قرآن کریم کے فیوض و برکات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۳؍فروری۲۰۲۳ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام قرآن کریم کے فیوض بیان فرماتے ہوئےایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’اس کے فیوض و برکات کا در ہمیشہ جاری ہے۔ اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا۔‘‘(ملفوظات جلد3 صفحہ 57 ایڈیشن 1984ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں :’’یہ سچ ہے کہ اکثر مسلمانوں نے قرآن شریف کو چھوڑ دیا ہے لیکن پھر بھی قرآن شریف کے انوار و برکات اور اس کی تاثیرات ہمیشہ زندہ اور تازہ بتازہ ہیں۔ چنانچہ مَیں اس وقت اسی ثبوت کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے اپنے وقت پر اپنے بندوں کو اس کی حمایت اور تائید کے لئے بھیجتا رہا ہے۔ کیونکہ اس نے وعدہ فرمایا تھا اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ (الحجر:10) یعنی بیشک ہم نے ہی اس ذکر (قرآن شریف) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔‘‘(ملفوظات جلد8 صفحہ116-117 ایڈیشن 1984ء)
پس اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو قرآن کریم کی اشاعت کے لیے بھیجا ہے، قرآن کریم کی حفاظت کے لیے بھیجا ہے۔ آپؑ کو وہ معارف سکھائے ہیں جو لوگوں سے پوشیدہ تھے۔ آپؑ کے ذریعے قرآن کریم کے فیض کا ایک چشمہ جاری فرمایا ہے۔ آپؑ تو آئے ہی قرآن کریم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے نام نہاد علماء نے آپؑ کے دعوے کی ابتدا سے ہی آپؑ کی مخالفت اپنا مقصد بنایا ہوا ہے اور کوئی دلیل اور عقل کی بات سننا نہیں چاہتے اور عوام الناس کو بھی گمراہ کررہے ہیں ۔ خود تو علم و معرفت سے نابلد ہیں لیکن جس کو خدا تعالیٰ نے اس کام کے لیے بھیجا ہے اس کے راستے میں روکیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اسے یہ لوگ قرآن کریم کی خدمت سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں وقتاً فوقتاً ان علماء کو ابال اٹھتا رہتا ہے اور ان کے ساتھ پھر بعض سستی شہرت حاصل کرنے والے سیاستدان اور سرکاری اہلکار بھی مل جاتے ہیں اور احمدیوں کو مختلف بہانوں سے ظلموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصےسے پھر یہ لوگ احمدیوں پر تحریف اور توہینِ قرآن کےمن گھڑت مقدمے بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے شر سے بچائے اور جو احمدی اس غلط اور ظالمانہ الزام میں انہوں نے پکڑے ہوئے ہیں ان کی جلد رہائی کے بھی اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمائے۔
بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی تعلیم کی روشنی ہی ہے جس سے قرآن کریم کے علوم و معارف کا پتہ چلتا ہے اور جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس کام کو دنیا میں سرانجام دے رہی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے ہمیں قرآن کریم کی عظمت و اہمیت، مقام و مرتبہ کے متعلق اپنے ارشادات اور تصنیفات میں جو عرفان بیان فرمایا ہے اور عطا فرمایا ہے وہ میں آج بیان کروں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ایک جگہ قرآن کریم کی تعلیم کامل اور مکمل ہونے کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’میرا مذہب یہی ہے کہ قرآن اپنی تعلیم میں کامل ہے اور کوئی صداقت اس سے باہر نہیں کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ فرماتا ہے۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ (النحل: 90) یعنی ہم نے تیرے پر وہ کتاب اتاری ہے جس میں ہر ایک چیز کا بیان ہے اور پھر فرماتا ہے مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ (الانعام: 39) یعنی ہم نے اس کتاب سے کوئی چیز باہر نہیں رکھی لیکن ساتھ اس کے‘‘ فرماتے ہیں کہ ساتھ اس کے ’’یہ بھی میرا اعتقاد ہے کہ قرآن کریم سے تمام مسائل دینیہ کا استخراج و استنباط کرنا اور اس کی مجملات کی تفاصیل صحیحہ پر حسب منشاء الٰہی قادر ہونا ہر ایک مجتہد اور مولوی کا کام نہیں۔‘‘ ہر ایک کو اس کا ملکہ نہیں دیا گیا کہ اس کی تفصیل اور تفسیر بیان کرے اور گہرائی میں جا کر اس کے علم و عرفان کے موتیوں کو نکال کے لائے۔ فرمایا ’’بلکہ یہ خاص طور پر ان کا کام ہے جو وحی الٰہی سے بطور نبوت یا بطور ولایت عظمیٰ مدد دیئے گئے ہوں۔ سو ایسے لوگوں کے لئے جو استخراج و استنباط معارف قرآنی پر بَعِلَّت غَیر مُلْہَم ہونے کے قادر نہیں ہوسکتے یہی سیدھی راہ ہے کہ وہ بغیر قصد استخراج و استنباط قرآن کے ان تمام تعلیمات کو جو سنن متوارثہ متعاملہ کے ذریعہ سے ملی ہیں بلاتامل و توقف قبول کر لیں ۔‘‘
جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے صلاحیت ہی نہیں دی ،علم ہی نہیں دیا ،عرفان ہی نہیں دیا، ان کا یہ کام ہے کہ جو پرانے سابقہ مفسرین ہیں ، ہمارے پرانے امام ہیں ،بزرگ ہیں ،جو تقویٰ پر چلنے والے لوگ تھے ، جنہوں نے تفاسیر لکھی ہیں، ان کو سامنے رکھیں، ان پہ عمل کریں ۔اور قرآن کریم کا ظاہری علم جتنا ہے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں ،بجائے اس کے کہ اپنے طور پہ غلط قسم کے نکتے نکالتے رہیں ۔
فرمایا:’’اور جو لوگ وحی ولایت عظمیٰ کی روشنی سے منور ہیں اور اِلَّاالْمُطَہَّرُوْن کے گروہ میں داخل ہیں ان سے بلاشبہ عادت اللہ یہی ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً دقائق مخفیہ قرآن کے ان پر کھولتا رہتا ہے۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے خاص بندے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر قرآن کریم کے گہرے علم کھولتا رہتا ہے۔ ’’اور یہ بات ان پر ثابت کردیتا ہے کہ کوئی زائد تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہرگز نہیں دی۔بعض لوگ کہتے ہیں حدیث جو ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جب قرآن کریم کا علم اور عرفان عطا فرماتا ہے تو اس سے پتا لگتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم سے باہر کوئی بات نہیں کی۔ فرمایا: ’’بلکہ احادیث صحیحہ میں مجملات و اشارات قرآن کریم کی تفصیل ہے سو اس معرفت کے پانے سے اعجاز قرآن کریم ان پر کھل جاتا ہے۔‘‘حدیثیں ہیں ان میں بعض اشارے ایسے ملتے ہیں جس سے بعض آیتوں کی تفسیر ملتی ہے،تفصیل ملتی ہے اور قرآن کریم کا مضمون ان پر مزید کھلتا ہے۔ فرمایا:’’اور نیز ان آیاتِ بیّنات کی سچائی ان پر روشن ہوجاتی ہے جو اللہ جلّ شانہ ٗفرماتا ہے جو قرآن کریم سے کوئی چیز باہر نہیں۔‘‘(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد 4صفحہ 80-81)اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰةوالسلام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علم و معرفت کو عطا فرمانے کے لیے بھیجا ہے۔