تاریخ احمدیتمتفرق مضامین

پنڈت لیکھرام کا قتل اخبارات وپریس کے تناظر میں (قسط اوّل)

(ابو حمدانؔ)

ابتدا سے یہ سنت اللہ چلی آرہی ہے کہ خداتعالیٰ اپنے انبیاء کے لیے انتہائی غیرت رکھتا ہے اور ان کو ایذا پہنچانے والوں کو نیست ونابود کردیتا ہے۔ البتہ انبیائے کرام خود حتی المقدور اپنے دشمنوں کے لیے بھی خیر خواہی کاہی جذبہ لیے ہوتے ہیں تاآنکہ وہ اُس نبی کے مشن کی دشمنی میں تمام حدیں پار کر جائے۔ چنانچہ اسی مفہوم کو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے اپنے اس شعر میں بیان فرمایا کہ

عدُو جب بڑھ گیا شور و فُغاں میں

نہاں ہم ہو گئے یارِ نہاں میں

خدا نے تو آ پؑ سے یہ وعدہ بھی فرمایا تھا کہ اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِ ھَا نَتَکَ۔ یقیناً میں ہر اہانت کرنے والے اس شخص کی اہانت کروں گا جوتیری اہانت کرتاہوگا۔چنانچہ آج ایسے ہی ایک معاند احمدیت کا ذکر کرنا مقصود ہے جس پر خدا کے اس فرستادے کی پیشگوئی حق ثابت ہوئی اور جس نے اپنی بےوقوفی اور نامعقول حرکات کے باعث اپنی موت کو خود دعوت دی۔ یہ ذکر ہے پنڈت لیکھرام کا جو اپنی بدزبانی اور دُشنام دہی کی روش کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے عذاب کا مورد ہوا اور جس کی موت درحقیقت اسلام کی بالادستی اور سچے مذہب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

پیدائش اور اوائل عمری

لیکھرام کی پیدائش اپریل ۱۸۵۸ء میں ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ (سابقہ ضلع جہلم) میں ہوئی۔یہ خاندان ضلع جہلم کی تحصیل سیدپور میں مقیم تھا جو لیکھرام کی پیدائش سے قبل روزگار کے لیے کہوٹہ منتقل ہوگیا تھا۔والد کا نام پنڈت تارہ سنگھ جبکہ والدہ کانام بھاگ بھری تھا۔ لیکھرام پانچ برس کی عمر میں ایک مقامی سکول میں داخل ہوئے۔ ۱۵ برس کی عمر میں لیکھرام اپنے چچا گنڈا رام کے پاس پشاور آگئے۔ جو وہاں ڈپٹی انسپکٹر پولیس تھے۔۱۸۷۶ء میں پولیس میں ملازمت اختیار کی اور رفتہ رفتہ نقشہ نویس سارجنٹ کے عہدے پر پہنچے۔ پشاور میں مختلف ادیان سے سوجھ بوجھ ہوئی اور حق کی تلاش کے لیے ادھر ادھر کی خاک کھنگالی۔ لیکھرام کی سوانح پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ جب پندرہ سال کی عمر میں یہ پشاور آئے تو اپنے چچا کے ماتحت ایک بڈھے سکھ بھائی سے گورمکھی اور گیتا کو پڑھنا شروع کیا۔ منشی اندر من مراد آبادی کی کتابیں پڑھیں اور سوانح کے مطابق پھر آہستہ آہستہ لیکھرام کی اسلام سے مڈبھیڑ ہوئی۔ مسلمانوں سے مباحثات وغیرہ شروع کیے۔ کنہیا لعل الکھ داری کی کتابوں کےمطالعہ کے ذریعہ(خاص کر ودیا پرکاشک پڑھ کر) سوامی دیانند سے تعارف ہوا۔ اور پھر ان کی تعلیمات پر چلنے لگے۔ بالآخر اپریل ۱۸۸۱ء میں لیکھرام نے پشاور میں آریہ سماج قائم کی۔اور پھر زوروں سے اس کی ترویج کرنے لگے۔ چنانچہ اخیر تک پھر اسی کے پرچاری رہے اور پنڈت دیانند سرسوتی کی مانند غیر مناسب زبان کے استعمال میں بھی بڑھتےچلے گئے۔ ۱۸۸۴ء میں ملازمت کو خیرباد کہہ کر لاہور جابسے۔ ( ماخوذ از پنڈت لیکھرام آریہ مسافر کا جیون چتر از پنڈت سرب دیال شرما صفحہ ۱ تا۱۳ مطبوعہ رفاہ عام اسٹیم پریس لاہور ۱۹۰۳ء)

حضرت اقدسؑ سے بحث کا آغاز

۱۸۸۵ء میں حضرت اقدسؑ نے ایک اشتہار مختلف لیڈران مذاہب(مقتدیان وپیشوائے قوم) کے نام بغرض مقابلہ روحانی دیا تھا جس کا کلیۃً مقصد یہ تھا کہ حق کو پہچاننے کے نتیجہ میں ان لیڈران کے پیرو بھی اسلام کی صداقت کے قائل ہوسکیں۔ چنانچہ لیکھرام نے حضور علیہ السلام کو اس اشتہار سے متعلق جوابی خط ارسال کیا جو دراصل اس قصہ کی بنیاد بنا۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ نے لیکھرام کی بابت مکتوبات احمد میں ایک نوٹ درج کرنے کےبعدلکھاہےکہ ’’صرف اس مقصد کے لئے یہ نوٹ لکھ دیا ہے کہ تاکہ پڑھنے والوں کو ایک سرسری علم پنڈت لیکھرام صاحب کشتہ اعجاز مسیحائی کے متعلق ہو جاوے وہ اشتہار جو حضرت مسیح موعودؑ نے مختلف لیڈران مذاہب کے نام بغرض مقابلہ روحانی دیا تھا جس کے لئے پنڈت اندرمن مراد آبادی نے آمادگی ظاہر کی تھی اور بالآخر جب روپیہ اس کے پاس بھیجا گیا تو وہ لاہور سے بھاگ گئے۔ اسی اشتہار کے سلسلہ میں پنڈت لیکھرام صاحب نے بھی نشان بینی کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا اور خط و کتابت شروع کی۔‘‘ (نوٹ از ایڈیٹر مکتوبات احمدؑ جلد ۱ صفحہ ۶۵)

لیکھرام کے خط کے جواب میں حضور ؑنے ابتداءً اسے اس مقابلہ کے لیے نااہل گردانا اور بنیادی معیار بحیثیت لیڈر کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی اور طریقہ کار سمجھاتے ہوئے تحریر فرمایا:…میں سمجھتا ہوں کہ ابھی تک یہ خط آپ نے مطالعہ نہیں کیا کیونکہ تحریر آپ کی شرائط مندرجہ خط مذکورہ بالا سے بکلی برعکس ہے۔ اوّل اس عاجز نے اپنے خط مطبوعہ کے مخاطب وہ لوگ ٹھہرائے ہیں کہ جو اپنی قوم میں معزز علماء اور مشہور اور مقتدا ہیں جن کا ہدایت پاناایک گروہ کثیر پر مؤثر ہوسکتا ہے۔ مگر آپ اس حیثیت اور مرتبہ کے آدمی نہیں ہیں اگر میں نے اس رائے میں غلطی کی ہے اور آپ فی الحقیقت مقتدا و پیشوائے قوم ہیں تو بہت خوب، میں زیادہ تر آپ کو تکلیف دینا نہیں چاہتا صرف اتنا کریں کہ پانچ آریہ سماج میں یعنی آریہ سماج قادیان، آریہ سماج لاہور، آریہ سماج پشاور، آریہ سماج امرتسر، آریہ سماج لودہیانہ میں جس قدر ممبر ہیں سب کی طرف سے ایک اقرار نامہ حلفاً اس مضمون کا پیش کریں کہ جو پنڈت لیکھرام صاحب ہم سب لوگوں کے مقتدا اور پیشوا ہیں۔ اگر اس مقابلہ میں مغلوب ہو جائیں گے اور کوئی نشان آسمانی دیکھ لیں تو ہم سب لوگ بلاتوقف شرف اسلام سے مشرف ہو جائیں گے۔ پس اگر آپ مقتدائے قوم ہیں تو ایسا اقرار نامہ پیش کرنا آپ پر مشکل نہیں ہوگا بلکہ تمام لوگ آپ کا نام سنتے ہی اقرار نامہ پر دستخط کر دیں گے کیونکہ آپ پیشوائے قوم جو ہوئے۔ لیکن اگر آپ اپنا مقتدائے قوم ہونا ثابت نہ کر سکیں اور آپ اقرار نامہ مرتب کر کے دو ہفتہ تک میرے پاس نہ بھیج دیں تو آپ ایک شخص عوام الناس سے سمجھے جائیں گے جو قابل خطاب نہیں۔‘‘ (مکتوبات احمدؑ جلد ۱ صفحہ ۶۵مکتوب بنام پنڈت لیکھرام مکتوب نمبر ۱۲)

اسی خط میں آپؑ ایک مرتبہ پھر خلاصہ ٔاشتہار بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ…جو شخص ہمارے مقابل پر آناچاہے ( آپ ہوں یا کوئی اَور ہوں) اوّل اُس کو یہ ثبوت دینا چاہئے کہ وہ درحقیقت مقتدائے قوم ہے اور اس کی قوم کے لوگ اس بات پر مستعد ہیں کہ اس کے قائل اور اقرار ہو جانے سے بلا حجت و حیلہ دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔ سو مناسب ہے کہ آپ سعی و کوشش کر کے پانچوں آریہ سماج کے جس قدر ممبر ہوں اُن سے حلفاً اقرار نامہ لے لیں اور نام بنام دستخط کرائیں اور اس اقرار نامہ پر دس یا بیس ثقہ مسلمانوں اور بعض پادریوں کے بھی دستخط ہوں تا کہ وہ اقرار نامہ معہ آپ کے اقرار نامہ اور ہمارے اقرار کے چند اخباروں میں چھپوایا جاوے لیکن جب تک آپ اس طور سے اپنا سرکردہ ہونا ثابت نہ کریں تب تک آپ عوام الناس میں سے محسوب ہونگے۔ ہمارے خط کو غور سے دیکھو اور اس کے منشاء کے موافق قدم رکھو ان خطوط سے اصل مطلب تو ہمارا یہی تھا کہ قوموں کے سرکردوں کو قائل یا لاجواب کر کے کل قوموں پر (ہندو ہوں یا عیسائی) اتمام حجت کیا جاوے۔ پس جو لوگ سرکردہ ہی نہیں ان کے لاجواب یا قائل کرنے سے ہمارا مطلب کیونکر پورا ہوگا…والدعاء /(مورخہ ۱۷؍ اپریل ۱۸۸۵ء مطابق یکم رجب ۱۳۰۲ھ) (مکتوبات احمدؑ جلد ۱ صفحہ ۶۵مکتوب بنام پنڈت لیکھرام مکتوب نمبر ۱۲)

چنانچہ سلسلہ خط وکتابت بڑھتا ہے۔لیکھرا م کے خطوط انتہائی بدزبانی پر مشتمل ہواکرتے تھے جس کے متعلق حضورؑ نے تقریباً اپنے ہر جواب میں اس کا اظہار بھی فرمایا۔ چنانچہ ایک خط میں آپؑ فرماتے ہیں کہ آپ نے بجائے اس کے کہ میرے جواب پر انصاف اور صدقِ دلی سے غور کرتے ایسے الفاظ دُور از تہذیب و ادب اپنے خط میں لکھے ہیں جو میں خیال نہیں کر سکتا کہ کوئی مہذب آدمی کسی سے خط و کتابت کر کے ایسے الفاظ لکھنا روا رکھے۔ پھر آپ نے اسی اپنے خط میں تمسخر اور ہنسی کی راہ سے دینِ اسلام کی نسبت توہین اور ہتک کے کلمات تحریر کئے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے کے ہجو ملیح کے طرح مکروہ اور نفرتی باتوں کو پیش کیا ہے اگرچہ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ کس قدر طالب حق ہیں لیکن پھر بھی میں نے مناسب سمجھا کہ آپ کے سخت اور بدبودار باتوں پر صبر کرکے دوبارہ آپ کو اپنے منشاء سے مطلع کروں۔ (مکتوبات احمدؑ جلد ۱ صفحہ۶۶مکتوب بنام پنڈت لیکھرام مکتوب نمبر ۱۳)

بدزبانی اور بداخلاقی

الغرض لیکھرام کا شروع سے ہی بدزبانی اور تخریبی تحریرات کا شیوہ تھا جسے حضور ؑنے ہمیشہ کمال صبر اور ضبطِ نفس سے برداشت کیا جیسا کہ انبیاء کا شیوہ ہوا کرتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت اقدسؑ نے اپنے مخالفین پر اسلام کی حقانیت ثابت کرنے کا ایک سہل طریق متعارف کروایا اور وہ اپنے اپنے خدا سے مدد طلب کرنا تھا۔ یعنی ہر مذہب وفرقہ والا فرد اپنے اپنے خدا سے راہنمائی اور مدد طلب کرے اور ایک دوسرے کے مقابل اسی کے مطابق فیصلہ ہوجائے۔ چنانچہ لیکھرام بھی آپؑ کے اسی طریق کے موافق قادیان آیا،دوران قیام آپؑ کے ساتھ خط وکتابت بھی کرتا رہا البتہ جلد واپس چلاگیا اور اپنی دشنام دہی میں بڑھتا چلا گیا۔اور آپؑ کے عقائد کو تنقید کا نشانہ بناتا رہا۔ (استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۱۳)

لیکھرام نے اردو میں ۳۳؍ کتابیں تصنیف کیں جو ’’کلیات آریہ مسافر‘‘کے نام سے شائع شدہ ہیں۔ اسلام اور بانئ اسلام کے خلاف اس کی زبان چھری کی طرح چلتی تھی۔ پیشوایانِ مذاہب سے متعلق غلیظ اعتراضات اور زبان کا استعمال اس کا شیوہ تھا اور اسلام مخالف روش کی وجہ سے جلد ہی ہندوؤں کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔ بلکہ حضور ؑکی براہین کے رد میں اس نے تکذیب براہین احمدیہ بھی تحریر کی۔ حضورؑ نے بے شمار دفعہ اسے ایسی حرکات سے باز رہنے اور بدزبانی کرنے سے منع فرمایا مگر اس بد نصیب نے اس طرف کان نہ دھرے۔ بالآخر اس چرب زبانی اور غلیظ گفتگو کے باعث آریہ سماج کے اندر بھی ۲ حصص ہوکر ۱۸۹۳ء میں ہی دو گروہوں میں منقسم ہوگئی۔علمی شغف رکھنے والا طبقہ لالہ ہنس راج اور لالہ لجپت رائے کے گروہ میں جبکہ دوسرا طبقہ لیکھرام کی قیادت میں آگیا۔ (پنڈت لیکھرام کی ہلاکت از آصف محمود باسط / الفضل انٹرنیشنل ۸؍مارچ ۲۰۱۹ء)

پیشگوئی

۱۸۹۳ء میں ہی لیکھرام نے حضورؑ سے نشان دکھلانے کا مطالبہ کیا۔اورکہا کہ وہ خود بھی پرمیشر سے راہنمائی کی درخواست کررہاہے۔ (استفتاء، روحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۱۰) اس امر کا بھی اظہار کیا کہ جھوٹا سچے کی زندگی میں ہلاک ہوجائے گا۔ چنانچہ حضور نے اس کے اس چیلنج کو بھی قبول فرمالیا۔ اس نے پیشگوئی کی کہ تاریخِ پیشگوئی سے تین سال کے اندراندر حضرت اقدسؑ بعارضہ ہیضہ ہلاک ہوجائیںگے۔ حضور علیہ السلام نے بھی اس کے مقابل پر لیکھرام سے متعلق اللہ تعالیٰ سے راہنمائی پاکر یہ پیشگوئی کی کہ آئندہ چھ سال کے اندر اندر لیکھرام ہلاک ہوجائے گا اور وہ عید سے متصلہ دن ہوگا۔(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد۵ صفحہ ۶۰۵)

یہاں یہ بتانا مزید وضاحت کردے گا کہ جولائی ۱۸۸۵ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک کشف میں دیکھا کہ’’بعض احکام قضاء و قدر میں نے اپنے ہاتھ سے لکھے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہو گا۔ اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل شانہ کے سامنے پیش کیا ہے…اس ذات بیچون و بے چگوں کے آگے وہ کتاب قضاء و قدر پیش کی گئی اور اس نے جو ایک حاکم متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو اس عاجز کی طرف چھڑکا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ میں رہ گیا اس سے اس کتاب پر دستخط کر دیئے۔ اور ساتھ ہی وہ حالت کشفیہ دور ہو گئی اور آنکھ کھول کر جب خارج میں دیکھا تو کئی قطرات سرخی کے تازہ بتازہ کپڑوں پر پڑے۔‘‘(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ۱۷۹-۱۸۰ حاشیہ)

لیکھرام کےقتل کےبعد ۱۵؍مارچ ۱۸۹۷ء کے اشتہار میں اسی سرخی کے چھینٹوں والے کشف کو لیکھرام سے متعلق بتاتے ہوئے فرمایا کہ وہ دراصل لیکھرام کے قتل کی بابت ہی خبردی گئی تھا۔چنانچہ آپؑ بیان فرماتے ہیں کہ’’سرمہ چشم آریہ میں ایک کشف ہے جس کو گیارہ برس ہو گئے جس کا ماحصل یہ ہے کہ خد ا نے ایک خون کا نشان دکھلایا وہ خون کپڑوں پر پڑا جو اب تک موجود ہے یہ خون کیا تھا وہی لیکھرام کا خون تھا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد ۲ صفحہ ۳۵۹، ایڈیشن اول)

نقص امن کا خدشہ اور لیکھرام کا طرز عمل

۱۸۹۰ء کی دہائی میں اور اس کے بعد آنے والے چند سالوں میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں۔ چنانچہ مقامی اخبارات نے گائے کی قربانی (Kine Killing/Kine Slaughter) پر ہونے والے اختلافات کو بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے اور ساتھ ہی ہندو مسلمانوں کے درمیان بڑھنے والی فضا کا احوال بھی بیان کرتے ہیں۔ لیکھرام اپنی روش پر قائم رہا اور اسلام اور بانی اسلام پر مسلسل حملے جاری رکھے۔جس وجہ سے پنجاب بھر میں امن وامان سے متعلق خدشات بڑھنے لگ گئے۔ چنانچہ ۱۸۹۲ء میں اُس نے جہاد سے متعلق ایک انتہائی پُرتعصب رسالہ جاری کیا جس پر مسلمانوں میں کافی غم وغصہ کی لہر دوڑ اٹھی جو تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی۔

چنانچہ پیسہ اخبار نے بھی اس امر پر زور دیا کہ یہ وقت تو باہمی صلح اور امن کےپرچارکاہے نہ کہ ایسی خرافات کا:’’مینڈکی کو بھی لو زُکام ہوا‘‘ واہ تیری قدرت۔ جہاد کا مسئلہ اور اس پر لیکھرام آریہ سماجی کا ایک رسالہ لکھنا (بقول اُن کے تصنیف کرنا)، کیا ! اس رسالہ کے مطالعہ سے پایا جاتا ہے کہ اگر تعصب اور ضد کی دنیا میں کوئی حد بھی ہے تو پنڈت لیکھرام صاحب اُس سے بھی گزر گئے۔ بلکہ گزرتے گزرتے چاہ جہالت میں گر گئے۔ اور گر کے گندگی میں،پھنس گئے پیشتر اس کے کہ مصنف (مصنف کے لفظ سے پنڈت جی شرمائے۔ مگر سلسلہ عبارت کے لئے لکھنا پڑا) کی لیا قت و دیگر حالات لکھے جائیں اور جہاد کے بارے میں اشار تاً کچھ کہا جائے۔مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی اندرونی و بیرونی نا بینائی پر تعصب نے جو جہالت و گمراہی کے پلستر کا بہت موٹا سا کوٹ کیا ہوا ہے اُسکا تھوڑا سا ذکر کیا جائے۔ اس زمانہ کے دانایان اہل اسلام و اہل ہنود اس بات کی فکر وکوشش میں رہتے ہیں کہ دونو قوموں میں اتفاق اور اتحاد قائم کیا جا وے تا کہ ملک میں امن اور محبت سے سر سبزی حاصل کریں۔ بغض، تعصب، عداوت کو درمیان سے دور کیا جاوے۔ اپنے اپنے مذہب سے کام رکھیں اور ملکی معاملات میں ایک ہوں مگر افسوس کہ لیکھ رام جیسے فسادی ہنوز گم نہیں ہوئے جو ناحق اشتعال دیتے، دل دکھاتے اور فساد اورنفرت بڑھاتے رہتے ہیں۔‘‘ (پیسہ اخبار (ایڈیٹر منشی محبوب عالم)۳۰مئی ۱۸۹۲ء)

پھر لیکھرام کی علمی لیاقت اور تحریر کی قابلیت سے متعلق پیسہ اخبار مزید لکھتاہےکہ’’آپ کی لیاقت کا یہ حال ہے کہ معمولی عبارت لکھنےمیں بھی ہر سطر میں فضول بکواس کے علاوہ کئی غلطیاں کرتےہیں۔پھرماشاءاللہ عربی کی عبارت لکھتے ہیں اور اس کے ترجموں میں بحث اوردست اندازی بھی کرتےہیں۔نموے کے لئےاسی رسالے کے سرورق کا حال پیش کیا جاتا ہے جو حسب ذیل ہے:’رسالہ جہاد یعنے دین محمدیؐ کی بنیاد مصنفہ پنڈت لیکھ رام آریہ مسافر ممبر آریہ سماج پشاور‘۔ اب آپ کی لیاقت اورتحریر کی رُو سے دین اسلام کی بنیاد پنڈت جی کا رسالہ ہوا۔اگر رسالہ کالفظ نہ لکھتایا یعنے کی جگہ پر کالفظ ڈال دیتا تو بھی سیاق عبارت درست رہتا۔‘‘(پیسہ اخبار (ایڈیٹر منشی محبوب عالم)۳۰؍مئی ۱۸۹۲ء)

لیکھرام کی دشنام دہی اور بیگم بھوپال کا ردعمل

لیکھرام کی بدزبانی کی وجہ سے بیگم آف بھوپال نے حکومت برطانیہ سے درخواست کی کہ وہ اس کے سد باب کا انتظام فرمائیں۔ چنانچہ انڈیا آفس لائبریری میں موجود بیگم بھوپال اور حکومتی عہدیداران، سیکرٹری آف اسٹیٹ وغیرہ کے مابین ہونے والی خط وکتابت سے اندازہ ہوتا ہے کہ بیگم آف بھوپال نے لکھا کہ لیکھرام کی دو کتب (تکذیب براہین احمدیہ اور کرسچن مت درپن) کی وجہ سے بھوپال بھر میں انتہائی گھمبیر حالات ہوگئے ہیں۔ مقامی مولوی حضرات کو بہت مشکل سے سمجھایا گیا ہے کہ حکومت وقت کوئی نہ کوئی اقدام ضرور اٹھائے گی، لہٰذا بیگم بھوپال کی طرف سے گزارش ہے کہ اس بابت جلد از جلد کوئی حکمت عملی بنائی جاوے… مزید برآں رپورٹ کے مطابق دہلی سے عبدالحق نامی شخص نے لیکھرام پر کیس بھی دائر کیا ہوا ہے۔

(Foreign Department Secret Report, June 1899, Nos 13-17 (India Office R/1/0/223), Publication and circulation by Pandit Lekhram of Lahore of two books, condemning the Christian and Muhammadan religions, and exception taken by Her Highness the Begam of Bhopal to certain passages in the books.)

رپورٹ میں اس بات کا بھی تذکرہ ہے کہ ایسی تحریرات معاشرہ میں نقص امن کا باعث ہوسکتی ہیں لہٰذا ان کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔

لیکھرام کی وفات کے دس سال بعد بھی اس کی اس بدزبانی کو یاد کرواتے ہوئے ماہانہ عصر جدید اپنے ہمعصر اخبار ’’آریہ مسافر‘‘ کو مخاطب کرتا ہوا کہتا ہے:’’ہم نے اس سے قبل کئی بار آریہ مسافر (میگزین جالندھر) جس کے ایڈیٹر مہاشا وزیر چند آریہ اپدیشک ہیں کے مضامین پر کبھی کبھی کچھ لکھاہے۔ہمارا یہ خیال تھا کہ باوجود پنڈت لیکھرام کی یادگارہونےکےمہذب ہوتاجاتاہے…مگر ستمبر ۱۹۰۸ء(جلد ۱۰ نمبر۱۲) جو ابھی ہمارے پاس پہنچاہے اس میں پہلا مضمون بانی اسلام کی روحانیت…اس قدر بیہودہ اورجاہلانہ ہے کہ ہم آئندہ جب تک کہ اسکی حالت درست نہ ہو اس کے مضامین پرکچھ لکھنے سے پرہیز کریں گے۔‘‘ (ماہانہ عصر جدید ستمبر ۱۹۰۸ء)

پیسہ اخبار نے اپنے شمارہ ۲۹؍اگست ۱۸۹۶ء میں یہ خبر شائع کی کہ کتاب تکذیب براہین احمدیہ کا مقصد ایک عظیم فتنہ برپا کرنا ہے۔ گو کہ بظاہر یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ میں موجود اعتراضات کے جواب میں لکھی گئی ہے مگر پنڈت نے سخت سے سخت تنقید کے علاوہ اسلام اور بانی اسلام اور دیگر انبیاء اور ہر اس چیز کے لئے جس کو مسلمان مقدس سمجھتے ہیں نہایت گندہ دہنی سے کام لیا ہے۔ اسی طرح پیسہ اخبار نے حکومت وقت سے بھی استدعا کی کہ لیکھرام کے خلاف مناسب اور فوری اقدامات کیے جائیں اور اس کی کتب اور پمفلٹس پر پابندی لگائی جائے۔ انہوں نے اسے عدالتی کارروائی کے ذریعہ دھمکانے کی کوشش کی اور اس کے خلاف دہلی کی عدالت میں توہین رسالت کا کیس بھی دائر کیا جو کہ مسترد کر دیا گیا۔ (پنڈت لیکھرام کی ہلاکت از آصف محمود باسط، الفضل انٹرنیشنل ۸؍مارچ ۲۰۱۹ء)

چنانچہ اس بابت پایونیر اخبار لکھتاہے کہ

In one instance, at least, specimens of this literature were sent into a Mahomedan State, where much indignation was felt at the attack upon the religion of the people. We believe that a case was brought against the author of the pamphlet in one of the Punjab courts, but the evidence was insufficient to secure a conviction.

(The Pioneer (Allahabad), March 18th 1897.)

لیکھرام کے یک طرفہ طرز تحریر اور انداز سے متعلق ان کے اپنے آریہ لیڈر لالہ لجپت رائے نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ قابل غور ہیں۔چنانچہ لالہ صاحب (بقول اخبار) فرماگئے کہ پنڈت صاحب کو جو one sidednessکی عادت پولیس کی نوکری کےدوران پڑگئی تھی، وہی عادت مرتے دم تک وہ اپنے مذہبی معاملات میں بھی دکھلاتے چلے گئے۔

’’…پنڈت لیکھرام کی کتابیں اس ایک رخی سے پُر ہیں۔ آریہ سماج میں اس قسم کی نکتہ چینی کے وہ بانی تھے اور گو شروع میں آریہ سماج کو ہندوازم کے ڈیفنس میں اس قسم کی نکتہ چینی مفید پڑی مگر اس سپرٹ نےآریہ سماج میں آزادانہ اور جوڈیشل تحقیقات کےمادہ کو نشوونماپانےسے روکا… وہ سوامی جی کو غلطی سے مبرا سمجھنے کے لئے تیار نہ تھے۔ (بندےماترم۴؍جولائی۱۹۲۹ء)‘‘ (نور افشاں۱۳؍ جولائی ۱۹۲۹ء)

چنانچہ انہی خیالات کا اسی اینگلو انڈین Pioneerاخبار (الہ آباد) نے لیکھرام کی موت کے بعد اپنی ایک اشاعت میں ذکر کرتےہوئےلکھا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ محمڈنز اور ہندوؤں میں مذہبی خلش بڑھتی چلی جارہی ہے۔ جس کا ثبوت (حال ہی میں ) پنجاب میں ہونے والے واقعات ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے واحد نقطہ ٔاختلاف واحد گائے کی قربانی سے منسلک تھا مگر اب نت نئے عوامل کی وجہ سے یہ تلخ معاملات ابھررہےہیں۔گزشتہ ایک سال یا کچھ عرصہ زائد سے ایک خاص پمفلٹ گردش میں ہے جس میں مسلمانوں کو ہندو نقطۂ نگاہ سے بری طرح مجروح کیاگیا ہے۔اس کا مصنف ایک چالاک لکھاری ہندو پنڈت لیکھرام ہے جس نے عیسائیت کی بابت بھی نامناسب حملے کئے ہیں۔ (پایونیر اخبار (الہ آباد) ۱۸؍مارچ ۱۸۹۷ء)

واقعۂ قتل

مشہور آریہ سماجی پنڈت دیو پرکاش اپنی کتاب دافع الاوہام میں پنڈت لیکھرام کے واقعۂ قتل سےمتعلق لکھتےہیں کہ ’’۱۳؍فروری یا ۱۴؍ فروری۱۸۹۷ء کو ایک شخص لالہ ہنس  راج جی کے پاس گیا پھر دوسرے روز دیا نند کالج ہال میں دکھائی دیا۔ وہ پنڈت لیکھرام جی کو تلاش کرتا تھا۔ پھر پنڈت جی کو ملا۔ اس نے ظاہر کیا کہ وہ پہلے ہندوتھا۔ عرصہ دو سال سے مسلمان ہوگیا تھا۔ اب پھر اپنے اصل دھرم میں واپس آنا چاہتاہے … وہ پنڈت جی کے ساتھ سایہ کی طرح رہنے لگا۔ کھانا بھی عام طور سے پنڈت جی کے گھر ہی کھایا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ پنڈت جی یکم مارچ کو ملتان تشریف لے گئے۔۵؍ مارچ کو عید کا دن تھا۔ قاتل نے اس دن پنڈت جی کے گھر ریلوے سٹیشن آریہ پرتی ندھی سبھا کے دفتر۱۸یا۱۹ چکر لگائے۔ مگر پنڈت جی ۵؍مارچ کو ملتان سے نہ آسکے۔ اس سے اس ظالم کا ارادہ پنڈت جی کو عید کے دن شہید کرنا تھا۔ ۶؍مارچ کو صبح ہی پنڈت جی کے مکان پر پہنچا اور بعد ازاں پرتی ندھی کے دفتر سے ہوتا اور ریلوے اسٹیشن پر گیا۔ اس روز پنڈت جی ملتان سے تشریف لے آئے۔ قاتل خلاف معمول کمبل اوڑھے ہوئے تھا اور بار بار تھوکتا تھا اور کانپ رہا تھا یہ حالت دیکھ کر پنڈت جی نے سوال کیا کہ کیا بخار ہے۔ اس نے کہا ہاں۔ ساتھ کچھ درد بھی ہے تب پنڈت جی اسے ڈاکٹر بشنداس کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اسے بخار وغیرہ تو کچھ نہیں لیکن خون میں کچھ جوش ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے پلستر لگانے کو کہا مگر اس مکار نے انکار کر دیا اور کہا کہ کوئی پینے کی دوا دیجئے۔ تب پنڈت جی نے ڈاکٹر صاحب کی اجازت سے اسے شربت پلایا۔ اس کے بعد پنڈت جی نے کچھ کپڑا خریدا اور گھر کو چلے آئے اور وہ ظالم بھی ساتھ ہی تھا۔ جس مکان میں پنڈت جی کام کرتے تھے وہ گلی وچھووالی لاہور میں واقع ہے اور اس کا نقشہ حسب ذیل ہے: زینہ چڑھتے ہی چھت پر اس کے ساتھ لگا ہوا ایک برآمدہ ہے۔ اس میں پنڈت جی کام کیا کرتے تھے۔ دو طرف دیوار۔ ایک طرف اندرونی کمرہ کا دروازہ جس میں ان کی ماتا اور دھرم پتنی بیٹھی تھی اور کواڑ بند تھا۔ چوتھی طرف بالکل کھلی ہوئی تھی پنڈت جی چار پائی پر جا بیٹھے اور رشی دیانند کے جیون چرتر (سوانح عمری) کے کاغذات مکمل اور مرتب کرنے میں مشغول ہوگئے اور سفاک بھی بائیں طرف بیٹھ گیا…عین اس وقت جب کہ پنڈت جی نے مہرشی کے جیون کے اس آخری حصہ کو جس وقت کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ویدک دھرم کے راستہ میں قربان کیا اور کہا کہ ایشور تیری اچھیا( خواہش) پورن (پوری ) ہو ختم کیا اور تھکاوٹ کے سبب اٹھ کے ۷ بجے شام کے وقت انگڑائی لی۔ اس وقت اس ظالم نے جو صبح سے موقع کی گھات میں تھا فوراً اٹھ کر پنڈت جی کے پہلو میں چھرا گھونپ دیا جس سے انتڑیاں باہر نکل آئیں۔ پنڈت جی نے ایک ہاتھ سے انتڑیوں کو تھاما اور ایک سے چھری چھین لی۔ تب پنڈت جی کی ماتا اور دھرم پتنی اس کی طرف دوڑیں اس وقت اس بے رحم ظالم نے پنڈت جی کی بوڑھی ماتا کو بیلنا اس زور سے مارا کہ وہ اچانک چوٹ لگنے کے سبب سے بے ہوش ہو کر گر گئیں۔ اور وہ بے ایمان قاتل فرار ہوگیا۔ کچھ دیر کے بعد لوگ جمع ہوگئے اور پنڈت جی کو ہسپتال لے گئے ڈاکٹر صاحب نے زخموں کا ملاحظہ کیا اور سینے میں مصروف رہے اور کہا کہ اگر صبح تک بچ گئے تو امید زیست ہے ورنہ نہیں۔ پنڈت جی جب تک ہسپتال میں جیتے رہے وید منتروں کا پاٹھ کرتے رہے اور آخر ایک بجے رات کے اپنی آخری وصیت کہ آریہ سماج سے تحریر کا کام بند نہ ہوکر کے آپ کی پاک روح قفس فانی سے عالم جاودانی کی طرف پرواز کر گئی۔‘‘(بحوالہ تاریخ احمدیت جلداول صفحہ ۵۹۱تا۵۹۲)

واقعہ ٔقتل اور اخبارات

لیکھرام کے قتل سے کچھ عرصہ پیشتر پنجاب میں Mrs Bandنامی ایک انگریز خاتون کا بھی قتل ہوا تھا جس کے سلسلہ میں اخبارات وپریس میں کافی ہلچل مچی رہی۔ ہندو پریس نے اس قتل کو بھی مسلمانوں پر تھوپنے کی بھرپور کوشش کی اور ’’غازی‘‘ تحریک سے منسوب کرتے رہے، اسی طرح مسلم پریس نے اس الزام کا دفاع کیا۔ لیکھرام کے قتل کے بعد پنجاب میں پہلے سے بگڑے ہوئے حالات مزید خراب ہوناشروع ہوگئے تھے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پہلے سے چلنے والے معاملات اب مزید گھمبیر ہونے لگے تھے۔ آریہ سماج کی جانب سے اس قتل پر بھی مختلف مسلمانوں پر اقدام قتل کے الزامات لگائے جانے لگے، مختلف قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔ ۱۸۹۷ء کے اخبارات اس قسم کی خبروں اور کالموں سے بھرے پڑے تھے۔ ان اخبارات کو واضح طور پر دو اقسام میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔

ایک قسم ایسے اخبارات کی تھی جو مسلمانوں کو، خاص طور پر حضرت اقدس ؑکواس کا قصوروار ٹھہراتے تھے اور ساتھ مختلف مسلمان تنظیموں کوبھی اس میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ ایسے اخبارات زیادہ تر آریہ یا ہندو احباب کے تھے۔ ان میں بھارت سدھار، آریہ گزٹ،خالصہ بہادر،بھارت سیوک وغیرہ شامل ہیں۔

اسی طرح دوسری قسم ایسے اخبارات کی ملتی ہے جو اس قتل کو باقی قتلوں کی طرح عام گردانتے تھے اور مسلمانوں کے خلاف ہونےوالی منظم کارروائی اور الزامات کی تردید کرتےتھے۔ چنانچہ ایسے اخبارات اکثر مسلمان طبقوں کے تھے۔ ان میں پیسہ اخبار، رہبر ہند، سراج الاخبار اور وکیل امرتسر وغیرہ ہیں۔

ایک تیسری قسم بھی ہمیں ایسےاخبارات کی ملتی ہے جو بظاہر بین بین نظر آتے ہیں، یہ اینگلو انڈین اخبارات ہیں جو اس قتل سے متعلق عموما ًکسی بھی قسم کی رائے قائم کرنے سے احتراز کرتے ہیں بلکہ ان کا موقف عموماً سرکاری (حکومت برطانیہ) نقطہ نگاہ کا حامل ہوتا ہے۔ ان میں سول اینڈ ملٹری گزٹ، ٹائمز آف انڈیااورپایونیر اخبار شامل ہیں۔(نوٹ: جہاں اصل اخبارات تک رسائی نہ ہوسکی وہاں سرکاری رپورٹس بابت مقامی پریس سے استفادہ کیا گیاہے )(پنجاب سماچار (لاہور) ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء/منقول از رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)

پنجاب سماچار (لاہور) ۶؍مارچ ۱۸۹۷ءکے مطابق لیکھرام،معروف آریہ مبلغ کو گزشتہ ہفتہ کی شام ۶ بجے ڈھال محلہ میں لالہ جیون لال کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ قاتل ایک شریر مسلمان تھا، جو کچھ دنوں سے پنڈت کے ساتھ رہ رہا تھا اور اس نے دوبارہ ہندو مذہب میں داخل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ پنڈت کا قتل ایک سازش کا نتیجہ ہے۔ متوفی کو میوہسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ گائتری منتر کو دہراتے ہوئے ۲بجے دم توڑ گیا۔ پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے تاہم قاتل کا تاحال کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ دیکھنا یہ ہے کہ مقامی حکام کہاں تک اپنی کوششیں کرتے ہیں اور ملزمان اور سازش کرنے والوں کو سزا دلاتے ہیں۔ اچھا ہوتا اگر تفتیش کسی محمدی کی بجائے کسی یورپی افسر کو سونپی جاتی۔ (پنجاب سماچار (لاہور) ۶؍مارچ ۱۸۹۷ء/منقول از رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)

اخبار عام ۱۰؍مارچ ۱۸۹۷ء: یہ عجیب بات ہے کہ پنجاب کے دارالحکومت میں اس طرح کے واقعات رونما ہوں اور اس پر کوئی توجہ نہ دی جائے۔ یہ حالت انتظامیہ کی سب سے بڑی بدنامی کو ظاہر کرتی ہے، اور عوام کو حکام سے شکایت کرنے کا پورا حق ہے۔ مسز بینڈ کے قتل کا ذکر کرنے کے بعد، ایڈیٹر نے تبصرہ کیا کہ اگرچہ انہوں نے لیکھرام کی تحریرات نہیں پڑھی ہیں، لیکن اس کے لیکچرز کو سنا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ وہ اور مرزاغلام احمد آف قادیان دونوں کا مقابلہ ہوا… پنڈت اور مرزا میں فرق یہ ہے کہ ایک کو فضول بحثوں کا شوق تھا، دوسرے کو معجزے کرنے اور نامعلوم (غیب)کو جاننے کی طاقت کا بہانہ۔ ہر مذہب کے پروفیسروں کو اپنے مسلک کی برتری بتانے کا حق حاصل ہے، لیکن آریہ سماج نے دوسرے مذاہب کو گالی دینے کے نئے طریقے پر کاری ضرب لگائی ہے۔ یہ طریقہ جو آریوں نے عیسائی مشنریوں سے سیکھا ہے، سب سے پہلے ہندو مذہب کے خلاف استعمال کیا گیا، اور اس کو جس استثنیٰ کے ساتھ انہیں ایسا کرنے کی اجازت دی گئی تھی، وہ دوسرے مذاہب کی توہین کرنے پر تلے تھے۔ مختصر یہ کہ آریوں نے حقارت آمیز زبان استعمال کی ہے۔ ان کے اصل مذہب اور دوسرے مذاہب پر ان کی تنقید کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایڈیٹر کو بہرحال افسوس ہے کہ ایسا جرأت مندانہ قتل دن دیہاڑے نہیں ہونا چاہیے تھا۔ کیا قانون نے بدکرداروں کے لیے کوئی دہشت ختم کر دی ہے؟ یہ دیکھ کر کہ ملک برطانوی راج میں ہے، عوام کی بے چینی بے وجہ نہیں ہے۔ ایڈیٹر کوئی خاص علاج تجویز کرنے سے قاصر ہے، لیکن وہ موجودہ حالات کی شکایت کرنے سے گریز نہیں کر سکتا۔ غازی تحریک کے اشتعال کے بعد یہ دوسرا قتل ہے اور اگر حکومت نے معاملات کے تدارک کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو پہلے سے موجود عدم تحفظ کا احساس مزید بڑھے گا۔ حال ہی میں گورنمنٹ ہاؤس کے قریب سے ملنے والی ایک شخص کی لاش کا ذکر کرنے کے بعد اخبار کہتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل لاہور کے رہائشی چوری کی وارداتوں میں اضافے کی وجہ سے بعض محلوں میں چوکیدار مقرر کرنے پر مجبور ہوئے… (اخبار عام ۱۰؍مارچ ۱۸۹۷ء /منقول از رپورٹ مقامی اخبارات۱۸۹۷ء شائع کردہ پنجاب گورنمنٹ پریس لاہور)۔

٭…٭…(جاری ہے)…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button