الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا تعلق باللہ

سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کے تعلق باللہ کے بارے میں مکرمہ ریحانہ گل صاحبہ کا ایک مختصر مضمون لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱کی زینت ہے جس میں وہ اپنی ممانی محترمہ معراج سلطانہ صاحبہ کی یادوں کے حوالے سے ایک خوبصورت روایت بیان کرتی ہیں جو ایک اعجازی نشان بھی ہے۔

مکرمہ معراج سلطانہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ میری ساس محترمہ غلام فاطمہ صاحبہ چونکہ آپا عزیزہ صاحبہ حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کے بالکل ساتھ والے گھر میں رہتی تھیں اس لیے جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی باری اُن کے ہاں ہوتی تو میری ساس صاحبہ بھی خدمت کے لیے وہاں چلی جاتیں۔ ایک دفعہ وہ مجھے بھی ساتھ لے گئیں۔ جب کھانا کھانے کا وقت ہوا تو آپا عزیزہ صاحبہ نے کہا کہ ’’جاؤ حضورؓ کے ہاتھ دھلواؤ۔‘‘چنانچہ مَیں نے یہ سعادت حاصل کی۔ پھرزمین پردستر خوان بچھایا گیا۔ کھانا کھانے بیٹھے تو آپا عزیزہ صاحبہ نے کہا: ’’تم بھی آجاؤ۔‘‘ اس طرح مجھے بھی اسی دستر خوان پر بیٹھنے کی سعادت حاصل ہو ئی۔ آپا عزیزہ صاحبہ نے مجھے اشارہ کیا کہ دعا کے لیے کہہ لو لیکن مَیںشرم سے خامو ش بیٹھی رہی۔حضورؓ نے دیکھ لیا اور دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے کیا اشارے ہورہے ہیں؟ حضرت آپا جان نے کہاکہ حضور! یہ دعا کے لیے کہہ رہی ہے ۔حضورؓ نے مجھے مخاطب کرکے پوچھا کہ کیا دعا کروانی ہے؟ مَیں نے جلدی سے گھبرا کر کہا کہ حضور! نیک بنوں اور دین کی خدمت کروں۔ آپا جان نے کہاکہ حضوراولاد کی دعا کے لیے بھی کہہ رہی ہے۔حضورؓ نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ شادی کو کتنی دیر ہوئی ہے؟ مَیں نے کہا : حضور! چار ماہ۔ آپؓ نے تبسّم فرمایا اورفرمایا: لوگوںکے تو بارہ بارہ، چودہ چودہ سال گذر جاتے ہیں اور تم صرف چارماہ میں گھبرا گئی ہو۔اس کے بعد بہت عرصہ گذر گیا۔ حضورؓ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور ہم قادیان رہ گئے۔کئی سال بعد میرے خاوند اور مَیں جب پاکستان آئے تو حضور ؓسے ملاقات کے لیے گئے ۔ تب مَیں نے عرض کیا : حضور! پہلے تو میں نے اپنے منہ سے نہیں کہا تھا اب میں اپنے منہ سے کہتی ہوں کہ اب تو چودہ سال گذر گئے ہیں آپ میرے لیے اولاد کی دعا کریں۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’آپ کے انیس سال بعد اولاد ہوگی۔‘‘ چنانچہ حضورؓ کی دعا سے ہماری شادی کے ٹھیک انیس سال بعد جبکہ ہم امید ختم کرچکے تھے تواللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹی سے نوازا۔

………٭………٭………٭………

حضرت مصلح موعودؓ کی چند دلنشیں یادیں

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی چند خوبصورت یادیں مکرم مبارک مصلح الدین احمد صاحب مرحوم (سابق وکیل المال ثانی تحریک جدید ربوہ)کے قلم سے روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۴؍مارچ ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت ہے۔

مکرم چودھری مبارک مصلح الدین صاحب رقمطراز ہیں کہ خاکسار کے نانا حضرت بابو الٰہی بخش صاحبؓ سٹیشن ماسٹر اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے اور برادری شدید مخالف تھی۔ ۱۹۱۷ء میں وہ وفات پاگئے تو اُن کی اہلیہ اپنی دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ہمراہ قادیان آگئیں۔ تینوں بچوں کی عمریں دس سے چودہ سال کے درمیان تھیں۔ حضرت امّاں جانؓ اور حضرت مصلح موعودؓ نے اُن سے بہت شفقت کا سلوک کیا۔

آٹھ سال کی عمر میں ایک دفعہ جب مَیں اپنی امی اور نانی کے ہمراہ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضورؓ نے بڑے پیار سے بہت سی باتیں کیں اور یہ بھی فرمایا کہ تمہیں پتا ہے کہ تمہارے ابّا کی یہ دوسری شادی ہے، گھر جاکر ابّا سے پوچھنا۔ مَیں بڑا حیران ہوا اور گھر آکر پوچھا تو والد (حضرت صوفی غلام محمد) صاحبؓ نے بتایا کہ وہ ابھی چھوٹے تھے اور اُن سے کچھ سال بڑی ایک تایازاد بہن تھی۔ ان کے دادا کی خواہش تھی کہ دونوں کی منگنی کردی جائے اس پر اُن کے والد صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعودؑ سے پوچھ کر بتاؤں گا۔ جب حضرت اقدسؑ کی خدمت میں خط لکھا تو حضور علیہ السلام کا جواب آیا کہ اس طرح چھوٹی عمروں میں منگنی کرنا مجھے پسند نہیں، بچے بڑے ہوجائیں تو پھر رشتے طے کرنے چاہئیں۔ لہٰذا یہ رشتہ نہ ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ کو اپنے بچوں کی تربیت کا بہت خیال رہتا۔ میرے والد صاحب سکول میں حساب پڑھاتے تھے۔ حضورؓ اپنے تین صاحبزادوں کو گرمیوں کی تعطیلات میں ان کے پاس بھجوادیتے۔ والد صاحب ہم چاروں کو پڑھاتے اور تفریح کا وقت بھی دیتے۔ اس کا ایک فائدہ خاکسار کو یہ ہوا کہ ان صاحبزادوں سے دوستی کی بِنا پر کئی مرتبہ قصر خلافت جانے اور حضورؓ سے ملنے کا موقع بھی ملتا رہا۔

قادیان میں ہر ماہ کی آخری جمعرات کو دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل ہوتی تھی۔ حضورؓ کی ہدایت تھی کہ اُس روز پکنک، سیر یا شکار پر جایا کریں۔ ۱۹۴۱ء میں جب مَیں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا اور ہم نہر پر پکنک منانے گئے ہوئے تھے کہ حضورؓ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ حضورؓ نے پہلے تیراکی کا مقابلہ کروایا پھر نہر کے پُل کے معاً بعد (جہاں بہاؤ تیز تھا) تیر کر نہر کو سیدھا کراس کرنے کا مقابلہ کروایا۔ حضورؓ نے ازراہ شفقت خود بھی ان مقابلوں میں حصہ لیا۔ حضورؓ مقابلے میں سب سے آگے رہے اور میرے والد صاحب دوسرے نمبر پر آئے۔ اطفال کا مقابلہ علیحدہ کروایا گیا۔

حضورؓ کا طریقہ کار تھا کہ مختلف شعبوں کے کام اور حالات کے بارے میں مختلف ذرائع سے معلومات حاصل فرماتے رہتے تھے۔ بچوں سے بھی معلومات حاصل فرماتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر حضورؓ نے مجھ سے کالج اور ہوسٹل کے حالات دریافت فرمائے تو میری باتوں کو سُن کر حضورؓ نے فرمایا: اچھا مَیں ناصر سے پوچھوں گا۔ حضرت مرزا ناصر احمد صاحبؒ ہمارے پرنسپل تھے۔ حضورؓ کی بات سُن کر مَیں یکدم گھبرا گیا تو حضورؓ نے فرمایا: فکر نہ کرو، مَیں تمہارا نام لے کر نہیں پوچھوں گا۔ پھر خاکسار نے اپنی قبض کی تکلیف کا ذکر کیا تو فرمایا:نکس وامیکا ۳۰ لے لیا کرو۔

جون ۱۹۵۳ء میں فضل عمر انسٹیٹیوٹ کے افتتاح کے موقع پر خاکسار کو تلاوت کرنے کی سعادت ملی تو بعد میں حضورؓ نے وکیل التعلیم مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ فضل عمر ریسرچ میں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ فرمایا کہ تلاوت کے لیے بھی باہر سے آدمی تلاش کرنا پڑا!

ستمبر ۱۹۵۶ء میں جب مَیں ریاضی میں اور مکرم چودھری سمیع اللہ سیال صاحب شماریات میں ایم اے کرنے کے بعد حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضورؓ نے فرمایا کہ مخالفین کہتے ہیں کہ خلیفہ کے ساتھ تو بڈھے بڈھے ہیں۔ اگر نوجوان سامنے آئیں تو پھر وہ یہ اعتراض نہ کریں۔ پس تم ثابت کرو کہ جوان بھی سلسلہ کے ساتھ ہیں۔

ربوہ ابتدائی دَور میں ملتان کمشنری میں شامل تھا۔ ۱۹۵۶ء میں حضورؓ نے کمشنر ملتان کو ربوہ آنے کی دعوت دی اور اس موقع پر سرکاری افسران اور علاقے کے معززین کو بھی مدعو فرمایا۔ اس تقریب کے انتظامات لجنہ ہال میں کیے گئے۔ حضورؓ نے میری ذمہ داری کیٹرنگ کے انتظام پر لگائی اور تفصیلی ہدایات دیںمثلاً سینڈوچ کہاں سے اور کیسے بنوانے ہیں، اعلیٰ قسم کی پیسٹری کہاں سے ملے گی، مٹھائی کون کونسی اور کہاں سے لینی ہے اور دیگر متفرق سامان کہاں سے لینا ہے۔ بعدازاں حضورؓ کو قصرخلافت سے لجنہ ہال لانے کے لیے میری ڈیوٹی لگی تو راستے میں حضورؓ نے انتظامات کی صورتحال کے بارے میں تفصیل سے دریافت فرمایا۔

۱۹۵۷ء میں جماعت کی ایک لمیٹڈ کمپنی میں خاکسار کو بطور نمائندہ بھجوانے سے پہلے حضورؓ نے ازراہ شفقت مجھ سے اور میرے والد صاحب سے پتا کروایا کہ تجارتی کام میں مجھے دلچسپی ہے یا نہیں؟پھر روانگی سے پہلے تفصیلی ہدایات دیں جن میں ایک یہ بھی تھی کہ مینیجنگ ڈائریکٹر اپنی پسند کے آدمی رکھے گا جن میں احمدی شاذ ہی ہوں گے، تم نے نرمی اور تعاون کرتے ہوئے کام سیکھنا ہے لیکن جب دیکھو کہ سلسلہ کا مفاد خطرے میں ہے تو پھر کسی کی کوئی پروا نہیں کرنی اور اپنے موقف پر ڈٹ جانا ہے۔ اس کے بعد جب خاکسار کراچی پہنچا تو حضورؓ نے جس جس طرح حالات سے متنبہ فرمایا تھا، اسی طرح وہاں صورتحال رہی۔خاکسار حسب ارشاد نرمی اور تعاون سے کام سیکھتا رہا۔ مینیجنگ ڈائریکٹر نے اپنا ایک لڑکا بھی اپنے ساتھ لگالیا تھا۔ ۱۹۶۳ء کے آخر میں اچانک انتظامیہ اور مینیجنگ ڈائریکٹر نے میری شدید مخالفت شروع کردی۔ پہلے صرف زبانی دھمکیاں تھیں لیکن پھر ایک روز پچیس تیس آدمیوں نے میرے فلیٹ پر حملہ کیا اور دیوار توڑ دی۔ ان حالات کی اطلاع مَیں نے بذریعہ ٹیلی گرام انچارج ایڈمنسٹریشن ڈائریکٹر کو اور حضورؓ کو بھی دے دی۔ حضورؓ نے فوری ایکشن لیا اور رات کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا مجھے فون آیا کہ حضورؓ بڑے فکرمند ہیں اور بار بار تمہارا حال پوچھ رہے ہیں۔ مَیں بڑا جذباتی ہوگیا کہ حضورؓ کو میری وجہ سے تکلیف پہنچی ہے۔ بہرحال حضورؓ نے مکرم امیر صاحب کراچی کو بھی میری حفاظت کے حوالے سے ارشاد فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضورؓ کی دعا سے خاص فضل فرمایا۔

ستمبر ۱۹۶۴ءمیں خاکسار کی شادی ہوئی تو میرے والد صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں تحریراً اس کی اطلاع کی۔ حضورؓ اُن دنوں علیل تھے۔ خاکسار کی رہائش چنیوٹ میں تھی۔ والدہ صاحبہ بستر علالت پر تھیں۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ شام کو ٹرانسپورٹ نہیں ملتی اس لیے مَیں رات ربوہ میں ہی رہوں گا اور اگلے روز آپ کی بہو کو لے کر چنیوٹ آؤں گا۔ پھر دو تانگوں میں چند عزیزوں کے ہمراہ ربوہ پہنچا۔ والد صاحب نے ایک جونیئر کوارٹر الاٹ کروایا ہوا تھا۔ وہاں سے بارات پیدل گئی۔ جب رخصتانہ کی دعا ہوگئی اور خاکسار اپنی اہلیہ کے ہمراہ باہر نکلا تو دیکھا کہ حضورؓ نے اپنی گاڑی اور ڈرائیور کو بھجوایا ہوا ہے کہ ہمیں ہمارے گھر (چنیوٹ میں) چھوڑ آئے۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button