خدا تعالیٰ کی صفت حسیب
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍فروری۲۰۱۰ء)
ایک لفظ حَسِیْب ہے جس کے معنی لغات میں لکھے ہوئے ہیں، کہ حساب کرنے والا یا حساب لینے والا۔ کافی اور حساب کے مطابق بدلہ لینے والا۔ یہ تمام خصوصیات کامل طور پر تو دنیا کے کسی انسان میں نہیں پائی جاسکتیں۔ اگر ان باتوں میں کوئی کامل ذات ہو سکتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت اَلْحَسِیْب ہے۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جس میں یہ بیان کردہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ اور وہی ہے جو ہماری مختلف حالتوں کے پیشِ نظر اپنی اس صفت کا حسبِ ضرورت اظہار فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں کئی آیات میں اس صفت کا اظہار فرمایا ہے۔ اس وقت مَیں چند آیات پیش کروں گا جن میں اللہ تعالیٰ کے اَلْحَسِیْب ہونے کی صفت کا اظہار مختلف احکامات کے ساتھ یا تنبیہ کرتے ہوئے ہوا ہے۔
سب سے پہلے سورة نساء کی آیت نمبر۸۷ پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَ اِذَا حُیِّیۡتُمۡ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوۡا بِاَحۡسَنَ مِنۡہَاۤ اَوۡ رُدُّوۡہَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ حَسِیۡبًا (النساء: 87) اور اگرتمہیں کوئی خیر سگالی کا تحفہ پیش کیا جائے تو اس سے بہتر پیش کیا کرو یا وہی لوٹا دو۔ یقیناً اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔
اس آیت میں اسلامی احکامات کا ایک ایسا بنیادی حکم دیا گیا ہے جو نہ صرف اپنوں سے اچھے تعلقات کی ضمانت ہے بلکہ غیروں کے ساتھ تعلقات کے لئے اور ان تعلقات میں وسعت پیدا کرنے کے لئے ایک بےمثال نسخہ ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے لئے نیک جذبات کے اظہار کی نہ صرف تلقین فرمائی بلکہ فرمایا کہ اگر ملنے پر ایک شخص تمہارے لئے نیک جذبات کا اظہار کرے۔ تمہیں سلام کہے۔ ایک ایسی دعا تمہیں دے جو تمہاری دین و دنیا سنوارنے والی ہو تو تمہارا بھی فرض ہے کہ اس سے بڑھ کر اظہار کرو اور فرمایا کہ یہ تمہارا ایک ایسا اخلاقی اور معاشرتی فرض ہے کہ اگر اس کو انجام نہیں دو گے تو خدا تعالیٰ کے سامنے تمہیں اس کا جواب دینا ہو گا۔ یہ خوبی صرف اسلام میں ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے کے وقت ایسے بامقصد الفاظ کے ساتھ جذبات کا اظہار ہے اور ایک دوسرے سے ملنے پر السلام علیکم کہنے کا حکم ہے کہ تم پر سلامتی ہو۔ یعنی تم ہر قسم کی پریشانیوں اور مشکلات سے محفوظ رہو۔ اب یہ دعا ایسی ہے کہ اگر دل کی گہرائی سے دوسرے کو دی جائے تو پیار، محبت اور بھائی چارے کے جذبات ابھرتے ہیں۔ تمام قسم کی نفرتیں دُور ہوتی ہیں۔ اسی طرح جسے سلام کیا جائے اسے حکم ہے کہ تم ان سلامتی کے الفاظ کا ان جذبات کا بہتر رنگ میں جواب دو اور بہتر شکل کیا ہے۔ … وعلیکم السلام جب انسان کہتا ہے تو اس کے لئے ورحمة اللہ وبرکاتہ بھی کہے کہ تم پر اللہ کی رحمتیں بھی ہوں اور برکتیں بھی ہوں۔ یا فرمایا کہ کم از کم اتنا ہی اظہار کر دو جتنا تمہیں سلام میں پہل کرنے والے نے کیا ہے تو یہ عمل تمہیں جزا پہنچائے گا۔ پس یہ ایک ایسا اصول ہے جو معاشرے میں امن پیدا کرتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے بڑے زور سے اور بڑی شدت سے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ سلام کو رواج دو۔ (صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب افشاء السلام حدیث نمبر 6235)
اور صحابہ اس بارہ میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کیاکرتے تھے۔ آنحضرتﷺ کو اس بارہ میں اتنا خیال رہتا تھا اور کس طرح آپ سلام کے رواج کے لئے صحابہؓ کی تربیت فرماتے تھے، اس کا اظہار بعض احادیث سے ہوتا ہے۔
حضرت کَلَدَةؓ بن حنبل بیان کرتے ہیں کہ مجھے صفوانؓ بن امیہ نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں دودھ، ہرن کے بچے کا گوشت اور ککڑیاں دے کر بھیجا کہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں یہ تحفہ دے دو۔ مَیں حضورﷺ کے پاس بلااجازت اور بغیر سلام کہے چلا گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پہلے باہر جاوٴ۔ پھر السلام علیکم کہہ کر اندر آنے کی اجازت مانگوتو پھر تم اندر آ سکتے ہو۔(سنن ابی داوٴد کتاب الادب باب کیف الاستئذان حدیث 5176)
آپﷺ نے یہ نہیں سوچا کہ چھوٹا ہے اگر اندر آ گیا توکوئی حرج نہیں۔ بلکہ فوری تربیت فرمائی کہ اعلیٰ اخلاق ابتدا سے ہی بچوں کے ذہنوں میں پیدا کرنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بلا اجازت کسی کے گھر میں نہیں جانا۔ ہمیشہ اجازت لے کر جانا چاہئے۔ دوسرے اجازت کا بہترین طریق جو ہے وہ سلام کرنا ہے۔ ایسے طریق سے اجازت چاہو جس سے محبت کی فضا پیدا ہو۔ جس سے ایک دوسرے کے لئے تمہارے دل سے دعائیں نکلیں اور تمہیں بھی دعائیں ملیں اور یہ آپس میں دعاوٴں کا سلسلہ چلے۔ جب ایک سلام کرنے والا دوسرے کو سلام کرتا ہے تو دوسرے شخص کی طرف سے بھی وہی سلام لوٹایا جاتا ہے۔ تو یہ دعاوٴں کا سلسلہ ہے۔
پھر آپ نے صحابہؓ کی مجبوری کے پیشِ نظر جب صحابہ کو بازار میں بیٹھنے کی اجازت دی تو راستے کے جو حقوق ہیں ان میں اس حق کے حکم کی بھی خاص طور پر تلقین فرمائی کہ پھر آنے جانے والوں کو سلام کرو۔ (صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب قول اللّٰہ تعالیٰ یا ایھا الذین اٰمنوا لا تدخلوا بیوتا … حدیث نمبر 6229)
اس پر کیوں اتنا زور ہے؟ اس لئے کہ مومن ایک دوسرے کے امن کی ضمانت ہے۔ اگر مسلمان غور کریں تو اسلام کی امن قائم کرنے والی تعلیمات میں سے یہی ایک حکم ہی امن، پیار اور محبت کی ضمانت بن جاتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اللہ تعالیٰ کے حکموں کو بھول کر مسلمان ہی مسلمانوں کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ صحابہؓ اس کا کس طرح خیال رکھا کرتے تھے۔ ایک دن ایک صحابی دوسرے صحابی کے پاس آئے اور کہا آوٴ بازار چلیں۔ بازار گئے اور چکر کاٹ کر لوگوں کو مل کر واپس آ گئے۔ کچھ خریدا نہیں۔ چند دنوں بعد پھر پہلے والے صحابی دوسرے صحابی کے پاس آئے کہ چلو بازار چلیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تو کچھ خریدنا ہے تو پھر تو جاوٴ اور اگر پچھلی دفعہ کی طرح تم نے چکر کاٹ کرہی واپس آنا ہے تو اس کا فائدہ کیا؟ تو پہلے صحابی نے جواب دیا کہ مَیں تو اس لئے جاتا ہوں کہ بازاروں میں دوسروں کو سلام کروں ان کو دعائیں دوں اور ان سے دعائیں لوں۔ اور سلام کو رواج دینے اور پھیلانے کے حکم پر عمل کروں۔ (الموٴطا۔ کتاب السلام باب جامع السلام حدیث 1793)
تو یہ تھا صحابہ کا حال کہ چھوٹے چھوٹے حکموں پرایک فکر سے عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ احمدیوں کو خاص طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے اور بڑھ کر جواب دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور یہی چیز ہے جو ہمارے اندر بھی ہمارے معاشرے میں بھی امن اور پیار کی فضا پیدا کرے گی۔ ایک دوسرے کے جذبات کی طرف توجہ دلائے گی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمہارے خیر سگالی کے جذبات اور امن کا پیغام پہنچانے کے اس عمل کی جزا دے گا۔ یہ ایسی چیز ہے جس کی تمہیں جزا ملے گی۔ اگر محبت سے بڑھے ہوئے ہاتھ کو پکڑو گے، اگر دعاوٴں کا جواب دعاوٴں سے دو گے تو جزا پاوٴ گے۔ اگر اس کو ردّ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اس کا حساب لوں گا۔