واقفین نو بنگلہ دیش کی امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے (آن لائن) ملاقات
خدا تعالیٰ کا بے حد فضل و احسان ہے کہ ایک بار پھر مسیحِ دوراں کے خلیفہ کی نگاہ ِکرم جماعت احمدیہ بنگلہ دیش پر پڑی۔ جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے 136 واقفین نَو کو حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مورخہ 30؍جنوری 2021ء بروز ہفتہ مقامی وقت کے مطابق شام سوا چھ بجے سے سوا سات تک آن لائن ملاقات کرنے کی سعادت ملی۔ یہ ملاقات جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کی مرکزی مسجد میں ہوئی۔
پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تمام واقفین نو کو السلام علیکم کی شفقت اور محبت بھری دعا دیتے ہوئے پروگرام کا آغاز فرمایا۔ پھر ڈاکٹر اطہر احمد سوہاگ نے سورۂ آل عمران کی آیات 36تا 37کی تلاوت کی اور ان کا بنگلہ ترجمہ بھی پیش کیا۔ عزیزم جی ایم عرفان رحمان نے نظم پیش کی، عزیزم منادی الشفاعت نے حدیث اور عزیزم احسان العرفان بن عبد الوہاب نے ملفوظات سے اقتباس پیش کیا۔
اس ملاقات کے دوران متعدد واقفین نو کو اپنے پیارے آقا سے سوالات کرنے اور ان کے بصیرت افروز جوابات حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
ایک واقفِ نَو عزیزم سنوار علی عرفان نے تقدیرِ خیر و شر کے متعلق سوال پیش کیا کہ ہم اس پر یقین کیسے کریں؟
حضور انور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا ارکان ایمان کتنے ہیں؟ اس کے بعد حضور نے فرمایا: پھر تقدیر کیا ہے اور خیر و شر سے کیا مراد ہے؟ اچھائی اور برائی۔ تو پھر جب یقین ہوجائے کہ جو میں اچھا کروں گا تو اللہ تعالیٰ مجھے اس کا اچھا اجر دے گا۔ جب میں برا کروں گا تو اس کی مجھے سزا دے گا۔ اس بات پہ یقین ہو تو انسان اچھائیاں کرتا ہے برائیاں نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم میں بے شمار حکم آئے ان پر چلنے کی کوشش کرتا ہے تو اس سے یہی مراد ہے کہ اگر تمہیں یہ یقین ہو جائے گا تو تم برائیوں سے بچوگے اور نیکیاں کرو گے۔ تو جب اگلے جہان میں جاؤ تو اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ سکو اور یہ ایسی چیز ہے جو ہونے والی ہے۔ انسان برائیاں کرے گا تو اسے سزا ملےگی، اچھائیاں کرے گا تو اسے اجر ملے گا اس بات پر یقین ہونا چاہیے۔ اور جب یہ یقین ہو تو انسان پھر نیکیاں کرتا ہے اور برائیوں سے بچتا ہے اور قرآن کریم کا جو حکم ہے ان پہ عمل کرتا ہے۔ اس سے یہ مراد ہے۔
ایک اَور واقفِ نَو عزیزم نور الدین احمد نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے دو سوال ہیں۔ پہلا یہ کہ ہمیں قرآن کیوں پڑھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کورونا وائرس کیوں دیا؟
حضورِ انور نے اس کے جواب میں فرمایا: تم کس کلاس میں پڑھتے ہو؟ اس نے عرض کی کہ تیسری کلاس میں۔ حضور نے فرمایا: تم سکول میں کیوں پڑھتے ہو؟ اس لیے کہ تم پڑھتے جاؤ اور اچھی تعلیم حاصل کرو اور کچھ بن سکو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم ہمیں ایک مکمل شریعت کے طور پر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ کتاب اتاری تاکہ اس کو انسان پڑھے اور اچھی باتیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کرنے کے لیے کہا ہے اسے کریں اور اچھا انسان بنیں اور جو بری باتیں ہیں ان کے کرنے سے رکیں اور اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچ سکیں۔ اس لیے ہمیں قرآن پڑھنا چاہیے تا کہ ہم روزانہ پڑھیں اور اس پر عمل کریں اور اس کی اچھائیوں کو اختیار کریں اور اس میں مذکور برائیوں سے رکیں۔ اس کے علاوہ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس کو پڑھنے کا اللہ تعالیٰ ثواب بھی دیتا ہے، اجر دیتا ہے۔ جب انسان اللہ میاں کے پاس جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ نےتمہارے کھاتے میں تمہاری ساری نیکیاں لکھی ہوتی ہیں۔
کورونا وائرس کیوں دیا؟ دنیا میں کئی بیماریاں آتی ہیں، کبھی ٹائیفائیڈ کی بیماری، کبھی فلو ہو جاتا ہے کبھی کوئی اَور بیماری ہوجاتی ہے۔ تو یہ جو بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایسی بیماریاں جو پنڈیمک (pandemic)ہو جاتی ہیں، جو دنیا میں ہر جگہ پھیل جاتی ہیں اس لیے بھیج دیتا ہے تا کہ انسانوں کو یاد رہے کہ خدا تعالیٰ ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف آئیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اس سے بچنے کی کوشش کرے اور اچھے کام کرے۔ تو اللہ تعالیٰ انسانوں کو سمجھانے کے لیے بھی،تھوڑا سا سبق دینے کے لیے کہ اچھے کام کرو بعض دفعہ تھوڑی تھوڑی سزا دیتا ہے۔ یہ دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔ جیسے تمہارے استاد بعض دفعہ تمہیں سزا دیتے ہیں۔ تو اگر ہم اچھے کام کریں گے تو یہ کورونا وائرس ختم ہوجائے گا، اگر ہم اللہ تعالیٰ کو راضی کریں گے اور اس سے معافی مانگیں گے تو ان شاء اللہ یہ ختم ہوجائےگا اور اللہ تعالیٰ ہمیں پھر صحت مند زندگی عطا فرمائے گا۔ لیکن اگر ہم نے اللہ کی بات نہ مانی ہوگی تو پھر یہ قدرتی پروسس (process)ہے یہ چلے گا اور دیکھیں اللہ تعالیٰ کب تک اس بیماری کو جاری رکھے۔
ایک اور واقفِ نَو ڈاکٹر محمود احمد نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ پیارے حضور حال ہی میں میری تقرری بطور ڈاکٹر لائبیریا میں ہوئی ہے اس لیے آپ سے دعا کی درخواست کرتا ہوں اور آپ سے رہنمائی و ہدایت کا طلبگار ہوں۔
حضور انور نے فرمایا: خاص ہدایت یہ ہے کہ وہاں جاکے خدمت کے جذبہ سے افریقی لوگوں کی خدمت کریں، افریقی قوم ایسی ہے کہ اگر صحیح طور پر ان کی خدمت کریں ان سے اچھا سلوک کریں تو وہ آپ لوگوں کے شکر گزار بھی ہوتے ہیں اور اس سے ان کو خوشی بھی ہوتی ہے کہ جماعت ہماری خدمت کر رہی ہے۔ اور اگر اپنا نمونہ اچھا نہیں دکھائیں گے توایک وقف ڈاکٹر کی بجائے آپ جماعت کو بدنام کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ وہاں اللہ کی خاطر خدمت خلق کے جذبہ سے جا رہے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو بھی راضی کرنا ہے اور لوگوں کی بھی خدمت کرنی ہے اور یہ جذبہ ہمیشہ قائم رکھنا ہے۔
ہمارے ایک اَور واقف نو ڈاکٹر اطہر احمد سوہاگ نے پیارے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی اور ہدایت طلب کی کہ میں وقف کرکے اب احمدنگر میں جماعت کے ہسپتال؍کلینک میں کام شروع کرنے والا ہوں۔
حضور انور نے فرمایا: محنت سے کام کریں اور دعا کریں۔ پہلے ڈاکٹر کو میں نے نہیں کہا تھا اس کے لیے بھی یہی ہدایت ہے ان کو بھی یہ باتیں یاد رکھنی چاہئیں کہ مریض کو شفا اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ جب مریض کو دیکھیں تو دعا کرکے دیکھیں۔ جب نسخہ لکھیں تو نسخے کے اوپر ھو الشافی لکھیں۔ ایک دفعہ مَیں نے خطبہ میں بھی اس کا ذکر کیا تھا۔ اور پھر جب مریض کو دیکھ لو تو رات کو جو نمازیں پڑھو تو نماز میں ان مریضوں کے لیے دعا کرو جن کو دیکھا ہو کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے اور ہاتھ میں شفا رکھے اور برکت ڈالے۔ اور ہر مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔ خوش اخلاقی سے پیش آؤگے، مریض کو دیکھو گے تو مریض کی آدھی بیماری ڈاکٹر کی باتوں سے ہی دور ہوجاتی ہے اور آدھی بیماری پھر دوائیاں دے کے دور ہوتی ہے۔ اگر آپ اچھی طرح مریض سے پیش آئیں گے تو آدھی بیماری اس کی دور ہو جائے گی۔ دوائی دیں اور دعا کریں تو باقی مریض بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ آپ کے ہاتھ میں شفا رکھے گا۔زیادہ سے زیادہ مریض آپ کے پاس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ آپ کے لیے ان کو شفا عطا کرے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس ملاقات میں شمولیت کا شرف حاصل کرنے والے بعض واقفین نَو کے تاثرات درج ذیل ہیں:
شاہ محمد کاشف امین، عمر 10 سال کہتے ہیں:
آج کا دن ہمارے لیے بہت یادگار تھا۔ ہم بہت ہی خوش نصیب ہیں کہ پیارے حضور اقدس سے ملاقات ہوئی۔ ہم بہت خوش ہیں۔ ہمارے لیے دعا کریں کہ ہم حضور کو اپنے ملک میں دیکھ سکیں۔
نصیر احمد کہتے ہیں:
میرے پاس ان بابرکت لمحات کو بیان کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔ مجھ جیسے حقیر کو یہ موقع ملا، اس پر خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہوں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر حضور اقدس کو براہ راست ملنے کا شرف حاصل ہوتا ۔ حضور دعا کریں کہ آپ کے ارشادات پر عمل کر سکوں۔ اللہ تعالیٰ پیارے حضور کو صحت والی لمبی زندگی عطا کرے اور آپ کا حافظ و ناصر ہو، آمین۔
خندکار ابرار احمد کہتے ہیں:
مجھے پیارے حضور کے ساتھ براہ راست آن لائن ملاقات کرنے کی سعادت ملی جس کے لیے میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ پیارے حضور نے جو نصائح فرمائیں اور ہدایات دیں وہ میری آئندہ کی زندگی کے لیے بطور لائحہ عمل رہیں گی اور اس ملاقات نے مجھے ایک نئی زندگی عطا کی ہے۔
فاروق احمد کہتے ہیں:
میں نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کبھی بھی پیارے حضور اقدس سے ملاقات کی سعادت ملے گی۔ پیارے حضور سے ملاقات کرکے میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ پیارے آقا کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔
احمد طاہر عبد اللہ کہتے ہیں:
یہ ملاقات لا جواب تھی۔ شروع میں تو میں بہت گھبرا رہا تھا، استغفار اور درود پڑھ رہا تھا لیکن جب پیارے حضور تشریف لائے تو ساری گھبراہٹ اور پریشانی دور ہوگئی اور میرا دل پُرسکون ہوگیا۔ اور میرے پاس ان بابرکت لمحات کو بیان کرنے کے الفاظ نہیں ہیں۔
مسرور احمد کہتے ہیں:
یہ خاکسار کی نہایت خوش قسمتی ہے کہ خاکسار کو بھی اس آن لائن ملاقات میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ علاوہ ازیں خاکسار کو بے شمار ہدایات ملیں جو میری زندگی کے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوں گی۔ حضور دعا کریں کہ میں جماعت کے ہر پروگرام میں شامل ہو سکوں۔
شوربھ احمد ثانی واقفِ نو کہتے ہیں:
خاکسار خدا تعالیٰ کا نہایت شکر گزار ہے کہ پیارے حضور سے آن لائن ملاقات میں شامل ہونے کی توفیق ملی اور یہ ملاقات مجھے بہت ہی اچھی لگی۔ حضور دعا کریں کہ میں جماعت کی خدمت کر سکوں۔
مسیع العالم شوبھن کہتے ہیں:
خاکسار پیارے آقا کا تہِ دل سے شکر گزار ہے کہ آپ نے ہمیں یہ مبارک گھڑیاں عطا کیں اور قیمتی وقت سے نوازا۔ حضور دعا کریں کہ آپ کے ان جملہ ارشادات پر بدل و جان اپنی زندگی میں عمل کر سکوں۔
اللہ تعالیٰ یہ ملاقات ہر لحاظ سے بابرکت ثابت کرے، آمین۔
٭…٭…٭