متفرق مضامین

۲۹؍ فروری اور لیپ کا سال

ماہِ فروری ۲۸ روز کا ہوتا ہےلیکن چار سال بعد فروری میں ۲۹ویں دن کا اضافہ کیا جاتا ہے ، یعنی ایسا سال جوچار کے پہاڑے پر یکساں طور پر تقسیم ہوجائے، وہ لیپ کا سال کہلائےگا اسی طرح رواں سال ۲۰۲۴ء لیپ کا سال ہے۔

قدیم مصریوں نے معلوم کیا کہ ہماری زمین سورج کے گرد۳۶۵ دن میں اپنا چکر مکمل نہیں کرتی بلکہ تقریباً چوتھائی دن زیادہ لیتی ہے، لہٰذاماہرین فلکیات کے مطابق زمین کا سورج کے گرد گردش کرنے کا دورانیہ ۳۶۵ ایام پر مشتمل نہیں بلکہ یہ ۳۶۵ دن، پانچ گھنٹے ۴۹ منٹ اور ۱۲ سیکنڈ کا ہوتا ہے۔فلکیات کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اگر ہر سال چوتھائی دن کا فرق رکھا جائے تو یہ چار سال بعد پورا ایک دن بن جاتا ہے یوں کیلنڈر میں ایک اضافی دن شامل ہوجاتا ہے۔

قدیم رومی کیلنڈر دس مہینوں پر مشتمل تھا، یہ قمری کیلنڈر تھا اور اس کے ایک سال میں ۲۹۵ دن شمار کیے جاتے تھے۔ سال کا پہلا مہینہ مارچ سےشروع ہوکر دسمبر پر جاکر ختم ہوجاتا تھا، البتہ ۷۱۳ قبل مسیح کا کیلنڈر جب جاری ہوا تو اُس میں رومن بادشاہ نوما پوپیلیوس نے جنوری اور فروری کے مہینوں کو بڑھا دیا۔ تقریباً ۴۵ قبل مسیح میں روم کے بادشاہ جولیس سیزر نے کیلنڈروں کی اصلاحات کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جس نے فیصلہ کیا کہ ہر چار سال میں سے ایک سال ۳۶۶ دنوں کا کیا جائے۔لیپ ایئر کو پہلی دفعہ روم کے شہنشاہ جولیس سیزر نے ۲۰۰۰ سال پہلے سلطنت روم میں متعارف کروایا تھا۔ مزید یہ کہ جولیس سیزر نے اپنے نئے کیلنڈر میں ایک تبدیلی یہ بھی کی کہ مارچ کی بجائے جنوری کو سال کا پہلا مہینہ قرار دیا۔

لیکن جولیس سیزر کی موت کے بعد ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کی بجائے یہ اضافہ ہر تین سال کے بعد کیا جانے لگا اس طرح ایک مرتبہ پھر رومن کیلنڈر موسموں سے آگے بھاگنے لگا۔

جولیس سیزر کے بعد بادشاہ آگسٹس سیزر نے ۸ قبلِ مسیح میں یہ مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی اور اس طرح یہ سلسلہ ۱۶ ویں صدی تک چلتا رہا۔ بعض کے نزدیک جب شاہِ آ گسٹس تخت پر بیٹھا تو اس نے بھی فروری کے مہینے سے ایک دن لے کر اپنے نام کے مہینے یعنی اگست میں مستقلاًشامل کر لیا۔ اس طرح فروری کے پاس کُل ۲۸؍ دن باقی رہ گئے۔ البتہ لیپ کے سال میں فروری کا مہینہ ۲۹ دن کا ہونا شروع ہو گیا۔

۱۶ویں صدی میں پاپ گریگوری نے کیلنڈر میں تبدیلی کی اور ایک کمیشن قائم کیا جس میں یہ طے پایا کہ ہر ۴۰۰؍ سال میں۱۰۰ لیپ ایئر ہونے کی بجائے ۹۷ لیپ ایئر ہوں گے۔ لہذالیپ کا سال اپنی جگہ پر برقرار رہا۔ یہ آج کی دُنیا کے عام استعمال میں ہے۔

اگر کیلنڈر پر سال کے۳۶۵ دن رکھےجائیں تو ہر سال چوتھائی دن کا فرق پڑنے لگتا ہے اور اس طرح کیلنڈر موسموں کے اوقات سے مطابقت کھو دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے موسموں کے آغاز اور اختتام کے اوقات میں بگاڑ پیدا ہو جاتاہے۔مثلاً اگر ہمارے کیلنڈر میں لیپ ایئرز نہ ہوتے تو قطب شمالی میں موسمِ سرما جون میں آجاتا جبکہ قطب جنوبی میں اس وقت موسمِ گرما ہوتا۔ جیسا کہ زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے اس لیے موسم کی تبدیلی کا انحصار بھی زمین اور سورج کی گردش پر ہی منحصر ہوتا ہے۔

یہاں ایک چیز قابل غور ہے کہ زیادہ تر افراد کا ماننا ہے کہ لیپ ایئر ہر چار سال بعد آتا ہے لیکن ایسا ہر مرتبہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ وہ سال ہوتا ہے جو چار پر پورا پوراتقسیم ہو جائے جیسے ۱۹۹۶، ۲۰۰۰، ۲۰۰۴، چار پر پورے تقسیم ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ لیپ سال تھے۔ لیکن جو سال ۱۰۰ پر پورا پورا تقسیم ہوں وہ چار پر پورا تقسیم ہونے کے باوجود بھی لیپ سال نہیں ہوگا۔ ۴۰۰ پر پورا پورا تقسیم ہونے والے سال ہی لیپ کے سال ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۰۰؍، ۲۱۰۰؍، ۲۲۰۰؍، ۲۳۰۰؍ لیپ کے سال نہیں جبکہ ۲۰۰۰؍ اور ۲۰۲۴؍ لیپ سال ہیں۔ اسی طرح سے اگلا لیپ ایئر ۲۰۲۸ میں آئے گا۔

لیپ سیکنڈ کے حوالہ سے بات کی جائے تولیپ سال براہ راست لیپ سکینڈ کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ لیکن لیپ سیکنڈ وہ اضافی منٹ ہے جو چند سالوں کے بعد جوہری گھڑیوں کے وقت کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تاکہ زمین کی گردش سے چلنے والی گھڑیوں کو جوہری وقت کے ساتھ مطابقت پیدا کی جا سکے۔

۱۹۷۲ء میں لیپ سکینڈ کا نظام شامل کیا گیا تھا۔دنیا کے وقت کا پیمانہ، جوہری گھڑیوں کی مدد سے کام کرتا ہے۔یہ جوہری گھڑیاں مادے کے ذروں کی حرکت ناپ کر وقت کا تعین کرتی ہیں اور مسلسل چلتی ہیں۔ لیکن، اس کے مقابلے میں زمین کی گردش ہر روز آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے اور اس طرح ہمارے دنوں کے دورانیے میں چند ملی سیکنڈز کا فرق پڑ جاتا ہے۔

لیپ ایئرز کے ساتھ مختلف قسم کےرواج اور توہم پرست نظریات بھی جڑے ہوئے ہیں۔بعض ثقافتوں میں لیپ ڈے کو بدقسمتی سمجھا جاتا ہے۔اور کچھ ثقافتوں میں اس دن بچے کی پیدائش خوش قسمت دن تصور کیا جاتا ہے۔کچھ ماہرِین نجوم کا ماننا ہے کہ لیپ ڈے پر پیدائش ہو تو آپ میں انوکھی خصوصیات ہوتی ہیں۔

بعض ثقافتی اعتبار سے یونانی لیپ ایئر میں شادی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔یونان میں لیپ ایئر کے دوران شادی کرنے سے اجتناب کرنے کا کہا جاتا تھا خاص طور پر لیپ ڈے پر کیونکہ اس بات کا خوف ہوتا تھا کہ یہ شادیاں طلاق کی صورت میں ختم ہوں گی۔ آج بھی ہر پانچ میں سے ایک جوڑا لیپ کے سال میں شادی کرنے سے گریز کرتا ہے جبکہ سکاٹ لینڈ میں لوگ یہ مانتے تھے کہ لیپ ڈے اس وقت ہوتا ہے جب چڑیلیں جمع ہو کر کچھ برا کرنے لگتی ہیں۔ کچھ سکاٹش اب بھی ۲۹؍فروری کو بچے کی پیدائش کو برا شگون سمجھتے ہیں۔

لیپ سال کےکچھ فوائد بھی ہیں۔ مثلاً ہمیں پتا چلتاہے کہ سال کا لمبا دن ہمیشہ ۲۱؍جون ، سب سے چھوٹا دن ۲۱؍دسمبر اور برابر کے دو دن ۲۱؍مارچ اور ۲۱؍ستمبر کو ہی ہوں گے۔اگر لیپ سال میں تبدیلی نہ کی جاتی تو ہر ۴۰۰ سال میں واضح فرق سامنے آتا ہے اب انسانوں میں ہو یا نہ ہو لیکن کھیتی باڑی اور فصلیں اگانے کے لیے موسموں کے اوقات میں ضرور مطابقت پیدا ہو گئی ہے اور ہزاروں سال تک اس میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔

جو لوگ سالگرہ مناتے ہیں ان میں سے جس کی تاریخ پیدائش ۲۹؍فروری ہو وہ ہر سال اپنی سالگرہ منا نہیں پاتے، ماہرین فلکیات کے مشورے کے مطابق انہیں ۲۸؍فروری یا پھر یکم مارچ میں سے ایک دن کا انتخاب کرلینا چاہیے اور چار سال بعد اپنی سالگرہ ۲۹؍فروری کو دھوم دھام سے منا لینی چاہیے۔ ویسے بھی اسلام میں سالگرہ کو رسم کے طور پر منانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

(بشکریہ:VOAاردو،DAWNنیوز،BBCاردو)

(’الف فضل ‘)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button