی۔ کیونکہ اگر وہ جنوب سے نہ آتی تو ان کی زبان یمنی زبان سے ملتی جلتی نہ ہوتی۔
حجر جو اس قوم کا دارالحکومت معلوم ہوتا ہے مدینہ منورہ اور تبوک کے درمیان میں ہے اور اس وادی کو جس میں حجر واقع ہے۔ وادی قریٰ کہتے ہیں۔ اس علاقہ میں اس قوم کا زور تھا‘‘۔(تفسیر کبیر جلد سوم، صفحہ ٢١۹،٢١۸)
قوم ثمود کا وقت
ثمود کے وقت کے تعین میں مؤرخین کی مختلف آرا ہیں۔ بعض جدید مؤرخین قوم ثمود کو ساتویں یا آٹھویں صدی قبل مسیح کی قوم خیال کرتے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم نے اس بات سے اختلاف کیا ہے اور قوم ثمود کا وقت حضرت موسیٰؑ سےقبل اور قوم عاد کے معاًبعد کا بیان کیا ہے۔حضرت موسیٰ ؑکا زمانہ تقریباً چودہ سو سال قبل مسیح کا ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ثمود کا زمانہ کم و بیش دو ہزار قبل مسیح کے لگ بھگ ہو گا۔ جن آثار کوبنیاد بنا کر جدید محققین ثمود کا وقت ساتویں یا آٹھویں قبل مسیح بیان کرتے ہیں غالباً یہ آثار ان اقوام یا قبائل کے ہیں جو ثمود کے بعد اس جگہ پر آباد ہوئے۔حضرت مصلح موعودؓ اس ضمن میں بیان فرماتے ہیں:قرآن کریم میں اس قوم کا زمانہ عاد کے معاً بعد بتایا ہے۔ کیونکہ فرماتا ہے۔وَاذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ(اعراف :۷۵)یاد کرو جب خدا نے تم کو عاد کا جانشین بنایا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ کی تائید میں جو ایک مومن آدمی فرعون کی مجلس میں بولا تھا اس کی زبان سے قول نقل کیا ہے۔ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ مِّثۡلَ یَوۡمِ الۡاَحۡزَابِ۔ مِثۡلَ دَاۡبِ قَوۡمِ نُوۡحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوۡدَ۔(مومن:۳۱۔۳۲) اے قوم میں تمہارے متعلق اس گھڑی سے ڈرتا ہوں جو پہلے انبیاء کے دشمنوں کو پیش آئی۔ یعنی اس حالت سے جو نوح کی قوم اور عاد اور ثمود کو پیش آئی۔ اس سے پتہ لگا کہ یہ قوم موسیٰؑ سے پہلے تھی۔ کیونکہ موسیٰ کے زمانہ میں ان کی تباہی کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے۔…ثمود کو بعض لوگ عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ عاد ثانیہ پہلے تباہ ہو گئے تھے۔ بعد میں ثمود آئے۔ گویا عاد اولیٰ حضرت ہودؑ کے زمانہ میں ہلاک ہوئے۔ اور ان کے بعد عاد ثانیہ ہوئے اور ثمود یا تو انہی کا نام تھا یا ان کی تباہی کے بعد انہی میں سے نکلی ہوئی ایک قوم کا نام تھا۔ جس نے ان کے بعد ترقی کی۔( تفسیر کبیر جلد سوم، صفحہ ٢١۸،٢١٩)
حضرت صالحؑ ایک عربی نبی تھے
بعض مؤرخین نے ثمود کو غیر عرب قوم قرار دیا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ حضرت صالحؑ کے نام سے استنباط کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ عرب نبی اور عرب قوم تھی۔ آپ فرماتے ہیں:’’ثمود قوم کے نبی حضرت صالحؓ تھے۔ صالح عربی زبان کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح عرب کے ہی ایک نبی تھے۔ قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ عاد کے بعد ہوئے ہیں۔ چنانچہ فرماتاہے وَاذۡکُرُوۡۤا اِذۡ جَعَلَکُمۡ خُلَفَآءَ مِنۡۢ بَعۡدِ عَادٍ(الاعراف)‘‘(تفسیر کبیر جلد ہشتم، صفحہ۵۴٣)
ثمود کی وجہ تسمیہ
ثمود کے نام کی بہت سی توجیحات مورخین اور مفسرین نے بیان کی ہیں۔ بحر المحیط کا مصنف تصنیف کرتا ہے:’’ثمود ایک قبیلے کا نام ہے جو اپنے مورث اعلیٰ کے نام سے موسوم ہے اور وہ ثمود تھا جو جدیس کا بھائی تھا اور ان کے مساکن حجاز اور شام کے مابین الحجر سے لےکر وادی القریٰ تک تھے اور یہ بھی کہا گیا ہے ثمود کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ثمد تھوڑے پانی کو کہتے ہیں اور ثمود کے مقام پر پانی بہت کم تھا۔‘‘(البحر المحیط جلد ۴صفحہ ۳۴زیر آیت وَاِلیٰ ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صَالِحًا)
قوم ثمود کی خصوصیات
قوم ثمود کی خصوصیت جس کا قرآن کریم میں متعدد بار ذکر آیا ہے وہ آرکیٹکٹ اور فن تعمیر میں مہارت ہے۔ یہ قوم اپنے اس فن پر بہت ناز کرتی تھی۔ یہ فن ان کے لیے باعث تکبر بھی بن گیا کہ ہم اس قد ر اعلیٰ تعمیرات کرتے ہیں اور ہمارا ہم پلہ کوئی نہیں۔پس ہمیں حضرت صالح ؑکی باتوں کی پیروی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جب خدا تعالیٰ کا عذاب ان پر آیا تو کوئی دنیاوی عمارت اور مضبوط پناہ گاہ بھی ان کو عذاب سے نہ بچا سکی۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قوم ثمود کے مقام پر کھانے سے منع کرنے کا حکم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ تبوک پر جا رہے تھے اور ہزاروں صحابہؓ آپ کے ساتھ تھے۔ چلتے چلتے راستہ میں حجر شہر آیا اور وہاں تھوڑی دیر کے لیے آپ نے پڑائو کیا۔ صحابہؓ نے دیکھا تو انہوں نے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر کھانا پکانے لگ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا تھا اس لیے یہاں کا پانی کوئی نہ پیے اور نہ کسی اَور مصرف میں لائے۔اس ضمن میں بخاری کی روایت ہے:عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِی عَزْوَةِ تُبُوْکَ اَمَرَھُمْ اَنْ لَایَشْرَبُوْا مِنْ بِئْرِھَا وَلَا یَسْتَقُوْا مِنْھَا فَقَالُوْا قَدْ عَجِنَّا مِنْھَا وَاسْتَقَیْنَا فَاَمَرَھُمْ اَنْ یَّطْرَحُوْا ذٰلِکَ الْعَجِیْنَ وَیُھْرِیْقُوْا ذٰلِکَ الْمَاءَ (بخاری کتاب الانبیاء) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک کو جاتے ہوئے حجر مقام پر اُترے تو آپ نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ نہ تو وہاں کے کنوؤں کا پانی خود پیئیں اور نہ پینے کے لیے ساتھ لیں۔ تو لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے تو اس پانی سے آٹے گوندھ لیے ہیں اور پانی بھی لے لیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گوندھے ہوئے آٹے کو پھینکوانے اور جمع شدہ پانی کو گرانے کا حکم دے دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی عذا ب الٰہی کا ذکر ہوتو استغفار کرنا چاہیے اور ان تمام جگہوں سے بھی اجتناب کرنا چاہیے جہاں پر خدا کا عذاب ناز ل ہوا ہو۔
حضرت صالح ؑکی اونٹنی کا نشان کیا تھا؟
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’صالح ؑکی اونٹنی مدت سے انسانی قوت متخیلہ کے لیے ایک کھیل بن رہی ہے۔ مفسرین نے ہر قسم کی روایات اس کے متعلق جمع کر دی ہیں۔ جن میں یہاں تک بیان ہوا ہے کہ حضرت صالح ؑ نے کفار کے مطالبہ پر دعا کر کے پہاڑ کے پیٹ سے ایک اونٹنی پیدا کی تھی۔اور جب وہ پیدا ہوئی اس وقت وہ حاملہ بھی تھی اور پھر فوراً اس کے بچہ بھی پیدا ہو گیا اور اسی قسم کی بے سرو پا روایات جو عربوں میں مشہور تھیں…۔ حقیقت یہ ہے کہ اونٹنی کی پیدائش کے معجزانہ ہونے کا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں ہے…اونٹنی کی پیدائش نشان کے طور پر نہیں ہوئی تھی بلکہ اس کی آزادی کو ایک نشان قرار دیا گیاتھا اور اسے مارنے والے کے لیے عذاب مقرر تھا۔…
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ اونٹنی نشان کس طرح تھی۔ اس کا ایک جو اب تو وہ ہے۔ جو استاذی المکرم حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ دیا کرتے تھے کہ عرب اور دوسرے ممالک میں دستور تھا کہ بادشاہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے کوئی جانور چھوڑ دیاکرتے تھے اور اعلان کر دیا کرتے تھے کہ اسے کوئی کچھ نہ کہے۔اگر کوئی کچھ کہتا تو وہ اسے تباہ کر دیتے تھے۔ اس طریق کی نقل میں حضرت صالحؑ نے اپنی اونٹنی کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نشان مقرر کیا کہ تمہاری دیرینہ رسم کے مطابق اس اونٹنی کو بھی نشان مقرر کیا جاتا ہے۔ اگر تم اسےدکھ دو گے تو وہ الٰہی گورنمنٹ کا مقابلہ سمجھا جائیگا اور تم عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے۔‘‘
اس سے یہ مراد نہیں تھا کہ وہ کسی کے کھیت سے بھی کھائے بلکہ قرآن کے الفاظ ہے تَاۡکُلۡ فِیۡۤ اَرۡضِ اللّٰہِکہ وہ زمینیں جن کا اللہ کے سوا کوئی مالک نہیں ہے۔
پھر حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت صالحؑ کی اونٹی کی مثال کے مزید دو مختلف معانی بیان فرمائے۔آپؓ نے فرمایا:’’میرے نزدیک اس نشان کا یہ مفہوم بھی ہو سکتا ہے کہ کسی دیرینہ رسم کی طرف اشارہ نہ ہو۔ بلکہ حضرت صالحؑ کا یہ مطلب ہو کہ تبلیغ کے لیے مجھے ادھر ادھر پھرنے دو۔ اور اس میں روک نہ ڈالو اور یا ’’خدا کی زمین میں چرنے دو‘‘کے یہ معنی ہوں کہ ضروریات دینی کے پورا کرنے کے لیے جو میں مختلف علاقوں میں پھروں تو اس میں روک نہ ڈالواور یہ مجاز مختلف زبانوں میں استعمال ہوتا ہے اور مراد سوار کا روکنا ہوتا ہے۔حالانکہ رو کا سواری کو جاتا ہے…۔اسی طرح معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ حضرت صالح ؑکے تبلیغی سفروں میں روک ڈالتے ہوں گے اور ادھرادھر پھرنے نہیں دیتے ہونگے۔ اس پر خدا تعالیٰ نے ان کو منع کیا۔ (تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ ۲۱۴۔۲۱۵)
’’ایک تیسرے معانی بھی میرے نزدیک اس آیت کے ہو سکتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ حضرت صالح نے تجربہ سے جب معلوم کیا کہ ان کا دوسرے لوگوں سے ملنا جلنا فساد کا موجب ہوتا ہے اور عوام الناس سے ملنے کا زیادہ موقع چشموں اور جا نور چرانے کی وادیوں میں ہی ہو تاہے۔اس لیے انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم سے فساد دور کرنے کے لیے ایسا انتظام کیا کہ جو عام چراگاہ تھی۔ اس سےاپنے جانوروں کو روک دیا اور کوئی دوسری افتاده زمین جو ان کی قوم کی ملکیت نہ تھی۔ اس امر کے لیے منتخب کرلی۔اسی طرح اونٹنی کو پانی پلانے کے لیے بھی انہوں نے عام وقت جو پانی پلانے کا تھا اسے چھوڑ دیا اور دو سرا وقت جس وقت لوگ پانی نہیں پلاتے تھے مقرر کر لیا۔ اور پھر اعلان کر دیا کہ فساد سے بچنے کے لیے ہم نے ہر ممکن تدبیراختیار کر لی ہے۔ اور اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی ایسی جگہوں اور وقتوں کو چھوڑ دیا ہے۔ جن میں تم لوگوں سے مل کر فساد کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر اب بھی آپ لوگوں نے فساد کیا۔ تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آپ لوگ ہماری زندگی کو ہی پسند نہیں کرتےاور اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا عذاب آپ پر نازل ہوگا۔ ان معنوں کی تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ پرانی تاریخوں سے ایک وادی کا پتہ لگتا ہے جس کا نام فجُّ الناقة تھا اور حضرت مسیح سے ڈیڑھ سو سال قبل کے ایک جغرافیہ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ پرانے یونانی مورخ اسے بیڈاناٹا لکھتے تھے جو فجُّ الناقہکا ہی بگڑا ہوا ہے۔اس قدیم وادی سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت صالحؑ نے اپنی قوم سے الگ ایک وادی اپنی اونٹنی کے چرانے کے لیے مقرر کر لی تھی تا کہ ان کا جانور دوسرے جانوروں اورچرواہا دوسرے چرواہوں سے نہ ملیں اور آپس میں فساد کی صورت پیدا نہ ہو۔ لیکن آپ کے مخالفوں کواسپربھی صبر نہ آیا اور انہوں نے وہاں جاکر بھی آپ کی اونٹنی کو مار ڈالا۔ اور اللہ تعالیٰ کے اعلان کی بے حرمتی کر کے عذاب میں گرفتار ہوئے۔(تفسیر کبیر جلد۳ صفحہ ۲۱۶)
عالمی ثقافتی ورثہ
موجودہ سعودی عرب کی حکومت اس شہرکو اس کی اس تاریخی حیثیت سے ہٹ کر اسے سیاحت و تفریح کی کشش کے لیے مدائن صالح کے طور سے فروغ دے رہی ہے اور اس کو قومی تہذیبی تشخص کی حیثیت سے محفوظ کیا گیا ہے۔ قدیم مٹی ہوئی تہذیب، سلطنت نباتین کے انتہائی محفوظ حالت میں موجود خاص کر پتھروں کے تراشیدہ گھر اور ان کے بیرونی داخلی دروازوں کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے سعودی عرب کا پہلا عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔