ایسا نظام ابلغ اور محکم…صانع حقیقی کا چہرہ دکھلا رہا ہے
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَاخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَالنَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ۔ الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوۡدًا وَّعَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَیَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ یعنی جب دانشمند اور اہل عقل انسان زمین اور آسمان کے اجرام کی بناوٹ میں غور کرتے اور رات اور دن کی کمی بیشی کے موجبات اور علل کو نظر عمیق سے دیکھتے ہیں انہیں اس نظام پر نظر ڈالنے سے خدا تعالیٰ کے وجود پر دلیل ملتی ہے۔ پس وہ زیادہ انکشاف کے لئے خدا سے مدد چاہتے ہیں اور اس کو کھڑے ہوکر اور بیٹھ کر اور کروٹ پر لیٹ کر یاد کرتے ہیں جس سے ان کی عقلیں بہت صاف ہو جاتی ہیں۔ پس جب وہ ان عقلوں کے ذریعہ سے اجرام فلکی اور زمینی کی بناوٹ احسن اور اولیٰ میں فکر کرتے ہیں تو بے اختیار بول اٹھتے ہیں کہ ایسا نظام ابلغ اور محکم ہرگز باطل اور بے سود نہیں بلکہ صانع حقیقی کا چہرہ دکھلا رہا ہے۔ پس وہ الوہیت صانع عالم کا اقرار کر کے یہ مناجات کرتے ہیں کہ یا الٰہی تُو اس سے پاک ہے کہ کوئی تیرے وجود سے انکار کر کے نالائق صفتوں سے تجھے موصوف کرے۔ سو تُو ہمیں دوزخ کی آگ سے بچا۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی،روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۳۴)